فضائل القرآن (2) (قسط 12)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان
دوسرا امر جس کا بیان ایک الہامی کتاب کے لئے ضروری ہے انسان کی روحانی طاقتوں کا بیان ہے۔ اس مضمون پر بھی قرآن کریم نے بلکہ صرف قرآن کریم نے ہی روشنی ڈالی ہے دوسری کتابوں میں یہ بات نہیں ملتی۔ یا تو اس لئے کہ جس وقت وہ نازل ہوئیں اس وقت اس قدر روحانی ارتقاء نہ تھا۔ یا پھر ان کے بگاڑ کے زمانہ میں جو بھی تعلیم ان میں تھی وہ ضائع ہو گئی۔ مگر قرآن کریم کو دیکھو اس میں ایک اعلیٰ طریق سے ان باتوں کو بیان کیا گیا ہے۔
یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ کی لطیف تفسیر
خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا۔ وَ لَئِنۡ شِئۡنَا لَنَذۡہَبَنَّ بِالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیۡنَا وَکِیۡلًا۔ اِلَّا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّ فَضۡلَہٗ کَانَ عَلَیۡکَ کَبِیۡرًا۔ قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَ لَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہِیۡرًا۔ وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ۫ فَاَبٰۤی اَکۡثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوۡرًا (بنی اسرائیل :86تا90)
ان آیات سے پہلے قرآن کریم کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد فرماتا ہے۔
وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ
کچھ لوگ تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ کیوں نہ یہ تسلیم کیا جائے کہ روح اپنے اندر یہ ذاتی قابلیت رکھتی ہے کہ اس سے اعلیٰ درجہ کا کلام نکلنے لگ جاتا ہے۔ یہاں سوال نقل نہیں کیا گیا۔ اس لئے اس موقع کے لحاظ سے جتنے سوال کے پہلو نکل سکتے ہوں وہ سب جائز ہونگے۔ ایک سوال یہ ہو سکتا ہے کہ روح کو کس طرح پیدا کیا گیا ہے دوسرا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ روح میں کیا کیا طاقتیں رکھی گئی ہیں۔ تیسرا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ روح کا انجام کیا ہو گا؟ خداتعالیٰ فرماتا ہے۔
قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا۔
روح مادیات سے بالا ہے اس لئے یہ تمہارے تصرف میں نہیں آسکتی۔ اس کی پیدائش اس کا قیام اور اس کاانجام سب اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہے کیونکہ وہ خود روح کو پیدا کرنے والا ہے۔ اس میں ان لوگوں کا رد کیا گیا ہے جو کہتے ہیں کہ روح آپ ہی کمال حاصل کر سکتی ہے۔ فرمایا جب تک خدا کا کلام روح کو حاصل نہ ہو وہ کوئی کمال ظاہر نہیں کر سکتی۔ پھر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ روح فنا کیوں نہیں ہوتی؟ ان کے متعلق فرمایا کہ زندہ رکھنے والا جو موجود ہے تو فنا کیوں ہو۔ جیسے آگ جلانے والا جب تک آگ میں لکڑیاں ڈالتا جائے گا وہ نہیں بجھے گی۔ غرض نہ یہ سوال درست ہے کہ روح ہمیشہ کس طرح رہے گی اور نہ یہ کہ اگر زندہ رہے گی تو حادث نہیں ہے کیونکہ اس کی زندگی خدائی اذن سے ہے نہ کہ اپنی ذاتی قابلیت کی وجہ سے۔ بہر حال روح کی پیدائش بھی امر یعنی کُنْکہنے سے ہے اور اس کی ترقی بھی امر یعنی کلامِ الٰہی سے ہے اور اس کا ابدی قیام بھی امر یعنی قضائے الٰہی سے وابستہ ہے۔
پھر فرمایا کہ انسانی روح کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ آپ ہی کمال حاصل کر سکتی ہے اور آپ ہی تعلیم بیان کر سکتی ہے مگر یہ غلط ہے
وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا
روح کے متعلق جو انسانی معلومات ہیں وہ نہایت ناقص اور ناتمام ہیں جس طرح اور غیر مادی اشیاء مثلاً ذات باری یا ملائکہ کے متعلق اس کے معلومات ناقص ہیں۔ اس کے لئے خدا تعالیٰ کا الہام ضروری ہے جس کے امر سے یہ سب کچھ ہے۔ اسی طرح اس کی مخفی طاقتوں کا ابھارنا بھی امر پر ہی منحصر ہے۔ تم خود اپنے طور پر اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
یہ سوال اس زمانہ میں بڑے زور سے پیدا ہو رہا ہے کہ انسان یا تو خود روحانیت میں کمال پیدا کر کے روحانی تعلیم بنا سکتا ہے یا پھر دوسری روحوں سے تعلق پیدا کر کے ان کی امداد سے ایسی تعلیم ایجاد کر سکتا ہے۔ اس وہم میں اس زمانہ کے بڑے بڑے لوگ مبتلا نظر آتے ہیں کہ روحیں انسان کو روحانیت کا اعلیٰ رستہ بتا دیتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انسانی روح میں جو کمی رہ جاتی ہے وہ مردوں کی روحیں پوری کر دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تمہارا خیال ہے کہ تم خود روحانی طاقتوں کو ترقی دیکر اعلیٰ درجہ کی روحانی تعلیم بناسکتے ہو۔ اسی طرح تمہارا خیال ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ ہی آپ یہ کتاب بنا لی ہے اس پر خدا کی طرف سے الہام نازل نہیں ہوا۔ اس کی اپنی روحانی طاقت اس قدر ترقی کر گئی تھی کہ اس سے خود بخود ایسی باتیں صادر ہونے لگ گئیں۔ مگر یہ درست نہیں کیونکہ انسانی طاقتیں اتنی نہیں ہیں کہ ایسا کلام بنا سکیں۔ انسانی عقل کا اپنے آپ روحانی رستہ تجویز کرنا تو الگ رہا
وَ لَئِنۡ شِئۡنَا لَنَذۡہَبَنَّ بِالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیۡنَا وَکِیۡلًا۔
اگر یہ قرآن جو نازل شدہ ہے اسی کو ہم تمہاری نظر سے اوجھل کر دیں تب بھی تم اپنی روحانی قوتوں کو نشوونما دے کر ایسی کتاب نہیں بنا سکتے۔ یعنی اگر ہم یہ بنی بنائی تعلیم ہی دنیا سے غائب کر دیں تو پھر بھی انسان اس جیسی تعلیم نہیں بنا سکتے۔
کہا جا سکتا تھا کہ یہ قرآن کا محض ایک دعویٰ ہے کہ اگر قرآن کریم کی تعلیم غائب ہو جائے تو انسان اس جیسی تعلیم نہیں لا سکتے۔ اس کا ثبوت کیا ہے؟ یہ ثبوت بھی اللہ تعالیٰ نے پیش کر دیا ہے۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جبکہ قرآن دنیا سے اٹھ جائے گا۔ اس کی تحریر تو رہ جائے گی مگر تعلیم پر عمل کرنے والے نہ ہوں گے۔ چنانچہ جب ایسا زمانہ آیا تو نہایت ہی لغو باتیں اسلام اور قرآن کی طرف منسوب ہونے لگ گئیں۔ اور اس کی بے نظیر اخلاقی اور روحانی تعلیم پر پردہ پڑ گیا۔
اس کے بعد فرماتا ہے
اِلَّا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ
سوائے اس کے کہ تیرے رب کی خاص رحمت اسے دنیا میں پھر واپس لے آئے اور کوئی صورت اس کی واپسی کی نہیں ہو گی۔ چنانچہ آخری زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی رحمت کا ہاتھ لوگوں کی طرف لمبا کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ دوبارہ قرآن کریم کا دنیا میں نزول ہوا۔ اب دیکھ لو۔ وہی قرآن ہے جو پہلے تھا مگر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ کیسے کیسے معارف اور حقائق نکل رہے ہیں اور کس طرح قرآن ساری دنیا پر غالب آرہا ہے۔ درحقیقت اس آیت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کی خبر دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ قرآن اس وقت دنیا سے اٹھ جائے گا۔ مگر پھر خدا تعالیٰ کے ایک فرستادہ کے ذریعہ اسے زمین پر قائم کر دیا جائے گا۔
سپر چولزم اور ہپناٹزم والوں کو چیلنج
پھر فرماتا ہے
قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَ لَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہِیۡرًا۔
تو ان لوگوں سے کہدے کہ اگر جن وانس بھی مل جائیں تب بھی وہ اس قرآن کی مثل یعنی روحانی ترقیات کا راستہ بتانے والی تعلیم لانے سے قاصر رہیں گے۔ یہاں جن سے مراد وہ جِن نہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ لوگوں کے سروں پر چڑھ جاتے ہیں۔ ایسے جنوں کے متعلق یہ کہنا کہ ان کو بھی اپنے ساتھ ملا لو بیہودہ بات ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہوگا جیسے کہا جائے کہ تم خواہ فلاں درخت سے مدد لے لو یا فلاں بھیڑ سے امداد حاصل کر لو تو بھی فلاں شاعر جیسے شعر نہیں کہہ سکتے۔ جس طرح یہ بات لغو ہے اسی طرح ایسے جنوں کے متعلق یہ کہنا کہ ان سے مدد لے لو لغو بات ہے پس یہاں جن سے مراد کوئی اَور وجود نہیں ہیں۔ بلکہ وہ وجود مخفیہ ہیں جن کا نام سپرچولزم والے ارواح اور ہپنوٹزم والے قوائے روحانیہ رکھتے ہیں۔ چونکہ یہ نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں اس لئے ان کو جِنّ کہا گیا ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کسی عقلمند کا دعویٰ نہیں تھا کہ جِنّات سے مل کر وہ اعلیٰ روحانی تعلیم بنا سکتا ہے۔ پس جس چیز کا دعویٰ ہی نہیں تھا اور جس اجتماع کا امکان ہی نہیں تھا اس کا چیلنج عقل کے خلاف ہے۔ پس اس جگہ جن سے مراد وہ روحانی افعال ہیں جوسبجیکٹومائنڈ(SUBJECTIVE MIND)سے ظاہر ہوتے ہیں یا وہ اتحاد ہے جو بقول بعض ارواح غیرمرئی سے انسانوں کا ہو جاتا ہے اور ان سے وہ بعض روحانی علوم دریافت کر لیتے ہیں۔
خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم ان سے بھی مدد لے لو وہ بھی تمہاری مدد کریں تب بھی تم اس قرآن کی مثل نہیں لا سکتے۔ پس یہاں جن سے مراد وہ ارواح ہیں جن کی مدد سے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ نئے روحانی علوم معلوم کر سکتے ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان سے بھی مدد لے لو اور قرآن کی مثل بنا دو۔ پھر تمہیں معلوم ہو جائیگا کہ بغیر کلامِ الٰہی کے کام چل سکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ دیکھو لو یہ کس قدر زبردست معجزہ قرآن کریم کا ہے کہ وہی زمانہ جس کے متعلق احادیث نبویہﷺسے ثابت ہے کہ قرآن کریم کے اٹھنے کا ہے۔ اور جس زمانہ میں رَحْمَۃِ رَبِّیْ سے دوبارہ قرآن آنے کا ذکر ہے۔ اس زمانہ میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہیں جو ارواح سے مل کر حقائق روحانیہ کے دریافت کرنے کے مدعی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں اگر ارواح کے اندر یہ قابلیت ہے کہ وہ آپ ہی آپ اپنی ترقی کے ذریعہ علوم کو معلوم کر لیں تو وہ قرآن کی مانند کوئی تعلیم پیش کر کے دکھائیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مثل میں کن کن امور کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے۔ سو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَلَقَدۡ صَرَّفۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ۫ فَاَبٰۤی اَکۡثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوۡرًا۔
ہم نے قرآن میں دو خوبیاں رکھی ہیں۔ ان کی مثال روحوں سے تعلق رکھنے والے اور خود روحانیات میں ترقی کرنے کا دعویٰ کرنے والے پیش کریں۔ ایک تو یہ کہ ہر ضروری امر جس کی روح کو ضرورت ہے قرآن کے اندر بیان کر دیا گیا ہے۔ دوسرے ہر ضروری امر کی ہر ضروری شق بیان کر دی گئی ہے۔ یعنی مختلف متفاوت فطرتوں کا اس میں پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے اور ہر حکم ایسے رنگ میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ سب کے لئے کارآمد ہو۔ یہاں فلسفیوں اور سپرچولزم والوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ تم ایسی کتاب بنا کر دکھائو جس میں وہ ساری باتیں آ جائیں جن کی تکمیل روحانیت کے لئے ضرورت ہے اور پھر اس کتاب میں ایسی تعلیم ہو جس میں ساری فطرتوں کا لحاظ رکھا گیا ہو۔ ایسی باتوں کی وہ کوئی مثال نہیں لا سکتے۔ یہ لوگ بہت مدت سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر ابھی تک تو کچھ نہیں کر سکے اور نہ آئندہ کر سکیں گے۔ اول تو وہ قرآن جیسی جامع تعلیم ہی نہیں پیش کر سکتے اور اگر فرض کر لیا جائے کہ پیش کریں گے تو یا تو وہ قرآن کے مطابق ہوگی اور یا پھر قرآن کے خلاف۔ اگر قرآن کے مطابق ہوگی تو اس کی ضرورت نہیں کیونکہ قرآن موجود ہے۔ اور اگر قرآن کے خلاف ہوگی تو اس کا رد قرآن میں موجود ہوگا۔ گویا کوئی کتاب ایسی نہیں ہو سکتی جو قرآن کا مقابلہ کر سکے۔ کیا دنیا میں کوئی کتاب ایسی ہے جو روحانی امور کے متعلق ایسا عظیم الشان دعویٰ پیش کر سکتی ہو؟
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭