جب ایک مامور من اللہ آتا ہے تواس سے منہ پھیرنا اصل میں خدا سے منہ پھیرنا ہے
دو جنتیں
یادرکھو جو خدا تعالیٰ کی طرف صدق اور اخلاص سے قدم اٹھاتے ہیں وہ کبھی ضائع نہیں کئے جاتے۔ ان کو د ونوں جہان کی نعمتیں دی جاتی ہیں جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ (الرحمٰن: 47)۔
اور یہ اس واسطے فرمایاکہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ میری طرف آنے والے دنیا کھوبیٹھتے ہیں۔ بلکہ ان کے لئے دو بہشت ہیں۔ ایک بہشت تو اسی دُنیا میں اور ایک جو آگے ہوگا۔ دیکھو اتنے انبیاء گزرے ہیں کیا کسی نے اس دنیا میں ذلّت اور خواری دیکھی؟ سب کے سب اس دنیا میں سے کامیاب اورمظفّر و منصورہو کرگئے ہیں۔ خداتعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو تباہ کیا اور ان کو عزّت اور جلال کے تخت پر جگہ دی لیکن اگر وہ اس دنیا کے پیچھے پڑتے تو زیادہ سے زیادہ دس بارہ روپیہ ماہوار کی نوکری انہیں ملتی کیونکہ وہ صاف گو اور سادہ طبع تھے مگر جب انہوں نے خدا کے لئے اس دُنیا کو چھوڑاتو ایک دُنیا اُن کے تابع کی گئی۔
غور کرکے دیکھو کہ ا گر ان لوگوں نے خدا کے لئے اس دُنیا کو چھوڑ دیا تھا تو نقصان کیا ا ٹھایا؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ہی دیکھو کہ جب وہ شام کے ملک سے واپس آرہے تھے توراستہ میں ایک شخص ان کو ملا۔ آپؓ نے اس سے پوچھا کہ کوئی تازہ خبر سنائو۔ اس شخص نے جوا ب دیا کہ اَور تو کوئی تازہ خبر نہیں البتہ تمہارے دوست محمد(ﷺ ) نے پیغمبری کا دعویٰ کیاہے۔ اس پر ابوبکر صدیقؓ نے اس کوجوا ب دیا کہ اگر اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو وہ سچاہے۔ وہ جھوٹا کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ سیدھے حضرت نبی کریمﷺ کے مکان پر چلے گئے اور آنحضرتﷺ کو مخاطب کر کے کہنے لگے کہ آپ گواہ رہیں کہ سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا مَیں ہوں۔ دیکھو انہوں نے آنحضرتﷺ سے کوئی معجزہ نہیں مانگا تھا۔ صرف پہلے تعارف کی برکت سے وہ ایمان لے آئے تھے۔
یاد رکھو معجزات وہ طلب کیاکرتے ہیں جن کو تعارف نہیں ہوتا۔ جو لنگوٹیا یار ہوتاہے اس کے لئے تو سابقہ حالات ہی معجزہ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ کو بڑی بڑی تکالیف کا سامنا ہوا۔ طرح طرح کے مصائب اور سخت درجہ کے دُکھ اٹھانے پڑے۔ لیکن دیکھو اگر سب سے زیادہ انہیں کو دکھ دیا گیا تھا اور وہی سب سے بڑھ کر ستائے گئے تھے تو سب سے پہلے تخت نبوت پر وہی بٹھائے گئے تھے۔ کہاں وہ تجارت کہ تمام دن دھکّے کھاتے پھرتے تھے اورکہا ں یہ درجہ کہ آنحضرتﷺ کے بعد سب سے اوّل خلیفہ انہیں کومقرر کیا گیا۔
خدا تعالیٰ پر بد ظنی نہ کرو
انسان کو چاہئے کہ خداتعالیٰ پربدظنّی کرنے سے بچے کیونکہ اس کا ا نجام آخر میں تباہی ہواکرتا ہے۔ جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے
وَذٰلِکُمْ ظَنُّکُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّکُمْ اَرْدٰکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ(حٰم السّجدۃ: 24)۔
اس لئے سمجھنا چاہئے کہ خداتعالیٰ پر بدظنّی کرنا اصل میں بے ایمانی کا بیج بوناہے جس کا نتیجہ آخر کار ہلاکت ہوا کرتاہے۔ جب کبھی خداتعالیٰ کسی کو اپنا رسول بنا کر بھیجتا ہے تو جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ ہلاک ہو جاتاہے۔
مامور کے مخالف آخر پکڑے جاتے ہیں
یاد رکھو! جب ایک مامور من اللہ آتاہے تواس سے منہ پھیرنا اصل میں خدا سے منہ پھیرنا ہے۔ دیکھو گورنمنٹ کاادنیٰ چپڑاسی ہوتاہے، پانچ روپیہ ماہوار اس کی تنخواہ ہوتی ہے لیکن جب وہ گورنمنٹ کے حکم سے سرکاری پروانہ لے کر زمینداروں کے پاس جاتاہے۔ اگر زمیندار یہ خیال کرکے کہ یہ ایک پانچ روپیہ کا ملازم ہے اس کو تنگ کریں اور بجائے اس کے حکم کی تعمیل کرنے کے اُلٹااس کو ماریں پیٹیں اور بدسلوکی سے پیش آویں تو اب بتلائو کہ کیا گورنمنٹ ایسے شخصوں کو سزا نہ دے گی؟ دے گی اور ضرور دے گی کیونکہ گورنمنٹ کے چپڑاسی کو بے عزّت اور ذلیل کرنا اصل میں گورنمنٹ کو ہی بے عزّت اور ذلیل کرناہے۔ اسی طرح جو شخص خداتعالیٰ کے مامور کی مخالفت کرتاہے وہ اس کی نہیں بلکہ حقیقت میں وہ خدا کی مخالفت کرتاہے۔ [بدر سے: ’’خدا جو سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے اور جس کی عظمت اور جس کے جلال کے مقابل میں کسی کا جلال نہیں۔ کیا وہ اپنے فرستادہ اپنے رسول کی ہتک دیکھ کر خاموش رہتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ مامور کی بے ادبی درحقیقت خدا تعالیٰ کی بے ادبی ہے۔‘‘ (بدر 7نمبر 1 صفحہ 3 مورخہ 9؍جنوری 1908ء)]
یاد رکھو خدا تعالیٰ اگرچہ سزا دینے میں دھیما ہے مگر جو لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے اور بجائے اس کے کہ اپنے گناہوں کا ا قرار کر کے خدا تعالیٰ کے حضورجُھک جائیں اُلٹے خدا تعالیٰ کے رسول کو ستاتے اور دُکھ دیتے ہیں وہ آخر پکڑے جاتے ہیں اور ضرور پکڑے جاتے ہیں۔ دیکھو دن نہایت نازک آتے جاتے ہیں۔ اس لئے تم لوگوں کو چاہئے کہ خداتعالیٰ کے حضور سچّی توبہ کرو اور تضرّع اور ابتہال کے ساتھ دن رات اس سے دُعائیں مانگتے رہو۔ خد اتعالیٰ تمہیں توفیق دے۔ اب دعا کرلو۔
اس کے بعد حضرت اقدسؑ نے بمعہ سامعین نہایت خلوص کے ساتھ دُعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور خدا تعالیٰ سے دُعائیں مانگیں۔
رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ٭ۖ رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ کَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ۔ رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدۡتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخۡزِنَا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّکَ لَا تُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ (آل عمران: 194-195)۔
………………(ملفوظات جلد پنجم صفحہ411-413۔ ایڈیشن 2003ء)