انبیاء کی بعثت بھی ایک عید ہوا کرتی ہے
(خطبہ عید حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرمودہ 13؍مارچ 1929ء بمقام باغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ قادیان)
ہماری جماعت کو بھی جس نے اس زمانہ کے مامور کو قبول کیا ہے قربانیوں کو اسی رنگ میں دیکھنا چاہیئے جس طرح رمضان کے روزے ہوتے ہیں۔ جس طرح رمضان کے روزے مصیبت نہیں سمجھے جاتے بلکہ ان میں لذت محسوس ہوتی ہے بعینہٖ اسی طرح دین کی اشاعت اور خدمتِ اسلام کے لئے جو قربانیاں ہمیں کرنی پڑیں ان میں لذت محسوس کرنی چاہیئے
انبیاء کی وحی اپنے اندر کئی معانی رکھتی ہے اور مختلف مطالب پر اس سے روشنی پڑتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جو عید سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک تو اس الہام کے وقتی معنی تھے کہ اس دن شبہ تھا کہ آیا عید ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کو دور فرما دیا اور بتایا کہ عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو۔ (تذکرہ صفحہ 735 مطبوعہ الشرکة الاسلامیہ ربوہ) لیکن میرے نزدیک اس وحی کا صرف یہی مفہوم نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ’’چاہے کرو یا نہ کرو‘‘ اور جس کام کے متعلق خود اللہ تعالیٰ فرمائے ’’چاہے کرو یا نہ کرو‘‘ صرف اس کے لئے خصوصیت سے الہام کرنا کوئی وجہ نہیں رکھتا۔ میرے نزدیک علاوہ اس مفہوم کے ایک اور لطیف نکتہ بھی اس میں بیان فرمایا گیا ہے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بعثت کی طرف اشارہ ہے۔ انبیاء کی بعثت بھی ایک عید ہوا کرتی ہے۔ یعنی ان کی بعثت سے اللہ تعالیٰ کے فضل پھر دنیا پر نازل ہوتے ہیں اور دنیا میں ترقیات کا بیج ان کے ذریعہ سے بویا جاتا ہے وہ ایسا بیج ہوتے ہیں جو آہستہ آہستہ ترقی کر کے ایک اتنا بڑا درخت بن جاتا ہے۔ جس کے پھلوں اور سایہ سے اہل دنیا مستفید ہوتے ہیں۔(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن، جلد 20 صفحہ 67)لیکن اکثر لوگوں کو وہ عید نظر نہیں آیا کرتی لوگ عام طور پر اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ اس عید کے لئے شوق سے روزے رکھتے ہیں اور بعض دفعہ چاند نظر نہیں آتا تو دوسرے لوگوں کے کہنے پر ہی عید کر لیتے ہیں۔ ایک دوست نے سنایا۔ ایک شہر میں سات سال تک ایک گاؤں کے لوگ آکر قسمیں کھاتے رہے کہ ہم نے چاند دیکھ لیا ہے اور ان کی قسموں پر اعتبار کر کے وہاں عید کر لی جاتی رہی۔ آخر جب یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا وجہ ہے ہر سال اسی گاؤں کے رہنے والوں کو چاند نظر آتا ہے کیا باقی سب لوگ اندھے ہوجاتے ہیں کہ انہیں دکھائی نہیں دیتا تو ان لوگوں نے اقرار کر لیا کہ ہم عید کرنے کی خوشی میں جھوٹ بولتے رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس عید کا تو نام سن کر ہی لوگ کر لیتے ہیں لیکن اس عید کی طرف جو انبیاء کی آمد سے ہوتی ہے بہت کم توجہ کرتے ہیں۔
یہ فقرہ کہ ’’عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو‘‘۔ اس میں اس عید کی طرف اشارہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بعثت کی عید ہے۔ اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ چاہے یہ کرو یا نہ کرو ایک ہی بات ہے بلکہ یہ اسی طرح کہا گیا ہے جیسے کہتے ہیں۔ ہے تو سچا چاہے مانو یا نہ مانو۔ یعنی اس سے فائدہ اٹھانا نہ اٹھانا تمہارا کام ہے ہم نے چیز مہیا کر دی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بھی عید ہیں۔ خدا تعالیٰ نے آپؑ کے ذریعہ مسلمانوں کی ترقی کے سامان پیدا کر دیئے۔ اب یہ ان کی مرضی ہے ان ذرائع اور ان سامانوں کو استعمال کر کے فائدہ اٹھائیں، ترقی کریں اور عزت حاصل کریں یا نہ اٹھائیں اور اپنی ذلّت و نکبت میں بڑھتے چلے جائیں۔ تو انبیاء بے شک عید ہوتے ہیں مگر خدا تعالیٰ عید لوگوں سے جبراً نہیں منواتا بلکہ ان کی مرضی پر چھوڑ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص عید منائے تو وہ خوشی اور مسرت حاصل کرتا ہے لیکن اگر نہ منائے اور سوگ ہی رکھے تو یہ بھی اس کی مرضی ہے اس میں کوئی جبر نہیں۔
اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے علم النفس کا ایک عجیب نکتہ بیان فرمایا ہے یعنی عید کرنا یا نہ کرنا انسان کے اندر کے احساسات پر منحصر ہے صرف سامان کا موجود ہونا عید منانے کے لئے کافی نہیں ہوتا بلکہ ان کا اختیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ دنیا میں بہتر سے بہتر چیزیں ہیں لیکن اگر انہیں استعمال نہ کیا جائے تو وہ کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں۔ اسی عید کے دن کو لے لو۔ کئی علاقوں میں چاند نظر نہیں آتا اور وہ لوگ روزہ رکھتے ہیں۔ اب عید تو ہوتی ہے مگر بوجہ محسوس نہ کرنے کے اس علاقہ کے لوگوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ اس کی خوشی سے محروم رہتے ہیں۔ اس طرح عید کا دن ہو لیکن ایک گھر میں میّت پڑی ہو عورتیں آہ و فغاں کر رہی ہوں، بچے رو رہے ہوں اور اگر کوئی زیادہ تقویٰ والا گھر نہ ہو تو وہاں عورتیں گالوں کو پیٹتی اور بالوں کو نوچتی ہیں تو ان کے لئے کوئی عید نہیں حالانکہ باقی لوگ عید کی خوشیاں منارہے ہوں گے۔ تو عید انسان کے اندرونی اور قلبی احساسات اور جذبات سے ہوتی ہے،جس میں اس کے لئے احساسات نہ ہوں اس کے لئے کوئی عید نہیں ہوتی۔ پس بات یہی ہے کہ ’’عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو‘‘۔ غرضیکہ عید کا ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اسے منانے کی خواہش بھی اس کی تکمیل کے لئے ضروری ہے۔ جب تک اپنے نفس میں یہ خواہش نہ ہو کہ ہم نے عید منانی ہے اُس وقت تک عید کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔
اس سے ہمارے سلسلہ کے متعلق بھی ایک سبق حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب یہ ثابت ہے کہ انبیاء کی بعثت عید ہوتی ہے اور انبیاء دنیا میں ترقی اور خوشی پیدا کرنے کے لئے آتے ہیں وہ اس لئے آتے ہیں کہ ظالموں کو گرا دیں اور مظلوموں کو اونچا کر دیں۔(تذکرہ صفحہ 330، 535) کھوئی ہوئی عزتوں کو دوبارہ قائم کردیں اور گئی ہوئی شوکت کو واپس لائیں، مصائب زدہ لوگوں کو بچائیں۔(تذکرہ صفحہ 330، 535) لیکن جب تک لوگ خود اپنے اندر یہ خواہش نہ پیدا کریں کہ ان سے فائدہ اٹھائیں اس وقت تک انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔
انبیاء کے آنے پر کچھ لوگ تو ان کا بالکل ہی انکار کر دیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اکثر مخالفین کہا کرتے تھے بلکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک شخص نے پیسہ اخبار میں مضمون لکھا(تبلیغ رسالت جلد 10 صفحہ 95۔ ہفت روزہ پیسہ اخبار 1887ء میں فیروز والہ(گوجرانوالہ)سے منشی محبوب عالم نے جاری کیا بعد ازاں لاہور منتقل ہوا۔ صدی کے آخر میں روزنامہ ہوگیا۔ 1947ء میں بند ہوگیا) کہ یہ اچھا نبی آیا ہے کہ دنیا پر مصائب ہی مصائب نازل ہورہے ہیں کہیں طاعون ہے کہیں قحط ہے لیکن بات تو وہی ہے کہ ’’عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو‘‘۔ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو بھیج کر عید کا موقع پیدا کر دیا اب اگر تم دروازے بند کر کے رونے پیٹنے میں لگے رہو تو تمہارے لئے وہ کسی خوشی کا موجب نہیں ہوسکتی۔
خدا تعالیٰ کے مامور دو دھاری تلوار کی طرح ہوتے ہیں جس کا ایک سِرا ماننے والوں کے لئے ہوتا ہے جو ان کے ہر قسم کے رنج و غم کاٹتا چلا جاتا ہے۔ اور ایک نہ ماننے والوں کے لئے ہوتا ہے جو ان کی خوشی اور راحت کو کاٹتا ہے۔ وہ ایک طرف بشارت کا اعلان ہوتے ہیں تو دوسری طرف تباہی و بربادی کا۔ ان کے آنے سے عالم قیامت برپا ہوجاتا ہے۔ وہ بشیر و نذیر ہوتے ہیں(المائدہ:20)وہ اپنی ذات میں تو عید ہی ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے لئے دو حیثیتیں ہوتی ہیں۔ جو قبول کرلیتے ہیں ان کے لئے عید ہوجاتی ہے لیکن جو نہیں مانتے ان کا اس عید کے موقع پر بھی روزہ ہی ہوتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عید کے دن روزہ رکھنا شیطان کا کام ہے۔
آگے جو ماننے والے ہوتے ہیں وہ بھی ان دو حالتوں سے خالی نہیں ہوتے۔ ان میں سے اکثر تو ان ذمہ واریوں کو اپنے پر قبول کر لیتے ہیں جو خدا تعالیٰ ان پر ڈالتا ہے اور اپنے لئے عید کر لیتے ہیں لیکن جو ان ذمہ داریوں کو قبول نہیں کرتے ان کے کے لئے کوئی عید نہیں ہوسکتی کیونکہ عید کے لئے قربانی نہایت ضروری چیز ہے۔ عید ہمیشہ قربانیوں کے بعد ہوا کرتی ہے۔ یہ عید بھی روزوں کے بعد ہوتی ہے جو بہت بڑی قربانی ہوتی ہے اور عیدالاضحی بھی خدا کے لئے گھر بار چھوڑنے اور خدا کی خاطر وطن سے بے وطن ہونے کی یاد میں ہوتی ہے تو عید ہمیشہ قربانیوں کے نتیجہ میں ہوتی ہے۔ پس جو لوگ انبیاء کی تعلیم کے مطابق قربانیاں کرتے ہیں ان کے لئے تو عید ہوتی ہے۔ لیکن جو ایسا نہیں کرتے ان کے لئے ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں تکالیف سے کوئی بھی بچا ہوا نہیں ہوتا۔ لیکن تکالیف بھی دو طرح کی ہوتی ہیں ایک وہ جو انسان خود اپنے لئے چُن لیتا ہے اور دوسری وہ جن سے انسان بچنا چاہتا ہے لیکن بچ نہیں سکتا۔ جو تکلیف تو انسان خود اپنے لئے تجویز کرتا ہے وہ تکلیف نہیں بلکہ اس کے لئے لذت ہوجاتی ہے لیکن جو جبراً اس پر ڈال دی جاتی ہے وہ عذاب ہوتا ہے۔ دیکھو ایک ماں اپنے بچے کے ساتھ کس قدر مصیبتیں جھیلتی ہے، راتوں کو اس کے لئے جاگتی ہے، اسے کھلاتی پلاتی ہے اور اس کے لئے اتنا کام کرتی ہے کہ اگر اتنا ہی کام کسی قیدی سے لیا جائےتو میں سمجھتا ہوں ملک میں شور پڑ جائے کہ ظلم ہورہا ہے، مگر ایساکام ہر گھر میں عورتیں کرتی ہیں، لیکن کوئی اسے ظلم یا تکلیف نہیں کہتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ یہ کام اپنے شوق سے کرتی ہیں اور اس مصیبت کو آپ اپنے پر ڈالتی ہیں اور میرا خیال ہے اگر کسی عورت سے کہا جائے تم کیوں اس قدر تکلیف اٹھاتی ہو اس بچہ کو پھینک دو اور آرام کرو تو وہ گالیاں دینے لگ جائے۔ کیونکہ اس مشکل کو وہ راحت سمجھتی ہے۔ اسی طرح طالب علم جس قدر رات دن محنت کرتا ہے میں سمجھتا ہوں اگر دوسرے تنخواہ دار لوگوں سے اس قدر کام لیا جائے تو وہ چِلّا اُٹھیں۔ مگر دیکھو طالب علم کی کیا چھوٹی سی جان ہوتی ہے لیکن وہ اس خیال سے کہ میں عزت پا جاؤں نہایت شوق سے تعلیم کی محنت کو اپنے اوپر برداشت کرتا ہے۔ تو جو مشکل انسان خود اپنے پر ڈالے اسے وہ مصیبت نہیں بلکہ راحت سمجھتا ہے لیکن جو مصیبت اس پر ڈال دی جاتی ہے وہ فی الحقیقت اس کے لئے مصیبت ہوتی ہے۔ انبیاء اور ان کے سچے متبعین کے راستہ میں جو مشکلات ہوتی ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہوتی ہیں جنہیں وہ خود مانگتے ہیں اور ان کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کے متعلق لکھا ہے۔ آپؓ ہمیشہ دعا کرتے تھے کہ مجھے موت مدینہ میں آئے اور شہادت کی موت آئے۔(صحیح بخاری کتاب الجھاد باب الدعاء بالجھاد و الشھادة) دیکھو موت کس قدر بھیانک چیز ہے۔ موت کے وقت عزیز سے عزیز بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کسی عورت کی بیٹی بیمار ہوگئی۔ وہ دعائیں کرتی خدایا میری بیٹی بچ جائے اور اس کی جگہ میں مر جاؤں۔ ایک شب اتفاق سے اس کی گائے کی رسی کھل گئی اس نے ایک برتن میں منہ ڈال دیا جس میں اس کا سر پھنس گیا۔ اور وہ اسی طرح گھڑا سر پر اٹھا کر ادھر ادھر بھاگنے لگی۔ یہ دیکھ کر کہ گائے کے جسم پر منہ کی بجائے کوئی بڑی سی چیز ہے وہ عورت ڈر گئی۔ اس نے سمجھا شاید میری دعا قبول ہوگئی اور عزرائیل میری جان نکالنے کے لئے آیا ہے۔ اس پر بے اختیار بول اُٹھی۔ عزرائیل بیمار میں نہیں ہوں۔ بلکہ وہ لیٹی ہے اُس کی جان نکال لے۔ تو جان اتنی پیاری چیز ہے کہ اسے بچانے کے لئے انسان ہر ممکن تدبیر کرتا ہے اور علاج کراتے کراتے کنگال ہوجاتا ہے۔ لیکن صحابہ کرام ؓکو یہی جان خدا تعالیٰ کے لئے دینے کی اس قدر خواہش تھی کہ حضرت عمرؓ دعائیں کرتے مجھے مدینہ میں شہادت نصیب ہو۔ مجھے خیال آیا کرتا ہے حضرت عمرؓ کی یہ دعا کس قدر خطرناک تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دشمن مدینہ پر چڑھ آئے اور مدینہ کی گلیوں میں حضرت عمرؓ کو شہید کر دے لیکن خدا تعالیٰ نے ان کی دعا کو اَور رنگ میں قبول کر لیا اور وہ ایک مسلمان کہلانے والے کے ہاتھ سے ہی مدینہ میں شہید کر دیئے گئے۔ بعض کے نزدیک وہ شخص مسلمان نہ تھا۔بہرحال وہ ایک غلام تھا جس سے خدا تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کو شہید کرا دیا۔ (حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کے عیسائی غلام ابو لؤ لؤ (فیروز) کے ہاتھ 28 ذوالحجہ 23ھ کو زخمی ہوئے اور یکم محرم 24ھ وفات پائی۔تاریخ کامل ابن اثیر جلد3 صفحہ 24)تو انسان خود جن چیزوں کو چاہتا ہے اور خواہش رکھتا ہے وہ اس کے لئے مصیبت نہیں ہوتیں۔
حضرت خالدبن ولیدؓ(ابو سلیمان سیف اللہ خالد بن ولید بنو مخزوم 642ء۔22ھ)جب فوت ہونے لگے تو رو پڑے۔ ایک دوست نے دریافت کیا۔ آپ کیوں روتے ہیں؟ فرمایا۔ میرے جسم سے کپڑا اُتار کر دیکھو سر سے لے کر پاؤں تک تلواروں کے نشان موجود ہیں۔ میں نے میدان جنگ میں ہر جگہ شہادت کے لئے اپنے آپ کو ڈالا۔ میرے پاؤں کے انگوٹھے سے لے کر تالو تک صدہا نشانات تلوار کے موجود ہیں لیکن آج میں بستر پر پڑا مر رہا ہوں(صحیح بخاری کتاب الجھاد باب تمنی الشھادة و استیعاب فی معرفة الاصحاب جلد1 صفحہ 158 مصنفہ علامہ قرطبیؒ مطبوعہ دائرة المعارف حیدر آباد دکن 1318ھ)تو وہی جان جو لوگوں کو اس قدر پیاری ہوتی ہے انہوں نے کس شوق سے خدا کی راہ میں قربان کرنے کی کوشش کی اور شہادت نہ ملنے پر روتے اور اظہار افسوس کرتےرہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو قربانی خوشی سے برداشت کی جائے اس میں انسان لذت محسوس کرتا ہے۔ نبی کی جماعت کو قربانیاں اسی شوق سے کرنی چاہئیں جس شوق سے روزے رکھے جاتے ہیں۔ روزہ میں بھوکا اور پیاسا رہنا پڑتا ہے مگر بچے روتے ہیں کہ ہم بھی روزہ رکھیں گے۔ ویسے تو اگر کھانے کے معمولی اوقات سے دو گھنٹہ بھی کھانا ملنے میں دیر ہوجائے تو بچے اودھم مچا دیتے ہیں لیکن روزہ نہ رکھنے دو تو پھر بھی روتے ہیں۔ وہ چونکہ دیکھتے ہیں کہ ماں باپ روزہ رکھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اس لئے وہ بھی اس فاقہ سے خوش ہوتے ہیں اور وہی روزہ جس کی وجہ سے بھوکا اور پیاسا رہنا پڑتا ہے خوشی سے رکھنا راحت کا موجب ہوجاتا ہے۔
پس بظاہر انبیاء کی آمد سے ماننے والوں کے لئے مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اور انہیں مال و جان، عزت و آبرو، وطن اور عزیز و اقارب ، دوست و احباب غرضیکہ ہر چیز کی قربانی کرنی پڑتی ہیں جو بظاہر ان کے لئے مصیبت ہوتی ہے۔(البقرة:214، 215 و نوٹ تفسیر صغیر زیر ہر دو آیات۔ صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فضائل سعد بن ابی وقاص۔ اُسد الغابة فی معرفة الصحابة جلد2 صفحہ 292 تذکرہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ و السیرة الحلبیة جلد3 صفحہ 36، 37 تذکرہ حضرت صہیب رومیؓ) لیکن ان کے لئے یہ مصائب روزہ کے مصائب کی طرح ہوتے ہیں۔ روزہ کے دنوں میں بھوک اور پیاس سے انسان کا جسم گُھلاجاتا ہے مگر اس کی آنکھوں میں ہر روز عید کا چاند پِھر رہا ہوتا ہے۔ لیکن جن کے لئے روزہ خوشی کا موجب نہیں ہوتا ان کے لئے رمضان قیامت کا نظارہ ہوتا ہے۔ پس یہ نیت اور ارادہ کی بات ہے۔ جسے انسان خوشی سمجھتا ہے وہ اس کے لئے عید ہوتی ہے اور جسے بُرا سمجھتا ہے وہ مصیبت ہے۔
ہماری جماعت کو بھی جس نے اس زمانہ کے مامور کو قبول کیا ہے قربانیوں کو اسی رنگ میں دیکھنا چاہیئے جس طرح رمضان کے روزے ہوتے ہیں۔ جس طرح رمضان کے روزے مصیبت نہیں سمجھے جاتے بلکہ ان میں لذت محسوس ہوتی ہے بعینہٖ اسی طرح دین کی اشاعت اور خدمتِ اسلام کے لئے جو قربانیاں ہمیں کرنی پڑیں ان میں لذت محسوس کرنی چاہیئے اور سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ مصائب روزہ یا حج کی طرح ہیں اور ان کے نتیجہ میں عید آئے گی اور اگر دنیا میں عید نہ آئی تو شہادت نصیب ہوگی اور وہ بھی عید ہے۔ جو اس دنیا میں ہوگا وہ عید کے اس چاند کو دیکھے گا اور جو مرگیا وہ اس حقیقی چاند کا منہ دیکھ سکے گا جس کی خواہش میں لوگ اس چاند کو دیکھا کرتے ہیں۔ اس لئے اس سے بڑھ کر وہ عید ہے۔ پس مومنوں کو قربانی سے کبھی گھبرانا نہ چاہیئے کیونکہ قربانیاں تباہی کا نہیں بلکہ آئندہ ترقیات کا موجب ہوتی ہیں لیکن یہ قربانیاں دنیا یا کسی انسان کے لئے نہیں ہونی چاہئیں اور نہ اس خیال سے ہونی چاہئیں کہ لوگ ہماری ان قربانیوں کو دیکھیں اور تعریف کریں کیونکہ دین کے لئے قربانیوں کا کوئی شخص بدلہ نہیں دے سکتابلکہ جوشخص یہ خیال بھی کرتا ہے اور کسی انسان سے دین کے لئے قربانیوں کے بدلہ کی امید بھی رکھتا ہے خواہ وہ انسان نبی یا اس کا خلیفہ ہی کیوں نہ ہو وہ اپنی قربانیوں کو ضائع کرتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیئے دین کے لئے قربانیاں اتنی عظیم الشان چیز ہے کہ ان کا بدلہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی دے ہی نہیں سکتااور جو سمجھتا ہے ایسی قربانیوں کا بدلہ کوئی انسان بھی دے سکتا ہے وہ ایسی قربانیوں کی حقیقت کو ہی نہیں سمجھتا اور وہ اپنے ساتھ اس شخص کی بھی تذلیل کرتا ہے جس سے ایسے بدلہ کی امید وابستہ رکھتا ہے۔ جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ دین کے لئے قربانیوں کا بدلہ کوئی انسان دے سکتا ہے۔ اس کی مثال اس بیوقوف فقیر کی سی ہے جسے کسی اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر نے کچھ دیا تو اس نے خوش ہو کر کہا۔ ’’خدا تینوں تھانیدار کرے‘‘۔ یعنی خدا تمہیں پولیس کا سب انسپکٹربنائے۔ چونکہ تھانیدار عام طور پر آوارہ فقیروں کو پکڑ کر ڈانٹتے ڈپٹتے رہتے ہیں اس لئے اس کے نزدیک سب سے بڑا عہدہ یہی تھا۔ پس یہ خیال کہ ایسی قربانیوں کا بدلہ خدا نہیں بلکہ کوئی انسان دے گا یہ ایسا ہی خیال ہے جیسا اس بیوقوف فقیر کا تھا۔
حدیثوں میں آتا ہے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہر عمل کا بدلہ ہے لیکن رمضان کا بدلہ خود میری ذات ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائم اذا شتم و صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل الصیام)اگر کوئی کہے یہ حدیث ہی میں ہے قرآن میں ایسا کہاں لکھا ہے تو قرآن میں بھی موجود ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔(البقرة: 187)رمضان کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا۔ رمضان میں جب میرے بندے مجھ سے دعا کرتے ہیں تو میں ان کے پاس آکر ان کی دعائیں سنتا ہوں۔ پھر حدیث میں چاند کی رؤیت کو خدا تعالیٰ کے دیدار کی مثال میں پیش کیا گیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہؓ نے دریافت فرمایا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! قیامت کے دن اس قدر ہجوم ہوگا ہم خدا تعالیٰ کو کس طرح دیکھ سکیں گے۔ آپؐ نے فرمایا جس طرح ہلال کو دیکھتے ہو۔ کیا اُس وقت بھیڑ ہوتی ہے؟ (حدیث جرید بن عبداللہ البحلی۔ ابن الجوزی فی مناقب الامام احمد صفحہ 391 بحوالہ تاریخ بغداد مصنفہ حافظ خطیب بغدادی جلد 11 صفحہ 466، 467 مطبوعہ مصر 1931ء۔ صحیح بخاری کتاب التوحید بابقولہ اللہ تعالیٰ وجوہٌ یومئذناضرة الی ربھا ناظرہ)تو خدا تعالیٰ کی خاطر قربانیوں کا بدلہ خود خدا تعالیٰ ہی ہے۔ پس دین کی خاطر جو مشکلات برداشت کی جائیں ان میں یہ بات ہمیشہ مدنظر رکھنی چاہیئے کہ ان کا بدلہ کوئی انسان نہیں دے سکتا بلکہ میرے نزدیک اس میں کوئی ہتک نہیں بلکہ فخر ہے اگر میں یہ کہوں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خدا کے لئے قربانیوں کا بدلہ نہیں دے سکتے کیونکہ جس چیز کا بدلہ خود خدا ہو اس کا بدلہ انسان خواہ وہ کس قدر بھی بلند شان ہو کس طرح دے سکتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ بغیر سچی قربانی کے عید بھی نہیں ہوسکتی جیسے وہ شخص جو روزہ کو چَٹّی سمجھتا ہے اور اس کے لئے اپنے اندر کوئی خواہش نہیں پاتا اس کے لئے کوئی عید نہیں۔ اسی طرح جو شخص دین کے لئے قربانی کرنے کی سچی خواہش نہیں رکھتا بلکہ اسے چَٹّی سمجھتا ہے اس کے لئے بھی عید نہیں ہوسکتی۔ پس دین کی خدمت اسی شوق اور خواہش سے کرنی چاہیئے جس طرح ایک ماں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے۔ وہ اسے چَٹّی نہیں سمجھتی بلکہ اس میں لذت محسوس کرتی ہے۔ بعض لوگ بچوں کو کھلانے کے لئے نوکر رکھتے ہیں لیکن بچے نوکر کے پاس جا کر روتے ہیں اور ماں کے پاس ہی رہنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ نوکر بچہ کو کھلانا چَٹّی سمجھتے ہیں مگر ماں دلّی محبت سے کھلاتی ہے۔ اس وجہ سےبچہ ماں کے پاس رہنا چاہتا ہے نوکر کے پاس نہیں جاتا۔ تو جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت میں لذت محسوس نہیں کرتے ان کے پاس خدا تعالیٰ کبھی نہیں آتا۔ آج مسلمانوں کے لئے خدا تعالیٰ نے عید کا سامان مہیا کر دیا ہے کہ حضرت نوحؑ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک کوئی ایسا نبی نہیں گذرا جس نے اس عید کی بشارت نہ دی ہو۔ (ملفوظات جلد7 صفحہ 143، آئینہ کمالات اسلام صفحہ 303، تحفہ گولڑویہ صفحہ 216 و نوٹ حاشیہ صفحہ ہذا) (جوزف برکلے ایل ایل ۔ڈی: وی طالمود: تعارف۔ باب پنجم صفحہ 37 مطبوعہ لندن 1878ء)(دانیال باب 13 آیات 9تا 13)(پطرس 2 باب 3 آیات 12، 13)(سفرنگ دساتیر مطبوعہ 1280 صفحہ 189، 190)(بھگوت گیتا ادھیائے 4)(صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ ابن مریم)(صحیح بخاری کتاب التفسیر زیر آیت وآخرین منھم لما یلحقوا بھم)
اب یہ ہمارے اختیار میں ہے چاہے عید کریں یا نہ کریں۔پس چاہیئے کہ ہم ان قربانیوں کو جو خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر کرنی پڑیں چَٹّی نہ سمجھیں بلکہ ان میں لذت محسوس کریں تاپیشتر اس کے کہ عید کا دن آئے جب کہ خدا تعالیٰ کا نور تمام دنیا میں پھیل جائے ہمیں عید ہی عید نظر آتی رہے۔ پس میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے لئے جو عید آئی ہے خدا تعالیٰ ہمیں اس کے کرنے کی توفیق دے۔
(الفضل 19 مارچ 1929ء)
(خطبات محمود جلد اول صفحہ 163تا 170)
٭…٭…٭