حاصل مطالعہ

نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کی ایک تاریخی تحریر

(1989ء میں گورنمنٹ کالج لاہور اپنے قیام کے 125 برس پورے ہونے کا جشن منا رہا تھا۔ مدیر ’’ہم سب‘‘کا تعلیمی زمانہ ختم ہو چکا تھا لیکن خوش قسمتی سے اس برس میرے عزیز دوست اور اعلیٰ پائے کے اردو شاعر ظہور احمد ’’راوی‘‘ کے مدیر تھے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ 125 سالہ جشن کو ’’راوی‘‘کے ایک یادگار نمبر کی صورت میں منایا جائے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ ظہور احمد نے جاں سوز مشقت سے ایسی ایسی تحریریں اس شمارے میں شائع کیں کہ راوی کا وہ پرچہ ایک خوشبو دار تخلیق کی صورت اختیار کر گیا۔ اس شمارے میں نوبیل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کی ایک خصوصی تحریر بھی شامل تھی۔ یہ تاریخی تحریر ایک بڑے دماغ کی کاوش ہے، سو اس میں علم کی گہرائی ہے اور اخلاص کی وسعت ہے۔ آئیے یہ 32برس پرانی تحریر پڑھیں۔ )

میرا آبائی گھر جھنگ میں ہے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں آنے سے پہلے میں جھنگ کالج کا طالب علم تھا۔ 1938ء میں 12 سال کی عمر میں جھنگ کالج کا طالب علم بنا۔ اس زمانہ میں یہ ایک انٹر میڈیٹ کالج تھا۔ تعلیمی کیرئیر کی بنیاد اس کالج میں پڑی۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری بعد کی حقیر کامیابیاں جھنگ کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور کی تعلیم اور ان کالجوں کے استادوں کی شفقت کی مرہون منت ہیں۔

1942ء میں مَیں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں انڈر گریجوایٹ کی حیثیت سے داخلہ لیا۔ چار سال تک گورنمنٹ کالج کا طالب علم رہا اور 1946ء میں ریاضی میں ایم۔ اے کی ڈگری لینے کے بعد کالج کو الوداع کہا۔ اس چار سال کے عرصہ کی جو باتیں بھلائی نہیں جا سکتیں اور اب بھی یاد آتی ہیں وہ اس کے استادوں، دوستوں اور ساتھیوں کی ہیں جو کہ مسلمان بھی تھے، ہندو بھی اور سکھ بھی۔ بہترین تعلیم کا معیار بھی ابھی تک یاد ہے۔ انگریزی کے استاد پروفیسر ایش کمار تھے۔ وہ اب اسی (80) سال کے ہیں، زندہ ہیں اور ہندوستان میں چندی گڑھ میں رہتے ہیں۔ اقبال کا یہ شعر اکثر سناتے تھے،

طلبم نہایت آں کہ نہایتے نہ دارد

بہ نگاہ نا شکیبے بہ دل امیدوارے

یہ شعر بھی بہت سناتے تھے۔

زشرر ستارہ جوئم زستارہ آفتابے

سر منزلے ندارم کہ بمیرم از قرارے

1981ء میں گورو نانک یونیورسٹی میں جب ان سے ملا اور پوچھا کہ اقبال کا کیا حال ہے؟ تو کہنے لگے کہ اب میں غالب پر آگیا ہوں۔ وہ غالب کو دنیا کا سب سے بڑا شاعر مانتے ہیں۔ انہوں نے انگریزی میں غالب پر ایک مستند کتاب بھی لکھی ہے۔

انگریزی کے ایک اور استاد پروفیسر عبداللطیف تھے جن کا انتقال ہو چکا ہے۔ آنرز میں انگریزی پروفیسر سراج الدین پڑھایا کرتے تھے جو بعد میں پرنسپل بھی بنے۔ ریاضی ڈاکٹر ایس ایم چاولہ پڑھاتے تھے۔ وہ اب شاید Kansas University سے وابستہ ہیں۔ مرحوم پروفیسر عبدالحمید بھی ریاضی کے استاد تھے اور کئی دوسرے بھی۔

گورنمنٹ کالج کے قیام کے دوران مجھے کئی طرح سے خدمت کا شرف حاصل ہوا۔ مثلاً مجھے 1945ء میں کالج یونین کا صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں نیو ہاسٹل کمیٹی کا بھی صدر تھا۔ ایک خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ میں ’’راوی‘‘کے اردو اور انگریزی دونوں حصوں کا ایڈیٹر بھی تھا۔ اس طرح کالج میں قیام کے دوران بہت بھرپور زندگی گزاری۔ ایک بات کا ضرور افسوس ہوتا ہے کہ میں پروفیسر صوفی تبسم کی کلاس سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔ وہ فارسی پڑھاتے تھے اور اس زمانے میں Extra Lectures کو Attendکرنے کی روایت نہ تھی۔ اور میں نے فارسی بطور مضمون نہیں رکھا تھا۔ گورنمنٹ کالج کو (کیمبرج کی طرح) یہ روایت قائم کرنی چاہیے کہ چاہے کوئی ایک مضمون نہ بھی لئے ہو، اس میں امتحان میں نہ بیٹھ رہا ہو، تب بھی اسے اپنے پسندیدہ پروفیسر کے لیکچر میں بیٹھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

گورنمنٹ کالج لاہور میں طالب علمی کے بعد 1951ء میں دوبارہ وابستگی ایک استاد کی حیثیت سے بھی رہی اور 1954ء تک میں ریاضی پڑھاتا رہا۔ مگر یہ وابستگی زیادہ دیرپا نہ تھی۔ مجھے پاکستان اور کالج دونوں ہی چھوڑنا پڑے۔ فزکس میں اعلیٰ تحقیق کی نہ تو کالج میں کوئی فضا تھی اور نہ ملک میں۔ راستے دو ہی تھے اور ان میں سے مجھے ایک کو چھوڑنا تھا۔ ایک یہ تھا کہ لاہور میں پڑھاتا رہوں اور اعلیٰ سائنسی تحقیق کو خیر باد کہہ دوں یا پھر کیمبرج واپس چلا جاؤں اور تحقیقی کام کو جاری رکھوں۔ اس صورت میں کالج، لاہور اور پاکستان کو چھوڑنا لازمی تھا۔ بادلِ نخواستہ دوسرا راستہ اختیار کر لیا اور یوں کالج سے رشتہ ٹوٹ گیا۔ لیکن اب میں پھر واپس اپنے تعلیمی زمانہ کی طرف آتا ہوں۔

مَیں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کرنے کے بعد 1946ءمیں کیمبرج پہنچا۔ کیمبرج کے کلاس روم میں طالب علم اس انداز سے بیٹھتے ہیں جس طرح نماز سے پہلے نمازی مسجد میں آ کر بیٹھتے ہیں۔ لیکچرر کے آنے سے پیشتر ایک سناٹا ہوتا ہے۔ لیکچر کے درمیان میں انگریزی طالب علم چار چار قسم کی سیاہیوں والا قلم اور صحیح لکیریں ڈالنے کے لئے رولر استعمال کر رہا ہو گا۔ اس کی نوٹ لینے والی کاپیاں ایسی احتیاط سے لکھی گئی ہوں گی جیسے پروفیشنل خوش نویس لکھ رہا ہو۔ میرے ساتھ والے طالب علم براہ راست سکولوں سے آئے تھے، عمر میں مجھ سے سب کم تھے لیکن ان کی خود اعتمادی اور امنگوں کا وہ عالم تھا جسے تحصیل کرنے کے لئے مجھے کم از کم دو سال درکار ہوئے۔ وہ ایسے ماحول سے آئے تھے جس میں ان کے سکولوں کا ہر استاد اچھے پڑھنے والے بچوں کو یہ سمجھا کر کیمبرج روانہ کرتا تھا کہ عزیز تم اس قوم کے فرزند ہو جس میں نیوٹن پیدا ہوا تھا۔ اور ریاضی کا علم تمہاری میراث ہے، اگر تم چاہو تو تم بھی نیوٹن ہو سکتے ہو۔

کیمبرج میں ڈسپلن کا انداز بھی میرے لئے نیا تھا۔ کیمبرج میں بی اے کا امتحان آپ زندگی میں صرف ایک بار دے سکتے ہیں۔ آپ خدا نخواستہ فیل ہو جائیں تو پھر دوسری بار امتحان دینا ممکن نہیں۔ ہاسٹل کے ڈسپلن کا یہ عالم تھا کہ دس بجے رات تک آپ بلا اجازت کالج سے باہر رہ سکتے ہیں۔ دس سے بارہ بجے تک ایک پینی جرمانہ لیکن اگر آپ بارہ بجے کے بعد آئے تو سات دن کی Gating ہو گی اور اگر سال کے دوران تین بار ایسا ہوا تو آپ کو کیمبرج سے نکال دیا جائے گا۔ کیمبرج میں ہر طالب علم Adultتصور کیا جاتا ہے اپنے سب کاموں میں مکمل ذمہ دار گنا جاتا ہے اس سے بے جا تعرض نہیں ہوتا لیکن اس کے ساتھ سزائیں بھی وحشیانہ تھیں، جنہیں وہ طالب علم مردانہ وار قبول کرتے تھے۔ کیمبرج میں یہ سختیاں 1968ء کے بعد سے ہٹ گئیں۔ کیمبرج کا طالب علم ہاتھ سے کام کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پہلے دن جب میں St۔ Johns College [غالباً St. John‘s College]پہنچا میرا تیس سیر کا بکس ریلوے اسٹیشن سے تو Taxi پر چلا آیا لیکن جب کالج پہنچ کر میں نے پورٹر کو بلایا اور کہا یہ میرا بکس ہے تو اس نے کہا کہ ٹھیک ہے وہ Wheel Borrow ہے آپ اسے اٹھائیے اور باقیوں کے ساتھ اپنے کمرے میں لے جائیے۔ میں ان پرانے قصوں کی باز خوانی محض ذاتی حظ لینے کے لئے نہیں کر رہا۔ میں تعلیم اور علم نوازی کے موضوع پر چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں اور اس سلسلے میں یہ داستانیں میرے مضمون کا حصہ ہیں۔

ہماری تعلیمی اور اقتصادی ترقی کا آپس میں گہرا تعلق ہے، تعلیمی پسماندگی اور خصوصیت سے غلط اور ناقص تعلیم ساری قوم کا مسئلہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اس وقت جس بحران سے گزر رہا ہے۔ اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ قوم نے اپنے تعلیمی نظام کی طرف توجہ نہیں دی۔ تعلیمی نظام کا اولین کام شخصی کردار کو ڈھالنا تصور کیا جاتا ہے۔ کردار کی جو بنیاد کالج میں بنتی ہے وہ زندگی بھر شاید ہی بدل سکتی ہے لیکن اس تحریر میں میں شخصی کردار کے بارے میں عرض نہیں کروں گا۔ میرا رخ ہمارے تعلیمی نظام کے قومی پہلوؤں کی طرف ہے۔

پاکستان کی 40سالہ تاریخ میں سب سے اہم مسئلہ قومیت کا مسئلہ رہا ہے۔ پاکستان کا قیام ایک معجزہ تھا۔ دو سو سال کی غلامی کے بعد پاک پروردگار نے ہمیں ایک خطہ عطا فرمایا جسے ہم جیسے چاہتے بنا سکتے تھے۔ لیکن اس طویل عرصہ میں اپنے اندر احساس یگانگت، احساس اخوت اور احساس قومیت پیدا نہ کر سکے۔ چنانچہ اس پاک ذات نے ہمیں نا اہل سمجھ کر اپنی وہ نعمت اور امانت اپنی پہلی صورت میں ہم سے واپس لے لی۔

قیام پاکستان کے بعد ہمارے تعلیمی نظام کا اولین فرض یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہماری یگانگت اور قومیت کے احساس کو پختگی دیتا۔ یگانگت اور قومیت کا تصور مختلف زمانوں میں بدلتا چلا آیا ہے۔ آج کے تصور کے لحاظ سے دنیا کے کئی ملکوں اور قوموں کی مثالیں ملتی ہیں جن کا استحکام محض ان کے تعلیمی نظام کا مرہون منت ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کا حال لیجیے۔ امریکہ میں انگریز، آئرش، جرمن، اٹالین، سویڈش، فرانسیسی، سب قبیلوں کے لوگ بستے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو یورپ میں اپنی علیحدہ قومیت کے لئے دو عالمی جنگوں میں جانیں دے چکے ہیں۔ ان کی زبانیں امریکہ آنے سے پہلے مختلف تھیں۔ مذہب مختلف تھے اور اب بھی ہیں لیکن امریکہ کے تعلیمی نظام نے جیسے ایک Cruible میں پگھلا کر ان قبیلوں کو ایک واحد قومیت میں منسلک کر دیا ہے۔ (بشکریہ ’ہم سب‘10؍اپریل2021ء)

(https: //www.humsub.com.pk/386986/abdus-salam-6/?fbclid=IwAR3LR_QzYCO1JKZjIu_54nShPVpaSgroEpzePnzayhhkdZ0MhcdcWuIdSeI)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button