حیا کیا ہے؟ ایمان کا حصہ کیسے ہے؟ (قسط اوّل)
قرآن و حدیث اور ارشادات حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے کرام کی روشنی میں ا س کا تعارف
کبھی آپ نے لاجونتی یا چھوئی موئی کا پودا دیکھا ہے؟ کیسے کسی کے چھونے پہ مرجھا جایا کرتا ہے، بچپن میں میرا پسندیدہ کام ہوا کرتا تھا کہ جہاں کہیں یہ پودا نظر آئے اسے چھو کر دیکھوں کہ وہ بھی سمٹتا ہے کہ نہیں۔ بچپن میں یہ عمل خاص کر بچوں کے لیے انتہائی دلچسپی کا باعث ہوتا۔ خدا تعالیٰ نے ایک پودے کی میں بھی کیا خوبصورت حیا کا مادہ ودیعت کر رکھا ہے۔اپنے قدرتی حجاب کی وجہ سے اس کےاور بھی کئی نام ہیں مثلاً Touch me Not۔ دیکھا جائے تو خدا کی قدرت کا خوبصورت کرشمہ ہے کہ ایک پودا کسی غیر کے چھونے کا احساس بھی نہیں سہہ پاتا تو پھر ہم بطورانسان جو کہ تمام مخلوقات عالم میں اشرف اور افضل ہیں کیسے اپنی اس اعلیٰ خوبی سے منہ موڑ سکتے ہیں۔ آج میں حیا کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتی ہوں۔
ہماری اکثریت ایک پختہ اور مضبوط سوچ کی حامل ہے جو شاید میرے سے ہزار گنازیادہ اس بارے آگاہی رکھتے ہوں گے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک ایسے مضمون کو بیان کیا جائے جس کے بارے میں دنیا جانتی ہو۔ یوں تو بہت سے ایسے کام ہیں جن کے بارے میں ہمیں علم ہےمگر اپنی بشری کمزوری کے باعث ان پر اس طرح عمل پیرا نہیں ہوپاتے جیسے کہ خدا تعالیٰ نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ بس یہی بات اس خلق حیا میں بھی ہے۔ خصوصیت سے آج کی دنیاکے رہنے والے نوجوان اس کے بارے میں جانتے ضرور ہیں مگر آزادانہ ماحول کے زیر اثر بہت سی ایسی کمزوریوں میں مبتلا ہیں جو شایدہمیں برائی کے طور پرنظر ہی نہیں آتیں تو سوچا کہ کچھ گہرائی میں جاکے اس گوہر آبدار کو کھوجا جائےشاید اس کی دلکشی اور حسن چند نگاہوں کو خیرہ کردے اوریہی ان کے اندر ایک مثبت تبدیلی کا باعث ہو۔ جی ہاں باتیں تو تمام وہی ہیں جو ہمارے پیارے نبیﷺ اور آپؐ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اورآپؑ کے خلفائے کرام نے بیان کی ہیں مگر کوشش ہو گی کہ اس انداز میں بیان ہوں کہ آپ کو پسند آئیں۔ اپنے مضمون کے اس حصے میں خاکسار قرآنِ کریم ، احادیث مبارکہ اور ارشادات حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے کرام کی روشنی میں بیان کرے گی کہ حیا سے کیا مراد ہے اور یہ ایمان کا حصہ کیسے ہے؟ ہوسکتا ہےلاشعوری طور پہ عورت ہونے کی حیثیت سے بہنیں میری زیادہ مخاطب نظر آئیں مگر میری پوری کوشش ہوگی کہ بھائیوں کے بارے میں بھی ارشاداتِ مبارکہ شامل رکھوں۔
جہاں تک مضمون کا تعلق ہے توحیا کا مضمون اس قدر وسعت رکھے ہوئے ہے کہ اس دریا کو کوزے میں بند کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ اس کے تمام پہلو ئوں کو بیان کرنا چند ایک مضامین میں تو ہرگز ممکن نہیں البتہ کوشش ہوگی کہ ان پہلوئوں کو ضرور بیان کرسکوں جو براہ راست ہماری ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ خدا کرے کہ میں اس میں کامیاب ہوسکوں۔ آمین۔
علامہ ابن حجرؒ کے نزدیک ’’حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر اُبھارتا ہے۔‘‘حیا کی دو قسمیں ہیں (1) فطری (2)کَسبی۔ ہر انسان فطری طور پر زیور حیا سے آراستہ ہوتا ہے۔ اس کے اندر خیر اور بھلائی کے کاموں سے محبت، عفت وپاکدامنی کے جذبات، سخاوت وفیاضی اور انسانی ہمدردی کی بنیادی صفات موجود ہوتی ہیں۔
حیا کی بنیادی صفت بچپن ہی سے ہر انسان کے اندر ہوتی ہے، اگرچہ کچھ تفاوت ہوتا ہے۔ بعض افراد کے اندر یہ صفت بہت اُبھری ہوئی ہوتی ہے جبکہ بعض کے اندر کمزور ہوتی ہے۔ انسان کے اندر جو فطری حیا پائی جاتی ہے اسلام نہ صرف اس کی حفاظت رکھنے پر زور دیتا ہے بلکہ اس کو بڑھانے کی بھی تلقین کرتا ہے۔ حضرت زید بن طلحہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ہر دین و مذہب کا ایک اپنا خاص خلق ہو تا ہے اسلام کا (یہ خاص) خلق حیاہے۔‘‘
(حدیقۃ الصا لحین صفحہ 646حد یث نمبر825، ایڈیشن2019ء)
حضرت انسؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا:
’’بے حیا ئی جس چیز میں بھی ہو اُسے بد نما بنا دیتی ہے۔ اور حیا جس چیز میں بھی ہو اُسے خو بصورت بنا دیتی ہے۔ ‘‘
(حدیقۃ الصا لحین صفحہ 648حدیث نمبر828، ایڈیشن2019ء)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
’’ایمان ساٹھ یا ستّرسے بھی کچھ زائد حصوں میں منقسم ہے۔ ان میں سب سے افضل لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُکہنا ہے اور عام اور آسان حصّہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دُور کرنا ہے اور حیابھی ایمان ہی کا ایک حصہ ہے۔‘‘
(مسلم کتاب الایمان باب بیان عدد شعب الایمان رقم 152)
ان چند احادیث کے بیان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حیا کا ایمان میں شامل ہونے کا اصل راز یہ ہے کہ یہ دونوں یعنی ایمان اور حیا اچھے کام کی دعوت دیتے ہیں اور اچھے کاموں کے قریب کرتے ہیں، نیز برائی سے روکتے ہیں اور برائی سے دور بھی کرتے ہیں۔
اس سے قبل کہ ہم حیا کی اہمیت کو مزید جانیں تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ تمدّنی ارتقا کے ابتدائی مراحل سے آج تک شیطان اور اُس کے چیلوں کی پہلی ترجیح دنیا میں عریانی، فحاشی اور بے حیائی عام کرنا ہے اور وہ اپنے اس مذموم مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔ مثلاً اہلِ یونان پر نفس پرستی اور شہوَت کا اِس قدر شدید غلبہ تھا کہ اُن کے یہاں زنا اور فحاشی کو قابلِ فخر سمجھا جاتا۔ نوبت یہاں تک آئی کہ بعض روایات کے مطابق وہ قومِ لوط کے عمل کی پیروی کی بنا پرقہرِ الٰہی کا شکار ہوئے۔ اہلِ روم کا حال بھی یونانیوں سے کم نہ تھا کہ جہاں بے حیائی نے مَرد اور عورت کی تمیز ہی ختم کر دی تھی اور پھر وہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ اس حوالے سے تاریخ کا مطالعہ کریں تو کئی معاشروں میں عورت ایک ایسی شَے نظر آتی ہے کہ جیسے اس کا کام صرف مَرد کی نفسانی خواہشات کی تکمیل ہو۔ اسی طرح، ظہورِ اسلام سے پہلے عرب معاشرہ بھی جنسی بے راہ رَوی اور بے حیائی کے دلدل میں دھنسا ہوا تھا جہاں آنحضرتﷺ نے اپنی قوت قدسیہ کے ذریعے ایک جاہل اور اجڈ قوم کو باخدا انسان بنایا اور ایک باخدا انسان سے زیادہ باحیا انسان بھلا کون ہو سکتا ہے۔ ’’زمانہ جہالیت میں جہاں بےحیائی اپنے عروج پہ تھی اوربے حیائی کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات خود مالک اپنی لونڈیوں سے بدکاری کرواتے اور اس کی آمد وصول کرتے یہ بھی گویا آمد کا ذریعہ تھا مگر شرفاء کا دامن اس قسم کی انتہائی بے حیائی سے پاک تھا۔ عورتوں میں پردے کی رسم نہ تھی بلکہ وہ کھلی پھرتی تھیں۔ نکاح کا تصور نہ تھا۔ ایک عورت سے کئی مرد بدکاری کرتے تھے اور اولاد کے بارے میں حتمی فیصلہ عورت کی گواہی پر منحصر ہوتا تھا۔ جس بیوہ عورت پر متوفیٰ شوہر کا قریبی رشتہ دار اپنی چادر ڈال دیتا وہی زبردستی اس کی بیوی بنادی جاتی۔ سوتیلے بیٹے اس طریق پر سوتیلی ماؤں پر قبضہ کرلیتے۔ عورتیں بے حجاب اپنے جسم کے مخفی حصّوں کی نمائش کرتیں۔ یہ حیا کا معیار تھا اس وقت کی عورت کا۔ ‘‘
(سیرت خاتم النبیینﷺ ازحضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ59)
یہ تھے وہ حالات جس میں آپﷺ نے اپنی قوت قدسی سے انسان اور حیوان میں تمیز و تفریق سکھائی اور اس وقت کے انسان کو ایک متمدن اور با حیا انسان بنا دیا۔ دیکھا جائے تو اب بھی وہی حالات درپیش ہیں۔ اچھائی اور برائی کا فرق مٹتا نظر آتا ہے۔ بظاہر کائنات کو تسخیر کرنے والا انسان اخلاقی پستی اور گراوٹ کی عمیق گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اکثرلوگ جو ایسی بے حیائی اور بے شرمی کا ارتکاب کرتے ہیں جس کا دائرہ صرف ان کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے سماج اور معاشرے کو متاثر کرتا ہے۔ ان کے لیے عورت کا حسن اسے بےحجاب کرنے اور اسے محض ایک شَے کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ہے۔ جبکہ اس کے برعکس اسلام نے یہ خوبصورت تعلیم پیش کی ہے کہ عورت انمول موتی کی مانند ہے اور موتی کی ہمیشہ حفاظت کی جاتی ہے نہ یہ کہ اسے دنیا کے سامنے نمائش کے لیے بغیر کسی حفاظت کے پیش کر دیاجائے۔ اسی لیے اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ عورتوں کو اگر باہرجانا پڑے تو حجاب استعمال کریں تاکہ نامحرموں کی نگاہوں سے محفوظ رہ سکیں۔
حضرت اقد س مسیح موعودعلیہ السلا م آج کے متمدن دَور کا احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔ یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے۔ جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھاہے۔ ذرا اُن کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو۔ اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے ان کی عفت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے۔ بد نظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاص ہے پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بےاعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہو گا۔ ‘‘
(ملفوظات جلد4صفحہ104، ایڈیشن1988ء)
پھر حضرت مسیح موعودؑ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘میں فرماتے ہیں:
’’…خدا تعالیٰ نے خلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کے لئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لئے پانچ علاج بھی بتا دیئے ہیں۔ یعنی یہ کہ (۱)اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا(۲) کانوں کو نا محرموں کی آواز سننے سے بچانا۔ (۳)نامحرموں کے قصّے نہ سننا اور(۴)ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بد فعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا(۵) اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ۔
اس جگہ ہم بڑے دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کے یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام کا ہی خاصہ ہے‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ343)
خدا تعا لیٰ قر آن کریم میں مو منوں سے مخا طب ہو تے ہو ئے فر ما تا ہے:
قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ۔ وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۔ (النور: 31تا32)
مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یقیناً اللہ، جو وہ کرتے ہیں، اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔ اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ جو اس میں سے ازخود ظاہر ہو۔ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں۔ اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں کے لئے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا اپنے زیرنگیں مردوں کے لئے یا مردوں میں ایسے خادموں کے لئے جو کوئی (جنسی) حاجت نہیں رکھتے یا ایسے بچوں کے لئے جو عورتوں کی پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہیں۔ اور وہ اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ (لوگوں پر) وہ ظاہر کردیا جائے جو (عورتیں عموماً) اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں۔ اور اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
کیا خوبصورت اور حسین تعلیم ہے جس میں مرد و زن کی تفریق نہیں رکھی بلکہ فرمایا کہ پردہ دونوں کے لیے ضروری ہے۔ یہاں ضمناً یہ بھی بیان کردوں کہ بعض جدت پسند یا اسلام کی مخالفت کرنے والے اس بات پہ اعتراض کرتے ہیں کہ پردے کا حکم صرف عورتوں کے لیے کیوں ہے، مردوں کو کیوں کھلی چھوٹ دی گئی ہے مگر تھوڑا سا غور کرلینے سے انہیں معلوم ہو جاتا کہ یہ حکم تو ہے ہی پہلے مردوں کے لیے۔ عورت کو تو بعد میں مخاطب کیا گیا۔ عورت کو اس لیے مزید احتیاط برتنے کا حکم دیا گیا کیونکہ وہ جسمانی ساخت اور قویٰ کے لحاظ سے فطرتاً کمزور ہوتی ہے ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام انسانی فطرت کو بیان کرتے ہوئے فر ماتے ہیں کہ
’’اسلا م نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفس انسانی پھسلنے اور ٹھوکر کھا نے کی حد سے بچا رہے۔ کیو نکہ ابتداء میں اس کی یہی حا لت ہو تی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذرا سی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے جیسے کئی دنوں کا بھوکا آ دمی کسی لذیذ کھا نے پر۔ یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرے…یہ ہے سِرّ اسلامی پردہ کا اور میں نے خصو صیت سے اسے ان مسلمانو ں کے لئے بیان کیا ہے جن کو اسلام کے احکام اور حقیقت کی خبر نہیں۔ ‘‘
( تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد ششم صفحہ93)
پھر ایک جگہ آ پؑ فرما تے ہیں:
’’مومن کو نہیں چا ہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محا با اپنی آنکھ کو ہر طرف اٹھائے پھرے، بلکہ یَغُضُّوْا مِنْ اَ بْصَا رِ ھِمْ۔ (النور: 31)پر عمل کرکے نظر کو نیچی رکھنا چا ہئے اور بدنظری کے اسباب سے بچنا چا ہئے۔ ‘‘
(ملفو ظات جلد اوّل صفحہ 533 ایڈیشن 1988ء تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد ششم صفحہ 91)
اسلام کی یہ خوبصورت تعلیم جو کہ پردہ کے متعلق ہے قرآن کریم، احادیث رسول کریمﷺ اور پھر حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہےاوراسی تعلیم کو خلفائے احمدیت نے اپنے اپنے دَور میں خوب وضاحتوں کے ساتھ آگے پہنچایا ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:
’’گھونگٹ کا پردہ بہ نسبت اس پردہ کے جو آج کل ہمارے ملک میں رائج ہے، سے زیادہ محفوظ تھا … بہر حال ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ دینی احکام پر عمل کرے (چہرے کا پردہ کرے) اور اگر کہیں اس عمل میں کمزوری پائے جاتی ہے تو اُسے دُور کرے۔‘‘
(الفضل 5؍اپریل 1960ء)
آپؓ مزید فرماتے ہیں:
’’اگر کسی حسین پر پہلی نظر پڑ جائے تو تم دوبارہ اس پر ہرگز نظر نہ ڈالو اس سے تمہارے قلب میں ایک نور پیدا ہو گا۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد3صفحہ213)
حضرت مصلح موعودؓ پردہ کے متعلق فرماتے ہیں:
’’وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اسلام میں منہ چھپانے کا حکم نہیں ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ زینت چھپاؤ اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہی ہے۔ اگر چہرہ چھپانے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے جس کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ301)
پھر ایک اور جگہ فرمایا:
’’جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ عورت کُھلے منہ نہ پھرے اور مردوں سے اختلاط نہ کرے۔ ہاں اگر وہ گھو نگٹ نکال لے اور آنکھوں سے راستہ دیکھے تو یہ جائز ہے لیکن منہ سے کپڑا اٹھا دینایا مکسڈ (mixed) پارٹیوں میں جانا جبکہ اِدھر بھی مرد بیٹھے ہوں اور اُدھر بھی مرد بیٹھے ہوں اور ان کا مردوں سے بے تکلفی کے ساتھ غیر ضروری باتیں کرنا یہ ناجائز ہے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 304)
پھر ایک اور اہم بات بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ خداتعالیٰ نے پردے کو مسلمان عورتوں کی پہچان قرار دیا ہے چنانچہ خداتعالیٰ فرماتا ہے:
(ترجمہ) اے نبی! تو اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کو اپنے اُوپر جُھکا دیا کریں۔ یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی نہ جائیں اور انہیں تکلیف نہ دی جائے اور اللہ بہت بخشنے والا ( اور) باربار رحم کرنے والا ہے۔
(الاحزاب:60)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں پردے کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پردے کے ذریعہ غیر مسلم عورتوں کے بالمقابل مسلمان عورتوں کی ایک پہچان رکھی گئی ہے۔ ورنہ یہود کہہ سکتے تھے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہ مسلمان عورت ہے اس لئے ہم نے اسے چھیڑا۔‘‘
(ترجمۃالقرآن از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ 741)
قرآن کریم کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ اس میں پردے سے متعلق سات آیاتِ مبارکہ نازل ہوئیں، جن میں سے چار سورۃالاحزاب اور تین سورۂ نور میں شامل ہیں۔ پردے کے احکام کا مطالعہ کریں تو چار بڑے واضح مقاصد نظر آتے ہیں۔ (1) انسان اشرف المخلوقات ہے اور پردے کا مقصد اسے حیوانی طرزِ زندگی، مادر پدر آزاد، مخلوط معاشرے، جنسی بے راہ روی، شہوت پرستی و بے حیائی سے تحفّظ دے کر پاکیزہ ماحول فراہم کرنا ہے۔ (2)عورت اور مَرد گاڑی کے دو پہیے ہیں، لہٰذا عورتوں اور مَردوں کے مکارمِ اخلاق اور شخصی عزّت و احترام کو مکمل طور پر محفوظ کردیا جائے تاکہ دونوں شرعی احکام کی روشنی میں پاکیزہ خاندان کی بنیاد رکھ سکیں۔ (3) اسلام نے مرد اور عورت، دونوں کی حدود مقرّر کردی ہیں۔ پردہ دونوں کے جداگانہ دائرۂ عمل کو اس طرح تحفّظ فراہم کرتا ہے کہ دونوں اپنے مقرّر کردہ امور بخوبی انجام دیں اور دنیا میں سرخ رُوی کا باعث بنیں۔ (4)گھر، خاندان، عزیز و اقارب اور ہمسایوں کے درمیان ایک مضبوط، پُرامن اور محفوظ نظام کی بنیاد رکھ دی جائے، جس سے ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آسکے۔ جہاں ایک دوسرے کا احترام، عزّتِ نفس اور حقوق و فرائض کی بجا آوری بہتر طریقے سے ممکن ہو۔ اس کے برعکس، جب کسی معاشرے میں بے پردگی عام ہوجائے، تو وہ بنیادی انسانی اوصاف سے عاری ہوجاتا ہے۔ پھر وہاں عزّت و عصمت، تقدّس و حرمت اور شرم و حیا کی حفاظت ممکن نہیں رہتی۔
اسی طرح ایک خوبصورت واقعہ بطور مثال ہمارے سامنے پیش کیا جو عورت کی حیا کو مزید جلا بخشتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تقریباً ساڑھے تین ہزار سال قبل مدین کی ایک عورت کی حیا کا ذکر موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں کیا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام مدین کے کنویں پر پہنچے تو وہاں شعیب کی بیٹیوں نے حیا داری کی اعلیٰ منظر کشی کی، اس منظر کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان دونوں کی عفت اور مردوں سے دوری دیکھی تو ان کے جانوروں کو خود ہی پانی پلا دیا، اسی واقعہ کو قرآن نے یوں بیان کیا:
وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدۡیَنَ وَجَدَ عَلَیۡہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسۡقُوۡنَ ۬۫ وَ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِہِمُ امۡرَاَتَیۡنِ تَذُوۡدٰنِ ۚ قَالَ مَا خَطۡبُکُمَا ؕ قَالَتَا لَا نَسۡقِیۡ حَتّٰی یُصۡدِرَ الرِّعَآءُ ٜ وَ اَبُوۡنَا شَیۡخٌ کَبِیۡرٌ۔ (القصص: 24)
پس جب وہ مدین کے پانی کے گھاٹ پر اترا۔ اس نے وہاں لوگوں کی ایک جماعت کو (اپنے جانوروں کو) پانی پلاتے ہوئے دیکھا اور ان سے پرَے دو عورتوں کو بھی موجود پایا جو اپنے جانوروں کو پرَے ہٹا رہی تھیں۔ اس نے پوچھا کہ تم دونوں کا کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہم پانی نہیں پلائیں گی یہاں تک کہ چرواہے لَوٹ جائیں اور ہمارا باپ بہت بوڑھا ہے۔
ان دونوں کی عفت اور مردوں سے الگ تھلگ رہنا حیا کے باعث تھا، اور حیا ہی مسلمان خاتون کا شعار ہوتا ہے نیز حیا اچھی تربیت کی علامت ہے۔
انہی آیات میں اچھے کردار کے ایک اور منظر کی جانب بھی اشارہ موجود ہے کہ جب چال اور انداز گفتگو میں بھی حیا اور اطمینان چھلک رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے واپس آنے والی لڑکی کی مدح سرائی فرمائی کہ وہ چلتے ہوئے حیا سے لبریز تھی۔ چنانچہ وہ نہ ہی اٹھلائی، بے پردگی بھی نہ کی اور نہ ہی نرم لہجے میں بات کی
فَجَآءَتۡہُ اِحۡدٰٮہُمَا تَمۡشِیۡ عَلَی اسۡتِحۡیَآءٍ ۫ قَالَتۡ اِنَّ اَبِیۡ یَدۡعُوۡکَ لِیَجۡزِیَکَ اَجۡرَ مَا سَقَیۡتَ لَنَا
پس ان دونوں میں سے ایک اس کے پاس حیا سے لجاتی ہوئی آئی۔ اس نے کہا یقیناً میرا باپ تجھے بلاتا ہے تاکہ تجھے اس کا بدلہ دے جو تُو نے ہماری خاطر پانی پلایا۔ (القصص: 26)
اس لڑکی کی چال میں اتنی حیا تھی کہ اللہ تعالیٰ نے تعریف کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے۔ حیا کو تمام اخلاق میں ایک غیرمعمولی امتیاز اور نمایاں مقام حاصل ہے اور بعض پہلوؤں سے وہ تمام اخلاق کا محافظ بن جاتا ہے۔ یہ وہ خلقِ عظیم ہے جو آغاز سے ہی مامورین اور خدا کے مقربین کی نمایاں صفات میں شامل رہا ہے۔ حیا انسان کے لیے ایسی قدرتی اور فطری ڈھال ہے جس کی پناہ میں آپ معاشرے کی تمام گندگیوں سے محفوظ رہتے ہیں اور اُخروی ثواب کے حقدار بن جاتے ہیں۔
قرآن کریم کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقوال وافعال سے بھی حیا اور پردے کے حکم کی پورے طور پر وضاحت بیان فرما دی ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے چند احادیث درج ہیں جن سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حیا اور پردے کا مضمون کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے:
اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً؛ وَالْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ الْاِیْمَانِ۔
’’ ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ ‘‘
(مسلم في کتاب الایمان، باب بیان عدد شعب الایمان، رقم152)
( حدیقۃ الصا لحین صفحہ 446حد یث نمبر826، ایڈیشن2019ء)
حیا ایمان کاجز وہے۔ ایمان انسانی زندگی کا چراغ ہے اور حیا اس کی روشنی ہے۔ جس طرح چراغ اور روشنی لازم وملزوم ہیں اسی طرح حیا اور ایمان کا باہم رشتہ ہے۔ اس کی اہمیت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں حیاکا اعلیٰ مقام رہاہے۔
حضرت ابو مسعود انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلی نبوت کے کلام سے جو لوگوں نے محفوظ رکھا یہ بھی ہے کہ جب تم حیانہیں کرتے تو پھر تم جو چاہے کروحدیث مبارکہ کے الفاظ یہ ہیں۔
اِذْ لَمْ تَسْتَحْی فَا صْنَعُ مَا شِئْتَ
(بخاری کتاب الادب باب اذ لم تستھی فاصنع ماشئت)
ایک اور حدیث شریف میں ارشاد ہوتا ہے
’’حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہے۔ ‘‘
( راوی حضرت ابن عمر بیہقی فی شعب الاایمان140/6حدیث 7727)
(باقی آئندہ)