سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

درمکنون ایک تعارف

درِّمکنون المعروف بہ کلامِ احمد

الفضل انٹرنیشنل کے شمارہ 11؍ مئی 2021ءمیں حضرت اقدس علیہ السلام کے ایک طویل منظوم مکتوب مطبوعہ حیات احمد جلد اول صفحہ328۔ 338 کا ذکر کیاگیاہے جس سے آپؑ کی قادرالکلامی کابھی پتہ چلتاہے اوریہ بھی علم ہوتاہے کہ نظم ہویانثرآپؑ بے تکلفانہ اندازمیں قلم برداشتہ لکھتے تھے۔نہ نثرمیں کوئی تکلف اورنہ نظم میں کوئی تصنع۔ دراصل آپؑ کا خاندان ہمیشہ سے علم دوست ہی نہیں ذی علم خاندان تھا۔اور شاعری بھی ایک خداداد عطا تھی جویوں معلوم ہوتاہے کہ نسلاًبعدنسلٍ ورثہ میں ہی چلی آتی رہی۔حضرت اقدسؑ کے دادا،حضرت مرزاعطامحمدصاحب بھی شعرکہتے تھے۔لیکن آپ کا کوئی شعری کلام یا شعر ہمیں اس وقت تک دستیاب نہیں سوائے اس ایک مصرع کے جس میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اپنے والد ماجد حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’…اورفرمایا کرتے تھےکہ میری طرح میرے والد صاحب کا بھی آخر حصہ زندگی کا مصیبت اور غم اورحزن میں ہی گزرا۔اورجہاں ہاتھ ڈالا۔آخر ناکامی تھی۔ اور اپنے والد صاحب یعنی میرے پردادا صاحب کا ایک شعر بھی سنایا کرتے تھے۔جس کا ایک مصرع راقم کو بھول گیا ہے۔ اور دوسرا یہ ہےکہ؎

’’جب تدبیر کرتاہوں توپھر تقدیر ہنستی ہے… ‘‘

(کتاب البریہ صفحہ 158حاشیہ،روحانی خزائن جلد13صفحہ 190حاشیہ)

آپؑ کے والد ماجدحضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے طبیعت رسا پائی تھی اور فارسی میں نہایت عمدہ شعر کہتے تھے۔آپؒ تحسین تخلص فرماتے تھے۔آپ کاکلام کسی دیوان کی صورت میں شائع نہیں ہو سکا۔آپ کا ساراکلام آپ کے پوتےحضرت خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحبؒ نے ایک مرتبہ جمع کیا تھا اور حافظ عمر دراز صاحب ایڈیٹر’’ پنجابی اخبار ‘‘ مرحوم کو دیا تھا لیکن وہ ان سے کہیں گم ہوگیا۔حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓبھی اس کوشش میں تھے کہ یہ کلام کہیں سے دستیاب ہوسکے۔محترم حضرت عرفانی صاحب ؓنے یہ تفصیل اپنی تصنیف ’’حیات احمد‘‘ جلد اول میں دی ہے جہاں یہ بھی لکھاہے کہ

’’تاہم راقم اس کوشش اور فکر میں ہےکہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب قبلہ کے کلام کو پھر جمع کرے۔‘‘

(حیات احمدؑجلداول صفحہ52)

نہ معلوم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ اپنے اس مقصد میں کس حدتک کامیاب ہوسکے۔کیونکہ ابھی تک کوئی ایسا دیوان منظرعام پر نہیں آیا۔البتہ آپؒ کے بعض اشعار حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے درج فرمائے ہیں۔چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:

’’اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ ایک اپنا بنایا ہوا شعر رقت کے ساتھ پڑھتے تھے اور وہ یہ ہے۔

از درِ تو اے کسِ ہر بیکسے

نیست امیدم کہ روم نا امید

اور کبھی درد دل سے یہ شعر اپنا پڑھا کرتے تھے۔

بآب دیدۂ عشاق وخاکپائے کسے

مرا دلے ست کہ درخوں تپد بجائے کسے‘‘

(کتاب البریہ صفحہ 156حاشیہ،روحانی خزائن جلد 13 صفحہ189حاشیہ)

(ترجمہ از مرتب: اے ہر بے سہاروں کے سہارے! مجھے ہرگز امیدنہیں کہ مَیں تیرے دَر سے ناامید جاؤں گا۔

کوئی تو عاشقوں کی آنکھوں کا پانی اور کوئی ان کی خاکِ پا ہوتاہے۔لیکن میری دلی تمنا ہے کہ کسی اور کی بجائے میں خون میں تڑپوں )

دو اور شعر حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمدصاحبؒ کی روایت سے’’سیرت المہدی‘‘ میں درج ہیں وہ یہ ہیں:

’’اے وائے کہ ما بہ ماچہ کردیم

کردیم ناکردنی ہمہ عمر

دردِ سَر من مشو طبیبا

ایں دردِ دل است دردِ سر نیست‘‘

(ترجمہ از مرتب: وائے افسوس! کہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا۔ ساری عمر وہی کرتے رہے جو نہ کرنا چاہئے تھا۔

اے طبیب !میرے اس درد سر کو درد سر نہ کہو۔ یہ درد دل ہے درد سر نہیں)

اسی طرح اسی روایت میں انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ ایک ایرانی قادیان میں آیا تھا وہ داداصاحب (حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب )سے کہتا تھا کہ آپ کا فارسی کلام ایسا ہی فصیح ہے جیسا کہ ایرانی شاعروں کا ہوتا ہے۔‘‘

(سیرت المہدی جلداوّل روایت نمبر215)

حضرت اقدسؑ کے برادرمحترم صاحبزادہ مرزاغلام قادرصاحب بھی شاعرتھے اور مفتون تخلص تھا۔

(بحوالہ سیرت المہدی جلداول روایت نمبر215)

حضرت اقدسؑ نے منظوم کلام کب شروع کیاہوگا

حضرت مسیح موعودؑ کبھی کبھی اپنا کلام ملک کے بعض اخبارات میں بھی بھجوا دیتے تھے۔ چنانچہ ’’منشور محمدی‘‘ میں ایک اردو نظم جو حضور نے قادیان سے 8؍محرم 1295ھ مطابق 12؍جنوری 1878ء کو رقم فرمائی اور نیاز نامہ متعلقہ’’جواب الجواب‘‘ کے عنوان سے تھی شائع ہوئی۔

جیساکہ بیان ہواہے کہ آپؑ کی شاعری ایک فطرتی اور طبعی شاعری تھی۔جس میں آمد ہوتی تھی اور تکلف اور بناوٹ کو دخل نہ ہوتا تھا۔جب بھی کچھ کہتے طبیعت کے صحیح اور سچے جوش کا اظہار اس میں پایا جاتا تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ ملکہ جس مقصد اور غرض کے لیے عطا ہوا تھا۔اس کا اظہار آپ علیہ السلام نے خود فرمایا ہے۔؎

کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق

اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مُدعا یہی ہے

آپ کے منظوم ومنثور کلام اور تحریروں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حقائق اور معارف کے بیان کرنے میں قادر الکلام تھے۔اور عربی،فارسی اور اردو زبان پر پوری حکومت رکھتے تھے۔زمانہ بعثت سے پہلے آپ فارسی میں عموماًنظم لکھا کرتے۔یہ منظوم کلام بعد میں درمکنون کے نام سے شائع ہواہے۔اس پرطائرانہ نظرڈالیں تو اس میں بجز حقائق قرآن مجید اور آنحضرت ﷺ کی نعت اور حمد الٰہی اور مختلف مذاہب کی تردید کے اور کچھ نہیں۔ اس کو پڑھ کر ہر کوئی سمجھ سکتا ہےکہ عین عالم شباب میں آپؑ کے دل ودماغ میں کون کون سے خیالات موجزن تھےاورآپؑ کن خیالات میں مست اور محو رہاکرتے تھے۔

یوں محسوس ہوتاہے کہ کبھی کبھی آپ محض اپنے ان نیک اور اعلیٰ پاکیزہ جذبات اورامنگوں کا جو حضرت احدیت کی محبت و اخلاص میں رکھتے تھے،اظہار کرتے۔اور کبھی آنحضرتﷺ کے ساتھ آپؑ کے عشق ومحبت کانافہ پھوٹتاہے جوکبھی شعروں کی صورت،اورکبھی نثرکی صورت اورکبھی محض اشکوں کی لڑی کی صورت بکھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کبھی دشمنان اسلام کے اعتراضات کے جوابات دیتے ہوئے مختلف مذاہب باطلہ کی تردید میں قلم اٹھاتےہیں۔الغرض جوبھی ہوشعرکہنا بہرحال آپؑ کامشغلہ نہیں تھا۔انذارو ابلاغ کاایک مقصدتھا کہ اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعایہی ہے۔

حضرت عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ

’’قادیان کے ان ایام کے کلام کا ایک بہت بڑا حصہ دیوان کی صورت میں مگر بے ترتیب میرے پاس موجود تھا۔میں ایک مرتبہ بیمار ہوا۔یہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کی بات ہے۔میں نے حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ الله بنصرہ العزیز کو اس حالت اضطراب میں اپنے پاس آنے کی تکلیف دی اور آپ اپنی شفقت سے تشریف لائے اس موقعہ پر میں نے وہ مجموعہ جو نہایت گراں مایہ تھا آپ کی خدمت میں پیش کر دیا۔جو بعد میں در مکنون کے نام سے شائع ہوا۔‘‘(حیات احمدؑ جلداول صفحہ382تا 383)

درمکنون کے نام سے یہ مجموعہ پہلی بار21؍دسمبر 1916ء کو منشی رام سابقہ نولکشور پریس لاہور سے شائع ہوا۔اوراس کے ٹائٹل پیج پر نام کے طورپرلکھاہواہے :

’’درمکنون المعروف بہ کلامِ احمد‘‘

اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی درج ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا وہ پرمعارف منظوم کلام جوحضورنے دعویٰ سے پیشترزیب رقم فرمایا۔

اس میں بعض نظموں کے ساتھ سن اورتاریخ بھی لکھی ہوئی ہے۔مثلاً ’’بیان توحید و رد شرک‘‘پر کچھ اشعار صفحہ 146 و صفحہ 147 پر درج ہیں۔ان اشعار کو لکھتے لکھتے ایک موقعہ پر اس طرح لکھا ہے۔21ستمبر 1876ء

ایک نظم پر 1888ء کی تاریخ بھی ہے۔ یہی مکتوب جوحضرت مولوی اللہ دتہ صاحب لودھی ننگل کے نام ہے اوراوپردرج ہواہے۔اس پرتاریخ 6؍ستمبر 1872ء لکھی ہوئی ہے۔ اسی طرح قرین قیاس ہے کہ اس کے علاوہ بھی آپؑ کامنظوم کلام ہوجو اس زمانہ میں لکھاگیاہوگا۔ اور اس کاقرینہ حضرت عرفانی صاحب ؓ کی تحریرکردہ یہ سطوربھی ہیں جن میں وہ بیان کرتے ہیں کہ

’’بہت ممکن ہے کہ اس کے سوا اور بھی کلام آپ کااس عہدکاہو۔لالہ شرمپت رائے صاحب اور لالہ ملاوا مل صاحب کے پاس بھی کچھ اشعار تھے۔لالہ ملاوا مل صاحب تو کہتے ہیں کہ وہ ضائع ہو گئے۔لالہ شرمپت رائے فوت ہو گئے۔میں ان کی زندگی میں ان سے مطالبہ کرتا رہامگر وہ امروزفردا ہی کرتے رہےاور وہ اشعار جو ان کے پاس تھے میں حاصل نہ کر سکا۔میں نے اپنے طلب و تلاش کے جذبات کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیا۔اگر میسر آ گئے تو انشاء الله کسی نہ کسی جگہ انہیں درج کر دوں گا……لالہ شرمپت رائے نے مجھ سے یہ بھی بیان کیا تھا کہ کبھی کبھی وہ میری درخواست پر بھی کوئی نظم لکھ دیا کرتے تھےمگر ان کی عادت تھی کہ وہ اس میں اپنے مذہب کی بحث لے آتے تھے۔‘‘(حیات احمدؑ جلداول ص 383۔384)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button