مشہور مصنف ہمفرے جے فشر سے ملاقات اور مکالمہ
مکرم ایڈیٹر صاحب الفضل انٹرنیشنل!
السلام علیکم و رحمۃاللہ۔
امید ہے آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے ہوں گے۔
کچھ دن قبل اخبار الحکم کے 2018ء کا ایک شمارہ نظر سے گذرا۔ اس میں مکرم آصف محمود باسط صاحب کا ایک مضمون Comparing the works of Humphery J Fisher پڑھنے کا موقع ملا۔ فوراً خیال آیا کہ خاکسار نے 1960ء کی دہائی میں اسی مصنف کی کتاب کا نہ صرف مطالعہ کیا تھا بلکہ مسٹر فشر سے انفرادی ملاقات بھی ہوئی جبکہ موصوف ہمارے احمدیہ سیکنڈری سکول بو (Bo) سیرالیون میں تشریف لائے تھے۔
مسٹر فشر کی کتاب
A study in contemporary Islam on West African Coast
1963ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام چھپی تھی۔ اس کتاب کے آخر پر انہوں نے ایک نوٹ لکھا۔ اس کے ایک حصہ کا اردو ترجمہ خاکسار کے مطابق کچھ اس طرح بنتا ہے:
’’کیا یہ ممکن ہے کہ مغربی افریقہ میں احمدیت کے مستقبل کا اندازہ لگا یا جا سکے؟‘‘
مزید آگے بڑھتے ہوئے خود ہی اس سوال کا جواب تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’احمدیت کا مستقبل بوجوہ محفوظ نہیں …‘‘
خاکسار 1964ء میں بطور استاد(اس وقت عرف عام میں مشنری ٹیچر کہا جاتا تھا) وکالت تبشیر کی وساطت سے وہاں گیا۔ پہلا تقرر احمدیہ سیکنڈری سکول بو(Bo) میں ہوا۔ اس وقت محترم صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب ہمارے پرنسپل تھے اور وہاں ایک درجن کے قریب پاکستانی اساتذہ تھے۔ اس گروپ میں محترم مولانا مبارک نذیر صاحب سابق مشنری انچارج کینیڈا اور محترم لطف الرحمٰن صاحب مرحوم جیسے بلند پایہ لکھاری اور صاحب علم شخصیت شامل تھے۔
وہاں ایک مرتبہ اس کتاب کے مصنف مسٹر فشر صاحب کی آمد ہوئی۔ باہمی تعارف کے بعد ہم دونوں سکول کے وسیع و عریض کھیلوں کے میدان میں کھڑے ہو کر سکول کے کیمپس پر نظر دوڑارہے تھے۔ مصنف کے اپنی کتاب میں لکھے گئے اختتامیہ کے الفاظ ابھی تک میرے ذہن میں تھے اس لیے سوچا کہ تھوڑی تمہید کے بعد ان سے اس بارے میں ضرور سوال کروں گا۔ اس ملاقات کو پچاس سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن ان کے اس وقت کے کہے گئے الفاظ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہیں۔
خاکسار نے کہا کہ جناب فشر صاحب آپ اس احمدیہ سکول اور کیمپس میں کچھ سال قبل بھی تشریف لاچکے ہیں۔ کیا آپ نے نوٹ کیا ہے کہ حال ہی میں سامنے نظر آنے والے دو منزلہ، دو بلاکس کا اضافہ ہو چکا ہےاور یہ عمارت اب اس علاقے میں نمایاں حیثیت کی حامل بن چکی ہے؟ متعدد نئے اساتذہ جن میں سے بیشتر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خدمت انسانیت کے جذبے سے سرشار ہیں، باقاعدہ تنخواہ سے نہایت کم مشاہیر قبول کرتے ہوئے ہمارے مرکزی اور لوکل مبلغین (جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے) کے شانہ بشانہ مصروف کار ہیں۔ گذشتہ دو تین برسوں میں آپ کی کتاب چھپنے کے بعد آپ نے غور کیا کہ ہمارے پرائمری اور سیکنڈری سکولوں کی تعداد کتنی بڑھی ہے؟ ہمارے مزید کتنے احمدی ڈاکٹر زمیدان عمل میں آچکے ہیں؟ کیا آپ نے غور فرمایا ہے کہ سیرالیون کے غیرازجماعت مسلمان اکابرین، بشمول مرکزی حکومت کے منسٹرز جب بھی آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں تو صلح صفائی کی خاطر ہمارے امیر صاحب کے پاس آتے ہیں۔ مزید یہ کہ سیرالیون اور بقیہ مغربی افریقہ میں متعدد افراد حضرت خلیفۃالمسیح کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ مسلمہ میں شامل ہو رہے ہیں اور بہت سی نئی جماعتیں بھی بن رہی ہیں۔ یہ لوگ حضرت خلیفۃ المسیح کو Master Khalifa کہہ کر پکارتےہیں، گو کہ ابھی تک انہوں نے کسی خلیفۃ المسیح کو بنفس نفیس نہیں دیکھا، لیکن ان کے ایمان واخلاص اور قربانی کا حال آپ کے سامنے عیاں ہے اور ہونا چاہیے۔ مجھے یقین واثق ہے کہ آپ نے اپنی کتاب کے مواد کے سلسلے میں متعدد احمدیہ مشن ہا ؤسز اور مساجد کا دورہ کیا ہوگا نیز مشنری صاحبان سے گفتگو بھی کی ہو گی۔ یہ سب دیکھنے کے بعد جو آپ نے جماعت کے متعلق اپنی کتاب کے اختتام میں فقرہ درج کیا تھا کہ’’جماعت احمدیہ کا مستقبل بوجوہ محفوظ نہیں‘‘کیا آپ اب بھی اپنے اس بیان کو درست سمجھتے ہیں؟ میں نے کہا فشر صاحب سوچ سمجھ کر جواب دیجیے گا۔ انہوں نے کچھ توقف کے بعد کہا:
’’میرا خیال ہے کہ جو نتیجہ میں نے اخذ کیا تھا وہ شاید غلط تھا۔ ہو سکتا ہے میں اس وقت غیر جانبدار ہو کر نہ سوچ رہا ہوں۔‘‘
اس پر خاکسار نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ اب آپ نے اپنا غیر جانبدارانہ تجزیہ دیا ہے اور یہی اصل سچائی ہے۔ اب اس کا تدارک کیا ہونا چاہیے؟ مسٹر فشر کہنے لگے کہ اب تو کتاب چھپ چکی ہے اور مارکیٹ میں آ چکی ہے اب کیا کیا جا سکتا ہے؟
میں نے کہا: اگر آپ مستقبل میں کوئی کتاب لکھیں تو اس کا ذکر کر دیں۔ کہنے لگے: ’’ دیکھوں گا‘‘
سلسلہ احمدیہ، خلافت احمدیہ اور تما م دنیا کی جماعتوں کے تاریخی حقائق کو آنے والی نسلوں کے لیے ریکارڈ اور محفوظ کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی کما حقہ توفیق دیتا رہے۔
وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِااللّٰہِ۔
الفضل کے توسط سے احبابِ جماعت سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ خاکسار کو بھی قلمی جہاد میں شرکت کی توفیق عطا فرماتارہے۔ آمین
والسلام
میاں محمد اسماعیل وسیم۔ امریکہ