ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 71)
طاعون کا ٹیکہ اور اسباب پرستی سے منع کرنا
طاعون کے ٹیکہ کا ذکر تھا۔ اس کے متعلق ایک مبسوط اشتہار تقویۃ الایمان کے نام سے عنقریب شائع ہوتا ہے جو چھپ رہا ہے۔ وہ الحکم کی کسی اشاعت میں انشاء اﷲ کامل طور پر چھپے گا۔ اسی ذکر کے اثناء میں اور اسی کے متعلق ایک لطیف بات فرمائی کہ
دیکھو ایک زمیندار ہے اس کی زمین بارانی ہے اور ایک دوسرا ہے جس نے رات دن محنت کر کے کنوئیں سے آبپاشی کی ہے اور اپنے کھیتوں کو بھر لیا ہے۔ مگر آسمان پر یکایک بادل ہوئے اور بارانی زمین والے تمام کھیت بھر گئے۔ اب دونوں میں سے زیادہ شکر گذار کون ہوگا؟ کیا وہ جس نے رات دن ایک محنت کر کے اپنے کھیت بھرے ہیں یا وہ جو آسمان کی طرف دیکھتا رہا ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ وہ جو رات کو سویا ہوا تھا اور صبح اُٹھ کر دیکھا، تو کھیتوں کو لبالب پایا۔
اس طرح پر ٹیکہ کے متعلق ایک تو ہم ہیں کہ خدا تعالیٰ نے حفاظت کا وعدہ کیا ہے۔ اور ایک وہ ہیں جو اسی پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں۔
اسباب سے اﷲ تعالیٰ نے منع تو نہیں فرمایا، مگر اس قدر محوفی الاسباب نہ ہونا چاہیے کہ شرک کی حدتک پہنچ جاوے۔ اسباب سے جائز فائدہ اعتدال کی حدتک ضرور اُٹھانا چاہیے۔ مگر شرک فی الاسباب نہ ہونے پائے اور یہ شرک اسباب اسباب سے ہی پیدا ہوتا ہے۔
ہزاروں ہزار مخلوق جانتی ہے کہ جب ٹیکا کرانے والوں کو فائدہ ہوگا۔ جیسا کہ ظاہر کیا گیا ہےتو وہ شخص کس قدر خوش ہوگا اور کتنا بڑا نشان ہوگا جو یہ کہے گا کہ اوروں کو ٹیکہ نے فائدہ کیا اور مجھ کو خدا نے۔ ولنعم ماقیل۔ تُرا کشتی آورد مارا خدا۔
(ملفوظات جلدسوم صفحہ374-375)
اس گفتگو میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کا یہ مصرع استعمال فرمایا ہے:
تُرَا کَشْتِی آوَرْد و مَارَا خُدا
ترجمہ:۔ تجھے کشتی لے آئی اور ہمیں خدا۔
*۔ بوستان سعدی کے تیسرے باب میں ایک حکایت ہے جس کےایک شعر کا یہ دوسرا مصرع ہے۔ مکمل شعر اس طرح ہے۔
عَجَبْ دَارِی اَیْ یَارِ فَرْخَنْدِہْ رَای
تُو رَا کَشْتِی آوَرْد و مَارَا خُدَای
ترجمہ: اے نیک فطرت دوست اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ تجھےکشتی لے آئی اور ہمیں خد ا۔
حکایت: (خراسان موجودہ روس کے شہر)فاریاب کے ایک بوڑھے کے ساتھ مجھے (سعدی )کو سفر کرنےکا اتفاق ہوا۔ جب ہم مغرب کےعلاقہ میں ایک دریا کے کنارہ پہنچے تو میرے پاس ایک درہم تھا جو میں نے کشتی والے کو کرایہ دیا۔ اور کشتی پہ سوار ہوگیا۔ جبکہ فاریابی بوڑھے کے پاس کرایہ نہ تھا اور کشتی والے نے بغیر کرائے کے سوار کرنےسے انکار کر دیا۔ لہٰذا بوڑھا کنارہ پہ کھڑا رہ گیا۔ اور قافلہ جاتا رہا۔ ملّاحوں نے بے خوف ہو کر دھوئیں کی طرح کشتی چلائی، مجھے رفیق سفر کے بچھڑنے سے رونا آگیا اور رفیق سفر نے مجھے روتا دیکھ کر قہقہہ لگایا اور کہا ! کہ میری فکر نہ کر مجھے وہ ذات دریا پار کرائے گی جو کشتی چلا رہی ہے۔ یہ کہا۔ اور پانی پر مصلّی بچھا کر اوپر بیٹھ گیا۔ اور ہم سے پہلے پار جا لگا !میری حیرانی کی انتہا نہ رہی اور مجھے بزرگ نے کہا
عَجَبْ دَارِی اَیْ یَارِ فَرْخَنْدِہْ رَای
تُو رَا کَشْتِی آوَرْد و مَارَا خُدَای
اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے اگر تجھے کشتی دریا پار کرا سکتی ہے تو مجھے خدا کیوں نہیں کرا سکتا۔ اہل ظاہر یقین کریں یا نہ کریں مگر اہل اللہ آگ اور پانی میں برابر چلتے ہیں۔ تو نے دیکھا نہیں ؟ کہ چھوٹا بچہ جو آگ کی پروا نہیں کرتا ماں خود اس کو آگ سے بچاتی ہے۔ بس سمجھ لے کہ اس کی محبت والے اس کے منظور نظر ہوتے ہیں۔ جو خلیل کو آگ سے اور اپنے موسیٰ کو نیل سے بچاتا ہے۔ جو بچہ تیراک کے ہاتھ میں ہوتاہے اس کو دجلہ کی گہرائی کا کیا غم؟ اور جو خشکی میں ہی دامن تر رکھتا ہو وہ دریا پر قدم کیسے رکھے گا۔
٭…٭…٭