فضائل القرآن (2) (قسط دہم)
ظاہر سے باطن کی طرف لے جانے والا کلام
نویں خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ وہ ظاہر سے باطن کی طرف لے جاتا ہے۔ کہیں چلتے پانیوں سے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہیں برستے بادلوں کا ذکر کر کے خداتعالیٰ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کہیں چمکتی بجلی میں خدا تعالیٰ کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہیں دفن ہونے والے مُردوں کا ذکر کر کے خداتعالیٰ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہیں پیدا ہونے والے بچوں کا حوالہ دیکر قدرت خدا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہیں نجاستوں اور گندوں کا ذکر کر کے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت بتائی گئی ہے۔ کہیں پاکیزگی کی ترغیب اور تحریص دلانے کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ غرض قرآن پڑھ کر انسانی فطرت بول اٹھتی ہے کہ یہ جو کچھ کہہ رہا ہے انسانی قلب کا نقشہ کھینچ رہا ہے۔ لیکن دوسری کتب میں اس طرح قانونِ نیچر کی طرف توجہ نہیں دلائی گئی۔
جذباتِ انسانی سے اپیل
دسویں خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ وہ انسان کے اعلیٰ جذبات سے اپیل کرتا ہے۔ انسانی پیدائش کی خوبیاں بتاتا ہے۔ انسانی طاقتوں اور قوتوں کا ذکر کرتا ہے اور تحریک کرتا ہے کہ ان سے کام لو اور ترقی کرو۔ اس کے ساتھ ہی یہ بتاتا ہے کہ ان باتوں سے بچو ورنہ ترقی سے محروم رہ جائو گے۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن سے ہر سلیم الفطرت انسان متأثر ہوتا ہے۔
غرض ظاہری حسن میں بھی قرآن کریم ایک افضل کتاب ہے اور اس کی عبارت کو پڑھ کر انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ہاں جو لوگ قصوں کے شیدا ہیں ان پر اس کی عبارت بیشک گراں گذرتی ہے۔
قرآن کریم میں تکرار پائے جانے کا اعتراض
قرآن کریم کی ظاہری خوبیوں کے متعلق جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کے میں جواب دے چکا ہوں۔ اب ایک اعتراض باقی رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ قرآن ایک ایک فقرہ کو بار بار دہراتا ہے۔ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ دہرانے کا اعتراض قرآن کریم پر عیسائیوں اور ہندوئوں کی طرف سے کیا جاتا ہے لیکن خود ان کی الہامی کتابیں اس کی زد میں آتی ہیں۔ بائیبل میں کئی باتیں بار بار دہرائی گئی ہیں۔ چاروں اناجیل میں تکرار موجود ہے۔ وہی بات جو متی کہتا ہے مرقس، لوقا اور یوحنا بھی اسی کو دہراتے ہیں۔ اسی طرح ہندوئوں کی کتابوں میں تکرار پایا جاتا ہے۔ مثلاً اتھروید جلد اول کتاب ۲ دعا ۲۷ اور رگ وید جلد اول کتاب اول دعا ۹۶ میں تکرار موجود ہے۔ اگر تکرار قابلِ اعتراض بات ہے تو ان پر بھی کیوں اعتراض نہیں کیا جاتا۔
قرآن کریم پر یہ اعتراض محض نا سمجھی اور نادانی کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ میں اسے واضح کرنے کیلئے ایک آیت لے کر اس کا مطلب بیان کر دیتا ہوں۔
کہا جاتا ہے کہ سورۃ الرحمٰن میں
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ(الرحمٰن:14)
کا بار بار تکرار ہے اور ایسے موقع پر بھی اسے لایا گیا ہے جہاں اس کا کوئی جوڑ نہیں معلوم ہوتا۔ بلکہ الٹ پڑتا ہے۔ جیسے
کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ (الرحمٰن :27-28)
کے ساتھ
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ
آتا ہے۔ پادری اکبر مسیح نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ
کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ
کے یہ معنی ہیں کہ دنیا کا ہر آدمی فنا ہونے والا ہے اور
یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَام
کے یہ معنی ہیں کہ صرف خدا ہی باقی رہنے والا ہے جو جَلَال اور اِکْرَام والا ہے۔ مگر آگے آتا ہے
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن
تم خدا کی کون کونسی نعمت کا انکار کرو گے۔ اب اس موقع پر کس نعمت کا ذکر تھا؟ کہ یہ کہا گیا۔ کیا مرنا اور فنا ہونا بھی ایک نعمت ہے؟
موت کا فلسفہ
اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ فنا بھی انسان کیلئے ایک انعام ہے۔ جہاں دیگر مذاہب نے فنا کو سزا قرار دیا ہے وہاں قرآن نے اسے انعام ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ آتا ہے۔
تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ۫ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرُ۔ۣ الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ (الملک:2-3)
یعنی سب برکتوں والا خدا ہی ہے جس کے ہاتھ میں بادشاہت ہے اور یہ ہر بات پر قادر ہے۔ وہ برکتوں والا خدا ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا۔ یہ اس لئے کہ انسانوں کے اعمال کا امتحان لے اور ان کے نیک نتائج پیدا کرے وہ غالب ہے اور غفور ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ
لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ۔
پس موت ضروری تھی کیونکہ موت کے بغیر انسانی اعمال کے نتائج پیدا نہیں ہو سکتے تھے۔ اس لئے کہ زندگی میں ایک انسان جو اچھے عمل کرتا ہے اگر اسے ان کا بدلہ اسی دنیا میں مل جائے اور جو بدیاں کرتا ہے ان کی اسے یہاں ہی سزا دے دی جائے تو پھر کوئی نبیوں کا انکار کیوں کرے۔ بلکہ فوری جزا سزا کو دیکھ کر سب مان لیں۔ لیکن انعام مشقت اور محنت کے بعد ملا کرتا ہے۔ اگر حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ اسی دنیا میں موجود ہوں اور خدا تعالیٰ نے مرنے کے بعد جو درجات انہیں دیئے ہیں وہ اسی دنیا میں مل گئے ہوں تو پھر ان کا کون منکر رہ سکتا ہے۔ یا فرعون اور ابوجہل اگر کفر کی وجہ سے اسی دنیا میں آگ میں جل رہے ہوتے تو کون انکار کرتا۔ اس طرح تو ایمان لانے والوں کو کوئی محنت اور کوشش ہی نہ کرنی پڑتی۔ لیکن انعام محنت اور کوشش کے بعد ہی ملا کرتا ہے۔ پس ضروری تھا کہ انعام دینے کے لئے ایک اور دنیا ہو اور وہ ان آنکھوں کے سامنے نہ ہو جس کی وجہ سے لوگ ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے۔ پس فرمایا
خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا۔
حیات کی غرض یہ ہے کہ انسان اس زندگی میں کام کرے اور موت کی غرض یہ ہے کہ اس زندگی میں جو کام کرے موت کے بعد ان کے انعام پائے۔
وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡر
اور خدا غالب اور بخشنے والا ہے وہ انعام بھی دے سکتا ہے اور کمزوریوں کو معاف بھی کر سکتا ہے۔
اس آیت میں چونکہ پہلے موت کو رکھا ہے۔ اس لحاظ سے عَزِیْزکو پہلے رکھا۔ اور حَیَاتمیں چونکہ کمزوریاں بھی سر زد ہو جاتی ہیں اس کے لئے غَفُوْرکی صفت کو رکھا کہ انسان سے غلطیاں ہونگی جنہیں خدا معاف کر دے گا۔
پس یہ تکرار نہیں بلکہ بہت بڑی حکمت کے ماتحت اسے رکھا گیا ہے۔
افضلیت کی تیسری وجہ
(۳) افضلیّت کی تیسری وجہ ایک الہامی کتاب کے لئے یہ ہے کہ وہ ان ضرورتوں کو پورا کرے جن کے لئے اسے اختیار کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر ایک چیز پیاس بجھانے کیلئے پی جاتی ہے تو اس کا کام ہے کہ پیاس بجھائے۔ لیکن چونکہ کتاب مذہب کے متعلق ایک معلّم کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے ان ضرورتوں کے دو حصے ہو جائیںگے۔
اول۔ ان ضرورتوں کی تشریح کرے جن کو پورا کرنے کا وہ مدعی ہے۔ کیونکہ ضرورت کا احساس بھی وہی کرتا ہے۔
دوم۔ ان ضرورتوں کو پورا کرنے کا سامان کرے۔
مذہب کی پانچ ضرورتیں
سو یاد رکھنا چاہئے کہ مذہب کی قرآن کریم سے پانچ ضرورتیں ثابت ہوتی ہیں۔
اول۔: وجود باری تعالیٰ کا ثبوت اور اس کی صفات کا علم۔
دوم۔: انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان اور ان کا ثبوت۔
سوم۔: ان امور کا بیان جو روحانی طاقتوں کی تکمیل اور امداد کیلئے ضروری ہیں۔
چہارم۔: انسانی زندگی کے مال کا بیان اور اس کا ثبوت۔
پنجم۔: مذکورہ بالا امور میں نہ صرف علمی طور پر روشنی بخشنا بلکہ عملاً بھی خدا تعالیٰ سے وصال کرانا اور روحانی طاقتوں کو مکمل کرانا اور حیاتِ اُخروی کے فوائد سے بہرہ ور کرانا۔
یہ ضرورتیں جو اسلام نے بیان کی ہیں باقی مذاہب بھی اس امر میں اس سے متفق ہیں گو اس مقصد کے پورا کرنے میں قرآن کریم منفرد ہے۔ کوئی مذہبی کتاب اس بارہ میں اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی۔ تورات کو شروع سے آخر تک پڑھ جائو، انجیل کو پڑھ جائو، وید کو پڑھ جائو بس یہ معلوم ہوگا کہ فرض کر لیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب دنیا مانتی ہے اور اس کی ذات میں کسی شک کی گنجائش نہیں مگر اس کا ثبوت وہ کوئی نہیں دیتیں۔ اسی طرح اس کی صفات کے متعلق اس قدر قلیل روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسانی نفس اس سے قطعاً تسلی نہیں پا سکتا۔ پس ضرورت تھی کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا علم دیا جائے اور پھر اس کے دلائل دیئے جائیں۔ زیادہ سے زیادہ دوسری کتب نے کوئی ثبوت دیا ہے تو معجزات سے دیا ہے۔ بیشک اس سے اللہ تعالیٰ کا وجود تو ثابت ہو جاتا ہے مگر اس کی ہر صفت ثابت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی کتاب خدا تعالیٰ کو غَفُوْرکہتی ہے تو ضروری ہے کہ وہ خدا کے غَفُوْر ہونے کا ثبوت بھی پیش کرے۔ اگر رَحِیْمقرار دیتی ہے تو اس بات کا ثبوت دے کہ وہ رَحِیْم ہے۔ غرض باقی مذاہب نے اس اصل الاصول کو جس پر مذہب کی بنیاد ہے بالکل مہمل چھوڑ دیا ہے اس کے مقابل پر قرآن کریم کو دیکھو۔ وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے وجود کو پیش کرتا ہے بلکہ اس کے ثبوت بھی دیتا ہے۔ اور نہ صرف اس کا ثبوت دیتا ہے بلکہ اس کی سب صفات کا ثبوت دیتا ہے۔ اور اس طرح وہ ایک نیا اصل پیش کرتا ہے۔ جو یہ ہے کہ جس قدر صفاتِ الٰہیہ بندہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہیں ان کا الگ ثبوت ضروری ہے ورنہ خداتعالیٰ کا وجود تو ثابت ہوگا مگر اس کی صفات کا ثبوت نہ ہوگا۔
بندوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی صفات الٰہیہ کا ثبوت
مَیں اس وقت اس کی ایک مثال دے دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ فَاعۡبُدُوۡہُ ۚ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ۔ لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ ۚ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ (الانعام:103-104)
یعنی یہ ہے تمہارا اللہ جو تمہارا رب بھی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی ہر ایک چیز کا خالق ہے اسی کی تم عبادت کرو۔ وہ ہر چیز پر نگران ہے۔ اور یہ یاد رکھو کہ تمہاری یہ مادی آنکھیں اس تک نہیں پہنچ سکتیں نہ تمہاری عقلیں پہنچ سکتی ہیں۔ یعنی تمہاری آنکھیں اور عقلیں اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ خود ایسے سامان بہم پہنچا دیتا ہے کہ جن کے نتیجہ میں وہ بندہ کے پاس آ جاتا ہے یعنی اپنی صفات کے ظہور کے ذریعہ۔ کیونکہ وہ نہایت لطیف اور خبیر ہے۔ غرض ان صفات کو اللہ تعالیٰ کے وجود کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے۔ اور لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ کے ثبوت میں بتایا ہے کہ وہ لطیف اور خبیر ہے۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اگر خدا ہے تو ان آنکھوں سے دکھا دو،وہ غلط کہتے ہیں۔ اس لئے کہ جو لطیف چیز ہوتی ہے وہ نظر نہیں آیا کرتی۔ لطیف کی تو تعریف ہی یہی ہے کہ نظر نہ آئے۔ ورنہ جو چیز نظر آ جائے وہ لطیف نہیں کہلا سکتی۔ پھر خدا تعالیٰ ان آنکھوں سے کس طرح نظر آ سکتا ہے۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ خدا ہے یا نہیں۔ سو اس کا ثبوت اس کی صفت خبیر سے مل جاتا ہے۔ وہ بندہ کی نگہداشت کرتا ہے۔ اس کی روحانی اور جسمانی ساری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ کسی کے خبردار ہونے کا آخر کیا ثبوت ہوا کرتا ہے۔ یہی کہ جس قسم کی ضروریات اسے پیش آئیں ان کا انتظام کرے۔ مثلاً ایک شخص کسی کے ہاں مہمان جاتا ہے۔ اس کے لئے اگر مکان اور مکان میں بستر وغیرہ موجود ہوتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بستر خود بخود آ گیا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ میزبان بہت خبردار ہے جس نے پہلے سے ہی بستر کا انتظام کر دیا۔ اسی طرح مہمان کے آگے کھانا چنا جائے لیکن میزبان خود اس وقت نظر نہ آئے تو کیا یہ کہا جائیگا کہ کھانا خود بخود آ گیا ہے۔ اگر مہمان کی ضروریات پوری ہوتی جاتی ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان ضروریات کو پورا کرنے والا ایک وجود موجود ہے خواہ وہ نظر آئے یا نہ آئے۔ پس جسمانی اور روحانی ضرورتیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے پوری ہوتی ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ خدا تعالیٰ ہے۔ اور جب وہ ان ضروریات کے پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آتا تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ لطیف ہے۔
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭