متفرق

بچوں کو سحری کے وقت اٹھا کر نوافل پڑھنے کی عادت ڈالی جائے

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’دوسری بات رمضان کے روزوں کے سلسلہ میں جو قادیان میں رائج دیکھی اور وہ بہت ہی ضروری اور مفید تھی جس کو میں نے دیکھا ہے کہ بعد میں بہت گھروں میں ترک کردیا گیا۔ وہ یہ تھی کہ روزہ شروع ہونے سے پہلے بچوں کواس وقت نہیں اٹھاتے تھے کہ صرف کھانے کا وقت رہ جائے بلکہ لازماً اتنی دیر پہلے اٹھاتے تھے کہ کم سے کم دو چار نوافل بچہ پڑھ لے اور مائیں کھانا نہیں دیتی تھیں بچوں کو جب تک پہلے وہ نفل سے فارغ نہ ہوجائیں ۔سب سے پہلے اٹھ کر وضو کرواتی تھیں اور پھر وہ نوافل پڑھاتی تھیں تا کہ ان کو پتہ لگے کہ اصل روزہ کا مقصد روحانیت حاصل کرنا ہے ۔ تہجد پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں پھر وہ کھانے پہ بھی آئیں اور اکثر اوقات اِلّا ماشاء اللہ تہجد کا وقت کھانے کے وقت سے بہت زیادہ ہوتا تھا ۔ کھانا تو آخری دس پندرہ منٹ میں بڑی تیزی سے بچے کھا کر فارغ ہو جاتے تھے اور تہجد کے لئے ان کو آدھا گھنٹہ پون گھنٹہ اتنا ضرور مہیاکردیا جاتا تھا ۔

اب جن گھروں میں بچوں کو روزہ رکھنے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے ان کو اس سلیقے کے ساتھ نہیں روزہ رکھایا جاتاکہ جو زیادہ اہم چیز ہے اس کی طرف متوجہ ہوں بلکہ آخری منٹوں میں جب کھانے کا وقت ہے ان کو کہہ دیا جاتا ہے آئو روزہ رکھ لو اوراسی کو کافی سمجھا جاتا ہے ۔اس لئے درست ہے کہ اسلام توازن کا مذہب ہے ، میانہ روی کا مذہب ہے لیکن میانہ روی کا مذہب ہے کم روی کا مذہب تو نہیں ۔ میانہ روی اختیار کرو۔ جہاں خدا نے فرض قرار دیا ہے وہاں اس کو فرض سمجھو۔ جہاں فرض نہیںقرار دیا وہاں اس رخصت سے خدا کی خاطر استفادہ کرو۔یہ نیکی ہے ،اس کا نام میانہ روی ہے۔

اس لئے جماعت کو اپنے روزہ کے معیار کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور روزے رکھوانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اورروزہ کا معیار بڑھانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے ۔مع‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍مئی1986ءخطباتِ طاہر جلد 5صفحہ392تا393)

روزہ رکھنے کی عمر

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزہ رکھنے کی عمر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’…کئی ہیں جو چھوٹے بچوں سے بھی روزے رکھواتے ہیں۔حالانکہ ہر ایک فرض اور حکم کے لئے الگ الگ حدیں اور الگ الگ وقت ہوتا ہے۔ میرے نزدیک بعض احکام کا زمانہ چار سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے۔اور بعض احکام ایسے ہیں جن کا زمانہ سات سال سے بارہ سال تک ہے اور بعض ایسے ہیں جن کا زمانہ پندرہ سے اٹھارہ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے۔ میرے نزدیک روزوں کا حکم پندرہ سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے بچے پر عائد ہوتا ہے اور یہی بلوغت کی حد ہے۔

…15سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ اور 18سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں۔مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روزہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے۔ اور بجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر رعب ڈالتے تھے تو بچوں کی صحت کو قائم رکھنے اور ان کی قوت بڑھانے کے لئے روزہ رکھنے سے انہیں روکنا چاہئے۔ اس کے بعد جب ان کا زمانہ آجائے جب وہ اپنی قوت کو پہنچ جائیں جو15سال کی عمر کا زمانہ ہے تو پھر ان سے روزے رکھوائے جائیں اور وہ بھی آہستگی کے ساتھ۔ پہلے سال جتنے رکھیں،دوسرے سال اس سے زیادہ اور تیسرے سال اس سے زیادہ رکھوائے جائیں۔اس طرح بتدریج ان کو روزوں کا عادی بنایا جائے۔‘‘

(الفضل 11؍ا پریل 1925ءصفحہ7)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس ضمن میں فرماتے ہیں:

’’جب تم ابھی اسٹوڈنٹ ہو اور تمہاری گروتھ کی عمر ہے تو روزے نہ رکھو لیکن ایک آدھ روزہ رکھ کر عادت ڈالنی چاہیے اور پھر جب سترہ اٹھارہ سال کی ہوجائو تو پھرروزے رکھنے چاہئیں۔ لیکن اس وقت اگر امتحان ہے اور بڑے مسائل ہیں اور پریشانی ہے لمبے روزے نہیں رکھ سکتے تو وہ روزے بعد میں پورے کر لو ۔لیکن روزے رکھنے میں بہانہ نہیں کرنا چاہیے۔اٹھارہ سال کی عمر جو ہے یہ میچور عمر ہوتی ہے۔اس میں روزے رکھ لینے چاہئیں۔اس سےپہلے پہلےروزے رکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔‘‘

( روزنامہ الفضل ربوہ 4؍جولائی 2014ءصفحہ5)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button