پیارو یقیناً سمجھو کہ خدا ہے اور وہ اپنے دین کو فراموش نہیں کرتا بلکہ تاریکی کے زمانہ میں اس کی مدد فرماتاہے
مجھ سے پوچھا گیا تھاکہ امریکہ اور یورپ میں تعلیم اسلام پھیلانے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ کیا یہ مناسب ہے کہ بعض انگریزی خوان مسلمانوں میں سے یورپ اور امریکہ میںجائیں اور وعظ اور منادی کے ذریعہ سے مقاصد اسلام اُن لوگوں پر ظاہر کریں؟ لیکن مَیں عمومًا اس کا جواب ہاں کے ساتھ کبھی نہیں دوں گا۔ مَیں ہرگز مناسب نہیں جانتا کہ ایسے لوگ جو اسلامی تعلیم سے پورے طورپر واقف نہیں اور اس کی اعلیٰ درجہ کی خوبیوں سے بکلّی بے خبر اور نیززمانہ حال کی نکتہ چینیوں کے جوابات پر کامل طورپرحاوی نہیں ہیں اور نہ روح القدس سے تعلیم پانے والے ہیں وہ ہماری طرف سے وکیل ہوکر جائیں۔ میرے خیال میں ایسی کارروائی کا ضرر اس کے نفع سے اقرب اور اَسْرع الوقوع ہے الاّ ماشا ء اللہ۔ بلا شبہ یہ سچ بات ہے کہ یورپ اور ا مریکہ نے اسلام پر ا عتراضات کرنے کا ایک بڑا ذخیرہ پادریوں سے حاصل کیاہے اور ان کا فلسفہ اورطبعی بھی ایک الگ ذخیرہ نکتہ چینی کا رکھتاہے۔ مَیں نے دریافت کیا ہے کہ تین ہزار کے قریب حال کے زمانہ نے وہ مخالفانہ باتیں پیدا کی ہیں جو اسلام کی نسبت بصورت اعتراض سمجھی گئی ہیں حالانکہ اگر مسلمانوں کی لاپرواہی کوئی بدنتیجہ پیدا نہ کرے توان اعتراضات کا پیدا ہونا اسلام کے لئے کچھ خوف کا مقام نہیں۔ بلکہ ضرور تھا کہ وہ پیدا ہوتے تااسلام اپنے ہر یک پہلو سے چمکتا ہوا نظر آتا۔لیکن ان اعتراضات کا کافی جواب دینے کے لئےکسی منتخب آدمی کی ضرورت ہے جو ایک دریا معرفت کا اپنے صدر منشرح میں موجود رکھتا ہو جس کے معلومات کو خدائے تعالیٰ کے الہامی فیض نے بہت وسیع اور عمیق کردیاہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا کام ان لوگوں سے کب ہو سکتاہے جن کی سماعی طورپر بھی نظر محیط نہیں اور ایسے سفیر اگر یورپ اورا مریکہ میں جائیں توکس کام کو انجام دیں گے اور مشکلات پیش کردہ کا کیا حل کریں گے۔ اور ممکن ہے کہ ان کے جاہلانہ جوابات کا ا ثر معکوس ہو جس سے وہ تھوڑا سا ولولہ اورشوق بھی جو حال میں امریکہ اور یورپ کے بعض منصف دلوں میں پیدا ہوا ہے جاتا رہے اور ایک بھاری شکست اور ناحق کی سبکی اور ناکامی کے ساتھ واپس ہوں۔
سو میر ی صلاح یہ ہے کہ بجائے ان وعظوں کے عمدہ عمدہ تالیفیں ان ملکوں میں بھیجی جائیں۔ اگر قوم بد ل وجان میری مدد میں مصروف ہو تو مَیں چاہتاہوں کہ ایک تفسیر بھی تیار کرکے اور انگریزی میں ترجمہ کر اکر اُن کے پاس بھیجی جائے۔ مَیں اس بات کوصاف صاف بیان کرنے سے رہ نہیں سکتا کہ یہ میرا کام ہے دوسرے سے ہر گز ایسانہیں ہوگا جیسامجھ سے یا جیسا اُس سے جومیری شاخ ہے اور مجھ ہی میں داخل ہے۔ ہاں اس قدر مَیں پسند کرتاہوں کہ ان کتابوں کے تقسیم کرنے کے لئے یا اُن لوگوں کے خیالات اور اعتراضات کو ہم تک پہنچانے کی غرض سے چند آدمی ان ملکوں میں بھیجے جائیں جو امامت اورمولویت کا دعویٰ نہ کریں بلکہ ظاہر کردیں کہ ہم اس لئے بھیجے گئے ہیں کہ تا کتابوں کوتقسیم کریں اور اپنے معلومات کی حد تک سمجھا ویں اور مشکلات اور مباحث دقیقہ کا حل ان اماموں سے چاہیں جواس کام کے لئے ملک ہند میں موجود ہیں۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ اسلام میں اس قدر صداقت کی روشنی چمک رہی ہے اور اس قدر اس کی سچائی پر نورانی دلائل موجود ہیں کہ اگر وہ اہلِ تحقیق کے زیر توجہ لائی جاویں تو یقینا ًوہ ہر یک سلیم العقل کے دل میں گھر کر جاویں۔ لیکن افسوس کہ ابھی وہ دلائل اندرونی طورپر بھی اپنی قوم میں شائع نہیں چہ جائیکہ مخالفوں کے مختلف فرقوں میں شائع ہوں۔ سوانہی براہین اور دلائل اور حقائق اور معارف کے شائع کرنے کے لئے قوم کی مالی امداد کی حاجت ہے۔ کیاقوم میں کوئی ہے جو اس با ت کو سنے؟
جب سے مَیں نے رسالہ فتح اسلام کوتالیف کیاہے ہمیشہ میرا اسی طرف خیال لگا رہا کہ میری اس تجویز کے موافق جو مَیں نے دینی چندہ کے لئے رسالہ مذکور میں لکھی ہے دلوں میں حرکت پیدا ہوگی۔ اسی خیال سے مَیں نے چار سو کے قریب وہ رسالہ مفت بھی تقسیم کردیا تا لوگ اس کو پڑھیں اور اپنے پیارے دین کی امداد کے لئے اپنی گزشتنی گزاشتنی مالوں میں سے کچھ حق مقررکریں مگر افسوس کہ بجُز چند میرے مخلصوں کے جن کا ذکر مَیں عنقریب کروں گا کسی نے اس طر ف توجہ نہیں کی۔ مَیں حیران ہوں کہ کن الفاظ کو ا ستعمال کروں تا میری قوم پر وہ مؤثر ہوں۔ مَیں سوچ میں ہوں کہ وہ کون سی تقریر ہے جس سے وہ میرے غم سے بھرے ہوئے دل کی کیفیت سمجھ سکیں۔ اے قادر خدا اُن کے دلوں میں آپ الہام کر اورغفلت اور بدظنّی کی رنگ آمیزی سے ان کو باہر نکا ل اور حق کی روشنی دکھلا۔
پیارو یقیناً سمجھو کہ خدا ہے اور وہ اپنے دین کو فراموش نہیں کرتا بلکہ تاریکی کے زمانہ میں اس کی مدد فرماتاہے مصلحت عام کے لئے ایک کو خاص کر لیتاہے اوراُس پر علوم لدنّیہ کے انوار نازل کرتاہے۔ سو اُسی نے مجھے جگایا اور سچائی کے لئے میرا د ل کھول دیا۔ میری روزانہ زندگی کا آرام اسی میں ہے کہ مَیں اسی کام میں لگا رہوں۔ بلکہ مَیں اس کے بغیر جی ہی نہیں سکتا کہ مَیں اُس کا اور اُس کے رسول کا اور اُس کی کلام کا جلال ظاہر کروں۔ مجھے کسی کی تکفیر کا اندیشہ نہیں اور نہ کچھ پروا۔ میرے لئے یہ بس ہے کہ وہ راضی ہو جس نے مجھے بھیجا ہے۔ ہاں مَیں اس میں لذّت دیکھتا ہوں کہ جو کچھ اُس نے مجھ پر ظاہر کیا وہ مَیں سب لوگوں پر ظاہر کر وں اور یہ میرا فرض بھی ہے کہ جو کچھ مجھے دیاگیا وہ دوسروں کوبھی دوں۔ اور دعوتِ مولیٰ میں ان سب کو شریک کرلوں جو ازل سے بلائے گئے ہیں۔ مَیں اس مطلب کے پورا کرنے کے لئے قریبًا سب کچھ کر نے کے لئے مستعد ہوں اور جانفشانی کے لئے راہ پر کھڑا ہوں۔ لیکن جو امر میرے اختیار میں نہیں مَیں خداوند قدیر سے چاہتاہوں کہ وہ آپ اس کو انجام دیوے۔ مَیں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ ایک دست غیبی مجھے مدد دے رہاہے۔ اور اگرچہ مَیں تمام فانی انسانوں کی طرح ناتوان اور ضعیف البنیان ہوں تاہم مَیں دیکھتاہوں کہ مجھے غیب سے قوت ملتی ہے او ر نفسانی قلق کو دبانے والا ایک صبر بھی عطا ہوتاہے اور مَیں جوکہتاہوں کہ ان الٰہی کاموں میں قوم کے ہمدرد مدد کریں وہ بے صبری سے نہیں بلکہ صرف ظاہر کے لحاظ اور اسباب کی رعایت سے کہتا ہوں۔ ورنہ خدا تعالیٰ کے فضل پر میرا دل مطمئن ہے اوراُمید رکھتاہوں کہ وہ میری دعائوں کو ضائع نہیں کرے گا اور میرے تمام ارادے اورامیدیں پوری کر دے گا۔
(ازالہ اوہام۔ حصہ دوم۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ516۔ 520، مطبوعہ لندن)