احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
عیسائیت کے خلاف جہاد
عیسائیوں کے ساتھ مذہبی بات چیت کا سلسلہ تو ان ایام میں شروع ہواتھا۔ جب آپؑ سیالکوٹ میں مقیم تھے۔ اور اس کا تفصیلی ذکر گذشتہ اقساط میں ہوچکاہے۔
حضرت اقدسؑ جب واپس قادیان تشریف لے آئے تو علی العموم بٹالہ جانے کا اتفاق ہوتا تھا جہاں عیسائی مشن قائم تھا۔ اندر ہی اندر بعض مسلمانوں میں ارتداد کا سلسلہ بھی جاری ہو چکا تھا۔ حضرت اقدسؑ کو اس کے معلوم کرنے سے سخت صدمہ ہوا۔ منشی نبی بخش پٹواری جو عرصہ دراز تک خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے پاس بھی رہے ہیں۔ اس فتنہ کے نقصانات اور اثرات کو محسوس کر کے آپؑ کی خدمت میں حاضر ہونےلگے۔ آپؑ کے سامنے وہ اعتراضات جو عیسائی کرتے تھے۔ وہ پیش کرتے۔ حضرت ان کے جوابات پورے طور پر آپ کو سمجھا دیتے تھے۔ منشی نبی بخش صاحب کہا کرتے تھے کہ حضرت ان کو اجازت دیتے کہ پورے طور پر مباحثہ کر لو۔ تا کہ تم کو گفتگو کرنے میں دقّت واقع نہ ہو۔ چنانچہ وہ نہایت آزادی اور دلیری کے ساتھ سوالات کرتے۔ حضرت جواب دیتے اور وہ پھر اعتراض کرتے اور پھر جواب لیتے۔ یہاں تک کہ پورے طور پر وہ طیار ہو کر جاتے اور پھر عیسائیوں سے مباحثہ کرتے۔ میاں نبی بخش صاحب کہتے تھےکہ حضرت کے پاس مرزا پورکی چھپی ہوئی بائبل تھی۔ اور آپؑ نے اس کو کئی مرتبہ پڑھا تھا۔ بعض اوقات خود بائبل پر نشان کرتےیا الگ حوالہ جات لکھتے تھے۔ اور میں ان کو خوب یاد کر لیتا۔ اور لکھ لیتا۔
منشی نبی بخش صاحب کہتے تھے کہ حضرت مجھ کو عیسائیوں کے اعتراضات کے جوابات دو قسم کے دیا کرتے تھے۔ الزامی اور تحقیقی۔ الزامی جوابات کے متعلق آپؑ کا ارشاد یہ ہوتا تھاکہ جب تم کسی جلسۂ عام میں پادریوں سے مباحثہ کرو۔ تو ان کو ہمیشہ الزامی جواب دو۔ اس لیے کہ ان لوگوں کی نیت نیک نہیں ہوتی۔ اور لوگوں کو گمراہ کرنا اور اسلام سے بدظن کرنا اور آنحضرتﷺ پر حملہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ پس ایسے موقع پر الزامی جواب ان کے منہ کو بند کردیتا ہے۔ اور عوام جو اس وقت محض تماشے کے طور پر جمع ہو جاتے ہیں۔ ایسے جواب سے متاثر ہو کر ان کے فریب میں نہیں آتے۔ لیکن اگر کسی ایسے شخص سے گفتگو کرو جو ان کے پھندے میں پھنس چکا ہو یا جس پر ایسا شبہ ہو کہ وہ اس پر یہ ڈورے ڈال رہے ہیں تو اس کو ہمیشہ تحقیقی جواب پہلے دو۔ اور اس پر مقابلہ کر کے دکھاوٴ۔ کہ اسلام اور عیسائیت کی تعلیم میں کیا فرق ہے۔ ایسے لوگوں کو اگر الزامی جواب پہلے دیا جائے تو وہ یہ ٹھوکر کھا سکتے ہیں کہ حقیقی جواب کوئی نہیں۔
غرض منشی نبی بخش صاحب پٹواری عیسائیوں کے اعتراضات لاتے اور ان کے جوابات دریافت کر کے اور اچھی طرح تیار ہو کر جاتے۔ اور بٹالہ کے پادریوں سے مباحثات کرتے جن میں پادری صاحبان نہایت خفیف ہوتے۔
انہی ایام میں بٹالہ کے ایک شخص مولوی قدرت الله نام عیسائی ہوگئے۔ منشی نبی بخش صاحب نے آ کر خبر دی تو آپؑ کو اس کے سننے سے طبعی طور پر تکلیف پہنچی۔ کہتے تھے کہ دیر تک آپؑ تاکید کرتے رہے کہ اسے سمجھاوٴ اور اگر میری ضرورت ہوئی تو میں خود وہاں جانے کو تیار ہوں۔ لیکن منشی نبی بخش صاحب کہتے تھے کہ میں نے عرض کیا کہ یہ قبول عیسائیت حق پژوہی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کی تہ میں بعض دنیوی اغراض ہیں۔ تو فرمایا کہ اگر کوئی مالی مدد دینی پڑے تو چندہ کر لو۔ میں بھی شریک ہو جاوٴں گا اس کے نام کے ساتھ مولوی کا لفظ ہے۔ عوام پر اس کا برا اثر پڑتا ہے۔ بہر حال آپ نے منشی نبی بخش صاحب کو تاکید کی کہ جس طرح ممکن ہو اسے سمجھا کر واپس لانا چاہیے۔ منشی نبی بخش صاحب کہتے تھے کہ میں نے عرض کیا کہ اگر ان سے مباحثہ کرنے میں کچھ سختی کرنی پڑے تو کیا کچھ سخت الفاظ بھی استعمال کر لیں۔ آپؑ نے فرمایاکہ سختی کرنے سے بعض اوقات دل سخت ہو جاتا ہے۔ اور پھر ایسے لوگوں کا واپس آنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے نرمی اور تالیف قلوب کا سلوک کرو۔ مولوی ضدی طبع ہوتے ہیں۔ اپنی ضد میں آ کر وہ حق اور ناحق کی پروا نہیں کرتے۔ غرض مولوی قدرت الله کو واپس لانے کے لیے آپؑ نے بہت بڑی تاکید کی۔ اور آپ کو اس کا بہت رنج تھا۔ اور فرمایا کہ اسلام سے کسی کا مرتد ہو جانایہ بہت بڑا امر ہے اس کو سرسری نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہم کو تو دوسروں کو اسلام میں لانا چاہیے۔ اگر ہماری غفلت سے مسلمان مرتد ہو جائے تو ہم سب خدا تعالیٰ کے حضور اس کے لیے جواب دہ ہوں گے۔ منشی نبی بخش صاحب ہر طرح سے تیار ہو کر گئے آپؑ نے فرمایا تھاکہ تم جا کر کوشش کرو۔ میں دعا کروں گا۔ اور تم اس سے تنہا ملو۔ لوگوں کے سامنے نہ ملنا اور نہ بحث کرنا۔ اس طریق سے بھی پچ پڑ جاتا ہے۔ منشی نبی بخش صاحب کہتے تھے کہ میں نے آپؑ کی نصیحت اور ہدایت پر عمل کیا۔ اوراس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولوی قدرت الله صاحب واپس اسلام میں آ گئے اور اس سے حضرت کو بہت خوشی ہوئی۔
قادیان میں بعض عیسائی مشنری
قادیان میں بعض عیسائی مشنری پادری بیٹ مین وغیرہ آ جایا کرتے تھے۔ مگر ان میں سے کبھی کوئی حضرت سے مذہبی گفتگو نہیں کرتا تھا۔ بلکہ بازار میں وعظ وغیرہ کہہ کر اور آپؑ سے ملاقات کر کے واپس چلے جاتے تھے۔ میرزا سلطان احمد صاحب کو البتہ شوق پیدا ہو گیا تھا اور وہ بالالتزام عیسائیوں کے ردّ میں مضامین لکھنے لگے تھے۔ اور اگر موقع ملتا۔ اور قادیان کوئی مشنری آ جاتا تو اس سے مباحثہ کر لیتے تھے۔ غرض عیسائی مشنری قادیان میں بہت ہی کم آتے۔ اور اگرآتے تو آپؑ سے سرسری ملاقات کر کے واپس چلے جاتے۔ وہ اس بات سے مایوس تھے کہ قادیان میں کوئی عیسائی ہو جائے گا۔
کشن سنگھ کے خیالات بدل دیے
پادری بیٹ مین صاحب کو بھائی کشن سنگھ کے متعلق علم تھا کہ یہ شاید عیسائی ہو جاوے گا۔ لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ وہ حضرت صاحب کے پاس آتا جاتا ہے تو اس نے کہہ دیا تھا کہ کشن سنگھ کے خیالات مرزا صاحب نے بگاڑ دیے ہیں۔ مطلب اس کا یہ تھاکہ اب عیسائیت کا جادو کشن سنگھ پر نہیں چلے گا۔ اس قِسم کی تقریبوں نے حضرت کو صلیبی فتنہ سے پورے طور پر واقف کر دیا تھا۔ اگرچہ آپؑ نے بہت عرصہ سے عیسائی فتنہ کے اثر کو محسوس کیا تھا۔ اور بہت چھوٹی عمر میں میزان الحق پڑھی تھی۔ اور جن ایام میں آپؑ بٹالہ پڑھ رہے تھے انہیں ایام میں بھی آپؑ نے ان کتابوں کو جو عیسائیوں اور آریوں نے اسلام کے خلاف لکھی تھیں پڑھا تھا۔ اور اسلام کے لیے ایک غیور فطرت رکھتے ہوئے ان پر بحث کیاکرتے تھے۔ تحفۃ الہند، خلعت ہنود وغیرہ کتابیں بھی ان ایام طالب علمی ہی میں آپؑ کے زیر مطالعہ رہ چکی تھیں۔ غرض آپ کے شب و روز اسلام کی حمایت اور اس کی تائید میں عملاًاور علماً صرف ہو رہے تھے۔ اور کوئی موقع اور فرصت ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ جس میں اسلام کی خدمت ہو سکے۔ چونکہ ذاتی طور پر شہرت اور نمود مقصود نہ تھا اس لیے دوسروں سے کام لے لیتے جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ بعض مضامین شیخ رحیم بخش صاحب کے نام سے چھپوا دیتے، ان کو لکھوا دیتے۔ اور ان کی طرف سے اخبارات میں چھپ جاتے۔ یا منشی نبی بخش صاحب پٹواری سے کام لیتے تھے۔ اس سے دوسروں میں شوق پیدا کرنا بھی زیر نظر تھا۔
حضرت نے اس فتنہ صلیب کو محسوس کیا ہواتھا۔ اور آپ کو اس قدر جوش اس فتنہ کے دور کرنے اور صلیبی غلبہ کو پاش پاش کرنے کے لیے تھاکہ میرزا سلطان احمد صاحب کہتے ہیں کہ اگر سارے جہان کا جوش ایک طرف ہو۔ اور حضرت والد صاحب مرحوم کا ایک طرف تو ان کا پلڑا بھاری ہو گا۔ اور اس کے لیے آپؑ کی پرانی تحریریں شاہد عدل ہیں اور آپ کی زندگی واقعات کا آئینہ۔
نور افشاں آپؑ باقاعدہ منگواتے۔ اور اس میں کیے ہوئے اعتراضات کے جوابات کبھی اپنے نام سے اور کبھی دوسروں سے بھی لکھوا دیتے تھے چونکہ شہرت سے نفرت تھی اور کبھی یہ مقصد بھی ہوتا تھاکہ لوگ آپؑ کےمضامین کے زور قلم سے واقف تھے۔ اس لئے کبھی دوسروں سے لکھوا دیتے تاکہ کوئی دوسرے نام پر بھی جواب دے۔ اس غرض کے لیے آپ کبھی شیخ رحیم بخش صاحب والد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے نام سے بھی چھپوا دیتے تھے۔
(ماخوذ از حیات احمدؑ جلداول صفحہ 409تا 419)
…………………(باقی آئندہ)