حیا کیا ہے؟ ایمان کا حصہ کیسےہے؟ (قسط دوم)
قرآن و حدیث اور ارشادات حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے کرام کی روشنی میں ا س کا تعارف
’حیا‘ بھلائی اور خیر کے جذبے کااظہار ہے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جس سے متصف ہونے پر انسان کامیلان خیر اور معروف کے کاموں کی طرف ہوتاہے۔ اور برے کاموں ومنکرات سے اسے نفرت ہوجاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’حیا خیر کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ ‘‘
چنانچہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:
’’حیا صرف خیر کا باعث ہی بنتی ہے۔ ‘‘
(مسلم في کتاب الایمان، باب بیان عدد شعب الایمان، رقم156)
اسی طرح آپﷺ کا یہ بھی فرمان ہے:
’’حیا سراپا خیر ہے۔ ‘‘
(صحیح الجامع الصغیر رقم 395)
اب میں چند احادیث پیش کرنا چاہوں گی جن میں عورتوں کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اور انہوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کیا۔ یعنی اِدھر اُدھر ہونے کی کوشش کی اور فرمایا: ’’ اے اسماء! عورت جب بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو یہ مناسب نہیں کہ اس کے منہ اور ہاتھ کے علاوہ کچھ نظر آئے۔ اور آپﷺ نے اپنے منہ اور ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے یہ بتایا۔ ‘‘
(ابوداؤد کتاب اللباس باب فیما تبدی المرأۃ من زینتھا)
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ مُزَینہ قبیلہ کی ایک عورت بڑے ناز و ادا سے زیب و زینت کیے ہوئے مسجد میں داخل ہوئی۔ اس پر نبیﷺ نے فرمایا:
’’اے لوگو! اپنی عورتوں کوزیب و زینت اختیار کرنے اور مسجد میں نازو ادا سے مٹک مٹک کر چلنے سے منع کرو۔ بنی اسرائیل پر صرف اس وجہ سے لعنت کی گئی کہ ان کی عورتوں نے زیب و زینت اختیار کر کے ناز و نخرے کے ساتھ مسجدوں میں اِترا کر آنا شروع کردیا تھا۔ ‘‘
(سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنۃ النساء)
اسی طرح ایک اور روایت میں عورتوں کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نےفرمایا:
’’دوزخیوں کے دوگروہ ایسے ہیں کہ ان جیسا میں نے کسی گروہ کو نہیں دیکھا۔ ایک وہ جن کے پاس بیل کی دموں کی طرح کوڑے ہوتے ہیں جن سے وہ لوگوں کو مارتے پھرتے ہیں اور دوسرے وہ عورتیں جو کپڑے تو پہنتی ہیں مگر حقیقت میں وہ ننگی ہوتی ہیں۔ ناز سے لچکیلی چال چلتی ہیں لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے جتن کرتی پھرتی ہیں۔ بختی اونٹوں کی کو ہانوں کی طرح اُن کے سر ہوتے ہیں ان میں سے کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگی اور اس کی خوشبو تک نہ پائے گی۔ حالانکہ اس کی خوشبو دُور کے فاصلے سے بھی آسکتی ہے۔
(مسلم کتاب اللباس)
اَنصار کی خواتین سیاہ چادر اَوڑھ کر گھروں سے نکلتیں، ان کو دُور سے دیکھ کر یوں لگتا کہ ان کے سروں پر کوّے بیٹھے ہیں۔
(ماخوذ از ابو داؤد، کتاب اللباس، باب فی قوله يدنين عليهن …الخ، صفحہ645 حدیث 4101)
اسی طرح حضرت ابو ملیح ہذلیؓ سے روایت ہے کہ اہلِ حمص کی عورتیں یا اہلِ شام کی عورتیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں داخل ہوئیں، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا:
’’تم ہی وہ عورتیں ہو، جن کی عورتیں حماموں میں داخل ہوتی ہیں؟ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا۔
مَا مِنْ امْرَأَۃِتَضَعُ ثِیَا بَھَا فِیِ غَیْرِ بَیْتِ زَوْ جِھَا اِلَّا ھَتَکَتْ الستْرَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ رَبِّھَا
جس عورت نے بھی اپنے خاوند کے گھر کے علاوہ کہیں اور اپنے کپڑے اتارے تو اس نے اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان پردے کو پھاڑ ڈالا۔ ‘‘
(عون المعبود علی سنن ابی داؤد۔ جلد11حدیث نمبر3992)
حیا حقیقت میں ایک مسلمان عورت کی اصل جمع پونجی ہے، اس کے ذریعے ہی عورت اپنی فطری عزت وآبرو اور اخلاق کی حفاظت کرتی ہے۔ چنانچہ اپنے رہن سہن اور آداب معاشرت میں اس کا اہتمام کرتی ہےاور حیا کا عملی نمونہ بن کر رہتی ہے۔ حیا ہی عورت کااصل حسن اور پاکدامن ہونے کی مضبوط دلیل ہے، یہ وہ حصار ہے جس میں عورت ہر بری نظر اور برائی سے محفوظ ہوسکتی ہے۔
پھر یہی نہیں کہ صرف عورت کو ہی نصیحت فرمائی بلکہ متعدد روایات ایسی بھی ملتی ہیں جن میں مردوں کی اصلاح اعمال کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ اس ضمن میں ذیل میں چند روایات بیان کرنا چاہوں گی۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ فضل(بن عباس) رسول اللہﷺ کے پیچھے سوار تھے تو خَثْعَمْ قبیلےکی ایک عورت آئی۔ فضل اسے دیکھنے لگ پڑے اور وہ فضل کو دیکھنے لگ گئی۔ تواس پر نبی کریمﷺ نے فضل کا چہرہ دوسری طرف موڑ دیا۔
(بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج وفضلہ)
حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ
’’جب کسی مسلمان کی کسی عورت کی خوبصورتی پر نگاہ پڑتی ہے اور وہ غض بصر کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اسے ایسی عبادت کی توفیق دیتا ہے جس کی حلاوت وہ محسوس کرتا ہے۔ ‘‘
(مسند احمد مسند باقی الانصار باب حدیث أبی أمامۃ الباہلی الصدی بن عجلان)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَیِّيٌّ سِتِّیْرٌ یُحِبُّ الْحَیَاءَ وَالسِّتْرَ فَإِذَا اغْتَسَلَ أَحَدُکُمْ فَلْیَسْتَتِرْ۔ (سنن أبي داؤد، رقم 3387)
’’بے شک اللہ تعالیٰ ستار(بہت پردہ ڈالنے والا) اور حیا دار ہے (چنانچہ) وہ حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی نہائے تو اسے پردہ کرنا چاہیے۔ ‘‘
ایک بار رسول اللہﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو حیا کی وجہ سے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہہ رہا تھا ’’تم بہت زیادہ شرمیلے ہو ‘‘حتیٰ کہ اس نے کہا ’’شرمیلے پن نے تمہیں نقصان پہنچایا ہے ‘‘تو اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’اسے چھوڑ دو، بیشک حیا ایمان کا حصہ ہے، اور جس میں حیا نہ ہو اس کا ایمان ہی نہیں۔ ‘‘
( صحیح بخاری)
ایک روایت میں ارشاد ہوتا ہے:
’’اپنی شرم گاہ کی حفاظت کر سوائے اپنی بیوی اور لونڈی کے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جب لوگ ایک دوسرے کے پاس ہوں (یعنی اکٹھے ہوں ) فرمایا:اگر تم میں طاقت ہے کہ اسے کوئی نہ دیکھ سکے تو ایسا ہی کر کہ کوئی نہ دیکھ سکے۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جب ہم میں سے کوئی تنہا ہو تو؟ فرمایا لوگوں سے زیادہ اللہ کا حق ہے کہ اس سے شرم اور حیا کی جائے۔ ‘‘
(صحیح سنن ابی دائود، رقم 3391)
ان چند احادیث کے بیان کے بعد خاکسار اپنے پیارے امام کے ارشادات کی روشنی میں حیا کے مختلف حسین پہلوئوں کو باری باری بیان کرنا چاہے گی جس سے مضمون کی اہمیت مزید کھل کر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔
حیا کے ایمان کا حصّہ ہو نے کے متعلق اسلامی تعلیمات کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الخا مس ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی خواتین کو گا ہے بگا ہے اپنے خطا بات اور خطبات میں نصا ئح فر ما ئی ہیں۔ ان میں سے چند منتخب ارشادات ہدیہ قارئین کرنا چاہوں گی۔ ایک مو قع پرنیک عورت کی نشانی بیان کرتے ہوئے آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے فر مایا:
’’…نیک عورتوں کی نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ حیادار اور حیا پر قائم رہنے والی ہوتی ہیں، حیا کو قائم رکھنے والی ہوتی ہیں۔ اگر کام کی وجہ سے آپ اپنی حیا کے لباس اُتارتی ہیں تو قرآنِ کریم کے حکم کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ اگر کسی جگہ کسی ملازمت میں یہ مجبوری ہے کہ جینز اور بلاؤز پہن کر سکارف کے بغیر ٹوپی پہن کر کام کرنا ہے تو احمدی عورت کو یہ کام نہیں کرنا چاہئے۔ جس لباس سے آپ کے ایمان پر زد آتی ہو اُس کام کو آپ کو لعنت بھیجتے ہوئے ردّ کر دینا چاہئے کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ اگر آپ پیسے کمانے کے لئے ایسا لباس پہن کر کام کریں جس سے آپ کے پردے پر حرف آتا ہو تو یہ کام اللہ تعالیٰ کو آپ کا متولّی بننے سے روک رہا ہے۔ یہ کام جو ہے اللہ تعالیٰ کو آپ کا دوست بننے سے، آپ کی ضروریات پوری کرنے سے روک رہا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ایمان والوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، تقویٰ پر چلنے والوں کی ضروریات پوری کرتاہے۔ کوئی بھی صالح عورت یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اس کاننگ ظاہر ہو یا جسم کے اُن حصوں کی نمائش ہو جن کو چھپانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ‘‘
(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 25؍جون 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍ مارچ 2007ء)
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ ماریشس کے موقع پراحمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئےایک احمدی خاتون کی ذمہ داریوں کے مختلف پہلوؤں کو بیان فرمایا۔ اس ضمن میں اسلامی پردہ کی اہمیت کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:
’’قرآن کریم کے حکموں میں سے ایک حکم عورت کی حیا اور اس کا پردہ کرنا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری زینت نامحرموں پر ظاہر نہ ہو۔ یعنی ایسے لوگ جو تمہارے قریبی رشتہ دار نہیں ہیں ان کے سامنے بے حجاب نہ جاؤ۔ جب باہر نکلو توتمہارا سر اور چہرہ ڈھکا ہونا چاہئے، تمہارا لباس حیادار ہونا چاہئے اس سے کسی قسم کا ایسا اظہار نہیں ہوناچاہئے جو غیر کے لئے کشش کا باعث ہو۔ بعض لڑکیاں کام کا بہانہ کرتی ہیں کہ کام میں ایسا لباس پہننا پڑتا ہے جو کہ اسلامی لباس نہیں ہے۔ توایسے کام ہی نہ کرو جس میں ایسا لباس پہننا پڑے جس سے ننگ ظاہر ہو۔ بلکہ یہاں تک حکم ہے کہ اپنی چال بھی ایسی نہ بناؤ جس سے لوگوں کو تمہاری طرف توجہ پیدا ہو۔
پس احمدی عورتوں کو قرآن کریم کے اس حکم پر چلتے ہوئے اپنے لباسوں کی اور اپنے پردے کی بھی حفاظت کرنی ہے اور اب جیسا کہ میں نے کہا باہر سے لوگوں کا یہاں آنا پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ پھرٹیلی وژن وغیرہ کے ذریعہ سے بعض برائیاں اور ننگ اور بے حیائیاں گھروں کے اندر داخل ہوگئی ہیں۔ ایک احمدی ماں اور ایک احمدی بچی کا پہلے سے زیادہ فرض بنتا ہے کہ اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچائے۔ فیشن میں اتنا آگے نہ بڑھیں کہ اپنا مقام بھول جائیں ایسی حالت نہ بنائیں کہ دوسروں کی لالچی نظریں آپ پر پڑنے لگیں۔ یہاں کیونکہ مختلف مذاہب اور کلچر کے لوگ آباد ہیں اور چھوٹی سی جگہ ہے اس لئے آپس میں گھلنے ملنے کی وجہ سے بعض باتوں کا خیال نہیں رہتا۔ لیکن احمدی خواتین کو اور خاص طور پر احمدی بچیوں کو اور ان بچیوں کو جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں اپنی انفرادیت قائم رکھنی ہے۔ ان میں اور دوسروں میں فرق ہونا چاہئے، ان کے لباس اور حالت ایسی ہونی چاہئے کہ غیرمَردوں اور لڑکوں کو ان پر بری نظر ڈالنے کی جرأت نہ ہو۔ روشن خیالی کے نام پر احمدی بچی کی حالت ایسی نہ ہو کہ ایک احمدی اور غیراحمدی میں فرق نظر ہی نہ آئے۔ ‘‘
(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ ماریشس3؍دسمبر2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29؍مئی 2015ء)
اسی طرح ایک موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے حیا کو ایمان کا جزو قرار دیتے ہوئےاحمدی بچیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں اس معاشرے اور ماحول سے متاثر ہوئے بغیر اپنی اعلیٰ اقدار کو قائم رکھنا ہے۔ اس ضمن میں آپ فرماتے ہیں:
’’پھر اپنے آپ کو باحیا بنانا ہے۔ کیونکہ یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔ حیا بھی ایمان کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جس طرح اپنے آپ کو ڈھانپنے کا حکم دیا ہے اس طرح احتیاط سے ڈھانپ کر رکھنا چاہئے۔ زینت ظاہر نہ ہو۔ حیا کا تصور ہرقوم میں اور ہر مذہب میں پایا جاتا ہے۔ آج مغرب میں جو بے حیائی پھیل رہی ہے اس سے کسی احمدی لڑکی کو کسی احمدی بچی کو کبھی متأثر نہیں ہونا چاہئے۔ آزادی کے نام پر بےحیائیاں ہیں، لباس، فیشن کے نام پر بے حیائیاں ہیں۔ اسلام عورت کو باہر پھرنے اور کام کرنے سے نہیں روکتا اُس کو اجازت ہے لیکن بعض شرائط کے ساتھ کہ تمہاری زینت ظاہر نہ ہو۔ بے حجابی نہ ہو۔ مرد اور عورت کے درمیان ایک حجاب رہنا چاہئے۔ دیکھیں قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں بیان فرمایا ہے کہ جب وہ اُس جگہ پہنچے جہاں ایک کنویں میں تالاب کے کنارے بہت سے چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلارہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف دو لڑکیاں بھی اپنے جانور لے کے بیٹھی ہیں تو انہوں نے جب اُن سے پوچھا کہ تمہارا کیامعاملہ ہے تو لڑکیوں نے جواب دیا کیونکہ یہ سب مرد ہیں اس لئے ہم انتظار کر رہی ہیں کہ یہ فارغ ہوں تو پھرہم اپنے جانوروں کو پانی پلائیں۔ تو دیکھیں یہ حجاب اور حیا ہی تھی جس کی وجہ سے اُن لڑکیوں نے اُن مَردوں میں جانا پسند نہیں کیا۔ اس لئے یہ کہنا کہ مَردوں میں mix upہونے میں کوئی حرج نہیں ہے یا اکٹھی gatheringکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ علیحدگی فضول چیزیں ہیں۔ عورت اور مرد کا یہ ایک تصور ہمیشہ سے چلاآرہا ہے۔ عورت کی فطرت میں جو اللہ تعالیٰ نے حیا رکھی ہے ایک احمدی عورت کو اُسے اور چمکانا چاہئے، اُسے اور نکھارنا چاہئے، پہلے سے بڑھ کر باحیا ہونا چاہئے۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے تعلیم بھی بڑی واضح دے دی ہے اس لئے بغیر کسی شرم کے اپنی حیااور حجاب کی طرف ہر احمدی عورت کو ہر احمدی بچی کو ہر احمدی لڑکی کو توجہ دینی چاہئے۔ ‘‘
(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یوکے20؍نومبر2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22 ؍مئی 2015ء)
اسی طرح ایک احمدی مسلمان عورت کو اپنا تقدّس قائم رکھنے کی اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:
’’پھر ایک مومن عورت کو اللہ تعالیٰ کا ایک بہت اہم حکم ہے اپنی زینت چھپانے کا اور پردے کا۔ اس مغربی معاشرے میں بعض پڑھی لکھی بچیاں اور عورتیں معاشرے کے زیرِاثر یا خوف کی وجہ سے کہ آج کل پر دے کے خلاف بڑی رو چل رہی ہے، پردے کا خیال نہیں رکھتیں۔ ان کے لباس فیشن کی طرف زیادہ جارہے ہیں۔ مسجد میں بھی اگر جانا ہو یا سینٹر میں آنا ہو تو اس کے لئے تو پردے کے ساتھ یا اچھے لباس کے ساتھ آجاتی ہیں لیکن بعض یہ شکایتیں ہو تی ہیں کہ بازاروں میں اپنے لباس کا خیال نہیں رکھتیں۔ ایک بات یاد رکھیں کہ حیا ایمان کا حصہ ہے اور حیا عورت کا ایک خزانہ ہے اس لئے ہمیشہ حیادار لباس پہنیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی عورت کا، ایک احمدی بچی کاایک تقدّس ہے اس کو قائم رکھنا ہے آپ نے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پردے کا حکم دیا ہے تو یقیناً اس کی کوئی اہمیت ہے۔ اُن مغرب زدہ لوگوں کی طرح نہ بنیں جو یہ کہتے ہیں کہ پردے کا حکم تو پرانا ہو گیا ہے یا خاص حالات میں تھا۔ قرآن کریم کا کوئی حکم بھی کبھی پرانا نہیں ہوتا اور کبھی بدلا نہیں جاتا۔ اللہ تعالیٰ کو پتہ تھا کہ ایک زمانہ میں ایسی سوچ پیدا ہو گی اس لئے یہ مستقل حکم اتاراہے کہ منہ سے کہنے سے اللہ کی بندیاں نہیں بنو گی تم لوگ بلکہ جو نصائح کی جاتی ہیں، جو احکامات قرآن کریم میں دیئے گئے ہیں ان پر عمل کر کے حقیقی مومن کہلاؤ گی۔ ‘‘
(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی یکم؍ ستمبر 2007ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍دسمبر2016ء)
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطاب میں احمدی مسلمان عورتوں اور بچیوں کو حقیقی رنگ میں حیا اور عصمت کی حفاظت کرنے کی اہمیت کے بارے میں نہایت احسن رنگ میں یوں توجہ دلائی:
’’بعض لڑکیاں کہہ دیتی ہیں کہ ہم نے سرڈھانک لیا ہے اور یہ کافی ہے لیکن سر اس طرح نہیں ڈھانکا ہوتا جس طرح اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔ بال صاف نظر آرہے ہوتے ہیں آدھا سر ڈھکا ہوتا ہے آدھا ننگا ہوتا ہے، گریبان تک نظر آرہا ہوتا ہے…ایک احمدی عورت اور بچی کی عصمت کی قیمت ہزاروں لاکھوں جواہرات سے زیادہ قیمتی ہے۔ پس اس کی حفاظت کرنا اور اس کی حفاظت کے طریق جاننا ایک احمدی عورت اور لڑکی کے لئے انتہائی ضروری چیز ہے بلکہ فرض ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی لڑکی اور ایک احمدی عورت نے اپنی حیا کی حفاظت کرنی ہے، اپنی عصمت کی حفاظت کرنی ہے، اپنے تقدّس کو قائم رکھنا ہےاور یہ پاکستانی کلچر نہیں ہے بلکہ اسلام کی تعلیم ہے۔ اس لئے چاہے وہ جرمن قوم سے تعلق رکھنے والی احمدی عورت ہے یا کسی بھی دوسرے یورپین ملک سے تعلق رکھنے والی احمدی عورت ہے یا پاکستان اور ایشیا سے تعلق رکھنے والی احمدی عورت ہے یا افریقہ سے تعلق رکھنے والی احمدی عورت ہے، ایک بات ہر عورت میں قدر مشترک ہونی چاہئے کہ اُس نے تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی گزارنی ہے اور اپنی حیا اور عصمت کی حفاظت کرنی ہے تبھی وہ حقیقی احمدی مسلمان کہلا سکتی ہے… ایک احمدی عورت جس نے اِس زمانے کے امام کو مانتے ہوئے یہ عہد کیا ہے کہ اپنے آپ کو تمام برائیوں سے بچائے رکھوں گی اُسے تو اپنی عزت، عصمت اور تقدّس کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ اس کا لباس اُس کی چال ڈھال، اُس کی بات چیت کا انداز ددسروں سے مختلف ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ آزادی کے نام پر لڑکے لڑکیوں کی مِکس(mix) پارٹیوں میں حصہ لے یا لباس ایسے ہوں جو ایک احمدی عورت کے تقدّس کی نفی کرتے ہوں، پردے اور حجاب کا بالکل خیال نہ ہو…یہ بڑے افسوس کی بات ہو گی اگر نئی شامل ہونے والی تو اس بات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے لباس میں حیا کا پہلو مدنظر رکھیں اور پرانی احمدی اس معاشرہ کے بداثرات کی وجہ سے اپنے حیادار لباس سے بے پرواہ ہو جائیں۔ پس ان باتوں کا ہمیشہ خیال رکھیں اور اپنے جائزے لیتی رہیں ورنہ شیطان کے حملے، جیسا کہ میں نے کہا، میڈیا کے ذریعہ سے اتنے شدت سے ہو رہے ہیں کہ ان سے بچنا محال ہے…۔ ‘‘
(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی23؍اگست2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 4؍نومبر 2011ء)
روزمرہ زندگی میں نوجوان احمدی بچیوں کو پردہ کا خیال رکھنے کے ضمن میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے توجہ دلاتے ہوئے اپنے ایک خطاب میں یوں فرمایا:
’’اسکولوں اور کالجوں میں بھی لڑکیاں جاتی ہیں اگر کلاس روم میں پردہ، سکارف لینے کی اجازت نہیں بھی ہے تو کلاس روم سے باہر نکل کر فوراً لینا چاہئے۔ یہ دو عملی نہیں ہے اور نہ ہی یہ منافقت ہے۔ اس سے آپ کے ذہن میں یہ احساس رہے گا کہ مَیں نے پردہ کرنا ہے اور آئندہ زندگی میں پھر آپ کو یہ عادت ہو جائے گی۔ اور اگر چھوڑ دیا تو پھر چھوٹ بڑھتی چلی جائے گی اور پھر کسی بھی وقت پابندی نہیں ہو گی۔ پھر وہ جو حیا ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔ ‘‘
(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا3؍جولائی 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23؍ستمبر2005ء)
عورتوں کے لیے اپنی زینت چھپانے کے قرآنی حکم کو بجا لانے کی اہمیت تو ہر احمدی عورت پر عیاں ہے۔ اس ذمہ داری کو بہترین رنگ میں ادا کرنے کےلیے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی عورتوں کو لباس کے ضمن میں مناسب رویّے اپنانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’پھر اﷲ تعالیٰ نے عبادتوں کے ساتھ یہ حکم دیا ہے کہ اپنی زینتوں کو چھپاؤ۔ اپنے سروں اور چہروں کوڈھانکو۔ اپنے تقدّس کو قائم رکھو۔ ہر عورت کا ایک تقدّس ہے اور احمدی عورت کا تقدّس تو بہت زیادہ ہے۔ …بعض شکایتیں ایسی بھی بعضوں کی مل جاتی ہیں کہ مسجد میں آتی ہیں تو لباس صحیح نہیں ہوتے۔ جینز پہنی ہوئی، اور قمیص چھوٹی ہوتی ہے، جینز پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مَیں نے اجازت دی تھی لیکن اس کے ساتھ لمبی قمیص ہونی چاہئے۔ اُن کو روکا گیا تو ماؤں نے عہدیداروں سے لڑنا شروع کر دیا کہ تم ہماری بچیوں کو روکنے ٹوکنے والی کون ہوتی ہو۔ ایک تو آپ مسجد کے تقدّس کو خراب کر رہی ہیں کہ وہاں وہ لباس پہن کر نہیں آ رہیں جو اُن کے لئے موزو ں لباس ہے۔ دوسرے ایک نظام کی لڑی میں پروئے ہونے کے باوجود اُس نظام کو توڑ رہی ہیں اور عہدیداروں سے لڑ رہی ہیں۔ تو ان حرکتوں سے باز آ نے کی ضرورت ہے۔ ‘‘
(خطاب برموقع نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ یوکے 2؍نومبر2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جولائی2015ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حیا اور غَضِّ بصر کی عادت اپنانے کے ساتھ ساتھ عورتوں کو اپنی خوبصورتی کو ظاہر نہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ
’’اﷲ تعالیٰ کے احکامات میں تو یہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ نظریں نیچی رکھو، بے محابا عورت اور مرد آپس میں ایک دوسرے سے نظریں نہ ٹکرائیں۔ ایک حیا اُن میں ہونی چاہئے۔ دوسرے اپنی زینت چھپا ؤ۔ ایسا لباس ہو جس سے جسم کی نمائش نہ ہوتی ہو اور تیسرے یہ کہ اپنی زینت چھپانے کے لئے اپنے گریبانوں، سر، گردن اور سامنے کے حصوں کو ڈھانپ کر رکھو۔ جو برقع پہننا ہے وہ ڈھیلا ڈھالا ہو۔ جو میک اَپ کر کے چہرہ ننگا کر کے پھرتی ہیں وہ بھی زینت ظاہر کرنے کے زمرے میں آتی ہیں۔ اسی طرح بالوں کی نمائش جو کرتی ہیں وہ بھی زینت ظاہر کرنے کے زمرے میں آتی ہیں کیونکہ وہ خود اپنے بالوں کی نمائش اِ سی لئے کر رہی ہوتی ہیں کہ یہ ہماری زینت ہے۔ خود سمجھ رہی ہوتی ہیں کہ اِس سے ہماری خوبصورتی ظاہر ہو رہی ہے۔ اس لئے سر ڈھانکنا، چہرے کو کم از کم اِس حد تک ڈھانکناکہ چہرے کی نمائش نہ ہو رہی ہو اور لباس کو مناسب پہننا یہ کم از کم پردہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِ س کی تلقین فرمائی ہے کہ کم از کم یہ معیار ہونا چاہئے۔ ‘‘
(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے30؍ جولائی 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11؍مارچ 2011ء)
شرم و حیا کو ملحوظ رکھتے ہوئے پردے کے قرآنی حکم کو اختیار کرنا ہی ایک احمدی عورت کے شایانِ شان ہے۔ اس اہم ذمہ داری کی طرف حضورانور ایدہ اللہ نے احباب جماعت کو بارہا توجہ دلائی ہے۔ ایک خطبہ جمعہ میں حضورانور نے ارشاد فرمایا:
’’…اب آج کل کی دنیا میں، معاشرے میں، ہر جگہ ہر ملک میں بہت زیادہ کھل ہو گئی ہے۔ عورت مرد کو حدود کا احساس مٹ گیا ہے۔ mix gatheringsہوتی ہیں یا مغرب کی نقل میں بدن پوری طرح ڈھکا ہوا نہیں ہوتا، یہ ساری اس زمانے کی ایسی بے ہو دگیاں ہیں جو ہر ملک میں ہر معاشرے میں راہ پا رہی ہیں۔ یہی حیا کی کمی آہستہ آہستہ پھرمکمل طور پر انسان کے دل سے، پکے مسلمان کے دل سے، حیا کا احساس ختم کر دیتی ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے ایک چھوٹے سے حکم کو چھوڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ حجاب ختم ہوتا چلا جاتا ہے اور پھربڑے حکموں سے بھی دُوری ہوتی چلی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے بھی دُوری بھی ہو جاتی ہے۔ اور پھر انسان اسی طرح آخر کار اپنے مقصد پیدائش کو بھلا بیٹھتا ہے۔ اس لئے اس زمانے میں خاص طور پر نوجوان نسل کو بہت احتیاط کرنی چاہئے۔ ہر وقت دل میں یہ احساس رکھنا چاہئے کہ ہم اس شخص کی جماعت میں شمار ہوتے ہیں جو آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق بندے کو خدا کے قریب کرنے کاذریعہ بن کر آیا تھا۔
پس اگر اُس سے منسوب ہونا ہے تو پھر اُس کی تعلیم پر بھی عمل کرنا ہو گا اور وہ تعلیم ہے کہ قرآن کریم کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کی بھی تعمیل کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ وہ اس پر عمل کرنے والا بن جائے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍اپریل 2006ء مطبوعہ الفضل 28؍اپریل 2006ء)
بحیثیت مسلمان ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ ہما را رب ہے اور اس بات پر بھی پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ اس نے ہمیں گمراہی سے بچنے کے لیے کچھ احکا م بتائےہیں کہ اگر تم ان احکام کو من وعن بجا لا ؤ گے تو فلا ح پا جا ؤ گے۔ اِس زما نے میں ہم سے ز یا دہ خو ش نصیب کوئی نہیں ہے۔ ہم نےحضر ت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم کو مانا اور پھر آپﷺ کے رو حا نی فر زند کی بیعت کی جس نے اسلام کواز سر نو ز ندہ کیا۔ حضرت مسیح مو عود علیہ السلا م کی بعثت سے قبل قرآن کریم خوبصورت غلا فوں میں طاق پہ سجا کر رکھنا ہی اس کی عزت و وقار کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس کی تعلیمات کو یکسر بھلا دیا گیاتھا۔ حضر ت مسیح مو عو د علیہ السلام کے با برکت و جو د اور خلفائے احمدیت کے ذ ریعہ قرآن کی شا ن و شو کت کو دنیا میں دوبارہ قائم کیا گیا۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں نہ صرف زمانے کے امام الزماں کو مان کر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی توفیق ملی بلکہ پہلوں سے ملنے کی ضمانت اور خوشخبری بھی دی گئی۔ پس ہم صحابیات والا فیض اُس وقت اُٹھا سکتی ہیں جب ہم خلیفۂ وقت کے ارشادات پر عمل کرکےاخلاقی برائیوں سے بچ رہی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم و احادیث اور حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفاء کے ارشادات کے مطابق حیا کے نمونےقائم کرنے کی توفیق عطافرمائے کیونکہ اسی سے ہماری دُنیا و آخرت کی بھلائی وابستہ ہے۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭