الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

مذاہب عالم میں بیوہ کی شادی کے متعلق تعلیمات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 9؍فروری2013ء میں مکرم ڈاکٹر (۔)صاحب کے قلم سے شائع ہونے والے ایک تفصیلی مضمون میں مذاہب عالم میں بیوہ کی شادی کے متعلق بیان کردہ تعلیمات کو پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ صرف اسلام کی تعلیمات ہی عورتوں اور خصوصاً بیواؤں کا احترام سکھاتی ہیں۔

بنگلورکا انگریز پادری جیمز اپنی سوانح میں لکھتا ہے:

مجھے ایک صاحب کی طرف سے رقعہ موصول ہوا کہ ان کے گھر کے قریب ستی کی رسم ادا کی جائے گی۔ میں جلدی سے ان کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس کے لیے خاطر خواہ تیاریاں ہوچکی ہیں۔ میری بائیں طرف بھیانک نظر آنے والاایک ڈھیر جمع کیا گیا تھا۔ یہ گائے کے اوپلوں کا ایک بیضوی ڈھیر تھا جو کہ ایک بستر کی طرز پر بنایا گیا تھا۔ اس کی لمبائی تقریباً دس فٹ، چوڑائی سات فٹ اور اونچائی تین فٹ تھی۔ اس کے چاروں طرف لکڑیاں گاڑی گئی تھیں جن پر ایک سائبان باندھا گیا تھا۔ اس رسم کو ادا کرنے والے برہمن اس سائبان کے اوپر ایندھن کے گٹھے پھینکتے رہے یہاں تک کہ یہ سائبان کے اوپر تقریباً دو فٹ اونچے ڈھیر کی صورت میں جمع ہو گئے۔ میری دائیں طرف وہ بیچاری فریب زدہ بیوہ کھڑی تھی جس نے ہندوؤں کی پاکیزگی اور شرافت کے اس دل دہلا دینے والے مظاہرے کا نشانہ بننا تھا۔ ایک درجن یا اس سے زائد برہمن اس کے پاس موجود تھے۔ اس بیوہ کی ماں، بہن، تین سالہ بیٹا اور دوسرے رشتہ دار بھی اس کے پاس موجود تھے۔ برہمنوں نے بڑی چالاکی سے اُس کے ایک سالہ بچے کو اُس سے دُور رکھا ہوا تھا۔ یہ بیوہ اس موقع کی تیاری کے لیے بہت سی رسومات ادا کرچکی تھی۔ ان میں سے ایک رسم یہ تھی کہ یہ عورت زعفران کے عرق سے نہائی تھی جس کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پاک کر دیتا ہے۔ اس نے اس عورت میں ایک بھیانک دہشت کا تاثر پیدا کر دیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں مایوسی اور وحشت تھی۔ کبھی کبھی یہ اپنے چہرے پر زبردستی ایک غیر فطرتی مسکراہٹ لے آتی تھی۔ اس کی حرکات و سکنات اس بات کو واضح کر رہی تھیں کہ اسے نشہ آور اشیاء کی خاطر خواہ مقدار دی گئی تھی۔ میرے قریب ہی وہ مقامی عہدیدار کھڑا تھا جو کہ پولیس کا انتظام کرنے کے علاوہ سٹیشن کا ملٹری افسر بھی تھا۔ وہ دل و جان سے اس رسم میں شریک تھا، یہاں تک کہ اس نے بیوہ کو چھ سات پاؤنڈ کے برابر کی رقم اس غرض کے لیے دی تھی کہ وہ ستی ہونے کے عزم پر قائم رہے۔ پادری مسٹرCampbell نے بیوہ سے کرناٹک زبان میں بات کی لیکن برہمنوں نے اُن کی گفتگو کا اثر زائل کر دیا۔ اب اُس کے اوپر بھوسا پھینکا گیا۔ منتر پڑھے گئے۔ تیاری مکمل ہو گئی۔ وہ چوکھٹا جس میں اس بیوہ کے خاوند کی لاش تھی چھ برہمنوں نے اُ ٹھایا۔ اس ارتھی سے ایک رسی باندھی گئی تھی جس کے ایک سرے کو بیوہ نے پکڑ لیا اور یہ سب آہستہ آہستہ ایندھن کے ڈھیر کی طرف بڑھنے لگے۔ مقرر کیے گئے چار آدمیوں نے اپنی تلواریں نیام سے نکال لیں۔ اس عورت نے اُس ڈھیر کا سات مرتبہ طواف کیا جس کی نذر کچھ دیر کے بعد اس نے ہوجانا تھا۔ یہ عورت اپنے خاوند کی لاش کے بائیں طرف کھڑی ہو گئی۔ اس مرحلہ پر یہ بیوہ غصہ میں آگئی تو پانچ یا چھ برہمنوں نے اس سے پورے جوش سے بات کرنی شروع کی۔ آخر کار برہمنوں کی مدد کے ساتھ ایک مجبوری کے عالم میں یہ بیوہ اپنی تباہی کے بستر پر لیٹ گئی۔ اُس کی ماں اور بہن دُکھ کی کیفیت میں روتے رہے لیکن یہ سب بےکار تھا۔ خون کے پیاسے مرد جیت گئے تھے۔ اس بیوہ نے اپنی انگلیوں، ہتھیلیوں اور کانوں سے زیور اتارنے شروع کیے۔ اُس کے قاتلوں کے لالچی ہاتھ یہ زیور پکڑنے کے لیے آگے بڑھے۔ کچھ ہی دیر میں یہ زیور پروہتوں کے درمیان تقسیم ہو چکا تھا۔

یہ سب کچھ اس کی ماں اور بہن سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اس ڈھیر کی ایک طرف گئے اور اس کو آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ یہ رسم ترک کر دی جائے۔ لیکن یہ بیوہ ردِعمل سے خائف تھی۔ اس نے اپنی ماں اور بہن پر ایک نظر بھی نہیں ڈالی اور اپنے آپ کو اس ڈھیر میں پھینک دیا اور اپنے خاوند کی سڑتی ہوئی لاش کو اپنی بانہوں میں لے لیا۔ اس لاش اور زندہ عورت کے جسموں پر بھوسہ اور کچھ مصالحے پھینکے گئے۔ گائے کے گوبر کے جلتے ہوئے اوپلے بھی پھینکے گئے، گھی اور آتش گیر مادہ پھینکا گیا۔ پھر تلواریں سونت کر کھڑے چار مردوں نے سائبان کو سہارا دینے والی رسیاں کاٹ دیں تو اس سائبان کے اوپر موجود ایندھن کا ڈھیر اس عورت اور اس کے خاوند کی لاش پر گر گیا۔ ایک چیخ گویا میرے کانوں میں سوراخ کرتے ہوئے داخل ہوئی۔ ہجوم کے شور کے باوجود اذیت ناک چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔

ہمارے دل دہل گئے تھے ہم نے برہمنوں کی توجہ ان چیخوں کی طرف مبذول کرائی جو اب پہلے سے بھی زیادہ بلند ہو گئی تھیں۔ بہت سے برہمنوں نے اس بیوہ کو جو ابھی ہوش و حواس میں تھی پکار کر تسلی دینا شروع کی۔ اب تمام ڈھیر شعلوں کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ اس کی شدید تپش سے برہمن اور دوسرے لوگ کئی قدم پیچھے ہٹ گئے اور سنسکرت کا ایک بھجن پڑھنا شروع کیا۔ بھجن ختم ہو گیا مگر اس ڈھیر سے ابھی بھی چیخیں بلند ہو رہی تھیں۔ یہ چیخیں میرے کانوں میں چھید کر رہی تھیں اور ہمارے دل شق ہو رہے تھے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ میں کیاکر رہا ہوں۔ میں اس جگہ سے رخصت ہو گیا۔

(India Cries to British Humanity by James Peggs, p.7)

یہ واقعہ ہزار دو ہزار سال قبل کا نہیں ہے بلکہ 1826ء کا ہے۔ ایسے بہت سے واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ مختلف مذہبی کتب میں بیواؤں کے ساتھ کیا سلوک کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں یہ اپنی ذات میں ایک چشم کشا مضمون ہے۔ خاص طور پر ان کی دوسری شادی کے متعلق کیا ہدایات دی گئی تھیں۔ یہ بات اپنی ذات میں ایک اہمیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سےچند مذاہب اور سماجی رسوم پر نظر ڈالتے ہیں۔

ہندومت

کیا ویدوں میں بیوہ عورتوں کو ستی کرنے کے بارے میں کوئی ہدایت موجود ہے کہ نہیں۔ چاروں وید میں سے رگوید سب سے قدیم وید مانا جاتا ہے۔ اس میں درج ذیل چند سطروں کے بارے میں بہت سے لوگوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ اس میں ستی کا ذکر موجود ہے۔

ترجمہ: معزز خاوندوں کی بیگمات جن کی بیوگی ختم کی جا رہی ہو اپنے آپ کو خوشبودار اشیاء اور مرہموں سے مزین کریں۔ خوبصورت موتیوں سے اپنے آپ کو آراستہ کریں اور غم سے بالکل آزاد ہو کر پہلے وہاں جائیں جہاں وہ لیٹا ہے۔

اُ ٹھو! اور زندگی کی دنیا میں آؤ اے عورت، وہ مُردہ ہے جس کے ساتھ تم لیٹی ہو۔

(Rigveda, Book 10, Hymn 18, verse 7&8)

اسی طرح اتھر وید میں ایک جگہ پر بیان ہوا ہے:

ترجمہ: تم دونوں جس عمر میں بھی شادی کے بندھن میں بندھے تھے۔ وہ یاما کی سلطنت میں تمہاری مشترکہ زندگی شمار ہو۔ تمہاری نظر پہلی کی طرح تیز ہوگی، تمہاری طاقت اتنی ہی ہوگی۔ تمہاری طمع اتنی ہی ہو گی اور جب چتا کے شعلے لاش کو اپنی لپیٹ میں لیں گے تو تم ایک جوڑے کی حیثیت سے اس سے اُٹھو گے۔ تم اس دنیا میں اکٹھے آؤ۔ اس راہ پر جو یاما کی سلطنت میں دیوتاؤں تک لے کر جاتی ہے۔

(Sacred Books of the East, Vol. 42 p 185)

ہندو لٹریچر میں یاما کی سلطنت یا یاما کی دنیا سے مراد اگلا جہان ہے۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کے نزدیک مندرجہ بالا حوالوں میں ستی کرنے کا ذکر ہے لیکن کئی ہندو اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے۔

اگرچہ یہ تو عملاً نہیں ہوتا رہا کہ ہندو مذہب سے وابستہ ہر بیوہ کو اس کے خاوند کی موت پر اس کے ساتھ ہی آگ کے شعلوں کی نذر کر دیا جاتا ہو۔ لیکن ایک بڑی تعداد میں عورتوں کو ستی کیا جاتا تھا۔ James Peggs کی کتاب India Cries to British Humanity میں درج اعداد و شمار کے مطابق 1815ء اور1824ء کے درمیان بنگال میں ستی ہونے والی ہندو عورتوں کی تعداد5997تھی اور یہ تعداد صرف ان عورتوں کی تھی جن کا ستی ہونا مجسٹریٹ کے علم میں آیا تھا جبکہ اصل تعداد یقیناً اس سے بہت زیادہ ہوگی۔

یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں ہندو مت کی پیرو کار بہت سی عورتیں بیوگی کی زندگی بسر کرتی تھیں۔ لیکن دیکھتے ہیں کہ ان کے متعلق ہندوؤں کے مذہبی قوانین میں کیا ہدایتیں مذکور تھیں۔ ہندو مقدس قانون ’’منودھرم شاستر‘‘ میں لکھا ہے: برہمن، کھشتری اور ویش کی بیوہ سوائے اپنے خاوند کے کسی دوسرے کے ساتھ مباشرت کی مجاز نہیں۔ اس لیے کہ اسے کسی دوسرے کے ساتھ مباشرت کی اجازت دینے والے ابدی قانون کی خلاف ورزی کریں گے۔

شادی سے متعلق مقدس صحائف کے احکام میں (بیواؤں کے) اس طور تفویض کیے جانے کا ذکر ملتا ہے اور نہ ہی ان کی دوسری شادی کا…۔ لکھا ہے: اس زمانے سے نیک لوگ اس (شخص)کی مذمت کرتے آئے ہیں جو اپنی جہالت میں، مر جانے والے کی بیوی کو (کسی دوسرے کی) اولاد پیدا کرنے پر تفویض کرتے ہیں۔ (منو دھرم شاست با ب نہم)

پس ان قوانین کی رُو سے اگر بیوہ ستی سے بچ بھی جائے تو اس کے لیے دوسری شادی کرنے کی ممانعت ہے۔

ہندو مقدس قانون ’’منو دھرم شاستر‘‘ میں ایسی بیوہ عورتوں کے متعلق جن کے خاوند محض شادی کے ز بانی اقرار کے بعد مر جائیں لکھا ہے:

شادی کے زبانی اقرار کے بعد ہونے والا شوہر مر جاتا ہے تو دوشیزہ کا دیور یا جیٹھ مندرجہ ذیل قانون کے مطابق اس سے شادی کرے گا۔

قانون کے مطابق کنیا کو سفید کپڑوں میں ملبوس رخصت کیا جائے۔ حیض کے دنوں کو چھوڑ کر (مہینہ میں صرف ایک بار) اس سے رجوع کرے حتیٰ کہ حمل ٹھہر جائے۔

کسی ذی ہوش کو اپنی بیٹی ایک شخص کو ایک بار دینے کے بعد کسی دوسرے کو نہیں دینی چاہئے۔ اس لئے کہ ایسے شخص پر ایک انسان کے حوالے سے غلط بیانی کا الزام آتا ہے۔

(منو دھرم شاست با ب نہم)

اس قانون کی رُو سے بیوہ صرف اپنے خاوند کے بھائی سے شادی کر سکتی ہے اور یہ تعلق بھی صرف ایک بچہ کی پیدائش تک رہے گا۔ بعد میں ہندو مذہب میں بہت سے مقدس قوانین ترتیب دیے گئے جن میں بیوہ عورتوں کے ستی ہونے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ چنانچہ ’’وشنو سمرتی‘‘میں لکھا ہے:

اگر کوئی اپنے رشتہ دار کے ساتھ مرے بھی تو وہ اپنے مُردہ رشتہ دار کے ساتھ نہیں جاسکتا۔ بیوی کے علاوہ اَور کسی کو ایک شخص کے ساتھ یاما کے راستہ پر جانے کی اجازت نہیں۔

(Sacred Books of the East, The Institutes of Visnu, Vol.7, p.81)

پھر اسی کتاب میں مزید لکھا ہے: عورت اپنے خاوند کی موت کے بعد یا پاکدامنی کے ساتھ زندگی بسر کرے یا اس کے ساتھ چتا پر چڑھ جائے۔ (p.111)

مذکورہ حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم ہندو تہذیب میں بیوہ عورتوں کو ستی کرنے کا رواج موجود تھا تاہم کچھ بیوگان کو زندہ رہنے کی تو اجازت تھی لیکن اُس کی دوسری شادی کرنی ہو تو یہی پسندید ہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنے خاوند کے بھائی سے شادی کرے اور یہ تعلق بھی ایک بچے کی پیدائش تک رہنا پسندیدہ سمجھا جاتا تھا۔

قدیم چینی مقدّس لٹریچر

قبل مسیح کے قدیم چینی لٹریچر Shih میں بہت قدیم نظمیں محفوظ ہیں۔ ایک نظم بعنوان Pai Kau کا پس منظر یہ ہے کہ شاہی خاندان کی ایک جوان بیوہ کی ماں اُس بیوہ کی دوبارہ شادی کرنا چاہتی ہے تب وہ اس نظم میں اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے اور اپنے خاوند کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اب مَیں موت تک کسی اَور کو اپنا ساتھی نہیں بناؤں گی۔

(Sacred Books of the East Vol.3, p434-435 The Shih King)

بائبل کی ہدایات

بائبل میں بیوہ کی دوسری شادی کے متعلق بہت عجیب ہدایات موجود ہیں۔ مثلاً لکھا ہے:

اگر کئی بھائی مل کر ساتھ رہتے ہوں اور ایک ان میں سے بے اولاد مر جائے تو اس مرحوم کی بیوی کسی اجنبی سے بیاہ نہ کرے بلکہ اس کے شوہر کا بھائی اس کے پاس جا کر اُسے اپنی بیوی بنالے اور شوہر کے بھائی کا جو حق ہے وہ اس کے ساتھ ادا کرے اور اس عورت کے جو پہلا بچہ ہو وہ اس آدمی کے مرحوم بھائی کے نام کا کہلائے تاکہ اس کا نام اسرائیل میں سے مٹ نہ جائے اور اگر وہ آدمی اپنی بھاوج سے بیاہ کرنا نہ چاہے تو اس کی بھاوج پھاٹک پر بزرگوں کے پاس جائے اور کہے میرا دیور اسرائیل میں اپنے بھائی کا نام بحال رکھنے سے انکار کرتا ہے اور میرے ساتھ دیور کا حق ادا کرنا نہیں چاہتا۔ تب اس کے شہر کے بزرگ اس آدمی کو بلوا کر اسے سمجھائیں اور اگر وہ اپنی بات پر قائم رہے اور کہے مجھ کو اس سے بیاہ کرنا منظور نہیں۔ تو اس کی بھاوج بزرگوں کے سامنے اس کے پاس جاکر اس کے پاؤں کی جوتی اتارے اور اس کے منہ پر تھوک دے……۔ (استثناء۔ باب 25)

یہ عجیب ہدایات ہیں۔ ایک ایسی بیوہ ہے جس کی اولاد بھی نہیں۔ اس فرضی فلسفہ کی بنیاد پر اُسے زبردستی اپنے دیور سے شادی پر مجبور کیا جارہا ہے کہ اس طرح مرحوم شوہر کا نام رہ جائے گا۔ اور اگر کوئی دیور بیچارہ انکار کرتا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے لیکن ان ہدایات کی رُو سے اس کو سر عام اتنا ذلیل کیا جائے گا کہ اس کے منہ پر تھوکا جائے گا۔ مثل مشہور ہے کہ ’’میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی‘‘ لیکن یہاں یہ عالم ہے کہ نہ میاں راضی اور نہ بیوی راضی صرف قاضی ہی اپنی من مانی کر رہا ہے۔

مختصراً یہ کہ ظہورِ اسلام سے قبل سابقہ تعلیمات میں یہ پسندیدہ سمجھا جاتا تھا کہ خاوند کی موت کے بعد عورت اگر جوان بھی ہو تو دوسری شادی نہ کرے اور اس کی ایک انتہائی صورت ستی کی ظالمانہ رسم تھی جس میں خاوند کی موت کے بعد اس کی لاش کے ساتھ اس کی بیوی کو بھی شعلوں کی نذر کردیا جاتا تھا یا دوسری صورت یہ ہوتی تھی کہ اگر عورت نے دوسری شادی کرنی بھی ہے تو اس پابندی کے ساتھ کہ وہ خاوند کے بھائی کے ساتھ شادی کرے۔ گویا وہ وراثت میں آیا ایک مال ہے جس پر مرد کے رشتہ دار قبضہ کر لیتے ہیں۔

عربوں کے رواج

آنحضرتﷺ کی لائی ہوئی تعلیم نے ان سابقہ رسوم اور قیود کو ختم کر کے بالکل ایک نئے دَور کا آغاز کیا اور بیوہ عورتوں کے حقوق قائم فرمائے۔ سنن ابو داؤد میں ایک باب میں سورۃ النساء کی آیت 20 کے متعلق روایات درج کی گئی ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اے ایماندارو! تمہارے لئے (یہ) جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ…‘‘۔

اسی باب کی ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’جب خاوند مرجاتا تھا تو اس کے وارث اس کی بیوی پر زیادہ حقدار سمجھے جاتے تھے بہ نسبت عورتوں کے وارثوں کے۔ بعض اس کا نکاح اپنے آپ سے کر لیتے تھے یا اگر چاہتے کسی اَور سے کردیتے۔ اگر چاہتے بالکل نکاح نہ کرنے دیتے تب یہ آیت اتری۔ ‘‘

اگلی حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے ہی مروی ہے کہ مرد اپنے عزیز کی جورو کا وارث ہوتا۔ پھر اس کو دوسرا نکاح نہ کرنے دیتا یہاں تک کہ مر جاتی یا جو مہر لیا ہے اس کو واپس کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابو داؤد)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بائبل کی تعلیم ا ور ہندوؤں کے مقدّس قوانین سے ملتا جلتا رواج اس دَور کے عرب میں بھی رائج تھا کہ بیوہ کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار خاوند کے وارثوں کو ہوتا تھا اور یہی مناسب سمجھا جاتا تھا کہ بیوہ یا تو شادی نہ کرے اور اگر کرے تو اپنے خاوند کے رشتہ داروں میں کرے۔

قرآنی تعلیم

قرآنِ کریم نے سماجی قیود کو ختم کیا اور بیوہ عورت کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کے حقوق دیے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اور تم میں سے جو لوگ وفات دیئے جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔ تو وہ (بیویاں ) چار مہینے اور دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں۔ پس جب وہ اپنی (مقررہ) مدّت کو پہنچ جائیں تو پھر وہ (عورتیں ) اپنے متعلق معروف کے مطابق جو بھی کریں اس بارہ میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ با خبر رہتا ہے۔ (البقرہ 235)

دوسرے مذاہب کی مقدس تحریروں میں بیوہ کی شادی کو معیوب بیان کیا گیا تھا یا بیوہ عورتوں کے لیےستی جیسے ظالمانہ رواج موجود تھے۔ اگر کوئی راستہ بیان کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ اسے زبردستی خاوند کے بھائی کے پلّے باندھ دیا جائے تاکہ اس طرح اس کے مرنے والے خاوند کا نام باقی رہے۔ لیکن ان تعلیمات اور روایات کے برعکس قرآنِ کریم نے یہ اعلان کیا کہ عدّت کے بعد بیوہ عورتیں اپنے بارے میں معروف کے مطابق فیصلہ کرسکتی ہیں۔

ایک اور آیت میں بیوہ عورتوں کی شادی کی تاکید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور تمہارے درمیان جو بیوائیں ہیں ان کی بھی شادیاں کراؤ اور اسی طرح جو تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے نیک چلن ہوں ان کی بھی شادیاں کراؤ۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی بنا دے گا اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔ (سورہ نور)

آنحضرتﷺ نے تاکید فرمائی تھی کہ بیوہ کی شادی اس کی اجازت اور مرضی کے مطابق کی جائے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ (صحیح بخاری)

قبل از اسلام، مختلف مذاہب میں یا تو بیوہ کی دوسری شادی کو ناپسندیدہ سمجھا گیا تھا یا پھر اس کی آزادی پر یہ قدغن لگائی گئی تھی کہ وہ اپنے مرنے والے خاوند کے گھر میں شادی کرے۔ لیکن آنحضرتﷺ نے یہ تاکید فرمائی کہ اگر بیوہ کا کفو میسر ہو اور اس کی رضا مندی حاصل ہو تو اس کی شادی جلدی کردینی چاہیے۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: اے علی!تین چیزیں ایسی ہیں جن میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ نماز جب اس کا وقت قریب ہوجائے۔ جنازہ جب حاضر ہوجائے اور بیوہ جب اس کا کفو موجود ہو۔ (ترمذی)

بیوگان کا نکاح

ایک شخص کا سوال حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں پیش ہوا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کن صورتوں میں فرض ہے۔ اس کے نکاح کے وقت عمر، اولاد، موجودہ اسباب، نان و نفقہ کا لحاظ رکھنا چاہیے یا کہ نہیں؟ یعنی کیا بیوہ باوجود عمر زیادہ ہونے کے یا اولاد بہت ہونے کے یا کافی دولت پاس ہونے کے ہرحالت میں مجبور ہے کہ اس کا نکاح کیا جائے؟

فرمایا: بیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے۔ چونکہ بعض قومیں بیوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خیال کرتے ہیں اور یہ بدرسم بہت پھیلی ہوئی ہے۔ اس واسطے بیوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر بیوہ کا نکاح کیا جائے۔ نکاح تو اسی کا ہوگا جو نکاح کے لائق ہے اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے۔ بعض عورتیں بوڑھی ہوکر بیوہ ہوتی ہیں۔ بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہوتیں۔ مثلاً کسی کو ایسا مرض لاحق ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہیں یا ایک کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہیں کرسکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے۔ ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرایا جائے۔ ہاں اس بدرسم کو مٹا دینا چاہئے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبراً رکھا جاتا ہے۔

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 320-319)

فرمایا: اگر کسی عورت کا خاوند مرجائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو دوسرا خاوند کرنا ایسا برا جانتی ہے جیساکہ کوئی بڑا بھاری گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر، بیوہ اور رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاکدامن بیوی ہوگئی ہوں۔ حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے۔ عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کرلینا نہایت ثواب کی بات ہے۔ ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں برے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کرلے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے۔ ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود لعنتی اور شیطان کی چیلیاں ہیں۔ جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے۔ جس عورت کو رسول اللہﷺ پیارا ہے اس کو چاہئے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلاش کرلے اور یاد رکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صدہا درجہ بہتر ہے۔

(ملفوظات جلد5صفحہ47)

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button