آنحضرتﷺ کا عظیم الشان مقام حضرت مسیح موعودؑ کی نظر میں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کا خلاصہ
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں یعنی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نئی شریعت، نئی کتاب نہ آئے گی، نئے احکام نہ آئیں گے‘‘۔ اور یہ [مخالفین]کہتے ہیںکہ نئی شریعت لے آئے اور مرزا غلام احمد کو بالا سمجھتے ہیں۔
’’یہی کتاب اور یہی احکام رہیں گے۔ جو الفاظ میری کتاب میں نبی یا رسول کے میری نسبت پائے جاتے ہیں اس میں ہرگز یہ منشاء نہیں ہے کہ کوئی نئی شریعت یا نئے احکام سکھائے جاویں۔ بلکہ منشاء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ضرورت حقہ کے وقت کسی کو مامور کرتا ہے تو ان معنوں سے کہ مکالمات الٰہیہ کا شرف اس کو دیتا ہے‘‘۔ یعنی اس سے بولتا ہے ۔’’اور غیب کی خبریں اس کو دیتا ہے اس پرنبی کا لفظ بولا جاتا ہے‘‘۔ جس سے بھی زیادہ تر اللہ تعالیٰ بولے گا، کلام کرے گا اس پر نبی کا لفظ بولا جاتا ہے۔’’اور وہ مامور نبی کا خطاب پاتا ہے۔ یہ معنی نہیں ہیں کہ نئی شریعت دیتا ہے یا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نعوذ باللہ منسوخ کرتا ہے‘‘۔ یہ الزم ہم پر لگا رہے ہیں۔’’بلکہ جو کچھ اسے ملتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سچی اور کامل اتباع سے ملتا ہے اور بغیر اس کے مل سکتا ہی نہیں‘‘۔
(الحکم 10؍جنوری 1904ء صفحہ2)
پس جب دعویٰ کرنے و الا دو ٹوک الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ میں سب کچھ اس سے حاصل کر رہا ہوں اور اس کے بغیر کچھ بھی مل نہیں سکتا۔ اور اس کے ماننے والے بھی اس یقین پر قائم ہیں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاغلام صادق ہے توپھر افتراء اور جھوٹ پر مبنی باتیں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ مسلمانوں میں بے چینی پیدا کی جائے۔ اور ایسے لوگ ہمیشہ سے کرتے آرہے ہیں۔ فتنہ پیدا کرنے کے علاوہ یہ شیطانی قوتوں کو (شیطان تو ہر وقت ساتھ لگا ہوا ہے) حسد کی آگ ان کو جلاتی رہتی ہے۔ یہ جماعت کی ترقی دیکھ نہیں سکتے ان کی آنکھوں میں جماعت کی ترقی کھٹکتی ہے۔ اور چاہے یہ جتنی مرضی گھٹیا حرکتیں کر لیں پہلے بھی یہ کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی شاید کرتے رہیں گے اس قسم کے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے، شیطان نے تو قائم رہنا ہے یہ ترقی ان کی گھٹیا حرکتوں سے رکنے والی نہیں ہے۔ انشاء اللہ۔
آنحضرتﷺ کا عظیم الشان مقام حضرت مسیح موعودؑ کی نظر میں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میںحضرت مسیح موعودعلیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ
’’وہ اعلیٰ درجہ کانور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو۔ وہ ملا ئک میںنہیں تھا، نجوم میں نہیں تھا ، قمر میں نہیں تھا، آفتاب میں بھی نہیں تھا، وہ زمین کے سمندروں اور دریائوں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا‘‘۔ نہ زمینی چیز میں تھا اور نہ آسمان میں تھا۔ ’’صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہمرنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں‘‘۔ ان ماننے والوں کو جتنا جتناکسی کا ایمان تھا اس کے مطابق دیا گیا۔’’اور امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قویٰ اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی اور جسمانی ہیں جوخداتعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے‘‘۔ کہ تمام جو انسان کے حصے ہیں عقل ہے، علم ہے اور دوسرے حواس ہیں ان کی جو اعلیٰ طاقت ہے، اعلیٰ معیار ہے وہ انسان کامل کو ملا۔ ’’اور پھر انسان کامل بر طبق آیت
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوْاالْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا۔(سورۃ النساء آیت 59)۔
‘‘یعنی اس انسان کامل نے اس آیت کے مطابق کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو۔’’ اس ساری امانت کو جناب الٰہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے‘‘۔
اور فرماتے ہیںکہ ’’…… یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سیّد، ہمارے مولیٰ ، ہمارے ہادی نبی امی، صادق و مصدوق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی‘‘۔
(آئینہ کمالات اسلام ۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ162-160)
پس یہ لوگ جو اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق سمجھتے ہیں اور ہم پرالزام لگاتے ہیں کہ ہم نعوذ باللہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو ان سے بالا سمجھتے ہیں۔ یہ بتائیں،ان کے تو مقصدہی صرف یہ ہیں کہ ذاتی مفاد حاصل کیے جائیں ان کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔یہ اپنے علماء میں سے کسی ایک کے منہ سے بھی اس شان کیا، اس شان کے لاکھویں حصے کے برابر بھی کوئی الفاظ ادا کئے ہوئے دکھا سکیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائے ہیں۔ یہ اس عاشق صادق کے الفاظ ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت کے بارے میں جسے تم لوگ جھوٹا کہتے ہو۔ اس شخص کی تو ہر حرکت و سکون اپنے آقا ومطاع حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں تھا۔ یہ گہرائی یہ فہم، یہ ادراک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا کبھی کہیں اپنے لٹریچر میں تو دکھائو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش کیا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں اور جماعت کی ہمیشہ یہی تعلیم ہے اور اس پر چلتی ہے کہ ہم قانون کے اندر رہتے ہوئے برداشت کر لیتے ہیں۔
آپؑ فرمایا کہ’’ ہمارے مذہب کا خلاصہ یہی ہے۔ مگر جولوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کرہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ہیں ان سے ہم کیونکر صلح کریں۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پرجو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔ خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔ ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے‘‘۔
( پیغا م صلح،روحانی خزائن جلد 23صفحہ459 )
تو یہ ہے ہماری تعلیم۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دی ہوئی تعلیم ہے اور یہ ہے ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی بھڑکائی ہوئی آگ اور اس کا صحیح فہم ا ور ادراک جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دیا۔ اس کے بعد بھی یہ کہنا کہ نعوذ باللہ خاکے بنانے کے سلسلے میں اخبار اور حکومت ڈنمارک کو احمدیوں نے Encourageکیا تھا۔اس کے بعد انہوں نے خاکے شائع کئے۔ تو ان لوگوں پرسوائے اللہ تعالیٰ کی لعنت کے اور کچھ نہیں ڈالا جا سکتا۔
(باقی آئندہ)