رمضان المبارک کے تقاضے، فضائل اوراعمال
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔ شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٮکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ۔
(البقرۃ:184تا186)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو!تم پر (بھی) روزوں کا رکھنا (اسی طرح) فرض کیا گیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تا کہ تم (روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے) بچو۔
(سو تم روزے رکھو) چند گنتی کے دن۔ اور تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو(اسے) اَور دنوں میں تعداد(پوری کرنی) ہوگی اور ان لوگوں پر جو اس (یعنی روزہ) کی طاقت نہ رکھتے ہوں (بطور فدیہ) ایک مسکین کا کھانا دینا (بشرط استطاعت) واجب ہے اور جو شخص پوری فرمانبرداری سے کوئی نیک کام کرے گا تو یہ اس کے لیے بہتر ہوگا اور اگر تم علم رکھتے ہو تو (سمجھ سکتے ہو کہ) تمہارا روزے رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے۔
رمضان کا مہینہ وہ (مہینہ) ہے جس کے بارے میں قرآن (کریم) نازل کیا گیا ہے۔ (وہ قرآن) جو تمام انسانوں کے لیے ہدایت (بنا کر بھیجا گیا) ہے اور جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے۔ (ایسے دلائل) جو ہدایت پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی (قرآن میں ) الٰہی نشان بھی ہیں۔ اس لیے تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو (اس حال میں ) دیکھے (کہ نہ مریض ہو نہ مسافر) ہو اسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس پر اور دنوں میں تعداد (پوری کرنی واجب) ہوگی۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے تنگی نہیں چاہتا اور (یہ حکم اس نے اس لیے دیا ہے کہ تم تنگی میں نہ پڑو اور ) تا کہ تم تعداد کو پورا کر لو اور اس (بات) پر اللہ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے اور تا کہ تم (اس کے) شکر گزار بنو۔
رمضان المبارک قمری جنتری کے اعتبار سے نویں مہینہ کا نام ہے۔ جو مہینہ مسلمانوں کےلیے حق تعالیٰ کا بہت ہی بڑا انعام ہے یہ مبارک ماہ رحمتوں برکتوں کا خزینہ، مغفرت کا سایہ و شامیانہ اور نیکیوں کا موسم بہار ہے دراصل یہ روحانیت کی سالانہ پریڈ ہے جس سے انسان کی عبادتی روح کو بڑی غذا ملتی ہے اس ماہ میں کلام اللہ کا نزول ہوا جس سے اس کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اس ماہ کی قدر کریں اور دعوت و عبادت کو جمع کرنے کے ساتھ ایک ایک لمحہ غنیمت سمجھ کر رضائے الٰہی کے حصول میں صرف کریں۔
رمضان المبارک کا مہینہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں رحمت الٰہی کے جھونکے چلتے ہیں اللہ کی جانب سے خاص رحمتوں برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
ایک روایت میں ہے کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ رمضان کیا چیز ہے، تومیری امت یہ تمنا کرے کہ سارا سال رمضان ہی ہوجائے۔ (ترغیب والترھیب)
قرآن کریم میں ماہِ رمضان کے سوا کسی اور مہینہ کی فضیلت بیان نہیں کی گئی، اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینہ سے ہی اس کی تیاری کیا کرتے تھے اور صحابہ کرامؓ کو اس کی فضیلت و اہمیت سے آگاہ کرتے تھے۔
ماہ رمضان برکتوں والا مہینہ ہے اور اس ماہ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مقدس کا نزول اسی پاک مہینے میں شروع ہوا۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرہ عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے۔ جب رمضان المبارک کا چاند نظر آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے تھے کہ
یہ چاند خیر و برکت کا ہے۔ یہ چاند خیر و برکت کا ہے، مَیں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا کیا۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دعا کی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کو رمضان کا مہینہ ملے اور وہ اپنی بخشش نہ کرواسکے، جس پر حضرت محمدﷺ نے ارشاد فرمایا آمین! حضرت جبرئیل علیہ السلام کی یہ دعا اوراس پر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا آمین کہنا رمضان کی اہمیت کو بخوبی واضح کر دیتا ہے۔
روزہ وہ عظیم فریضہ ہے جس کو ربّ ذوالجلال نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور قیامت کے دن ربّ تعالیٰ اس کا بدلہ اور اجر بغیر کسی واسطہ کے بذات خود روزہ دار کو عنایت فرمائے گا۔ خداوند کریم نے اپنے بندوں کے لیے عبادات کے جتنے بھی طریقے بتائے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہے۔ نماز خدا کے وصال کا ذریعہ ہے۔ اس میں بندہ اپنے معبودِ حقیقی سے گفتگو کرتا ہے۔ بعینہٖ روزہ بھی خدا تعالیٰ سے لَو لگانے کا ایک ذریعہ ہے۔
حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ کا فرمان ہے کہ میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں۔
پہلی یہ کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اﷲ تعالیٰ نظر رحمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔ دوسری یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو (جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔ تیسرے یہ کہ فرشتے ہر رات اور دن ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ چوتھے یہ کہ اﷲ تعالیٰ جنت کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ میرے (نیک) بندوں کے لیے مزین ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مشقت سےاس میں راحت پائیں گے۔ پانچواں یہ کہ جب ماہ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اﷲ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمادیتا ہے۔
رمضان کے اس مبارک ماہ کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی لمحہ ضائع اور بے کار جانے نہیں دینا چاہیے۔ پس یہ رمضان کا مہینہ بھی اس لیے ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں رکھتے ہوئے اگر سارے سال کی کمزوریوں اور غلطیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف اس نیت سے آئے کہ وہ اس کی توبہ قبول کرے تو اللہ تعالیٰ دوڑ کر اس کو گلے لگاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے میں اس سے گز بھر ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں۔ اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔‘‘
(صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ و یحذرکم اللّٰہ نفسہ حدیث 7405)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ
سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویرِ قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے۔‘‘
(ملفوظات جلد4صفحہ256، ایڈیشن1984ء)
’’تیسری بات جو اسلام کا رُکن ہے، وہ روزہ ہے۔ روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں … روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے، بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اُسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے، دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے، اُنہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمداور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا اُنہیں مل جاوے۔‘‘
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 102، ایڈیشن 1988ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیان فرماتےہیں :
’’رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص برکات اور خاص رحمتیں لے کر آتا ہے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کے انعام اور احسان کے دروازے ہر وقت ہی کھلے رہتے ہیں اور انسان جب چاہے ان سے حصہ لے سکتا ہے صرف مانگنے کی دیر ہوتی ہے ورنہ اس کی طرف سے دینے میں دیر نہیں لگتی کیونکہ خداتعالیٰ اپنے بندہ کو کبھی نہیں چھوڑتا۔ ہاں بندہ خداتعالیٰ کو چھوڑ کر بعض دفعہ دوسروں کے دروازہ پر چلا جاتا ہے… سو اس رحیم و کریم ہستی سے تعلق پیدا کرنا کوئی مشکل امر نہیں۔ ہر گھڑی رمضان کی گھڑی ہو سکتی ہے۔
اور ہر لمحہ قبولیت دعا کا لمحہ بن سکتا ہے۔ اگر دیر ہوتی ہے تو بندہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی اس کے احسانات میں سے ہی ہے کہ اُس نے رمضان کا ایک مہینہ مقرر کر دیا تاکہ وہ لوگ جو خود نہیں اٹھ سکتے ان کو ایک نظام کے ماتحت اٹھنے کی عادت ہو جائے اور ان کی غفلتیں اُن کی ہلاکت کا موجب نہ ہوں۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 382تا383)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں :
’’تو یہاں یہ واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک مومن بندہ رمضان کے مہینے میں جنونی شکاری کی طرح بھوک اور پیاس اور دوسری تکالیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے جس مطلوب کی تلاش میں نکلتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس رحمت کی بارش کے بغیر میرے دل کی جلن دور نہیں ہو سکتی میرے اندر جو آگ لگی ہوئی ہے وہ بجھ نہیں سکتی جب تک کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش نازل نہ ہو پس یہ تمام مفہوم لفظ رمضان کے اندر ہی پایا جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ میرے بندوں کو چاہئے کہ وہ راتوں کے تیروں (دعائوں ) کو تیز کریں اور جنونی شکاری کے جنوں سے بھی زیادہ جنوں رکھتے ہوئے میری رحمت کی تلاش میں نکل پڑیں تب میری رحمت کی تسکین بخش بارش ان پر نازل ہو گی اور میرے قرب کی راہیں ان پر کھولی جائیں گی۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍ دسمبر1965ء مطبوعہ خطبات ناصرجلد اوّل صفحہ55تا56)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہﷺ نے فرمایا جس وقت ماہ رمضان کی پہلی رات شروع ہوتی ہے شیطان اور سرکش جنّ جکڑ دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اور اس کا کوئی دروازہ مطلقاً نہیں کھولا جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ منادی کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ اے خیر کے طالب! نیکی کی طرف متوجہ ہو اور اے برائی کا ارادہ کرنے والے! تُو فوری طور پر بدی سے رُک جا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس ماہ رمضان میں کئی لوگوں کو آگ کے عذاب سے آزاد فرماتا ہے اور ایسا ماہِ رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔
(بخاری کتاب الصوم باب2)
ان احادیث کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے :
’’ہر گز یہ مراد نہیں کہ رمضان کے مہینے میں دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہو گا جو دوزخی کام کرے اور ہر وہ شخص جس پر رمضان کا مہینہ گزر رہا ہے خواہ مومن ہو یا کافر ہو اس کے لئے جنت کے دروازے کھل جائیں گے اور جہنم کے دروازے بند ہو جائیں گے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اگر مومن بھی ہو یعنی ظاہری طور پر ایمان لاتا ہو لیکن رمضان کا مہینہ دیکھنے کے بعد اس کے تقاضوں کے خلاف بات کرے اور عمداًایسی باتوں کا ارتکاب کرے جو رمضان کے منافی ہیں بلکہ عام دنوں کے بھی منافی ہیں تو ایسے شخص پر تو جہنم کے دروازے زیادہ زور سے کھولے جائیں گے۔ دراصل یہ خوشخبری ہے محض ان مومنوں کے لئے جو حضرت اقد س محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی اطاعت کے دائرے میں رہتے ہیں اور قرآن کی اطاعت کے دائرے میں رہتے ہیں … پس اس پہلو سے دروازے جب کھولے جاتے ہیں تو ان پر کھولے جاتے ہیں جو اللہ اور رسول کی اطاعت میں وقت گزارتے ہیں نہ کہ ان لوگوں کے لئے جن پر یہ مبارک مہینہ طلوع ہوا لیکن اس کی طرف پیٹھ پھیر کر اس کے سارے تقاضوں کو جھٹلا دیا۔ اس کے سارے تقاضوں کو رد کر دیا۔ ایسے لوگوں پر تو جہنم پہلے سے زیادہ بھڑکنے کے احتمالات ہیں بجائے اس کے کہ جہنم کے دروازے بند ہوں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍جنوری 1996ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍مارچ1996ءصفحہ6)
نیز ایک اور جگہ فرمایا:
’’…یہ مراد نہیں ہے کہ بد لوگوں کے شیاطین بھی جکڑے جاتے ہیں ان کو تو اور بھی زیادہ گناہ ہوتا ہے رمضان میں بےحیائیاں کرنے کا۔ اس لئے مراد یہی ہے کہ وہ جو خود خدا کی رضا کی زنجیروں میں اپنے آپ کو جکڑتے ہیں ان کے شیاطین جکڑے جاتے ہیں اور رمضان کےمہینہ میں شیطانی خیالات سے بھی انسان پاک رہتا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍دسمبر1999ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل21؍جنوری2000ءصفحہ5)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’آنحضرتﷺ نے ایک رمضان سے دوسرے رمضان کے درمیان ہونے والے گناہوں کی معافی کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک ہونے والے چھوٹے گناہوں کو بھی معاف فرما دیتا ہے۔
لیکن یہ واضح ہونا چاہئے کہ آنحضرتﷺ نے گناہوں سے معافی کے جو ذرائع بتائے ہیں وہ آپ ایک ترتیب سے بیان فرما رہے ہیں۔ پہلے نماز، پھر جمعہ، پھر رمضان۔ پس اس ترتیب سے یہ غلط فہمی دُور ہو جانی چاہئے کہ صرف سال کے بعد رمضان کی عبادتیں ہی گناہوں سے معافی کا ذریعہ ہیں۔ بلکہ یہ ترتیب اس طرف توجہ دلا رہی ہے کہ نمازوں کی پانچ وقت روزانہ ادائیگی اپنے حصار میں لئے ہوئے ساتویں دن جمعہ میں داخل کر کے جمعہ کی برکات سے حصہ دلائے گی۔ اور سال بھر کے جمعے رمضان میں داخل کرتے ہوئے رمضان المبارک کے فیض سے فیضیاب کریں گے۔ روزانہ کی پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کریں گی کہ یہ تیرا بندہ تیرے خوف اور تیری محبت کی وجہ سے بڑے گناہوں سے بچتے ہوئے پانچ وقت تیرے حضور حاضر ہوتا رہا۔ ہر جمعہ عرض کرے گا کہ تیرا یہ بندہ سات دن اپنے آپ کو بڑے گناہوں سے بچاتے ہوئے جمعہ کے دن جس میں تیرے پیارے نبیﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اس میں ایک قبولیت دعا کا لمحہ بھی آتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الدعوات حدیث6400) اپنی دعاؤں کی قبولیت کی آرزو لے کر تیرے حضور حاضر ہوتا رہا۔ رمضان کہے گا کہ اے خدا! یہ بندہ رمضان کا حق ادا کرنے کے بعد گناہوں سے بچتے ہوئے اور نیکیاں بجالاتے ہوئے اس رمضان میں اس امید پر داخل ہوا کہ تو اسے بھی اپنی رحمت، بخشش اور آگ سے بچانے کے عشروں سے فیضیاب کرے گا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍جون 2017ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍جولائی2017ءصفحہ7)
اس ماہ مبارک میں ایسے انداز میں عبادت کو فرض کے طور پر متعین فرما دیا گیا ہے کہ انسان اس عبادت کے ساتھ اپنی تمام ضروریات و حوائج میں بھی مصروف رہ سکتا ہے اور عین اسی خاص طریقہ عبادت میں بھی مشغول ہوسکتا ہے، ایسی خاص طریقہ کی عبادت کو روزہ کہا جاتا ہے، جسے اس ماہ میں فرض فرمادیا گیا ہے، روزہ ایک عجیب عبادت ہے کہ انسان روزہ رکھ کر اپنے ہر کام کو انجام دے سکتا ہے۔ روزہ رکھ کر صنعت و حرفت تجارت و زراعت ہرکام بخوبی کرسکتا ہے اور پھر بڑی بات یہ کہ ان کاموں میں مشغول ہونے کے وقت بھی روزہ کی عبادت روزہ دار سے بے تکلف خودبخود صادر ہوتی رہتی ہے اور اس کو عبادت میں مشغولی کا ثواب ملتا رہتا ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے، اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار وبرکات کا سیلاب آتا ہے اور اس کی رحمتیں موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں۔ مگر بعض لوگ اس مبارک مہینے کی قدرومنزلت سے واقف نہیں۔ کیونکہ ہماری ساری فکر اور جدوجہد مادیّت اور دنیاوی کاروبار کے لیے ہے۔ اس مبارک مہینے کی قدردانی وہ لوگ کرتے ہیں جن کی فکر آخرت کے لیے اور جن کا محور مابعد الموت ہو۔ آپ حضرات نے یہ حدیث شریف سنی ہوگی، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے:
اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وبَلِّغْنَا رَمَضَانَ۔
اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچادیجیے، یعنی ہماری عمر اتنی دراز کردیجیے کہ ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب ہوجائے۔
(شعب الایمان3/375، تخصیص شہر رجب بالذکر)
’’رمضان‘‘عربی زبان کالفظ ہے، جس کے معنی ہیں ’’جھُلسادینے والا‘‘اس مہینے کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ اسلام میں جب سب سے پہلے یہ مہینہ آیا تو سخت اور جھلسادینے والی گرمی میں آیا تھا۔ لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ اس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی خاص رحمت سے روزے دار بندوں کے گناہوں کو جھلسادیتا ہے اورمعاف فرمادیتا ہے، اس لیے اس مہینے کو ’’رمضان‘‘کہتے ہیں۔‘‘
(شرح ابی داؤد للعینی5/273)
اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک مہینہ اس لیے عطا فرمایا کہ گیارہ مہینے انسان دنیا کے دھندوں میں منہمک رہتا ہے جس کی وجہ سے دلوں میں غفلت پیدا ہوجاتی ہے، روحانیت اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں کمی واقع ہوجاتی ہے، تو رمضان المبارک میں آدمی اللہ کی عبادت کرکے اس کمی کو دور کرسکتا ہے، دلوں کی غفلت اور زنگ کو ختم کرسکتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرکے زندگی کا ایک نیادور شروع ہوجائے، جس طرح کسی مشین کو کچھ عرصہ استعمال کرنے کے بعداس کی سروس اور صفائی کرانی پڑتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی صفائی اور سروس کے لیے یہ مبارک مہینہ مقرر فرمایا۔
روزے کی ریاضت کا بھی خاص مقصد اور موضوع یہی ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی حیوانیت اور بہیمیت کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اورایمانی وروحانی تقاضوں کی تابعداری وفرماں برداری کا خوگر بنایاجائے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں نفس کی خواہشات اور پیٹ اور شہوتوں کے تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالی جائے اور چوں کہ یہ چیز نبوت اور شریعت کے خاص مقاصد میں سے ہے اس لیے پہلی تمام شریعتوں میں بھی روزے کا حکم رہا ہے۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور بعض دوسرے تفصیلی احکام میں ان امتوں کے خاص حالات اور ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، قرآنِ کریم میں اس امت کو روزے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایاگیا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔ (البقرۃ:184)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے (روزوں کا یہ حکم تم کو اس لیے دیا گیا ہے) تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔
کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ نفس انسانی انسان کو گناہ، نافرمانی اور حیوانی تقاضوں میں اسی وقت مبتلاکرتا ہے جب کہ وہ مکمل طور پر کھاکر سیر ہوچکا ہو۔ اس کے برخلاف اگر بھوکا ہوتووہ مضمحل پڑا رہتا ہے اور پھر اس کو معصیت کی نہیں سوجھتی، روزے کا مقصد یہی ہے کہ نفس کو بھوکا رکھ کر مادّی وشہوانی تقاضوں کو بروئے کار لانے سے اس کو روکا جائے تاکہ گناہ پر اقدام کرنے کا داعیہ اور جذبہ سُست پڑجائے اور یہی ’’تقویٰ‘‘ہے۔
اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ عالم بالا کی پاکیزہ مخلوق (فرشتے) نہ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں اورنہ بیوی رکھتے ہیں، جبکہ روزہ (صبح صادق سے غروب آفتاب تک) انہی تین چیزوں (کھانا، پینا اور جماع) سے رکنے کا نام ہے، تو گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو روزے کا حکم دے کر ارشاد فرمایا ہے کہ اے میرے بندو! اگر تم ان تینوں چیزوں سے پرہیز کرکے ہماری پاکیزہ مخلوق کی مشابہت اختیار کروگے تو ہماری اس پاکیزہ مخلوق کی پاکیزہ صفت بھی تمہارے اندر پیدا ہوجائے گی اور وہ صفت ہے:
لاَیَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوٴْمَرُوْنَ۔ (التحریم:7)
وہ (فرشتے) خداکی نافرمانی نہیں کرتے کسی بات میں جو ان کو حکم دیتا ہے اور جو کچھ ان کو حکم دیاجاتا ہے اس کو فوراً بجالاتے ہیں۔
تقریباً اسی بات کو اس حدیث شریف میں بھی فرمایاگیاہے جو ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لِکُلِّ شَیْءٍ زَکوٰةٌ وَزَکوٰةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ۔ (ابن ماجہ)
ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی صفائی ستھرائی کا ذریعہ ہے اور بدن کی صفائی ستھرائی کا ذریعہ روزہ ہے۔
بہرحال روزے کا مقصد تقویٰ ہے، اسی تقویٰ کے حصول کے لیے اس آخری امت پر سال میں ایک مہینے کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک رکھا گیا اور یہ زمانہ اِس دَور کے عام انسانوں کے حالات کے لحاظ سے ریاضت وتربیت کے مقصد کے لیے بالکل مناسب اورنہایت معتدل مدت اور وقت ہے۔ پھر اس کے لیے مہینہ وہ مقرر کیاگیا جس میں قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا اور جس میں بے حساب برکتوں اور رحمتوں والی رات (شبِ قدر) ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ یہی مبارک مہینہ اس کے لیے سب سے زیادہ مناسب اور موزوں زمانہ ہوسکتاتھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس مہینے میں دن کے روزوں کے علاوہ رات میں بھی ایک خاص عبادت کا عمومی اور اجتماعی نظام قائم کیاگیا جس کو ’’تراویح‘‘کہا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس مبارک مہینے کی نورانیت اور تاثیر میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور ان دونوں عبادتوں کے احادیث شریفہ میں بہت زیادہ فضائل ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو شخص ماہِ رمضان کے روزے رکھے بحالت ایمان اور بامید ثواب تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جو شخص ماہِ رمضان میں کھڑاہو یعنی نوافل (تراویح وتہجد وغیرہ) پڑھے بحالت ایمان اور بامید ثواب اس کے بھی گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
(بخاری و مسلم)
لیکن صرف روزہ رکھنے اور تراویح پڑھنے کی حد تک بات ختم نہیں ہوتی بلکہ اس ماہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ غفلت کے پردوں کو دل سے دور کیاجائے، اصل مقصدِ تخلیق کی طرف رجوع کیاجائے۔ گذشتہ گیارہ مہینوں میں جو گناہ ہوئے ان کو معاف کراکر آئندہ گیارہ مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کے اظہار اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے ساتھ گناہ نہ کرنے کا داعیہ اور جذبہ دل میں پیدا کیا جائے، جس کو ’’تقویٰ‘‘کہا جاتا ہے۔ اس طرح رمضان المبارک کی صحیح روح اوراس کے انوار وبرکات حاصل ہوں گے۔ ورنہ یہ ہوگا کہ رمضان المبارک آئے گا اور چلا جائے گا اور اس سے صحیح طور پر ہم فائدہ نہیں اٹھاپائیں گے، بلکہ جس طرح ہم پہلے خالی تھے ویسے ہی خالی رہ جائیں گے۔ اس لیے چند ایسی چیزوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جن پر عمل کرکے ہمیں روزے کا مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کے انوار وبرکات حاصل ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
رمضان المبارک کی برکتوں کو حاصل کرنے کے لیے اپنی عبادت کی مقدار میں اضافہ کرنا چاہیے۔ دوسرے ایام میں جن نوافل کو پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی ان کو اس مبارک ماہ میں پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ نماز کا خاصہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا رشتہ جوڑتی ہے اوراس کے ساتھ تعلق قائم کراتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، جیساکہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث شریف میں ہے:
اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَّبِّہ وَہُوَ سَاجِدٌ
یعنی بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتاہے۔
(مسلم، باب ما یقال فی الرکوع والسجود حدیث 1111)
دوسرا کام یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے کیونکہ رمضان المبارک کے مہینے کو قرآن کریم کے ساتھ خاص مناسبت اور تعلق ہے۔ ارشادِ مبارک ہے:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرۃ:186)
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رمضان المبارک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری)
اس مبارک مہینے میں ہرمومن کو اس بات کی بھی فکر کرنی ضروری ہے کہ قرآنِ مجید صحیح اور صاف صاف پڑھا جائے، جلدی جلدی اور حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھنے سے پرہیز کیا جائے، کیونکہ اس طرح قرآنِ کریم پڑھنا اللہ کے کلام کی عظمت کے خلاف ہے۔ اس مبارک مہینے میں برکتوں اور رحمتوں کے دروازے کو اپنے اوپر کھولنے کےلیے صاف صحیح قرآن کریم پڑھنے اور سننے کا اہتمام کریں اور دارین کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کرنی ضروری ہے۔
تیسراکام یہ ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مشہور حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر کی پہلی، دوسری اور تیسری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے ’’آمین‘‘فرمایا۔ صحابہٴ کرامؓ کے پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جبرئیل علیہ السلام میرے سامنے آئے تھے اورجب میں نے منبر کے پہلے زینے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا۔ آمین۔
(مستدرک حاکم کتاب البر والصلة، الترغیب والترہیب)
اس لیے اس مبارک مہینے میں نہایت کثرت کے ساتھ گڑگڑا کر اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کو قبولیت دعا کے مضمون کے ساتھ اس طرح باندھا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ۔ (البقرۃ:187)
جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو بتا دے کہ میں ان کے پاس ہوں۔ جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔ سو چاہئے کہ وہ دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں۔
بہرحال یہ مانگنے کا مہینہ ہے، اس لیے جتنا ہوسکے دعا کا اہتمام کیا جائے، اپنے لیے، اپنے اعزہ واحباب اور رشتے داروں کے لیے، اپنے متعلقین کے لیے، ملک وملت کے لیے اور عالم اسلام کے لیے خوب دعائیں مانگنی چاہئیں، اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
رمضان المبارک میں نفلی صدقات بھی زیادہ سے زیادہ دینے کی کوشش کرنی چاہیے، حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا دریا پورے سال ہی موجزن رہتا تھا، لیکن ماہِ رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت ایسی ہوتی تھی جیسے جھونکے مارتی ہوئی ہوائیں چلتی ہیں۔
(بخاری)
جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا اس کو ضرور نوازتے۔ لہٰذا ہم کو بھی اس بابرکت مہینے میں اس سنت پر عمل کرتے ہوئے صدقات کی کثرت کرنی چاہیے۔
رمضان المبارک میں خاص طور پر گناہوں سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے، ہر مومن کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ اس برکت ورحمت اورمغفرت کے مہینے میں آنکھ، کان اور زبان غلط استعمال نہیں ہوگی، جھوٹ، غیبت، چغل خوری اور فضول باتوں سے مکمل پرہیز کرے۔ یہ کیا روزہ ہوا کہ روزہ رکھ کر ٹیلی ویژن کھول کر بیٹھ گئے اور فلموں سے وقت گزاری ہورہی ہے، کھانا، پینا اورجماع جو حلال تھیں ان سے تو اجتناب کرلیا لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر کسی کی غیبت ہورہی ہے، چغل خوری ہورہی ہے، جھوٹے لطیفے بیان ہورہے ہیں، اس طرح روزے کی برکات جاتی رہتی ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کام اور باطل کلام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (بخاری)
یعنی روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات ومنکرات سے بھی زبان ودہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے۔ اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پروا نہیں۔
ایک اور حدیث شریف میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزے کے ثمرات میں سے بھوکا رہنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔
(سنن ابن ماجہ حدیث 1690 سنن نسائی حدیث 3333)
مطلب یہ ہے کہ آدمی اگر گناہوں (غیبت وریا وغیرہ) سے نہ بچے تو روزہ، تراویح اور تہجد وغیرہ سب بیکار ہے۔
حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مَالَمْ یَخْرِقْہَا۔
(سنن ابن ماجہ حدیث 1690 سنن نسائی حدیث 3333)
روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔
یعنی روزہ آدمی کے لیے شیطان سے، جہنم سے اور اللہ کے عذاب سے حفاظت کا ذریعہ ہے، جب تک گناہوں (جھوٹ وغیبت وغیرہ) کا ارتکاب کرکے روزے کو خراب نہ کرے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ اگر روزے دار سے کوئی شخص بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ کرنے کی کوشش کرے تو روزے دار کہہ دے کہ میرا روزہ ہے۔ یعنی میں ایسی لغویات میں پڑکر روزے کی برکات سے محروم ہونا نہیں چاہتا۔
(صحیح بخاری حدیث 1894، صحیح مسلم حدیث 1151)
ان تمام احادیث شریفہ کا مدعا یہ ہے کہ روزے کے مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے لیے معصیات ومنکرات سے پرہیز نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر تقویٰ کی سعادت سے متمتع نہیں ہوسکتا۔
حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ شعبان کے آخری روز آنحضرتﷺ نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے لوگو! ایک عظیم مہینہ آ گیا ہے۔ ایک ایسا مہینہ جو بہت مبارک ہے۔ اس میں ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے دنوں میں روزہ کو فرض اور اس کی راتوں کے قیام کو طوعی نیکی قرار دیا ہے۔ اس مہینے میں جس نے عام نیکی کے ذریعہ قرب پانے کی کوشش کی تو اس کی مثال اس شخص کی مانند ہو گی جو دوسرے مہینوں میں کوئی فرض ادا کرتا ہے۔ اور جو کوئی اس مہینے میں ایک فرض ادا کرے گا تو اس کا اجر عام دنوں کی ستر نیکیوں کے برابر ہو گا۔ اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ باہمی ہمدردی اور دلداری کا مہینہ ہے۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں برکت اور اضافہ کیا جاتا ہے۔ جو شخص اس ماہ میں کسی روزہ دار کی افطاری کرائے اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس کی گردن آگ سے آزاد ہو جاتی ہے اور اسے روزہ دار کی طرح ثواب ملتا ہے۔ اگرچہ روزہ دار کے اجر میں اس سے کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو یہ توفیق کہاں کہ وہ روزہ دار کی افطاری کا حق ادا کر سکے۔ آپؐ نے فرمایا: یہ اجر تو اس شخص کو بھی ملتا ہے جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا صرف پانی کے ایک گھونٹ سے ہی روزہ کھلواتا ہے۔ البتہ جو شخص روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلائے گا تو اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گاکہ وہ جنت میں جانے تک پیاس محسوس نہیں کرے گا۔
یہ رمضان کا مہینہ ایسا بابرکت ہے کہ اس کے ابتدا میں رحمت ہے۔ درمیان میں مغفرت ہے۔ آخر میں آگ سے نجات ہے۔ جو شخص اس ماہ میں غلام یا مزدور کے روزہ دار ہونے کے باعث اس کے کام میں تخفیف کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے کام میں تخفیف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائے گا اور اسے عذاب سے مخلصی بخشے گا۔‘‘
(مشکوٰۃ کتاب الصوم الفصل الثانی)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ماہ رمضان کے استقبال کے لیے یقیناً سارا سال جنت سجائی جاتی ہے اور جب رمضان آتا ہے تو جنت کہتی ہے کہ یا اللہ ! اس مہینے میں اپنے بندوں کو میرے لیے خاص کر دے۔
(بیہقی شعب الایمان)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کو رمضان المبارک کےبارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں، جو پہلی امتوں کو نہیں ملی ہیں:
1۔ روزے دار کے منہ کی بدبو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
2۔ ان کے لیے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔
3۔ جنت ہر روز ان کے لیے آراستہ کی جاتی ہے پھر حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے دنیا کی مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر تیری طرف آویں۔
4۔ اس میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں وہ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں پہنچ سکتے ہیں۔
5۔ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کے لیے مغفرت کی جاتی ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یہ شب مغفرت کیاہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔ (رواہ احمد)
رمضان کے آخر میں شب مغفرت اس لیے رکھی گئی ہے کہ مومن جو رمضان کا سارا مہینہ محنت و مشقت سے عبادات بجا لاتا ہے اور باقی رمضان المبارک کے لوازمات کا اہتمام کرتا ہے تواس کو رمضان ختم ہونے پر آخری رات میں اجرت دےدی جاتی ہے جیسے کہ ایک مزدور کو کام ختم ہونے پر مزدوری دے دی جاتی ہے۔
حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں چار چیزوں کو کثرت سے کرنے کا حکم دیا ہے، جن میں دو چیزیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے واسطے اور دو چیزیں ایسی ہیں جن کے بغیر تمہارا گزارہ نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو۔ (شعب الایمان )
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
جو آدمی سفر وغیرہ کی شرعی رخصت کے بغیر اور بیماری (جیسے کسی عذر )کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے وہ اگر اس کے بجائے عمر بھر روزے رکھے تو جو چیز فوت ہوگئی وہ پوری ادا نہیں ہوسکتی۔ (مسند احمد، جامع ترمذی)
حضرت زیدبن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص نے کسی روزہ دارکو افطارکروایا، تواس شخص کوبھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا ثواب روزہ دار کے لیے ہوگا، اورروزہ دارکے اپنے ثواب میں سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ (ترمذی)ایک روایت میں ہے کہ جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالیٰ میرے حوض کوثر سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔ (شعب الایمان )
جو شخص کسی کے یہاں افطار کرے تو افطار کے بعد اسے درج ذیل دعاپڑھنی چاہیے:
اَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ۔
(سنن ابی داؤد)
تمہارے پاس روزے داروں نے افطار کیا اور نیک لوگوں نے تمہارا کھانا کھایا۔ اور فرشتوں نے تمہارے لیے دعا کی۔
رمضان المبارک کے ماہ میں سحری کھانے کی بھی بڑی برکت ہے۔ سحری ایک مستحب عمل ہے لغت میں سحر اس کھانے کو کہتے ہیں جو صبح کے قریب کھایا جائے۔ احادیث مبارکہ میں اس کی فضیلت اور اجر کا ذکر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بالالتزام روزے کا آغاز سحری کھانے سے فرماتے اور دوسروں کو بھی سحری کھانے کی تاکید فرماتے۔ احادیث مبارک میں ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔
(الصحیح، مسلم، کتاب الصیام)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
سحری سراپا برکت ہے اسے ترک نہ کیا کرو۔
( احمد بن حنبل، المسند)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ بھی فرمایا :
اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر اپنی رحمتیں نازل کرتے ہیں۔
( احمد بن حنبل، المسند)
آخری اور اہم بات یہ ہے کہ ہم نے رمضان میں جس طرح روزے کی حالت میں حلال چیزوں کو چھوڑا ہے جیسے پانی، کھانا، اسی طرح جو حرام چیزیں ہیں انہیں بھی چھوڑنے کا عزم کریں اپنی آنکھ، زبان، کان، ہاتھ اور جسم کے کسی بھی عضو کا غلط استعمال نہ کریں، حرام مال سے بچیں دلوں کو کینہ حسد جلن جیسی برائیوں سے پاک کریں اور رمضان اس طرح گزاریں کہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو ایسا کرنے سے رمضان کا جو اصل مقصد ہے وہ حاصل ہوگا ضرورت ہے کہ ہم تقویٰ، تعلق باللہ، خشیت الٰہی جیسی صفات سے متصف ہوں اور ہمدردی ایثار و قربانی اور غم خواری کا معاملہ کریں یہی رمضان المبارک کا اصل پیغام ہے۔
کئی ممالک میں کورونا وائرس کے پیش نظر لاک ڈاؤن جاری ہے۔ایسے حالات میں ہم اپنے گھروں پر رہ کرہی احتیاطی تدابیر کےساتھ اعمال کریں اور کورونا وائرس سے بچاؤ کےلیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں۔ حکومت نے جو گائیڈ لائن جاری کی ہیں ان پر عمل کو یقینی بنائیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، رمضان المبارک کی قدردانی کی توفیق بخشے اور اس بابرکت مہینے کے اوقات کو صحیح طور پر خرچ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین!
٭…٭…٭