خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍اپریل2021ء
ہمیں رمضان کے آخری عشرے میں خاص طور پر اپنی عبادتوں کو سنوارنے اور درود اور استغفار پڑھنے، توبہ کرنے، دعائیں کرنے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بھی حق ادا کرنے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن کر جہنم سے بچنے والے ہوں
ہمارا ہر عمل اور ہماری ہر حرکت و سکون ہمارے اس دعویٰ کی عکاسی کرنے والی ہو کہ ہم اس مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے والے ہیں جس کے بارے میں آسمان پر فرشتوں نے بھی کہا تھا کہ یہ وہ شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا ہے
آج جو دنیا میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود اور مہدی معہود ؑکا مقام ہے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کی وجہ سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی وجہ سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق ہونے کی وجہ سے ہے
ہم جو ہر موقع پر یہ عہد کرتے ہیں کہ مَیں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا کیا ہمارا یہ فرض اور بہت بڑا فرض نہیں ہے کہ اس محیی کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے، اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہوئے اس مسیح و مہدی کے معاون و مددگار بنیں
درود کا حقیقی ادراک اگر کسی نے آج دنیا کو دینا ہے تو ہم احمدیوں نے دینا ہے اس لیے اس رمضان میں جہاں درود کی طرف زیادہ توجہ دیں وہاں اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں بھی پیدا کرنے کی کوشش کریں جو اس درود کی قبولیت کے لیے ضروری ہیں
اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے دروازے کھلے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انسان صحت کی حالت میں توبہ کرے اور نہ یہ کہ آخری سانس لیتے ہوئے
رمضان المبارک اور بالخصوص آخری عشرہ کی مناسبت سے درود شریف اور توبہ و استغفار کی اہمیت کا بیان اور ان کے ورد کی تلقین
پاکستان میں جماعتِ احمدیہ کے مخالفانہ حالات کے پیش نظر احمدیوں کے لیے نیزکورونا کی بلا سے نجات کے لیے دعا کی تحریک
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍اپریل2021ء بمطابق 30؍شہادت1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج کل ہم ماہ ِرمضان میں سے گزر رہے ہیں اور دو دن تک آخری عشرے میں بھی شامل ہونے والے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ رمضان کے آخری عشرے میں جہنم سے نجات دیتا ہے۔
(کنز العمال جزء 8 صفحہ 463 حدیث 23668 موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
پس ہمیں ان دنوں میں خاص طور پر اپنی عبادتوں کو سنوارنے اور درود اور استغفار پڑھنے، توبہ کرنے، دعائیں کرنے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بھی حق ادا کرنے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن کر جہنم سے بچنے والے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اسوہ اور طریق رمضان کے آخری عشرے میں کیا تھا؟ عبادتوں کے کیا معیار تھے؟ آپؐ کے تو عام دنوں میں بھی عبادتوں کے وہ معیار تھے کہ ہم ان کا الفاظ میں بیان بھی نہیں کر سکتے لیکن رمضان میں ان کی کیا حالت ہوتی تھی اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپؐ اتنی کوشش فرماتے کہ جو اس کے علاوہ کبھی دیکھنے میں نہ آتی۔
(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب العمل فی العشر الاوخر من رمضان حدیث 2024)
پس یہ تو ظاہر ہے کہ یہ ہمارے تصور سے باہر ہے کہ کیا کوششیں ہوتیں اور حضرت عائشہ ؓبھی ان کوششوں کو پوری طرح بیان نہیں فرما سکیں کہ کیا کوششیں تھیں لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کا مومنوں کو حکم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے اسوہ ٔحسنہ ہیں تم نے ان کی پیروی کرنی ہے اور اپنی استعدادوں کے مطابق انہی اعلیٰ معیاروں تک پہنچنے کی کوشش کرنی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے قائم فرمائے۔ تبھی اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنے گا اور ہم اس راستے پر چلنے والے اور اس مقام کی طرف بڑھنے والے ہوں گے جو ایک مومن کا راستہ ہے اور وہ مقام ہے جسے ایک مومن کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پس ہمیں چاہیے کہ ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں میں لگ جائیں۔
آج کل احمدیوں کو تو خاص طور پر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ بعض ملکوں میں خاص طور پر پاکستان میں اور باقی مسلمان ممالک میں بھی عموماً جو جماعت کے خلاف مختلف کوششیں ہو رہی ہیں اور جو نفرت کی آگیں ہمارے خلاف بھڑکائی جا رہی ہیں یاایسی کوشش کی جا رہی ہے اس سے اللہ تعالیٰ ہمیں بچا کے رکھے اور دشمن کے شر اُن پر الٹائے۔ اور اسی طرح یہ بھی دعا کرنی چاہیے کہ یہ وبا جو اب پھیلی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ اس سےبھی ہمیں محفوظ رکھے۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے ذریعہ دعاؤں کی طرف نہ صرف توجہ دلائی بلکہ ان کے مقبول ہونے کے طریقے بھی سکھلائے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا بھی قبولیتِ دعا کے لیے بہت ضروری ہے ورنہ وہ دعائیں زمین و آسمان کے درمیان معلق ہو جاتی ہیں۔
(جامع الترمذی ابواب الوتر باب ما جاء فی فضل الصلوٰۃ علی النبیﷺ حدیث 486)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے مجھ پر درود بھیجنا چھوڑ دیا وہ جنت کی راہ کھو بیٹھا۔
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ علی النبیؐ حدیث 908)
اسی طرح ایک یہ بھی حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پہ درود بھیجا کرو۔ تمہارا درود بھیجنا خود تمہاری پاکیزگی اور ترقی کا ذریعہ ہے۔
(کنزالعمال جزء اول صفحہ 249 کتاب الاذکار/قسم الاقوال، الباب السادس فی الصلوٰۃ علیہ وعلی آلہ علیہ الصلاۃ والسلام روایت نمبر 2164 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
پھر یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص مجھ پر دلی خلوص سے درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ دس بار درود بھیجے گا اور اسے دس درجات کی رفعت بخشے گا اور اس کی دس نیکیاں لکھے گا۔
(کتاب السنن الکبریٰ للنسائی جلد6 صفحہ21-22 کتاب عمل الیوم واللیلۃ/ ثواب الصلاۃ علی النبیﷺ روایت نمبر 9892 دارالکتب العلمیۃ بیروت1991ء)
پس ان روایات سے درود شریف کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے اور ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ماننے والے ہیں، ہم جو اس بات کے دعویدار ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کا ادراک حاصل کیا ہے وہ اس کے بغیر ممکن نہیں تھا، ہمارا فرض بنتا ہے کہ درود شریف کی اہمیت کو سمجھیں اور زیادہ سے زیادہ درود پڑھنے کی کوشش کریں۔ صرف اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنے بلکہ اس لیے کہ مستقل پاکیزگی ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائے۔ اس درود کے ذریعہ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بن جائیں۔ ہم اس درود کے ذریعہ اپنی زندگیوں کو مستقلاً پاکیزہ کرنے والے بن جائیں۔ ہم دینی اور روحانی ترقی حاصل کرنے والے بن جائیں۔ صرف ہمارا دعویٰ یا منہ کی باتیں نہ ہوں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو مانا ہے بلکہ ہمارا ہر عمل اور ہماری ہر حرکت و سکون ہمارے اس دعویٰ کی عکاسی کرنے والی ہو کہ ہم اس مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے والے ہیں جس کے بارے میں آسمان پر فرشتوں نے بھی کہا تھا کہ یہ وہ شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔
(ماخوذ از براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 598 حاشیہ در حاشیہ نمبر3)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس الہام کا تذکرہ فرماتے ہوئے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ اٰدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیّیْنَ۔اور درود بھیج محمد اور آل محمد پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے صلی اللہ علیہ وسلم، فرمایا کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفضلات اور عنایات اس کے طفیل سے ہیں اور اسی سے محبت کرنے کا یہ صلہ ہیں۔ فرمایا: سبحان اللہ اس سرور ِکائنات کے حضرتِ احدیت میں کیا اعلیٰ مراتب ہیں، اس سرور ِکائنات کے حضرتِ احدیت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قرب ہے کہ اس کا محبوب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کا خادم ایک دنیا کا مخدوم بن جاتا ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا حق ادا کرنے والا اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ مقام حاصل کرتا ہے کہ ایک دنیا اس کے ہاتھ پر جمع ہو کرغلامی کا اعلان کرتی ہے۔ پس آج جو دنیا میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود اور مہدی معہود ؑکا مقام ہے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کی وجہ سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی وجہ سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس محبت ہی کی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آنے والا وہ امتی نبی قرار دیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو پھیلانے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ آگے چلانے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اسلام کی اشاعت کے لیے بھیجا گیا ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ اس مقام پر مجھے یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا۔ اس رات خواب میں دیکھا کہ آبِ زلال کی شکل پر یعنی ایک میٹھے اور صاف پانی کی صورت میں بھری ہوئیں نور کی مشکیں فرشتے اس عاجز کے مکان پر لیے آتے ہیں اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجی تھیں اور ایسا ہی عجیب ایک اَور قصہ یاد آیا کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملأِاعلیٰکے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادہ الٰہی احیائے دین کے لیے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملأِاعلیٰپر شخص مُحیی کا تعین ظاہر نہیں ہوئی اس لیے وہ اختلاف میں ہے۔ اس اثنا میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا۔ ھٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ۔ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرطِ اعظم اس عہدہ کی یعنی مُحیی کی یا احیائے دین کرنے والے کی جو سب سے بڑی شرط ہے وہ محبتِ رسول ہے۔ سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔
(ماخوذ از براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 597-598 حاشیہ در حاشیہ نمبر3)
پس ہم اُس مسیح و مہدی کے ماننے والے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے احیائے دین کے لیے بھیجا ہے۔ اسلام کی نشأتِ ثانیہ کا اہم کام دے کر بھیجا ہے۔ ساری دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لانے کے لیے بھیجا ہے۔ اور آپ علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ڈوب کر ہی یہ مقام پایا ہے۔ ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق کی جماعت میں شامل ہیں، ہم جو ہر موقع پر یہ عہد کرتے ہیں کہ مَیں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا کیا ہمارا یہ فرض اور بہت بڑا فرض نہیں ہے کہ اس محیی کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے، اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہوئے اس مسیح و مہدی کے معاون و مددگار بنیں۔ دنیا کو بتائیں کہ تم جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعوذ باللہ توہین کرنے والا سمجھتے ہو وہی سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں۔ وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس درود و سلام کا صحیح ادراک حاصل کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق سے اس درود کا صحیح ادراک حاصل کر کے آپ پر درود و سلام بھیجنے والے ہیں۔ ہم ہیں جو رمضان میں نہ صرف اپنی ذاتی دعاؤں کی طرف توجہ دینے والے ہیں بلکہ بے چین ہو کر کہ کس طرح دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا بول بالا ہو، کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تمام دنیا میں لہرائے، کس طرح لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آ کر اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بنیں، کس طرح لوگ آپؐ کی غلامی میں آنے کو اپنے آپ کے لیے باعث ِفخر سمجھیں، کس طرح لوگ اسلام کے نام کے ساتھ جڑنے کو اپنے لیے باعثِ فخر سمجھیں کہ یہی ایک دین ہے جو دنیا میں امن و سلامتی کی ضمانت ہے۔ یہی ایک دین ہے جو بندے کو خدا تعالیٰ سے جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی ایک دین ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ آج بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے ماننے والوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور انہیں جواب دیتا ہے۔ پس ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہم احمدیوں کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے۔ ہم نے ہی دنیا کو اب یہ بتا نا ہے۔ پس ہمیں اب یہ دیکھنا ہے کہ کس سچائی اور گہرائی سے ہم اس فرض کو ادا کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں سے فیض اٹھانے والے بنتے ہیں۔ اگر ہم نے حقیقتاً تا قیامت ان انعاموں اور فضلوں کا وارث بننا ہے تو ہمیں انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے چلے جانا ہو گا اور اگر ہم اس طرح کریں گے تو پھر ہم دیکھیں گے کہ کس طرح دشمن کے مکر اور اس کے حربے اور اس کے حملے اللہ تعالیٰ کے فضل سے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں، کس طرح اللہ تعالیٰ خود ہی دشمن سے نپٹ لیتا ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ روحانی طور پر بھی ہم اور ہماری نسلیں ترقی کی منازل طے کرنے والی ہوں گی۔ ہم انفرادی دعاؤں کی قبولیت کے نشان بھی دیکھیں گے اور اجتماعی دعاؤں کی قبولیت کے نشان بھی دیکھیں گے اور یہ بات کبھی جھوٹی نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے ہمیں اس بات کی ضمانت دی ہے کہ جو دعا اللہ تعالیٰ کی ثنا اور مجھ پر درود بھیجتے ہوئے کرو گے وہ تمہاری حاجتیں پوری کرنے والی دعا ہو گی لیکن شرط یہ ہے کہ دل سے اور خلوصِ دل سے ادا کیا ہوا یہ درود ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کے بلند تر کرنے کی ایک تڑپ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دلی دعا ہو اور یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے جب اس بات کی گہرائی اور حکمت کا بھی علم ہو۔
اس بارےمیں بھی مختصراً بتا دیتا ہوں۔ درد سے دعا اس وقت نکلتی ہے جب یہ علم ہو کہ انسان دعا کر کیا رہا ہے۔ صرف منہ سے الفاظ ادا کرنے سے نہ ہی الفاظ کی گہرائی اور مطلب کا علم ہو سکتا ہے نہ یہ دل پر اثر کر سکتے ہیں جو ہونا چاہیے۔ اور اگر دل پر اثر نہ ہو تو وہ جوش اور و ہ رقّت پیدا نہیں ہو سکتی۔ پس دل پر اثر کے لیے انسان کو پتہ ہونا چاہیے کہ دعا کر کیا رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟ لاکھوں کروڑوں لوگ منہ سے درود کے الفاظ دہرا دیتے ہیں لیکن یہ پتہ نہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ درود پڑھنے کا ہمیں کیا فائدہ ہے؟ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا کیا فائدہ ہے؟ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ بیان فرمایا تھا۔ اس کا خلاصہ اس وقت مَیں کچھ حد تک پیش کر دیتا ہوں۔
درود میں اَللّٰهُمَّ صَلِّپ ہلے رکھا گیا ہے اور اَللّٰهُمَّ بَارِكْ بعد میں۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ صلوٰة کے معنےدعا کے ہیں اور اَللّٰهُمَّ صَلِّکے معنے ہوئے کہ اے اللہ!تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا کر۔ اب دعا کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا وہ دوسرے سے مانگتا ہے۔ دوسرے اس کی دعا ہے جس کا اپنا اختیار ہے اور وہ خود عطا کرتا ہے۔ جب ہم خدا تعالیٰ کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ دعا کرتا ہے تو اس کے معنی ہیں کہ وہ اپنی مخلوق اور پیدا کی ہوئی چیزوں ہوا،پانی، زمین ،پہاڑ باقی جو سب چیزیں ہیں ان سب کو کہتا ہے کہ میرے بندے کی تائید کرو۔ پس اَللّٰهُمَّ صَلِّکے یہ معنی ہوئے کہ اے اللہ !تو ہر نیکی اور بھلائی اور دنیا وزمین و آسمان کی ہر چیز کی بھلائی اپنے رسول کے لیے چاہ اور ان کو عزت و عظمت عطا فرما، عزت و عظمت کو بڑھا اور پھر دیکھیں کہ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس سے بڑھ کر کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم تو اس بات کا احاطہ بھی نہیں کرسکتے کہ اللہ تعالیٰ کیا چاہتا ہے۔ پس یہ دعا اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دی کہ وہ یہ چاہے کہ جو زیادہ سے زیادہ مقام ہو سکتا ہے اور جو اس کی نظر میں ہوتا ہے یا وہ کیا چاہتا ہے وہ عطا فرما۔ اور اَللّٰهُمَّ بَارِكْکے یہ معنے ہیں کہ اے اللہ!تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی رحمتیں، فضل اور انعامات جو تُو نے ان پر کیے ہیں انہیں اتنا بڑھا کہ سارے جہان کی رحمتیں اور برکتیں آپؐ پر اکٹھی ہو جائیں۔اب پہلے اللہ تعالیٰ جو چاہے گا وہ عطا کرے گا اور کیا چاہا اس کا بھی ہم احاطہ نہیں کر سکتے۔ پھر اس میں اتنی برکتیں دے، ان کو بڑھاتا چلا جائے کہ وہ بالکل ہی ہمارے تصور اور احاطے سے باہر ہیں۔ پس جب آپؐ پر یہ سب باتیں، یہ دعائیں اکٹھی ہوں گی اور ان کے قائم رکھنے کے لیے ہم دعا ئیںکریں گے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں جو آپؐ کی امّت کے لیے ہیں ان سے ہم بھی حصہ لے رہے ہوں گے۔ جب ہم دل میں درد رکھتے ہوئے آپؐ کے دین کی سربلندی اور آپؐ کی تمام دنیا میں حاکمیت کے لیے دعا کریں گے تو خدا تعالیٰ ہمیں بھی ان دعاؤں میں حصہ دار بنا کر ہمیں بھی درود سے فیض یاب کرے گا کیونکہ امّت کے لیے بھی ساتھ ہی دعا ہے۔ جو بیج ہم لگائیں گے اس کے پھلوں سے ہم بھی فیض یاب ہوں گے کیونکہ صَلِّایک بیج کی صورت ہے اور بَارِكْاس کے پھلوں کی صورت ہے۔
(ماخوذ از خطبات محمود جلد7 صفحہ77-78)
لیکن شرط یہ ہے کہ خلوص دل سے، خلوص نیت سے یہ سب کچھ ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل ہو۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ ہو۔ حقیقی آل کا ہم حق ادا کرنے والے ہوں۔ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نام پر ظلم ہوں اور ساتھ درود پڑھ کر کہیں کہ ہم ان برکات کا مورد بھی بن جائیں جو درود پڑھنے والے کو ملتے ہیں۔ قانون توڑ کر لوگوں کو تکلیف میں ڈال کر پھر کہنا کہ ہم رسول کے عاشق ہیں اور آپؐ پر درود اور سلام بھیجنے والے ہیں اس لیے ہمیں کچھ نہ کہا جائے۔ سڑکیں بلاک کر دیں، مریض ہسپتال نہ پہنچ سکیں اس لیے کہ ہم اللہ اور رسول کے نام پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں ہم صحیح ہیں۔ تو یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں کی صریح نافرمانی ہیں، مکمل طور پر نافرمانی ہیں اور قطعاً اس کی نہ اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے نہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہےاور نہ ایسے لوگوں کے درود پھر کوئی فائدہ دیتے ہیں اور یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو بڑھانے کی بجائے اسے کم کرنے کی ایک گھناؤنی کوشش ہے۔ اسلام کو بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے نام پر جو ظلم ہوتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ بھی سخت ہوتی ہے۔ یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔
پس درود کا حقیقی ادراک اگر کسی نے آج دنیا کو دینا ہے تو ہم احمدیوں نے دینا ہے۔ اس لیے اس رمضان میں جہاں درود کی طرف زیادہ توجہ دیں وہاں اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں بھی پیدا کرنے کی کوشش کریں جو اس درود کی قبولیت کے لیے ضروری ہیں اور اگر یہ قبول ہو جائے تو انسان کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے، اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، اس کی روحانی حالت بہتر ہوتی ہے، عشقِ رسول میں حقیقی ترقی ہو کر انسان اللہ تعالیٰ کا حقیقی قرب پاتا ہے اور حقیقی درود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ کر پھر ان کی امّت کی ترقی کے سامان کر رہا ہوتا ہے۔ درود شریف کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے مزید ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی مومنوں کو فرمایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا
(الاحزاب:57)
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی اتنی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے بھی رسولؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اب یہاں یہ بات اَور بھی واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کی دعا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہر آن آپؐ کے درجات بلند کرتا چلا جا رہا ہے اور آپؐ کی عظمت اور شان کو قائم رکھنے کے لیے سامان مہیا کرتا چلا جا رہا ہے اور اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی یہ ذمہ داری لگائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر حقیقی عمل کرنے والے بن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو۔ اس سے تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہرو گے اور فرشتوں کی دعاؤں سے بھی فیض حاصل کرو گے کیونکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فرشتے درود بھیجیں گے تو ان کا فیض آپؐ کی حقیقی امّت کو بھی اور ماننے والوں کو بھی پہنچے گا اور جب یہ فیض ہمیں پہنچے گا تو پھر شکر گزاری کا تقاضا ہے کہ ہم پہلے سے بڑھ کر درود بھیجنے والے بنیں اور یہ درود اور شکرگزاری ایسا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہے جو ایک حقیقی مومن کو فیضیاب کرتا چلا جاتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اس آیت کی وضاحت میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’ہمارے سیدومولیٰ حضرت محمدرسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صدق ووفا دیکھئے۔ آپؐ نے ہرایک قسم کی بد تحریک کا مقابلہ کیا۔ طرح طرح کے مصائب وتکالیف اٹھائے لیکن پروا نہ کی۔ یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا (الاحزاب:57) ……
اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسولؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم درود و سلام بھیجو نبیؐ پر۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم ؐ کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔ لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کیے۔ یعنی آپؐ کے اعمالِ صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی۔‘‘ ان کا احاطہ کرنا بہت مشکل تھا۔ اس سے باہر تھی۔ ’’اس قسم کی آیت کسی اَور نبی کی شان میں استعمال نہ کی۔ آپؐ کی روح میں وہ صدق و صفا تھا اور آپؐ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں۔‘‘
(ملفوظات جلد1 صفحہ37-38)
پس یہ شکر گزاری آخر ہمیں ہی فائدہ پہنچانے والی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ اس رمضان میں بھی اور بعد میں بھی ہمیں ہمیشہ درود کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے درود بھیجنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلَى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ۔ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ
دوسری بات جس کی طرف میں اس وقت خاص طور پر توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ ہے استغفار۔ یہ دعا کہ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ۔یعنی میں تمام گناہوں سے اللہ تعالیٰ کی مغفرت طلب کرتا ہوں جو میرا رب ہے اور اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکتا ہوں۔ یہ ایک ایسی دعا ہے جو انتہائی اہم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ
’’استغفار کے اصلی اور حقیقی معنے یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے۔ یہ لفظ غَفَرَ سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں۔ سو اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مستغفِر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے۔ لیکن بعداس کے عام لوگوں کے لئے اس لفظ کے معنی اور بھی وسیع کئے گئے اور یہ بھی مراد لیا گیا کہ خدا گناہ کو جو صادر ہو چکا ہے ڈھانک لے۔ لیکن اصل اور حقیقی معنی یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مستغفر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے کیونکہ خدا انسان کو پیداکرکے اس سے الگ نہیں ہوا بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اس کے تمام قویٰ اندرونی اور بیرونی کا پیدا کرنے والا ہے ویسا ہی وہ انسان کا قیوم بھی ہے یعنی جو کچھ بنایا ہے اس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا ہے۔‘‘ قائم رکھنے والاہے۔ فرمایا ’’پس جبکہ خدا کا نام قیوم بھی ہے یعنی اپنے سہارے سے مخلوق کو قائم رکھنے والا۔ اس لئے انسان کے لئے لازم ہے کہ جیسا کہ وہ خداکی خالقیت سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی وہ اپنی پیدائش کے نقش کو خدا کی قیومیت کے ذریعہ سے بگڑنے سے بچاوے …… پس انسان کے لئے یہ ایک طبعی ضرورت تھی جس کے لئے استغفار کی ہدایت ہے۔ اسی کی طرف قرآن شریف میں یہ اشارہ فرمایا گیاہے کہ
اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ(البقرۃ:256)……
سو وہ خدا خالق بھی ہے اور قیوم بھی۔ اور جب انسان پیدا ہو گیاتو خالقیت کا کام تو پورا ہو گیا مگر قیومیت کا کام ہمیشہ کے لئے ہے اسی لئے دائمی استغفار کی ضرورت پیش آئی۔’’اپنی حالتوں کو بگڑنے سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی صفت قیومیت یہاں اس صورت میں کام آتی ہے جب دائمی استغفار آدمی کرتا ہے۔ ‘‘غرض خدا کی ہر ایک صفت کے لئے ایک فیض ہے۔ پس استغفار صفت قیومیت کا فیض حاصل کرنے کے لئے کرتے رہنے کی طرف اشارہ سورۃ فاتحہ کی اس آیت میں ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی اس بات کی مدد چاہتے ہیں کہ تیری قیومیت اور ربوبیت ہمیں مدد دے اور ہمیں ٹھوکر سے بچاوے تا ایسا نہ ہو کہ کمزوری ظہور میں آوے اور ہم عبادت نہ کر سکیں۔‘‘
(عصمتِ انبیاءؑ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 671-672)
پس عبادتوں کے بجا لانے کے لیے، شیطان کے حملوں سے بچنے کے لیے، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کے لیے استغفار ایک انتہائی اہم اور ضروری چیز ہے۔ صرف یہ نہیں کہ جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو پھر ہی استغفار کرنی ہے۔ بےشک اس وقت بھی استغفار اور توبہ بہت ضروری ہے کیونکہ پچھلے گناہ کی بخشش اور آئندہ گناہوں سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے جو استغفار کے ذریعہ سے ملتی ہے۔ پس گناہ سرزد ہونے پر بھی اور نہ سرزد ہونے پر بھی دونوں صورتوں میں استغفار انتہائی اہم ہے۔ شیطان تو ہمارے راستے پر کھڑا ہے۔ انسان اپنی کوششوں سے اس سے بچ نہیں سکتا۔ انسان یہ کہہ دے کہ میں اپنی کوشش سے اس سے بچ جاؤں گا تو ممکن نہیں۔ اس کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مدد چاہی جائے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری مدد حاصل کرنے کے لیے، میری مدد چاہنے کے لیے تم کثرت سے استغفار کرو۔ یہی ذریعہ ہے جو آئندہ شیطانی حملوں سے بھی محفوظ رکھے گا اور گذشتہ گناہوں کی معافی کا بھی ذریعہ بنے گا۔ انسان کمزور ہے اس لیے استغفار بہت ضروری ہے کیونکہ استغفار طاقت دیتا ہے۔ استغفار طاقت دیتا ہے کہ بشری کمزوریوں سے بچائے اور شیطان کے حملوں سے بچنے کی طاقت دے۔ پس مسلسل استغفار اللہ تعالیٰ کی صفت قیومیت کو حرکت میں لائے گی اور استغفار کرنے والا ہر برائی سے بچایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ تو اپنی طرف آنے والے کو اپنے ساتھ چمٹانے والا ہے۔ جو شخص گناہوں کے ارتکاب کے بعد توبہ کرتے ہوئے اس کی طرف آتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی بھی توبہ قبول کرتا ہے اور جو گناہوں سے بچنے کے لیے، شیطانی حملوں سے بچنے کے لیے اس کی طرف دوڑتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی استغفار بھی قبول کرتا ہے۔ اسے شیطان کے حملوں سے بچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کی وسعت کتنی زیادہ ہے اس بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ یہ ہر چیز پر حاوی ہے۔ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک شخص کا قصّہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس نے ننانوے قتل کیے۔ آخر ندامت ہوئی اور توبہ کا خیال آیا ۔آخر وہ ایک عالم کے پاس گیا۔ اس سے توبہ کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا اتنے گناہ اور اتنے قتل کر کے تم کس طرح بخشے جا سکتے ہو؟ اس شخص نے اس عالم کو بھی قتل کر دیا اور اس طرح سو قتل ہو گئے۔ اس کے بعد پھر اسے ندامت ہوئی۔ جب سو قتل ہوگئے تو پھر ندامت ہوئی کہ یہ میں نے کیا کر دیا۔ پھر ایک بڑے عالم کے پاس پہنچا۔ اس سے بات کی۔ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ہاں توبہ کا دروازہ تو ہر وقت کھلا ہے۔ اگر تم حقیقی توبہ کرنا چاہتے ہو تو پھر سنو کہ فلاں علاقے میں جاؤ۔ وہاں لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوں گے، دین کے کام کر رہے ہوں گے۔ تم ان کے ساتھ شریک ہو جاؤ لیکن یاد رکھو! پھر اپنے علاقے میں واپس نہیں آنا۔ حقیقی توبہ یہی ہے کہ پھر پرانے رابطے جو گناہ کا ذریعہ بنتے رہے ہیں وہ سب ختم کرنے ہوں گے۔ حقیقی توبہ یہی ہے کہ پھر اس علاقے میں واپس نہیں آنا۔ چنانچہ وہ اس طرف چل پڑا۔ ابھی آدھا راستہ طے کیا تھا کہ موت آ گئی۔ جب مر گیا تو رحمت اور عذاب کے فرشتے پہنچ گئے اور آپس میں جھگڑنے لگے کہ اسے ہم نے اپنے ساتھ لے جانا ہے۔ رحمت کا فرشتہ یہ کہتا تھا کہ اس شخص نے توبہ کر لی تھی اس لیے یہ جنت میں جائے گا۔ عذاب کا فرشتہ یہ کہتا تھا کہ اس نے زندگی میں کوئی نیکی نہیں کی ،کوئی نیک کام نہیں کیا۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ جنت میں جائے؟ یہ نہیں بخشا جا سکتا۔ اتنے میں ایک تیسرا فرشتہ بھی آیا اور ایک صورت پیدا ہوئی جس نے ثالث بن کر یہ فیصلہ کیا کہ جس علاقے سے یہ آ رہا ہے اور جس طرف جا رہا ہے ان کا فاصلہ ماپ لو۔ اس میں سے جس علاقے کےوہ زیادہ قریب ہو گا اسے وہیں لے جانا۔ جب انہوں نے فاصلہ ماپا تو وہ اس علاقے کے زیادہ قریب تھا جس طرف وہ گناہوں سے توبہ کرنے اور نیک کام کرنے کے لیےجارہا تھا تو اس پر رحمت کے فرشتے اسے جنت میں لے گئے۔
(صحیح مسلم کتاب التوبۃ باب قبول توبۃ القاتل، وان کثر قتلہ حدیث7008)
تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کی بخشش کے سامان۔ انتہائی ظالم اور قاتل کے بھی، جب اس نے صحت کی حالت میں توبہ کی تواس نے بخشش کے سامان کر دیے۔ آج کل بہت سے بچے بھی اور نوجوان بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس حد تک بخشتا ہے تو اس حدیث سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ مَیں توبہ قبول کرتا ہوں اور میری رحمت بہت وسیع ہے تو اس کی کوئی حد نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ انسان حقیقی توبہ کرنے والا ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ پر اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنا وہ شخص بھی خوش نہیں ہوتا جسے جنگل بیابان میں اپنی گمشدہ اونٹنی مل جائے۔
(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب التوبۃ حدیث 6309)
اللہ تعالیٰ تو اپنی طرف بڑھنے والوں کی طرف بڑھتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) اگر کوئی ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے تو میں دو گنا اس کے قریب ہوتا ہوں دو ہاتھ اس کے قریب جاتا ہوں ۔ اگر وہ چل کر آتا ہے تو میں دوڑ کر آتا ہوں۔
(صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اللّٰہ تعالیٰ و یحذرکم اللّٰہ نفسہ حدیث 7405)
پس یہ ہمارا کام ہے کہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچانے کے لیے بھی اور اپنے گناہ معاف کروانے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھیں اور جہنم سے بچیں اور یہ مہینہ اللہ تعالیٰ نے خاص اس کام کے لیے ہمیں دیا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھائیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام توبہ اور مغفرت کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رہے کہ توبہ اور مغفرت سے انکار کرنا درحقیقت انسانی ترقیات کے دروازہ کو بند کرنا ہے کیونکہ یہ بات تو ہر ایک کے نزدیک واضح اور بدیہیات سے ہے کہ انسان کامل بالذات نہیں‘‘ اپنی ذات میں مکمل نہیں ہے ’’بلکہ تکمیل کا محتاج ہے اور جیسا کہ وہ اپنی ظاہری حالت میں پیدا ہوکر آہستہ آہستہ اپنی معلومات وسیع کرتا ہے، پہلے ہی عالم فاضل پیدا نہیں ہوتا، اِسی طرح وہ پیدا ہو کر جب ہوش پکڑتا ہے تواخلاقی حالت اس کی نہایت گری ہوئی ہوتی ہے۔ چنانچہ جب کوئی نو عمر بچوں کے حالات پرغور کرے تو صاف طور پر اس کو معلوم ہوگا کہ اکثر بچے اس بات پر حریص ہوتے ہیں کہ ادنیٰ ادنیٰ نزاع کے وقت دوسرے بچہ کو ماریں اور اکثر ان سے بات بات میں جھوٹ بولنے اور دوسرے بچوں کو گالیاں دینے کی خصلت مترشح ہوتی ہے اور بعض کو چوری اور چغل خوری اور حسد اور بخل کی بھی عادت ہوتی ہے اور پھر جب جوانی کی مستی جوش میں آتی ہے تو نفسِ امّارہ ان پر سوار ہو جاتا ہے اور اکثر ایسے نالائق اورناگفتنی کام ان سے ظہور میں آتے ہیں جوصریح فسق وفجور میں داخل ہوتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اکثر انسانوں کے لئے اول مرحلہ گندی زندگی کا ہے اور پھر جب سعید انسان اوائل عمر کے تند سیلاب سے باہر آجاتا ہے تو پھر وہ اپنے خدا کی طرف توجہ کرتا ہے اور سچی توبہ کرکے ناکردنی باتوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اپنے فطرت کے جامہ کو پاک کرنے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔ یہ عام طورپر انسانی زندگی کے سوانح ہیں جو نوع انسان کو طے کرنے پڑتے ہیں۔ پس اِس سے ظاہر ہے کہ اگر یہی بات سچ ہے کہ توبہ قبول نہیں ہوتی تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ خدا کا ارادہ ہی نہیں کہ کسی کو نجات دے۔‘‘
(چشمۂ معرفت۔روحانی خزائن جلد23 صفحہ192-193)
اور یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ میں نجات دینا چاہتا ہوں۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’واضح ہو کہ توبہ لغت عرب میں رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کا نام بھی توّاب ہے یعنی بہت رجوع کرنے والا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب انسان گناہوں سے دستبردار ہو کر صدق دل سے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس سے بڑھ کر اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور یہ امر سراسر قانونِ قدرت کے مطابق ہے کیونکہ جب کہ خداتعالیٰ نے نوع انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ جب ایک انسان سچے دل سے دوسرے انسان کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس کا دل بھی اس کے لئے نرم ہو جاتا ہے تو پھر عقل کیونکر اِس بات کو قبول نہیں کر سکتی ہے کہ بندہ تو سچے دل سے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے مگر خدا اس کی طرف رجوع نہ کرے ۔‘‘ آپس میں دو انسان تو اس پہ عمل کر لیتے ہیں، فطرت ہے لیکن پھر اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہنا کہ وہ رجوع نہیں کرے گا باوجود انسان کے رجوع کرنے کے، یہ نہیں ہوتا۔ پھر فرمایا کہ ’’مگر خدا اس کی طرف رجوع نہ کرے بلکہ خدا جس کی ذات نہایت کریم و رحیم واقع ہوئی ہے وہ بندہ سے بہت زیادہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔‘‘ اصل چیز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات تو نہایت کریم و رحیم ہے وہ بہت زیادہ بندے کی طرف رجوع کرتا ہے۔ فرمایا: ’’اِسی لئے قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کا نام ……توّاب ہے یعنی بہت رجوع کرنے والا۔ سو بندہ کا رجوع تو پشیمانی اور ندامت اور تذلل اور انکسار کے ساتھ ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا رجوع رحمت اور مغفرت کے ساتھ۔ اگر رحمت خدا تعالیٰ کی صفات میں سے نہ ہو تو کوئی مَخْلصی نہیں پاسکتا۔ افسوس! کہ ان لوگوں نے خد ا تعالیٰ کی صفات پر غور نہیں کیا اور تمام مدار اپنے فعل اور عمل پر رکھا ہے مگر وہ خدا جس نے بغیر کسی کے عمل کے ہزاروں نعمتیں انسان کے لئے زمین پر پیدا کیں کیا اس کا یہ خُلق ہوسکتا ہے کہ انسان ضعیف البنیان جب اپنی غفلت سے متنبہ ہوکر اس کی طرف رجوع کرے اور رجوع بھی ایسا کرے کہ گویا مر جاوے اور پہلا ناپاک چولہ اپنے بدن پر سے اتار دے اور اس کی آتشِ محبت میں جل جائے تو پھر بھی خدا اس کی طرف رحمت کے ساتھ توجہ نہ کرے کیا اِس کا نام خدا کا قانون قدرت ہے؟‘‘
(چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23 صفحہ133-134)
پھر آپؑ نے فرمایا ’’خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ انسان اگر سچے دل سے اخلاص لے کر رجوع کرے تو وہ غفور رحیم ہے اور توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔ یہ سمجھنا کہ کس کس گناہگار کو بخشے گا خداتعالیٰ کے حضور سخت گستاخی اور بے ادبی ہے۔ اس کی رحمت کے خزانے وسیع اور لاانتہا ہیں۔ اس کے حضور کوئی کمی نہیں۔ اس کے دروازے کسی پر بند نہیں ہوتے۔ انگریزوں کی نوکریوں کی طرح نہیں ہے کہ اتنے تعلیم یافتہ کو کہاں سے نوکریاں ملیں۔ خدا کے حضور جس قدر پہنچیں گے سب اعلیٰ مدارج پائیں گے۔ یہ یقینی وعدہ ہے۔ وہ انسان بڑا ہی بدقسمت اور بدبخت ہے جو خدا تعالیٰ سے مایوس ہو اور اس کی نزع کا وقت غفلت کی حالت میں اس پر آجاوے۔‘‘ جو خدا تعالیٰ سے مایوس ہو اور اس کی نزع کا وقت غفلت کی حالت میں اس پر آ جاوے ’’بیشک اس وقت دروازہ بند ہو جاتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد3 صفحہ296-297)
پس اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے دروازے کھلے ہیں۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ انسان صحت کی حالت میں توبہ کرے نہ یہ کہ آخری سانس لیتے ہوئے۔ پس ان دنوں میں ہمیں بہت زیادہ توبہ اور استغفار کرنی چاہیے کہ یہ رمضان کا مہینہ قبولیتِ دعا کا مہینہ بھی ہے اور پھر اس کا آخری عشرہ جہنم سے بچانے والا بھی ہے۔گناہوں سے معافی اور نیکیاں کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ سے ہی ملتی ہے۔ اگر اس سے ہم جُڑ جائیں، اللہ تعالیٰ سے ہم جُڑ جائیں تو ہماری دنیا و عاقبت سنور جائے گی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ ہم احمدیوں کے لیے تو بعض جگہ زمینیں انتہا سے زیادہ تنگ کی جا رہی ہیں۔ ان مشکلات سے نکلنے کے لیے ایک ہی حل ہے کہ ہم اپنا تعلق خدا تعالیٰ سے جوڑ لیں۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق جُڑ گیا، ہمارے درود اور ہمارے استغفار اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہو گئے تو دشمن ہزار کوششیں کر لے ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن اگر اللہ تعالیٰ ہم سے راضی نہیں تو دنیا کا کوئی حیلہ ہمیں فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ ان کی کوئی کوشش ہمیں فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ پس ہمیں چاہیے کہ خدا تعالیٰ سے اپنے اس تعلق کو مضبوط کریں۔
رمضان کی دعاؤں میں مخالفین کے شر سے بچنے کے لیے بھی بہت دعائیں کریں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ بعض جگہ احمدیوں پر بہت زیادہ مشکلات طاری کی جا رہی ہیں۔ بہت زیادہ مشکلات میں احمدی گرفتار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔ ان کو مخالفین کے شر سے محفوظ رکھے۔ پاکستان کے احمدی خود بھی خاص طور پر ان دنوں میں اپنے لیے اور جماعتی حوالے سے بھی بہت زیادہ دعائیں کریں۔ پھر آج کل اسی طرح جو کورونا کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس سے بھی محفوظ رہنے کے لیے بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اس بلا سے بھی دنیا کو نجات دے، ہمیں بھی محفوظ رکھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی رنگ میں درود اور استغفار کرنے والا بنائے۔
(الفضل انٹرنیشنل خلافت نمبر 21تا31مئی 2021ءصفحہ 5تا9)
٭…٭…٭