’’مرقات الیقین فی حیات نورالدین‘‘ (قسط اوّل)
اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا … اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے
جن نامور شخصیات کی زندگیوں کے غیرمعمولی واقعات اور تابندہ سیرت نے تاریخِ انسانی میں ایسے نقوش ثبت کیے ہیں جو قیامت تک ایک روشن چراغ کی مانند آنے والی نسلوں کی راہنمائی کرتے چلے جائیں گے، اُن میں سے ایک انمول اور بےبدل شخصیت سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلیفہ اوّل سیّدنا حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی تھی۔ آپؓ کی پاکیزہ زندگی کچھ ایسے انداز سے گزری کہ اس کا ہر ورق اپنی ذات میں خداتعالیٰ کے ساتھ بے مثال تعلق کا آئینہ دار بھی ہے اور مخلوقِ خدا کی خدمت میں ہمہ تن مصروفیت کا عکّاس بھی۔ اپنی بابرکت پیدائش سے ہی آپؓ کی زندگی ایک ایسے خوبصورت گلدستے کی مانند دکھائی دیتی ہے جس میں موجود ہر پھول اپنے حسن میں اَنمول اور خوشبو میں لاجواب محسوس ہوتا ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ قریباً ایک صدی قبل شائع ہونے والی آپؓ کی سوانح حیات ’’مرقات الیقین فی حیات نورالدین‘‘ اس وقت ہمارے زیر نظر ہے جو خودنوشت بھی کہلاسکتی ہے کیونکہ اس میں شامل تحریر کا بیشتر حصہ آپؓ نے لفظاً لفظاً خود بیان فرمایا ہے۔ ان واقعات کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ آپؓ کی زندگی گویا کہ اسرار و رموز میں لپٹی ہوئی ایک ایسی کتاب تھی جس کا ادراک ہر کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ اگرچہ آپؓ کی غیرمعمولی علمی شخصیت، تعلق باللہ اور خدمت خلق کے حوالے سےلاکھوں افراد نے آپؓ سے براہ راست فیض پایا اور ہزاروں افراد آپؓ کی محبت میں ایسے اسیر ہوئے جو آخرکار آپؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے احمدیت کی آغوش میں آکر مہدیٔ آخرالزماں علیہ السلام کی غلامی میں داخل ہوگئے اور پھر انہوں نے اس غلامی کو خداتعالیٰ کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہوئے خود بھی اعلیٰ روحانی مدارج حاصل کیے۔
اس میں شک نہیں کہ حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ آپؓ قصر احمدیت کی پہلی بنیادی اینٹ ہیں جو نہایت خوش نما اور اس قصر کے حسن و جمال کی رونق کا باعث ہے۔ اور یہ بھی امرواقعہ ہے کہ آپؓ کی سوانح حیات کا ہر ورق آپؓ کی غیرمعمولی یادداشت ، خدا اور اُس کے رسولﷺ کی محبت اور فطرت میں ودیعت شدہ علم کی پیاس پر شاہد ہے۔ تین صد صفحات پر مشتمل اس کتاب کے روحانی اثرات نے ایک صدی سے اپنے قارئین کو گرویدہ بنا رکھا ہے۔ آپؓ کی زندگی کے نشیب و فراز میں پیش آنے والے منفرد واقعات آپ کی تحریر میں موجود فطری سادگی، سلاست، روانی اور خوبیٔ اختصار کے باعث ہر قاری کا دل موہ لیتے ہیں۔ دعوت الی اللہ کے بےشمار نکات اس کتاب میں جابجا بکھرے نظر آتے ہیں۔ قول سدید کے بےلاگ اظہار اور منطقی طریق استدلال کی بدولت یہ کتاب
’’خَیْرُالْکَلَامِ مَا قَلَّ وَ دَلَّ‘‘
کا عمدہ نمونہ ہے۔ عظیم الشان روحانی مقام کے حامل اس وجود کے قلب صافی میں موجزن تعلق باللہ، محبتِ الٰہی، عشق رسولﷺ اور دینِ اسلام کے لیے غیرت کے پاکیزہ اثرات اس کتاب کے ہر صفحے پر آویزاں نظر آتے ہیں۔ نیز یہ کتاب حضورؓ کی خوددار، بےنفس، متوکّل، درویشانہ اور فیاض شخصیت کی عکّاسی کرتی ہے۔ بلاشبہ آپؓ کی ساری زندگی حدیث مبارکہ
‘‘اَلْیَدُ الْعُلّیا خَیْرٌ مِنْ یَدِالسُّفْلیٰ‘‘
کے عین مطابق بسر ہوئی۔
الغرض یہ خوبصورت کتاب بھی آپؓ کی پاکیزہ زندگی کی طرح ایک گلدستے کی مانند ہے جو اپنے خوش نما رنگوں اور پاکیزہ خوشبو کے ساتھ قارئین کے قلوب و اذہان میں ایسا ارتعاش پیدا کرتی چلی جاتی ہے جس کے نتیجے میں تعلق باللہ کی تڑپ دل میں موجزن ہونے لگتی ہے۔ آپؓ کی شخصیت کے حوالے سے جناب سرسیّد احمد خان صاحب کا یہ قول ہی کافی ہے جو اپنے ایک خط میں انہوں نے تحریر کیا:
’’آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ جاہل پڑھ کر جب ترقی کرتا ہے تو پڑھا لکھا کہلاتا ہے مگر جب اَور ترقی کرتا ہے تو فلسفی بننے لگتا ہے۔ پھر ترقی کرے تو اُسے صوفی بننا پڑتا ہے۔ جب یہ ترقی کرے تو کیا بنتا ہے؟ … اس کا جواب اپنے مذاق کے موافق عرض کرتا ہوں۔ جب صوفی ترقی کرتا ہے تو مولانا نورالدین ہو جاتا ہے۔‘‘
حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کی عقل و دانش اور علمی مقام کا بہت سی اکابر مسلم شخصیات برملا اظہار کیا کرتی تھیں۔ چنانچہ علامہ محمد اقبال نے تو بارہا آپؓ کی خدمت میں علمی سوالات پیش کرکے اپنی تشفّی کی۔ مثلاً علامہ اقبال جن دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں زیرتعلیم تھے تو اُن کے ایک استاد سرتھامس آرنلڈ نے تثلیث کے عقیدہ کے بارہ میں کہا کہ یہ مسئلہ کسی ایشیائی کے دماغ میں نہیں آسکتا۔ علامہ اقبال نے یہ سوال حضورؓ کے سامنے رکھا تو آپؓ نے فرمایا کہ مسٹر آرنلڈ کا یہ دعویٰ اگر درست ہے تو خود مسیح علیہ السلام اور تمام حواری بھی ایشیائی تھے۔ یہ جواب سن کر مسٹر تھامس خاموش ہوگیا اور بعدازاں یورپ کی ایک کانفرنس میں اُس نے اِس اعتراض کو پیش کیا لیکن کوئی تسلّی بخش جواب اُس کو نہ مل سکا۔
برصغیر پاک وہند کے معروف عالم دین اور سیاسی راہنما مولانا عبید اللہ سندھی جو اپنی ’’ریشمی رومال‘‘ کی تحریک کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، انہوں نے حرم کعبہ میں ایک بار فرمایا کہ مَیں حکیم صاحب سے قادیان میں متعدد بار ملا۔ واقعی وہ بہت بڑے عالم قرآن تھے۔ مَیں تو ہندوستان سے باہر کئی اسلامی ملکوں میں رہ چکا ہوں اور یہاں مکہ معظمہ میں مختلف ملکوں سے بڑے بڑے مسلمان علماء آتے رہتے ہیں مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ مَیں کہتا ہوں کہ میں نے آج تک علوم قرآن کا اتنا بڑا عالم نہیں دیکھا جتنے حکیم نور الدین تھے۔
حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف نے آپؓ کے بارہ میں فرمایا: ’’یہ مولوی نورالدین وہ بلا ہے جسے ہندوستان میں علاّمہ کہتے ہیں۔‘‘
الغرض احمدیوں کے نزدیک تو سیّدنا حضرت حکیم مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ ایک عظیم الشان روحانی منصب پر فائز تھے ہی لیکن غیراحمدی علماء میں بھی آپؓ اپنے علم و فضل کی نسبت سے غیرمعمولی احترام اور عقیدت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اُس دَور کے چوٹی کے مسلمان علماء اور دانشوروں میں آپؓ جو غیرمعمولی ممتاز مقام رکھتے تھے اور برصغیر کے اہل علم و فکر کا آپؓ سے عقیدت کا جو تعلق قائم تھا، یہ اُسی کا نتیجہ تھا کہ آپؓ کے مہدی آخرزماں کی غلامی میں آنے کے بعد اہل علم کی بہت بڑی تعداد بھی حضورعلیہ السلام کے آغوش عقیدت میں آگئی اور اُن میں سے بہت سوں نے حضور علیہ السلام کا سلطان نصیر بننے کی سعادت حاصل کی جن کا ذکر ’’اصحاب احمد‘‘ اور ’’تاریخ احمدیت‘‘ میں تفصیل سے محفوظ ہے۔
حضرت حکیم مولانا نورالدین خلیفۃالمسیح الاولؓ نے اپنی زندگی کے بعض واقعات محترم اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی کی درخواست پر اُن کو لکھوائے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ یہ واقعات آپؓ ایسی حالت میں لکھواتے کہ گردوپیش بہت سے مریض، مرید، مہمان، طالب علم اور مختلف ضرورتوں والے جمع ہوتے تھے۔ بیچ میں کئی دفعہ لوگوں کی طرف مخاطب ہونا، کسی کو نسخہ لکھنا، کسی کی عرضی پڑھنا وغیرہ یہ کام بھی ہوجاتے تھے لیکن جو فقرات بھی مجھے لکھواتے تووہ روانی اور طلاقت کے ساتھ ہوتے کہ عبارت کو چست اور درست بنانے کے لیے کبھی کسی فقرے میں کوئی تغیّرو تبدّل نہیں کرنا پڑا۔
کتاب کا آغاز حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے شجرۂ نسب سے ہوتا ہے۔ آپؓ سیّدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی چھتیسویں پشت میں پیدا ہوئے۔آپ کو خداتعالیٰ نے چار بیٹے اور تین بیٹیاں عطا فرمائیں۔
شجرۂ نسب کے بعد حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے آپؓ کے متعلق وہ قیمتی ارشادات شامل اشاعت ہیں جو آپؓ کی مطہّر شخصیت اور عظیم روحانی مرتبے پر دلالت کرتے ہیں۔ انہی میں آپؓ کا وہ خط بھی شامل ہے جو آپؓ کے پُرکیف جذبات کا عکّاس ہے اور جسے حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’فتح اسلام‘‘ کی زینت بناکر آئندہ آنے والی نسلوں کو گویا ایک نصب العین عطا فرمادیا ہے۔ دراصل آپؓ کا سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا نتیجہ تھا۔ چنانچہ حضور علیہ السلام ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’مَیں رات دن خداتعالیٰ کے حضور چلّاتا اور عرض کرتا تھا کہ اے میرے ربّ! میرا کون ناصر و مددگار ہے۔ مَیں تنہا ہوں۔ اور جب دعا کا ہاتھ پے در پے اٹھا اور فضائے آسمانی میری دعاؤں سے بھرگئی تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو شرف قبولیت بخشا اور ربّ العالمین کی رحمت نے جوش مارا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا … اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے۔ …جب وہ میرے پاس آکر مجھ سے ملا تو مَیں نے اسے اپنے ربّ کی آیتوں میں سے ایک آیت پایا اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ میری اس دعا کا نتیجہ ہے جو مَیں ہمیشہ کیا کرتا تھا اور میری فراست نے مجھے بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے۔‘‘
اس کے بعد حضورؓ کے الفاظ میں ہی آپؓ کے عقائد کا بیان ہے۔ مذکورہ بالا متفرق معلومات قریباً ستّر صفحات پر محیط ہیں جس کے بعد حضورؓ کی زبان مبارک سے بیان فرمودہ زمانۂ پیدائش اور اُس کے بعد کے حالات ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں۔ یہ حالات جس سادگی اور سچائی کی خوشبو سے مزین ہیں اُس کا لطف ہر قاری محسوس کرسکتا ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ آپؓ کی ساری زندگی تحصیل علم کا شوق، قرآن کریم سے بے لَوث محبت، خدمت خلق کی بےپایاں خواہش اور اسلام کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار رہنے کے عزم سے عبارت ہے۔ پس اس بابرکت سوانح سے قارئین کے لیے واقعات کا انتخاب کرنا کوئی سہل امر نہیں تھا تاہم جو اپنی سی کوشش کی ہے وہ پیش ہے۔
حضورؓ فرماتے ہیں کہ 1841ء کے قریب میرا تولد کا زمانہ ہے۔ ابتدا میں مَیںنے اپنی ماں کی گود میں قرآن کریم پڑھا اور انہی سے پنجابی زبان میں فقہ کی کتابیں سنیں۔ کچھ حصہ قرآن شریف کا والد صاحب سے بھی پڑھا۔
حضورؓ کےبیان کے مطابق آپؓ قریباًبارہ سال کی عمر میں لاہور آگئے جہاں آپؓ کے گھرانے کا ایک مطبع قادری نام کا تھا۔ لاہور میں آپؓ پر خناق کے مرض کا حملہ بھی ہوا۔ پھر آپؓ کے بھائیوں نے اپنی سمجھ کے مطابق آپؓ کو فارسی اور خوشخطی کی تعلیم و تدریس کے لیے دو مختلف اساتذہ کے پاس بٹھایا لیکن آپؓ افسوس کرتے تھے کہ بلحاظ دین اور ضرورت سلطنت ان امور کے سیکھنے میں آپؓ کو دلچسپی نہ تھی اور بڑا وقت ضائع ہوا۔ تاہم یہ فائدہ ہوگیا کہ وہ دونوں استاد شیعہ تھے اور اس طرح شیعہ مذہب سے آگاہی ہوگئی۔ دو سال لاہور میں گزار کر آپؓ واپس بھیرہ تشریف لے آئے۔ پہلے اپنے بھائی سے عربی کی تعلیم حاصل کی جو بہت مفید ثابت ہوئی۔ پھر مختلف اہل علم سے استفادہ کیا اور اٹھارہ سال کی عمر میں آپؓ راولپنڈی جاکرنارمل سکول میں مدرس ہوگئے۔پھر ایک امتحان پاس کرکے پنڈدادن خان میں ہیڈماسٹر ہوگئے۔ لیکن جلد ہی تحصیل علم کا شوق آپؓ کو ہندوستان کے مختلف مقامات پر لے جاتا رہا جہاں آپؓ نے بہت سے علماء سے فیض حاصل کیا۔اور پھر اس محنت شاقہ اور عرفانِ الٰہی کی بدولت آپؓ ایسے مقام پر فائز ہوئے جہاں ہزاروں افراد نے آپؓ سے اکتساب فیض کیا۔ ہر جگہ خداتعالیٰ کی مدد کے عجیب مناظر دیکھنے کو ملے اور غائبانہ الٰہی تائید سے دل حمدوثنا سے لبریز رہا۔
بہرحال مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے حضورؓ لکھنؤ پہنچے جہاں حکیم علی حسین صاحب سے حکمت سیکھنے کی تمنّا تھی۔ حضورؓ فرماتے ہیں کچی سڑک اور گرمی کا موسم، گردوغبار نے مجھے خاک آلودہ کردیا تھا کہ مَیں گاڑی میں سوار ہوکر لکھنؤ پہنچا۔ جہاں وہ گاڑی ٹھہری وہاں اترتے ہی مَیں نے حکیم صاحب کا پتہ پوچھا۔ خدائی عجائبات ہیں کہ سامنے ہی حکیم صاحب کا مکان تھا۔ مَیں اسی وحشیانہ حالت میں مکان میں جاگھسا۔ ایک بڑا ہال نظر آیا۔ ایک فرشتہ خصلت دل رُبا، حسین سفید ریش، نہایت سفید کپڑے پہنے ہوئے ایک گدیلے پر چار زانو بیٹھا ہوا۔ پیچھے اس کے ایک نہایت نفیس تکیہ اور دونوں طرف چھوٹے چھوٹے تکیے تھے۔ سامنے پاندان، اگالدان، خاص دان، قلم دوات کاغذ دھرے ہوئے۔ ہال کے کنارے کنارے جیسے کوئی التحیات میں بیٹھتا ہے، بڑے خوشنما چہرے قرینے سے بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ نہایت براق چاندنی کا فرش اس ہال میں تھا۔ وہ قہقہہ دیوار دیکھ کر مَیں حیران سا رہ گیا کیونکہ پنجاب میں کبھی ایسا نظارہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ بہرحال اس کے مشرقی دروازے سے (اپنا بستہ اس دروازے ہی میں رکھ کر)حضرت حکیم صاحب کی طرف جانے کا قصد کیا۔ گردآلودہ پاؤں جب اس چاندنی پر پڑے تو اس نقش و نگار سے مَیں خود ہی محجوب ہوگیا۔ حکیم صاحب تک بےتکلّف جاپہنچا اور وہاں اپنی عادت کے مطابق زور سے السلام علیکم کہا، جو لکھنؤ میں ایک نرالی آواز تھی۔ یہ تو مَیں نہیں کہہ سکتا کہ حکیم صاحب نے وعلیکم السلام زور سے یا دبی آواز سے کہا ہو مگر میرے ہاتھ بڑھانے سے انہوں نے ضرور ہی ہاتھ بڑھایا اور خاکسار کے خاک آلودہ ہاتھوں سے اپنے ہاتھ آلودہ کیے اور مَیں دو زانو بیٹھ گیا۔ یہ میرا دوزانو بیٹھنا بھی اس چاندنی کے لیے جس عجیب نظارہ کا موجب ہوا وہ یہ ہے کہ ایک شخص نے جو اراکینِ لکھنؤ میں سے تھا، مجھے مخاطب کرکے کہا: آپ کس مہذّب ملک سے تشریف لائے ہیں مَیں تو اپنے قصور کا پہلے ہی قائل ہوچکا تھا۔ مَیں نے نیم نگاہی کے ساتھ اپنی جوانی کی ترنگ میں اس کو یہ جواب دیا کہ یہ بےتکلّفیاں اور السلام علیکم کی بےتکلّف آواز وادیٔ غیرذی ذرع کے اُمّی اور بکریوں کے چرواہے کی تعلیم کا نتیجہ ہے، صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔ فداہُ ابی و امی۔ اس میرے کہنے کی آواز نے بجلی کا کام دیا اور حکیم صاحب پر وجد طاری ہوا اور وجد کی حالت میں اس امیر کو کہا کہ آپ تو بادشاہ کی مجلس میں رہے ہیں کبھی ایسی زک آپ نے اٹھائی ہے؟ اور تھوڑے وقفے کے بعد مجھ سے کہا کہ آپ کا کیا کام ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ مَیں پڑھنے کے لیے آیا ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ مَیں اب بہت بوڑھا ہوگیا ہوں اور پڑھانے سے مجھے ایک انقباض ہے، مَیں نے قسم کھالی ہے کہ اب نہیں پڑھاؤں گا۔ میری طبیعت اُن دنوں بہت جوشیلی تھی اور حق تو یہ ہے کہ خداتعالیٰ ہی کے کام ہوتے ہیں۔ مَیں نے جوش بھری اور دردمندانہ آواز سے کہا کہ شیرازی حکیم نے بہت ہی غلط کہا کہ ‘‘دل کو دُکھ دینا بےوقوفی ہے اور قسم کا کفّارہ ادا کردینا آسان امر ہے’’۔ اس پر اُن کو دوبارہ وجد ہوا اور چشم پُرآب ہوگئے۔ تھوڑے وقفے کے بعد فرمایا۔ مولوی نورکریم حکیم ہیں اور بہت لائق، مَیں آپ کو اُن کے سپرد کردوں گا وہ آپ کو اچھی طرح پڑھائیں گے۔ مَیں نے عرض کیا کہ ‘‘خداتعالیٰ کی کائنات تنگ نہیں اور مَیں لنگڑا نہیں (یعنی چلنے سے عاجز نہیں)’’۔ تب آپ پر تیسری دفعہ وجد کی حالت طاری ہوئی اور فرمایا: ہم نے قسم توڑ دی۔ اس کے بعد حکیم تو گھر کو تشریف لے گئے اور دیگر لوگ اپنی اپنی جگہ چلے گئے۔ مَیں نے بھی اپنا بوریا بدھنا سنبھالا اور اس مکان سے باہر نکلا۔ میرے بھائی صاحب کے دوست علی بخش خاں مرحوم مطبع علوی کے مالک تھے۔ مَیں اُن کے مکان پر پہنچا۔ وہاں مَیں نے بڑا آرام پایا۔ آخر انہوں نے مجھے ایک مکان دیا اور وہاں کھانے کا انتظام مجھے خود کرنا پڑا۔ حرفہ کے لیے میرے دماغ میں کوئی بناوٹ نہیں، اس لیے اپنی روٹی پکانے کے لیے ایک منطق سے کام لینے لگا۔ چولہے میں آگ جلائی، توا رکھا اور آٹے کو بہت پتلا گھول کر گرم توے پر بِلا گھی اور خشکے کے خوبصورت دائرے کی طرح ڈال دیا۔ جب اس کا نصف حصہ پک گیا تو پلٹنے کے لیے روٹی کو اٹھانے کی فضول کوشش کی۔ ان کوششوں میں روٹی اوپر تک پک چکی تھی۔ خیالی فلسفے نے توے کو اُتار کر آگ کے سامنے رکھوایا۔ جب اوپر کا حصہ پختہ نظر آیا تو چاقو سے اتارنے کی ٹھہری۔ مگر چاقو کے ذریعے اترنے سے بھی اس نے انکار کیا اور مجھے دعا کی توفیق ملی۔ آسمان کی طرف منہ اٹھاکر یوں دعا مانگنے لگا کہ اے کریم مولا! ایک نادان کے کام سپرد کرنا اپنے بنائے ہوئے رزق کو ضائع کرنا ہے، یہ کس لائق ہے جس کے سپرد روٹی پکانا کیا گیا۔ اس دعا کے بعد مَیں حکیم صاحب کے حضور پُرتکلّف لباس میں جاپہنچا۔ جاتے ہی اپنی دعا کی قبولیت کا یہ اثر دیکھا کہ حکیم صاحب نے فرمایا: آپ بےاجازت چلے گئے، یہ شاگردوں کا کام ہے؟ آئندہ تم روٹی ہمارے ساتھ کھایا کرو اور یہیں رہو۔ یا جہاں ٹھہرے ہو وہاں رہو مگر روٹی یہاں کھایا کرو۔
ایک مرتبہ طالب علموں میں مباحثہ ہوا کہ اہل کمال اپنا کمال کسی کو بتاتے ہیں یا نہیں؟ میرا دعویٰ تھا کہ اہل کمال تو اپنا کمال سکھانے اور بتانے کے لیے تڑپتے ہیں مگر کوئی سیکھنے والا نہیں ملتا۔ باقی تمام طالب علم کہتے تھے کہ سیکھنے والے بہت ہیں مگر وہ سکھاتے ہی نہیں۔ تب ہم سب فیصلہ کروانے کے لیے ایک باکمال عامل امیر شاہ صاحب کے پاس چلے گئے۔ وہ ایک تخت پر تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ سامنے ایک چھوٹی سی چٹائی بچھی تھی۔ بڑے طالب علم اُس پر اور باقی زمین پر بیٹھ گئے۔ مجھے چونکہ زمین پر بیٹھنے سے نفرت ہے اس لیے مَیں کھڑا رہا۔ انہوں نے مجھ سے کھڑے ہونے کا سبب پوچھا تو مَیں نے عرض کیا کہ چٹائی پر جگہ نہیں بچی۔ انہوںنے فرمایا: تم ہمارے پاس آجاؤ۔ مَیں اُن کے پاس تخت پر جابیٹھا۔ اُن کے پوچھنے پر معاملہ پیش کیا۔انہوں نے مقدمہ سن کر صاف لفظوں میں کہا کہ تم سچے ہو اور یہ سب غلطی پر ہیں۔ مَیں جب اُٹھ کر چلنے لگا تو انہوں نے کوٹھڑی سے ایک ضخیم قلمی کتاب لاکر فرمایا کہ میری ساری عمر کا اندوختہ یہی ہے اور مَیں یہ کتاب تم کو دیتا ہوں۔ مَیں نے کہا مَیں تو طالب علم ہوں، مجھ کو اس کی ضرورت نہیں۔ یہ سن کر وہ چشم پُرآب ہوگئے اور کہنے لگے کہ ہم تم کو دیتے ہیں اور تم لیتے نہیں، یہ لوگ مانگتے ہیں اور ہم ان کو دیتے نہیں۔ پھر انہوں نے ایک نکتہ بیان کیا جس نے آج تک بڑا فائدہ دیا۔ فرمایا کہ جب کوئی شخص تمہارے پاس کسی غرض کے لیے آئے تو تم کو چاہیے کہ جناب الٰہی کی طرف جھک جاؤ اور یوں التجا کرو کہ الٰہی! مَیں نے اس کو نہیں بلایا، تُو نے خود بھیجا ہے۔ جس کام کے لیے آیا ہے اگر وہ کام تجھ کو کرنا منظور نہیں تو جس گناہ کے سبب میرے لیے تُو نے یہ سامانِ ذلّت بھیجا، مَیں اس گناہ سے توبہ کرتا ہوں۔ پھر بھی وہ شخص اگر اصرار کرے تو دوبارہ مانگنے کے بعد اُس کو کچھ بھی لکھ دیا کرو۔
بھوپال سے روانہ ہوتے وقت اپنے استاد مولوی عبدالقیوم صاحب کی خدمت میں رخصت لینے حاضر ہوا۔ مَیں نے اُن سے عرض کیا کہ مجھ کو کوئی ایسی بات بتائیں جس سے مَیں ہمیشہ خوش رہوں۔ فرمایا کہ ’خدا نہ بننا اور رسول نہ بننا‘۔ اس فقرے کا مطلب پوچھا تو فرمایا کہ تم خدا کس کو کہتے ہو؟ میری زبان سے نکلا کہ خداتعالیٰ کی ایک صفت ہے فَعَالٌ لِّمَایُرِیْدُ (وہ جو چاہتا ہے کرگزرتا ہے)۔ فرمایا کہ بس ہمارا مطلب اسی سے ہے یعنی تمہاری کوئی خواہش ہو اور وہ پوری نہ ہو تو تم اپنے نفس سے کہو کہ میاں! تم کوئی خدا ہو؟ اور رسول کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آتا ہے، وہ یقین کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی سے لوگ جہنم میں جائیں گے اس لیے اس کو بہت رنج ہوتا ہے۔ تمہارا فتویٰ اگر کوئی نہ مانے تو وہ یقینی جہنمی تو نہیں ہوسکتا لہٰذا تم کو اس کا بھی رنج نہ ہونا چاہیے۔
حرمین کے سفر کے دوران برہان پور پہنچا تو مولوی عبداللہ صاحب نے بڑی خاطر مدارات کی۔ رخصت ہونے لگا تو مجھ کو مٹھائی کی ایک ٹوکری دی۔ راستے میں جب ٹوکری کھولی تو اس میں کچھ نقد روپیہ تھا اور مکّہ معظمہ کے ایک ساہوکار کے نام خط تھا کہ نورالدین کو طلب کرنے پر ایک ہزار روپیہ تک ہمارے حساب میں دے دو۔ اُن کے حوصلے کو دیکھ کر تعجب ہوا۔ اگرچہ مَیں نے وہ ایک ہزار روپیہ وصول نہیں کیا مگر اُن کے حوصلے کی داد دینی ضروری ہے۔
مولوی عبداللہ صاحب نے بیان کیاکہ مَیں ساہی وال کا باشندہ ہوں۔ بہت غریب تھا۔ مکّہ معظمہ حج کو گیا تو وہاں صبح سے شام تک گلیوں میں بھیک مانگتا مگر پھر بھی پیٹ نہیں بھرتا تھا۔ ایک دن خیال آیا کہ اگر کبھی بیمار ہوگیا اور چل پھر نہ سکا تو بھوک سے مر جاؤں گا۔ اس پر مَیں نے ارادہ کیا کہ بس آج ہی مر جاؤں گا لیکن اب سوال نہ کروں گا۔ پھر مَیں بیت اللہ شریف میں گیا اور پردہ پکڑ کر اقرار کیا کہ اے میرے مولیٰ! گو تُو اس وقت میرے سامنے نہیں، مگر مَیں عہد کرتا ہوں کہ کسی بندے اور کسی مخلوق سے اب نہیں مانگوں گا۔ پھر مَیں پیچھے ہٹ کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں ایک شخص آیا جس نے میرے ہاتھ پر ڈیڑھ آنہ رکھ دیا تو میرے دل میں یہ شک ہوا کہ میری شکل سائل کی سی ہے ،گو مَیں نے زبان سے سوال نہیں کیا مگر میرے لیے یہ پیسے جائز ہیں یا نہیں۔ ابھی مَیں سوچ میں تھا کہ وہ شخص غائب ہوگیا۔ مَیں نے اُٹھ کر دو پیسے کی روٹی کھالی اور چار پیسے کی بارہ ڈبیاں دیاسلائی کی خریدیں۔ دن بھر گلیوں میں پھرنے کی عادت تو تھی ہی، آواز لگانے لگا تو تھوڑی دیر میں وہ ڈبیاں چھ پیسے کی بِک گئیں۔ پھر چھ پیسے کی مزید خرید کر بیچ دیں۔ شام تک میرے پاس چونّی ہوگئی۔ اگلے دن سے باقاعدہ یہی کام شروع کردیا۔ چند روز کے بعد عام استعمال کی چند چیزیں لے کر پھیری لگانے لگا۔سودا ایسا خریدتا تھا اور نفع اتنا کم لیتا تھا کہ شام تک سارا بِک جائے۔ رات کو بالکل فارغ ہوکر سوتا تھا۔ کچھ دنوں بعد ایک چادر بچھاکر اس پر سودا جماکر بیٹھ گیا۔ پھر اس قدر ترقی ہوگئی کہ نصف دکان کرایہ پر لے لی۔ پھر بمبئی آگیا اور قرآن شریف دیگر قصبوں میں لے جاکر بیچنے لگا۔ پھر میری ساکھ ایسی بڑھی کہ مَیں تیس ہزار روپیہ کے قرآن شریف خرید کر تمہارے شہر بھیرہ میں لے گیا اور تمہارے والد نے وہ سب کے سب خرید لیے۔ جب روپیہ بہت زیادہ ہوگیا تو مَیں نے برہان پور میں کوٹھی بنالی اور یہاں کپڑے کی تجارت شروع کردی۔ اُن کی اس کہانی سے مجھ کو وہ حدیث یاد آئی کہ تجارت میں بڑا رزق ہے۔
مَیں نے کسی روایت کے ذریعے سنا تھا کہ جب بیت اللہ نظر آئے تو اس وقت کوئی ایک دعا مانگ لو وہ ضرور ہی قبول ہوجاتی ہے۔ مَیں نے دعا مانگی:’’الٰہی! مَیں تو ہر وقت محتاج ہوں۔ اب مَیں کون کونسی دعا مانگوں۔ پس مَیں یہی دعا مانگتا ہوں کہ مَیں جب ضرورت کے وقت تجھ سے دعا مانگو تو اُس کو قبول کرلیا کر‘‘۔ روایت کا حال تو محدّثیں نے کچھ ایسا ویسا ہی لکھا ہے مگر میرا تجربہ ہے کہ میری تو یہ دعا قبول ہی ہوگئی۔
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭