متفرق مضامین

خلفائے احمدیت کے زیر سایہ مشرقِ بعید میں تبلیغِ اسلام

(انیس رئیس۔ مبلغ انچارج جاپان)

مشرقِ بعید ایک جغرافیائی اصطلاح ہے، جومشرق وسطیٰ کے بالمقابل یورپ سے دور دراز فاصلوں پر واقع ایشیائی ممالک اور جزائر کے لیے مستعمل ہے۔یورپی محققین کے مطابق جنگ عظیم اوّل سے پہلے تک سلطنت عثمانیہ کو مشرقِ قریب اور اس سے ورے مشرقِ وسطیٰ اور اس کے علاوہ کم و بیش دیگر تمام ایشیائی ممالک کو مشرق بعید کے نام سےموسوم کرتے ہیں۔جدید دَور کی جغرافیائی تقسیم کے لحاظ سے چین، منگولیا، جاپان، کوریا، انڈونیشیا، ویتنام، تھائی لینڈ،سنگاپور،کمبوڈیا اور ملائیشیا سمیت متعدد ممالک مشرقِ بعید کہلاتے ہیں۔بسا اوقات آسٹریلیا اور جنوبی ایشیا کے ممالک یورپ سے دوری پر واقع ہونے کی وجہ سے مشرق بعید میں شمار کیے جاتے ہیں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ

کہ مشرق بھی اور مغرب بھی دونوں اللہ ہی کے لیے ہیں۔پس ضروری تھا کہ اسلام کا نورِ صداقت مشرق کو بھی روشن کرتا اور مغرب بھی اس سے مستفیض ہوتا۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ہی سرزمینِ عرب بت پرستی کا جامہ اُتار کر توحید کے نور سے منور ہوچکی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کی کرنیں عرب سے نکل کر چہار دانگِ عالم میںپھیلنے لگیں۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور تربیت سے فیض یافتہ صحابہؓ نے آپ کی وفات کے بعد اسلام کی تبلیغ واشاعت کے جو کامیاب نقوش دنیا میں چھوڑے مشرقِ بعید میں اسلام کا نفوذ اس کی ایک درخشاں مثال ہے۔جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اسلام دنیا میں تلوار یا طاقت کے زور پر پھیلا، مشرقِ بعید کی اقوام کا قبولِ اسلام اس اعتراض کا کافی و شافی جواب ہے۔مشرقِ بعید کے ممالک خصوصاً چین اور انڈونیشیا کے جزائر میں اسلام کی تبلیغ واشاعت میں وسعت کا زمانہ گوکہ سولہویں صدی عیسوی قرار دیا جاتا ہے،لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں اسلام کی تخم ریزی خلافتِ راشدہ کے دور میںصحابہ کرام ؓکے ذریعہ سے ہوئی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی اشاعتِ اسلام کے واسطے دُور دراز ممالک میں جایا کرتے تھے۔یہ جو چین کے ملک میں کروڑوں مسلمان ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی صحابہ میں سے کوئی شخص پہنچا ہوگا‘‘

(ملفوظات جلد5صفحہ 482،ایڈیشن 1988ء)

بعض تاریخی شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ خلفائے راشدین کے عہد مبارک میں ہی مسلمان مبلغین اسلام کا پیغام لیے چین تک پہنچ چکے تھے۔ان بزرگ صحابہ کی یادگاریں اور پاکیزہ نقوش آج بھی چین میں محفوظ ہیں۔بحری راستوں سے تشریف لانے والے ان مبلغینِ اسلام کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے :

’’بحری راستہ سے جولوگ آئے تھے وہ خلفائے راشدین کے زمانہ میں تھے اور خشکی کے راستہ جو لوگ آئے تھے وہ خلفائے بنی امیہ کے زمانہ میں۔ جبکہ یہ چار مبلغ چین میں داخل ہوئے تو ان میں ایک نے شہر CANTONمیں سکونت اختیار کر لی، دوسرے نے شہر YANGCHOWاور تیسرے اور چوتھے نے شہر CHUANGCHOWمیں۔آج ہم کوشہر ’’کنٹن‘‘میں ایک پرانی مسجد جو ’’دائی شن زی‘‘کے نام سے موسوم ہے نظر آتی ہے اور اس میں ایک اونچا منارہ ہے جس میں اذان کی آواز آج تک گونجتی رہتی ہے، ان دونوں چیزوں میں عرب کے فن تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے‘‘

(چینی مسلمان از بدر الدین چینی

صفحہ 14مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ سن 1935ء)

بعض غیر مستند روایات کے مطابق خلیفۂ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ایلچی کی حیثیت سے حضرت سعد بن ابی اوقاص رضی اللہ عنہ چین تشریف لے گئے۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی چین آمد کا ذکر چینی مسلمانوں میں زبان زدِ خاص وعام ہونےکے علاوہ چین میں مسلمانوں کی تاریخ میں جا بجا ملتا ہے۔چین کے جنوبی شہر Guangzhouمیں واقع آپ سے منسوب مزار مبارک اور مسجدِ سعد بن ابی وقاص کی شہرت آپ کی چین تشریف آوری کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔گو کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی چین آمد والی روایات غیر مستند ہیں لیکن کم از کم اس بات پر شاہد ِناطق ہیں کہ چین میں اسلام کی اشاعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی کاوشوں کی مرہون منت ہے۔

صحابہ ؓکی پاکیزہ حیات اور کردار سے مشرقِ بعیدمیں اسلام کا جو بیج بویا گیا اس نے چین کی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔چین کی تاریخ پر کام کرنے والے محققین اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ چین نے مسلمانوں کے علوم وفنون سے بھر پور استفادہ کیا۔خصوصاً ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی اور خلافت عباسیہ کے خاتمہ کے بعد جب اسلامی علوم و فنون کی روشنی ماند پڑنا شروع ہوئی تو جن ممالک اور خطوں میں یہ قیمتی ورثہ محفوظ و مامون رہا چین بھی ا ن میں سے ایک ہے۔

(چینی مسلمان از بدر الدین چینی صفحہ 27مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ 1935ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کی نشأة ثانیہ کی مہم آپ کی حیاتِ مبارکہ میں ہی مشرق و مغرب میں زمین کے کناروں تک جا پہنچی۔ایک طرف دنیا کے انتہائی مغرب میں واقع براعظم امریکہ اسلام احمدیت سے رُوشناس ہوگیا تو دوسری طرف دنیا کے انتہائی مشرقی کنارے یعنی نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے بھی سعید فطرت روحیں امام الزماںؑ کی آغو ش میں آنے لگیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی مشرقِ بعید سے احمدیت قبول کرنے والے بعض خوش نصیب افراد کے اسماء درج ذیل ہیں:

٭…ہانگ کانگ و چین

حضرت قاری غلام مجتبیٰ صاحب چینی رضی اللہ عنہ

حضرت قاری غلام حم صاحب رضی اللہ عنہ

٭…آسٹریلیا

حضرت حاجی موسیٰ حسن صاحب رضی اللہ عنہ

٭…نیوزی لینڈ

حضرت پروفیسرکلیمنٹ صاحب

خلافت ثانیہ کے اوائل میں چین میں احمدیت کا چرچا

سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے1924ء کے ایک خطبہ جمعہ میں چین میں احمدیت کے حوالے سے ایک عجیب واقعہ کا ذکر فرمایا ہے۔آپؓ فرماتے ہیں :

’’اسی سال یعنی گزشتہ بارہ مہینوں میں کئی نئی باتیں احمدیت کے متعلق معلوم ہوئی ہیں۔چنانچہ معلوم ہوا ہے کہ چین میں احمدیہ جماعت موجود ہے۔وہاں کون گیا۔وہ لوگ کس طرح احمدی ہوئے۔ہمیں اس کا بھی علم نہیں اور نہ اس جماعت کے متعلق کوئی علم تھا کہ ترکی پارلیمنٹ کا ایک ممبر چین میں گیا اس نے اپنا سفر نامہ لکھا جس میں وہ لکھتا ہے کہ میں نے چین کے شہر کانٹن میں یہ جھگڑا فساد سنا کہ احمدی جامع مسجد کے متعلق کہتے تھے یہ ہماری ہے اور دوسرے مسلمان کہتے تھے کہ ہماری ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍فروری 1924ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 8صفحہ 312)

پھر حضورؓ فرماتے ہیں :

’’کچھ عرصہ ہوا ایک ترک ایک عجیب بات چین میں احمدیت کے متعلق اپنی تصنیف میں لکھتا ہے کہ ایک شہر میں میں گیا۔تومجھے معلوم ہوا کہ ایک مسجد کے متعلق جھگڑا ہے اور کچھ لوگوں کو اس میں نماز پڑھنے سے روکا جاتا ہے۔میں نے دریافت کیا تو بتایا گیا کہ یہ احمدی لوگ ہیں جو ہندوستان کے ایک شخص کو مسیح موعود مانتے ہیں۔ان کو ہم مسجد میں نماز نہیں پڑھنے دیتے۔اس سے معلوم ہوا کہ چین میں بھی احمدی ہیں حالانکہ آج تک وہاں کوئی احمدی مبلغ نہیں گیا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍فروری 1924ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 8صفحہ 312)

تحریک جدید کے تحت پہلی تبلیغی مہم کے لیے مشرقِ بعید کا انتخاب

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نےتحریک جدید کے منصوبہ کا اعلان فرمایا تو اس منصوبہ کے تحت مبلغین کا پہلا وفد بھجوانے کے لیے آپؓ نے مشرقِ بعید کے ممالک کا انتخاب فرمایا۔یہ وفد 6؍مئی 1935ء کوقادیان سے روانہ ہوا۔پہلے قافلے میں شامل مبلغین اور ممالک کی فہرست درج ذیل ہے:

٭…سنگاپور

مبلغ : مکرم مولانا غلام حسین ایاز صاحب

تاریخ روانگی: 6؍مئی 1935ء

٭…چین

مبلغ:مکرم صوفی عبد الغفور صاحب بھیروی

تاریخ روانگی: 6؍مئی 1935ء

٭…جاپان

مبلغ :مکرم صوفی عبد القدیر صاحب نیاز

تاریخ روانگی: 6؍مئی 1935ء

مشرقِ بعید کے مبلغین کی قیدو بند اور غیر معمولی قربانیاں

جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے تحریک جدید کی سکیم کے تحت پہلی تبلیغی مہم کے لیے جس خطہ کا انتخاب کیا گیاوہ مشرق بعید کے ممالک ہیں۔1935ء میں مبلغین کا پہلا قافلہ میدان عمل میں پہنچا۔لیکن جاپانیوں اور اتحادی ممالک کی چپقلش اور جنگ عظیم دوم کے نتیجہ میں برصغیر سے خدمت اسلام کے لیے آنے والے مبلغین کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔کچھ سالوں میں ہی دیکھتے ہی دیکھتے مشرق بعید کے اکثر ممالک جاپان کے زیرِنگیں آگئےاور یہاں خدمت اسلام پر مامور مبلغین اسیر بنا لیے گئے ۔جن مبلغین کو قیدو بند کی صعوبتیں اور ایذا رسانی برداشت کرنی پڑی ان میں صوفی عبد القدیر صاحب نیاز (جاپان) مکرم مولوی غلام حسین ایاز صاحب(سنگا پور)مکرم مولوی عبد الواحد صاحب (انڈونیشیا) مکرم مولوی شاہ محمد صاحب (انڈونیشیا)مکرم مولوی محمد صادق سماٹری صاحب (انڈونیشیا) اور مکرم ملک عزیز احمد صاحب (انڈونیشیا) شامل تھے۔ان مبلغین کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

’’تحریک جدید کے بعض مبلغین اس وقت دشمن کے ہاتھوں میں قیدی ہیں۔ سٹریٹ سیٹلمنٹس(سنگاپور)میں ہمارے مبلغ مولوی غلام حسین ایاز صاحب تھے۔جاوا، سماٹرا میں مولوی شاہ محمد صاحب اور ملک عزیز احمد صاحب گئے تھے اور یہ تینوں اس وقت جاپانیوں کی قید میں ہیں، گویا یہ تین قید ہیں اور ایک اس وقت تک لاپتہ ہیں‘‘

(تحریک جدید ایک الٰہی تحریک جلد دوم صفحہ 451)

’’آج ہی بذریعہ تار مجھے اطلاع ملی ہے کہ جاپانی گورنمنٹ نے صوفی عبد القدیر صاحب کو قید کر لیا ہے…ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ جاپانی گورنمنٹ کے مخالف ہیں اور یہ بھی ہمارے لئے ایک نیا تجربہ ہے‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍نومبر1937ءبحوالہ تحریک جدید ایک الہی تحریک جلد اوّل)

مگر یہ مبلغین ہر قسم کی ایذا رسانیوں اور تکالیف پہنچائے جانےکے باوجود اشاعتِ اسلام کی جدو جہد میں مصروف عمل رہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مبلغین کی کاوشوں کو باثمر کیا اورمشرقِ بعید کے ممالک کو اسلام احمدیت کے نور سے منور کردیا۔ان مبلغین کی اسلام احمدیت کی اشاعت کے میدان میں جرأت وبہادری کا ذکر ملتا ہے۔ جاپانیوں کے زمانے میں جب کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ جاپانیوں کے خلاف اپنے گھر میں بھی کسی قسم کی بات کرے۔ایسے خطرناک وقت میں مولوی غلام حسین ایاز صاحب.I.N.Aکےکیمپ میں جا کر علی الاعلان تبلیغ کرتے اور باوجود اس کے کہ ہر وقت جاپانی جاسوس آپ کے درپے رہتے آپ فریضہ تبلیغ بجا لاتے رہے۔

(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد 7صفحہ 209)

’’ایسے علاقوں میں بھی احمدیت پھیلنی شروع ہوگئی ہے جہاں پہلے باوجود کوشش کے ہمیں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ملایا میں تو یہ حالت تھی کہ مولوی غلام حسین صاحب ایاز کو ایک دفعہ لوگوں نے رات مار مار کر گلی میں پھینک دیا اور کتے ان کو چاٹتے رہے اور یا اب جو لوگ ملایا سے واپس آئے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ اچھے اچھے مالدار ہوٹلوں کے مالک اور معزز طبقہ کے ستر اسی کے قریب دوست احمدی ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ روز بروز ترقی کر رہا ہے۔‘‘

(بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ18؍دسمبر 2006ء صفحہ18)

مشرقِ بعید کے مبلغین کی قربانیوںکا ذکر کرتے ہوئے مبلغ انڈونیشیا مولوی محمد صادق صاحب سماٹری کی قربانیاں اور صبر واستقامت کا مظاہرہ بھی اس علاقے میں خدمت پر مامور مبلغین کے لیے ایک روشن مثال ہے۔آپ قید وبند میں تھے اور جاپانی حکومت کی طرف سے آپ کی سزائے موت کا فیصلہ ہوچکا تھا اور سزا پر عمل درآمد کے لیے اگست 1945ء کے آخری ہفتہ کی تاریخ بھی مقرر کی جاچکی تھی،لیکن قدرتِ خدا وندی اور قبولیت دعا کے اعجاز کے نتیجہ میں اگست میں ہی جنگ عظیم دوم فیصلہ کن موڑ پر پہنچ کر اپنے اختتام کو پہنچی اور جاپان کی شکست پر منتج ہوئی۔جنگ عظیم کے خاتمہ کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ آپ کو رہائی نصیب ہوئی بلکہ اس علاقہ میں اسلام احمدیت کا پیغام مزید تیزی سے پھیلنے لگا۔آج مشرق بعید کے اکثر ممالک میں مخلص جماعتیں قائم ہیں۔ بطور مثال بعض ممالک میں جماعت کے قیام کی تاریخ نہایت اختصارسے پیش ہے

آسٹریلیا میں اسلام احمدیت کی اشاعت اور مرکز کا قیام

خیر پور سندھ سے تعلق رکھنے والے پٹھانوں کی ترین قوم کے چشم وچراغ حضرت صوفی حسن موسیٰ خان صاحبؓ نہ صرف آسٹریلیا بلکہ مشرقی ممالک سے بیعت کرکے امام الزماں کی آغوش میں گرنے والا پہلا پھل تھے۔آپؓ نے آسٹریلیا سے ستمبر1903ء میں بذریعہ خط بیعت کی سعادت حاصل کی۔آپ کی بیعت کے خط کے جواب میں حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے بیعت کی قبولیت کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا کہ

’’…اس بات سے بے حد خوشی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسے دور دراز اور اجنبی ملک میں اس سلسلہ کی سچائی اور صداقت کو کس طرح آپ کے دل پر کھول دیا ہے۔یہ محض اس کا فضل ہے‘‘

(رسالہ ’رفقائے احمد‘ جلد دو م بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ 18؍دسمبر 2006ء صفحہ35)

خلافت ثانیہ کے دَور میں آسٹریلیا میں باقاعدہ جماعت قائم ہوچکی تھی۔خلافت ثالثہ کے دَور میں 1980ء کے جلسہ سالانہ ربوہ میں جماعت آسٹریلیا کا پہلا وفد ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب (سابق پرنسپل ڈینٹل کالج لاہور) امیر جماعت آسٹریلیا کی سربراہی میں شریک ہوا۔حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ کی منظوری سے 1981ء میں آسٹریلیا میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد کی تعمیر کا منصوبہ شروع ہوا۔

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ ستمبر1983ء میں آسٹریلیا تشریف لے گئے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی خلیفہ کا یہ آسٹریلیا کا پہلا دورہ تھا۔اسی دورے کے دوران مسجد بیت الہدیٰ سڈنی کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔

اس مسجد کا افتتاح14؍جولائی1989ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نےاپنے دوسرے دورۂ آسٹریلیا کے دوران فرمایا۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد 2006ء اور2013ء میں دو مرتبہ آسٹریلیا تشریف لے گئے۔ان دوروں نے جماعت احمدیہ آسٹریلیا میں بیداری کی ایک نئی روح پھونک دی۔مساجد کی تعمیر، نئے مبلغین کی آمد، اخبارات و رسائل کے ذریعہ اسلام احمدیت کی اشاعت، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعہ تبلیغ و ترقی کے ایک نئے دَور کا آغاز ہوااور نہ صرف آسٹریلیا بلکہ پورے براعظم کے طول وعرض اور دور دراز کے جزائر تک اسلام احمدیت کا پیغام عام ہوا۔

جزائر فجی میں احمدیت کا آغازاور مرکز کا قیام

خلافتِ ثانیہ کے اوائل سے ہی فجی میں غیر مبائعین افراد موجود تھے اور یوں یہ جزائر ایک لحاظ سے احمدیت سے متعارف ہوچکے۔لیکن فجی سے احمدیت قبول کرکے خلافت ِاحمدیہ کے سایہ میں آنے والے پہلے وجود مکرم حاجی رمضان صاحب تھے جو 1959ء میںحضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے دستِ مبارک پر بیعت کرکے احمدیت کی آغوش میں آگئے۔

اس وقت جزائر فجی میں دس سے زیادہ مساجد اسلام احمدیت کے مستقل مراکز کی حیثیت سے شبانہ روز خدمتِ اسلام میں مصروف ہیں۔ایک احمدیہ سکول کے علاوہ خلفاء کی قیادت میں قرآن کریم کے تراجم اور لٹریچر کی تیاری نیز مرکزی مبلغین کے علاوہ داعیان الیٰ اللہ کی صورت میں خدامِ خلافت کا ایک گروہ دنیا کے انتہائی مشرق میں واقع ان دور دراز جزائر میں خدمتِ اسلام پر مامور ہے۔اشاعت ِاسلام احمدیت کی عالمگیر مہم کی قیادت کرتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ1983ء میں اورحضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 2006ء میں فجی تشریف لے گئے اور جزائر فجی کے طول وعرض کے دورے کرکے زمین کا کنارہ کہلانے والے اس خطہ ارضی تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا۔

نیوزی لینڈ میں احمدیت کا نفوذ اور مرکز کا قیام

نیوزی لینڈ بھی ان خوش قسمت جزائر میں شامل ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں ہی اسلام احمدیت سے رُوشناس ہوگیا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری ایام میں پروفیسرکلیمنٹ صاحب ہندوستان کا سفر کرتے ہوئے قادیان پہنچے اور مئی 1908ء میں حضرت امام الزماں کی زیارت سے فیضیاب ہوئے۔نیوزی لینڈ واپس چلے جانے کے بعد آپ نے اسلام احمدیت کو قبول کر لیا اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ساتھ رابطے میں رہے اور 10؍دسمبر1922ء تک تادمِ وفات جماعت سے وابستہ رہے۔سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اپنے دورۂ نیوزی لینڈ کے دوران 7؍مئی 2006ء کو آپ کی قبر پر تشریف لے گئے اور دعا کی۔

خلافت رابعہ کے دَور میں 1998ء میں نیوزی لینڈ کے شہر آک لینڈ (Auckland)میں جماعت احمدیہ نے ایک قطعہ زمین خرید کر باقاعدہ مرکزِ اسلام احمدیت کی بنیاد رکھی۔خلافت خامسہ کے بابرکت دَور میں 2013ء میں یہاں مسجد بیت المقیت کا افتتاح عمل میں آیا۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز 2006ء اور 2013ء میں بنفس نفیس نیوزی لینڈ تشریف لے گئے اور نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ سمیت ملک کے طول و عرض کے دورے کرکے دنیاکے انتہائی مشرق میں واقع نیوزی لینڈ کے خوبصورت جزائر کو اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کا فریضہ ادا کیا۔

نیوزی لینڈ میں اس وقت ایک منظم جماعت قائم ہے،خلافت حقہ کے زیر سایہ اس وقت تین مبلغین اور درجنوں داعیان الیٰ اللہ ملک کے مختلف علاقوں میں سرگرم عمل ہیں، اخبارات و رسائل، ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعہ ملک کے ہر طبقہ تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا جارہا ہے۔نیوزی لینڈ کے مقامی باشندوں کی زبان ’’ماوری‘‘میں بھی قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔

چین میں اسلام احمدیت کا قیام

حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ مبارک میں ہی احمدیت کا پودا لگ چکا تھا لیکن چین میں پہلا احمدیہ مشن صوفی عبد الغفور صاحب بھیروی نے قائم کیا جو 27؍مئی 1935ء کو ہانگ کانگ پہنچے اور متعدد سال تک فریضہ تبلیغ بجالانے کے بعد واپس قادیان تشریف لے آئے۔آپ کے زمانہ میں جماعت احمدیہ چین کی داغ بیل پڑی۔سب سے پہلے چینی احمدی (جن کی اطلاع مرکز پہنچی)لی اونگ کنگ فنگ Leung King Fungتھے۔جو قصبہ Kawai ShowضلعSantaxصوبہ Kawanteengکے باشندہ تھے۔

صوفی صاحب موصوف نے دوران قیام میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘کا چینی ترجمہ کرایا جس سے اشاعت احمدیت میں پہلے سے زیادہ آسانی پیدا ہوگئی۔

صوفی صاحب کے بعد حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ کے ارشاد پر16؍جنوری 1936ء کو شیخ عبد الواحد صاحب فاضل چین روانہ ہوئے۔شیخ صاحب نے اسلامی اصول کی فلاسفی کے چینی ترجمہ کی اشاعت کے علاوہ بعض تبلیغی پمفلٹ بکثرت شائع کیے۔آپ کے ذریعہ بھی کئی سعید روحیں حلقہ بگوش احمدیت ہوئیں۔آپ 6؍مارچ 1939ء کو واپس مرکز پہنچے۔

شیخ صاحب ابھی چین میں ہی اشاعت اسلام احمدیت کا فرض ادا کررہے تھے کہ حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓنے چودھری محمد اسحاق سیالکوٹی صاحب کو 27؍ستمبر 1937ء کو چین روانہ فرمایا اور اپنے قلم سے مندرجہ ذیل نصائح لکھ کر دیں:

’’اللہ تعالیٰ کی محبت سب اصول سے بڑا اصل ہے۔ اسی میں سب برکت اور سب خیر جمع ہے۔ جو سچی محبت اللہ تعالیٰ کی پیدا کرے وہ کبھی ناکام نہیں رہتا اور کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا۔ نمازوں کو دل لگا کر پڑھنا اور باقاعدگی سے پڑھنا۔ ذکر الٰہی۔ روزہ۔ مراقبہ یعنی اپنے نفس کی حالت کا مطالعہ کرتے رہنا سونا کم۔ کھانا کم۔ دین کے معاملات میں ہنسی نہ کرنا نہ سننا۔ مخلوق خدا کی خدمت۔ نظام کا ادب و احترام اور اس سے ایسی وابستگی کہ جان جائے اس میں کمی نہ آئے۔ اسلام کے اعلیٰ اصول ہیں۔

قرآن کریم کا غور سے مطالعہ علم کو بڑھاتا ہے اور دل کو پاک کرتا ہے اور دماغ کو نور بخشتا ہے۔ سلسلہ کی کتب اور اخبارات کا مطالعہ ضروری ہے۔

خدا کے رسولﷺ اور مسیح موعودؑ اس کے خادم کی محبت خداتعالیٰ کی محبت کا ہی جزو ہے۔ نہ محمدﷺجیسا کوئی نبی گزرا ہے۔ نہ مسیح موعودؑ جیسا نائب صل اللہ علیہما وسلّم۔

تقویٰ اللہ ایک اہم شے ہے۔ مگر بہت لوگ اس کے مضمون کو نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ اس پر عمل کرتے ہیں۔

سلسلہ کے مفاد کو ہر دم سامنے رکھنا۔ بلند نظر رکھنا۔ مغلوبیت سے انکار اور غلبہ اسلام اور احمدیت کے لئے کوشش ہماری زندگی کا نصب العین ہونے چاہئیں۔

خاکسار۔مرزا محمود احمد‘‘

چودھری محمد اسحق صاحب قریبا ساڑھے تین سال تک چین میں احمدیت کا نور پھیلاتے رہے اور اپریل 1941ء کو قادیان آگئے۔(تاریخ احمدیت جلد 7صفحہ 221تا222)

چین میں اسلام احمدیت کی تبلیغی کاوشیں باثمر ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین سے ایسی سعید فطرت روحیں جماعت کو عطا کردیں جنہوں نے چینی زبان میں تبلیغِ اسلام کی ذمہ داری کو نہایت جانفشانی سے ادا کیا۔جن سعید فطرت چینیوں نے اسلام احمدیت قبول کی ان میں نمایاں نام مکرم محمد عثمان چوچنگ شی صاحب کا ہے۔آپ 13؍دسمبر1925ء میں چین کے صوبہ آن خوئی میں پیدا ہوئے اور خلافت ثانیہ کے دور میں احمدیت کی آغوش میں آئے ۔آپ13؍اپریل 2018ء کو انگلستان میں وفات پاگئے۔سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصر ہ العزیز نے آپ کی وفات پر خطبہ جمعہ میں آپ کی دینی خدمات اور اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ فرمایا۔ آپ نے چینی زبان جاننے والوں کے لیے اسلام احمدیت کے تعارف پر مشتمل لٹریچر تیار کیا۔ قرآن کریم کا چینی زبان میں ترجمہ کیا اور بعض چینی دانشوروں اور سکالرز نے اس ترجمہ کو ایک شاہکار قرار دیا ہے۔

چینی زبان میں اسلام احمدیت کے لٹریچر کی تیاری کے لیے ایک جدید چینی ویب سائٹ کا اجرا ہوچکا ہے، نیز چینی زبان میں اسلام احمدیت کی اشاعت کے لیے چینی ڈیسک کے قیام سے چین میں اسلام احمدیت کی ترویج و اشاعت کی مستقل بنیادیں قائم ہوچکی ہیں۔

جاپان میں اسلام احمدیت کے مرکز کا قیام

حضرت مسیح موعود ؑکے دور مبارک میں ہی حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ کے تبلیغی خطوط کے ذریعہ اسلام احمدیت کا پیغام جاپان تک پہنچ چکا تھا لیکن اس ملک میں ایک مستقل مرکز کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب مکرم صوفی عبدالقدیر نیاز صاحب 4؍جون 1935ء کو جاپان کے ساحلی شہر’’کوبے‘‘ پہنچے۔آپ جماعت احمدیہ کی طرف سےجاپان تشریف لانے والے پہلے مبلغ تھے۔آپ نے جاپان میں قیام کے دوران جاپانی زبان سیکھی، تبلیغی لیکچرز دیے اور اسلام کے تعارف پر مشتمل کچھ لٹریچر تیار کروایا۔جنگ عظیم دوم کے آغاز سے کچھ عرصہ قبل آپ کو بعض شکوک کی بنا پر جاپانی اداروں نے حراست میں بھی لیا اور کچھ تفتیش کرنے کے بعد رہا کردیا۔

آپ ابھی جاپان میں ہی تھے کہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے 10؍جنوری 1937ء کومولوی عبد الغفور صاحب کو جاپان روانہ فرمایا۔آپ کو جاپان بھجواتے ہوئے حضورؓنےبعض نصائح فرمائیں جو مشرقِ بعید کے ممالک میں مصروفِ عمل مبلغین و داعیان الیٰ اللہ کے لیے ایک جامع لائحہ عمل ہیں۔

( بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ 219تا 221)

اس کے بعد جنگ عظیم دوم کی وجہ سے کچھ عرصہ تک مبلغین کی جاپان آمد کا سلسلہ معطل رہا لیکن خلافت ثالثہ کے دَور میں 1969ء تاحال جاپان میں مبلغین اور احباب جماعت خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی راہ نمائی میں اشاعتِ اسلام کی خدمت بجا لارہے ہیں۔

خلافتِ ثانیہ کے دور میں مکرم محمد اویس کوبایاشی صاحب کا قبولِ اسلام احمدیت، خلافت ثالثہ کے دور میں احمدیہ سنٹر ناگویا کی خرید، خلافت رابعہ کے دور میں جاپانی ترجمہ قرآن کریم کی اشاعت اورخلافت خامسہ کے مبارک دورمیں مسجد بیت الاحد کی تعمیر تاریخ احمدیت جاپان کے اہم سنگ ہائے میل ہیں۔

انڈونیشیا میں اسلام احمدیت کی تخم ریزی

1923ء میں سماٹرا کے چار نوجوان محترم مولوی ابوبکر ایوب صاحب، مولوی احمدنورالدین صاحب، مولوی زینی دَحلان صاحب اور حاجی محمود صاحب دینی تعلیم کے حاصل کرنے کے لیے سماٹرا سے ہندوستان آئے۔خدا کی تقدیر انہیں کلکتہ، لکھنؤ اور لاہور کے بعد قادیان کھینچ لائی۔اگست 1923ء میں یہ چاروں نوجوان قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ درخواست کی کہ ہماری دینی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے۔چنانچہ حضورؓنے ان کی درخواست قبول فرماتے ہوئے اُن کی تعلیم کا بندوبست فرمایا اور دورانِ تعلیم ہی ان پر احمدیت کی حقیقت و صداقت ظاہر ہوئی اور انہوں نے احمدیت قبول کرلی۔قادیان میں بیعت کرنے والے انڈونیشین نوجوانوں نے بیعت کے بعد پھر احمدیت کے نور سے جلد اپنے ملک کو بھی منور کرنے کی کوشش کی۔وہیں بیٹھے بیٹھے قادیان سے ہی انہوں نے اپنے رشتے داروں کو تبلیغی خطوط لکھنے شروع کر دیے اور اس طرح انڈونیشیا میں تبلیغ کے لیے راہ ہموار ہونا شروع ہو گئی۔حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ جب 29؍نومبر 1924ء کو یورپ کے دورے سے واپس تشریف لائے تو حضورؓ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا گیا۔اس دعوت میں ان طلباء نے جو انڈونیشیا سے آئے تھے حضورؓ سے یہ استدعا کی کہ حضور! مشرق کے اِن جزائر کی طرف بھی توجہ فرمائیں۔اُس وقت حضورؓ نے وعدہ فرمایا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ مَیں خود یا میرا کوئی نمائندہ آپ کے ملک میں جائے گا۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت مولوی رحمت علی صاحب کا انتخاب فرمایا اور آپ کو وہاں بھیجا جو سمندری جہاز کے راستے سفر کرتے ہوئے ستمبر 1925ء میں اس ملک میں پہنچے۔اور سب سے پہلے سماٹرا میں آچیہ کی ایک چھوٹی سی بستی ’’تاپا تُوآن‘‘(Tapatuan) میں وارد ہوئے۔وہاں کی تہذیب و معاشرت اور تھی۔زبان مختلف تھی۔غیر لوگ تھے۔اپنا جاننے والا بھی کوئی نہ تھا۔لیکن یہ تمام ابتدائی مراحل اور مشکلات حضرت مولوی صاحب کی ہمت اور ارادہ میں فرق نہ ڈال سکے اور زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے انفرادی تبلیغ بھی شروع کر دی۔پھر علماء سے بحث مباحثے اور مناظرے بھی شروع ہو گئے۔حضرت مولوی صاحب کو خدا تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت سے نوازا اور چند ماہ میں ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے انڈونیشیا کی پہلی جماعت قائم ہو گئی اور آٹھ افرادنے بیعت کی۔اس کے بعد مزید بیعتیں ہوتی چلی گئیں۔حضرت مولوی صاحب کو آغاز میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ایک زبان کا مسئلہ، پھر مخالفتیںبھی شروع ہوئیں اور تہذیب وغیرہ مختلف تھی، تمدنی روایات مختلف تھیں۔لیکن مولوی صاحب نے اس پر قابو پا لیا۔علماء نے وہاں یہ فتویٰ دے دیا کہ احمدیوں کی کتب اور مضامین نہ پڑھے جائیں اور نہ ہی ان کے لیکچر سنے جائیں۔جب مقامی احمدیوں کی تعداد بڑھنے لگی تو وہاں کے لوگوں نے مقامی احمدیوں کا بائیکاٹ کرنا شروع کر دیا حتیٰ کہ اخبارات والے بھی کوئی خبر چھاپنے کے لیے تیار نہ تھے۔کوئی مضمون چھاپنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔مخالفت اس حد تک بڑھ گئی کہ لوگوں کے تین تین ہزار کے مجمعے مولوی صاحب کی رہائش گاہ کے آگے کھڑے ہو کے نعرے بازی اور ہلّڑ بازی کرتے، طرح طرح کے دل آزار نعرے لگاتے تھے اور گالیاں دیتے تھے۔

اس کے بعد پھرحاجی محمود صاحب بھی وہاں آگئے۔مولویوں نے کسی طرح زبردستی اُن سے یہ بیان لکھوا لیا کہ میں احمدیت چھوڑتا ہوں اور اس پرایک اشتہار شائع کر وا دیا اور بڑا شور پڑا۔اس کے بعد مولوی صاحب کی مخالفت اور بھی زیادہ شدت سے شروع ہو گئی۔لیکن حاجی محمود صاحب بعد میں سنبھل گئے اور علماء کی چالوں سے محفوظ رہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بچا لیا۔اور جب علماء کو یہ پتہ لگا کہ ہمارا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے تو متفقہ طور پر حضرت مولوی رحمت علی صاحب کو ملک بدر کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دیں اور حکومت کے افراد اور نمائندوں تک گئے۔لیکن حکام نے انہیں کہہ دیا کہ ہم مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔دسمبر1927ء میں پاڈانگ میں غیر احمدی علماء کے ساتھ ایک مباحثہ ہوا جس میں بڑے علماء اور مشائخ اور اخباروں کے ایڈیٹر اور حکومتی عہدیدار موجود تھے۔اس مباحثے میں جماعت احمدیہ کے مبلغ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے برتری حاصل رہی اور جیسا کہ مقدر تھایہ ہوناہی تھا۔مخالف علماء کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔اس کے نتیجے میں احمدیت کی تبلیغ کی راہ ہموار ہو گئی۔اس دوران میں انڈونیشیا میں تیسری جماعت ڈوکو (Doko) کے مقام پرقائم ہوئی۔

(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ11؍فروری 2011ء)

خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مسلسل راہ نمائی اور توجہ کی بدولت آج انڈونیشیا میں ایک بڑی اور مستحکم جماعت کاقیام عمل میں آچکا ہے، انڈونیشیا میں جامعہ احمدیہ سے تیار ہونے والے مبلغین انڈونیشیا اور دیگر ہمسایہ ممالک میں خدمت پر کمربستہ ہیں، ایم ٹی اے پر نشر ہونے والی انڈونیشین سروس اس ملک میں اسلام احمدیت کی اشاعت کا ذریعہ بن رہی ہے نیز انڈونیشین ڈیسک کے قیام سے اسلام احمدیت کے لٹریچر کی تیاری اور تبلیغ کا کام ایک مستقل نظام کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

سنگاپور میں اشاعتِ اسلام کی مہم

مکرم مولوی غلام حسین ایاز صاحب 6؍مئی 1935ء؍کو قادیان سے سنگار پور روانگی کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔آپ 15سال تک سنگاپور اور اس سے ملحقہ علاقوں میں اسلام احمدیت کی اشاعت و تبلیغ میں سرگرمِ عمل رہے۔جنگ عظیم دوم کے دوران کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا، کچھ عرصہ تک آپ جاپانی فوج کی قید میں بھی رہے۔آپ کی تبلیغی کاوشیں ثمرآور ہوئیں اور 1937ء میں مکرم حاجی جعفر صاحب حلقہ بگوشِ احمدیت ہوئے۔آپ نہایت مخلص اور فدائی احمدی تھے۔

1947ءمیں سنگار پور میں 19ہزار 137مربع فٹ کا قطعہ زمین خریدکر اسلام احمدیت کی اشاعت کا ایک مستقل مرکز قائم ہوا۔1983ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے دورہ سنگا پور کے دوران مسجد طٰہ کا سنگ بنیاد رکھا۔یہ مسجد جماعت احمدیہ سنگاپور کا مرکز ہے۔

مکرم مولوی غلام حسین ایاز صاحب کی تبلیغی کاوشوں اور شبانہ روز جدو جہد کے نتیجہ میں نہ صرف سنگاپور بلکہ ملاکہ، جوہر بارواور انڈونیشیا وملائیشیا کے دیگر جزائر بھی اسلام احمدیت کے پیغام سے رُوشناس ہوئے اور کئی سعید روحین حلقہ بگوش احمدیت ہوگئیں۔

خلفائے احمدیت کے اسفارِ مشرق بعید

جماعت احمدیہ کے قیام کے آغاز سے ہی مشرقِ بعید میں تبلیغ اسلام کی سرگرمیاں جاری وساری ہیں۔خلافت ثانیہ کے دَور سے ہی مشرقِ بعید میں باقاعدہ مبلغین بھجوا کر اشاعت اسلام کے ایک مربوط منصوبہ کی بنیاد رکھی جاچکی تھی۔لیکن ان کوششوں کی معراج وہ تاریخی دورے ہیں جب اشاعت اسلام کی عالمگیر مہم کی قیادت کرتے ہوئے خلفائے مسیح موعود علیہ السلام بنفس نفیس مشرق بعید کے ممالک میں رونق افروز ہوئے۔خلفائے کرام کےمشرق بعید کے دوروں کی فہرست حسب ذیل ہے۔ِ

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ

اگست 1983ء…سنگاپور

25؍ستمبرتا7؍اکتوبر1983…آسٹریلیا

ستمبر1983ء…فجی

14؍جولائی تا18؍جولائی1989ء…آسٹریلیا

24؍جولائی تا28؍جولائی1989ء…جاپان

19؍جون تا11؍جولائی 2000ء…انڈونیشیا

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز

5؍اپریل تا10؍پریل2006ء…سنگاپور

11؍اپریل تا25؍اپریل2006ء…آسٹریلیا

25؍اپریل تا3؍مئی2006ء…فجی

4؍مئی تا7؍مئی2006ء…نیوزی لینڈ

8؍مئی تا14؍مئی2006ء…جاپان

21؍ستمبرتا30؍ستمبر2013ء…سنگاپور

یکم اکتوبرتا 28؍اکتوبر2013ء…آسٹریلیا

28؍اکتوبرتا6؍نومبر2013ء…نیوزی لینڈ

6؍نومبرتا13؍نومبر2013ء…جاپان

16؍نومبرتا24؍نومبر2015ء…جاپان

خلافتِ حقہ کی قیادت میں تبلیغ اسلام کا مربوط نظام

اسلام احمدیت کے پیغام کو اکنافِ عالم تک پہنچانے کے لیے خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نگرانی اور راہ نمائی میں مشرقِ بعید کے اکثر ممالک میں تبلیغِ اسلام کا ایک مربوط نظام قائم ہوچکا ہے۔مشرقی ممالک کی بڑی زبانوں چینی، جاپانی، انڈونیشین اور ویتنامی سمیت متعدد دیگر زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہوچکے ہیں۔

مشرق بعید کے ممالک میں بسنے والے ہزارہا احمدی مسلمان خلیفۂ وقت کے سلطان نصیر بنتے ہوئے اسلام احمدیت کے پیغام کی اشاعت میں مسلسل سرگرم عمل ہیں۔جماعتی نظام کے علاوہ ان ممالک کی ذیلی تنظیمیں، سوشل میڈیا ٹیمیں،مختلف زبانوں کی ویب سائٹس اور ایم ٹی اے کے ذریعہ اسلام احمدیت کا پیغام دور دراز جزائر تک پہنچ رہا ہے۔

چینی ڈیسک، انڈونیشین ڈیسک اور جاپانی ڈیسک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے تراجم، خلیفۂ وقت کے خطبات اور خطابات سمیت عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق لٹریچر کی تیاری میں مصروف عمل ہیں۔

مرکزی مبلغین کے علاوہ جامعہ احمدیہ انڈونیشیا سے فارغ التحصیل مبلغین مشرق بعید کے ممالک اور جزائر میں شبانہ روز تبلیغ اسلام کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔نیزمشرق بعید کے ممالک کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس خطہ سے ایسے مخلصین اور واقفین زندگی پیدا ہوچکے ہیں اور مسلسل ہورہے ہیں جو اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش کرکے خدمت ِاسلام کا فریضہ بجا لانے کا عہد کر چکے ہیں۔

مشرق بعید میں اسلام احمدیت کی اشاعت کے ضمن میں درج ذیل واقعات بھی تاریخی نوعیت کے حامل ہیں۔مشرقی اقوام اور ایشیائی ممالک میں اشاعتِ اسلام کی کامیابیوں کے لیےدعا کی تحریک کی غرض سے نہایت اختصار کے ساتھ چند امور پیش خدمت ہیں۔

شمال مشرقی ایشیا میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد

مسجد بیت الاحد جاپان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ شمال مشرقی ایشیائی ممالک میں تعمیر ہونے والی جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد ہے۔سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نےاس مسجد کے افتتاح کے موقع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا کہ

’’یہ مسجد نہ صرف جاپان بلکہ جو شمال مشرقی ایشیائی ممالک چین، کوریا، ہانگ کانگ، تائیوان وغیرہ ہیں، ان میں جماعت کی پہلی مسجد ہے۔اللہ تعالیٰ اس کو باقی جگہوں میں بھی راستے کھولنے کا ذریعہ بنائے اور وہاں بھی جماعتیں ترقی کریں اور مسجدیں بنانے والی ہوں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍نومبر 2015ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11؍دسمبر 2015ء صفحہ 8)

بر اعظم آسٹریلیا میں پہلی مسجد کا سنگ بنیاد

آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مسجد بیت الہدیٰ کی بنیاد بھی اس خطہ میں اسلام احمدیت کی اشاعت و نفوذ کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھے جانے سے قبل حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا کہ

’’ابھی چند دن تک انشاء اللہ ہم مشرق کے دورہ پر پاکستان سے روانہ ہوں گے اور اس دورہ میں براعظم آسٹریلیا میں سب سے پہلی احمدیہ مسجد کی بنیاد رکھنے کا سب سے بڑا فریضہ ادا کرنا ہے۔یہ مسجد کی بنیاد بھی ہوگی اور مشن ہاؤس کی بنیاد بھی ہوگی۔یعنی اس مسجد کے ساتھ ایک بہت ہی عمدہ مشن ہاؤس کی عمارت بھی تعمیر ہوگی جہاں مبلغ اپنے ہر قسم کے فرائض پورے کر سکے گا۔اس لحاظ سے یہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک بہت ہی اہم مسجد ہے کہ ایک نئے براعظم میں ہمیں اس کی بنیاد رکھنے کی توفیق مل رہی ہے۔اس سے پہلے براعظم آسٹریلیا خالی پڑا تھا اور جماعت یہ تو کہہ سکتی تھی کہ دنیا کے ہر براعظم میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کا پیغام پہنچایا ہے۔لیکن براعظم آسٹریلیا میں اگر پیغام پہنچایا تو اتفاقاً انفرادی کوشش سے پہنچا۔جماعت کی طرف سے کوئی باقاعدہ مشن نہیں بنایا گیا اور کوئی مسجد نہیں بنائی گئی تھی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍ستمبر 1983ء مطبوعہ روزنامہ الفضل ربوہ 18؍دسمبر 2006ء صفحہ 37)

آسٹریلیا کی روحانی دریافت کا پہلا دن

گوکہ آسٹریلیا میں احمدیت کا پیغام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں پہنچ چکا تھا۔لیکن سڈنی میں مسجد بیت الہدی کی تعمیر اس خطہ کے لیے ایک تاریخی واقعہ تھا۔اس دن کی اہمیت اور عظمت کو بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’آپ اہل آسٹریلیا جو اس وقت میرے مخاطب ہیں شاید اپنی تاریخ کے حوالہ سے میری بات کو آسانی سے سمجھ سکیں۔اس لئے آئیے اب میں آپ کو یہ بتاؤں کہ آسٹریلیا کی سابقہ تاریخ کے پس منظر میں آج کے دن کی کیا حیثیت ہے۔میرے نزدیک یہ دن آسٹریلیا کی روحانی اور مذہبی دریافت کا پہلا دن ہے۔گویا آج ہم نے آپ کو اعلیٰ مذہبی اور روحانی اقدار سکھانے کی غرض سے از سر نودریافت کیا ہے۔پس اس دن کو اس دن سے ایک گونہ مناسبت ہے جس دن کیپٹن جیمز کک نے آسٹریلیا کو از سر نو دریافت کیا تھا۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ18؍دسمبر 2006ء صفحہ 34)

مشرقِ بعید کے ملک جاپان سے تحریک جدید کے80ویں سال کا اعلان

مشرق بعید کے خطہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ تحریک جدید کے 80ویں سال کا اعلان اسی خطہ کے اہم ملک یعنی سرزمین جاپان سےہوا۔مورخہ8؍نومبر2013ء کو ناگویا میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان فرمایا۔ جمعہ کا یہ مبارک دن اس لحاظ سے بھی یاد گار تھا کہ اسی خطبہ جمعہ کے ذریعہ حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جاپان میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد کی تعمیر کا اعلان فرمایا۔حضور انور نے مسجد کے لیے پیش کی گئی مالی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’جب آپ کو توجہ دلائی گئی کہ نیا مرکز خریدیں تو جیسا کہ پہلے میں ذکر کر چکا ہوں، جماعت جاپان نے مالی قربانیاں کیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سےیہ جگہ خرید لی۔چھوٹی سی جماعت ہے،لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی قربانی کی ہے، اس لحاظ سے بہت سے لوگوں نے بڑی بڑی رقمیں ادا کی ہیں۔بچوں نے اپنے جیب خرچ ادا کئے، عورتوں نے اپنےزیور ادا کئے اور بعض نے اپنے پاکستان کے گھر بیچ کر رقمیں ادا کیں یا کوئی جائیداد بیچ کر رقم ادا کی۔بعض نے اپنے قیمتی اور عزیز زیور، پرانے بزرگوں سے ملے ہوئے زیور بیچ کر مسجد کے لئے قیمت ادا کی۔غرض کہ مالی قربانیوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک دوسرے سے بڑھ کر قربانی کرنے کی آپ نے کوشش کی اور پیش کیں۔اللہ تعالیٰ یہ سب مالی قربانیاں قبول فرمائے اور آپ لوگوں کے اموال ونفوس میں بے انتہاء برکت عطا فرمائے‘‘

( الفضل انٹرنیشنل 29؍نومبر 2013ء صفحہ 8)

انڈونیشین احمدیوں جیسا خلوص وپیار اختیار کرنے کی نصیحت

مشرق بعید میں واقع، جزائر کا مجموعہ جسے ماضی میں جزائر شرق الہند کہا جاتا تھا،آج کل انڈونیشیا کہلاتا ہے۔یہ دنیا میں مسلم آبادی والا سب سے بڑا ملک ہے۔گویا انڈونیشیا سابقین من الاولین کا مظہر ہے۔اسلام کی نشأة ثانیہ کے دَور میں برصغیر پاک وہند سے باہرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام جس انداز سے انڈونیشن قوم نے قبول کیا ہے اس کی نظیر دیگر مسلم خطوں میں ملنا مشکل ہے۔انڈونیشین احمدی مسلمانوں میں احمدیت قبول کرنے کے بعد جو پاک تبدیلیاں پیداہوئیں ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ نے اپنے دورہ انڈونیشیا کے دوران فرمایا:

’’میں نے جو خلوص، پیار انڈونیشیا کی جماعت میں دیکھا ہے، میں نے دنیامیں کسی جماعت میں ایسا خلوص اور پیار ومحبت نہیں دیکھا۔جو لوگ باہر سے آئے ہیں انہوں نے بھی خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ کس طرح انڈونیشیا کی جماعت اپنے اخلاص میں سب سے آگے ہے۔ان کی آنکھوںسے کس طرح آنسو رواں ہیں۔چھوٹے بڑے سب کی آنکھوں سے کس طرح آنسو بہتے ہیں۔باہر سے آنے والے یہ پیغام یاد رکھیں اور واپس جا کر اپنے ملکوں میں یہ پیغام دیں کہ انڈونیشیا جیسا خلوص و پیار اپنے اندر پیدا کرو اور ان جیسا بنو۔‘‘

(بحوالہ رپورٹ دورہ انڈونیشیا مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21؍جولائی 2000ء صفحہ2)

صدی کے اختتام سے قبل مشرق بعید کا ملک انڈونیشیا سب سے بڑا احمدی مسلم ملک ہوگا(ان شاءاللہ)

مشرقِ بعید میں اسلام احمدیت کی بکثرت اشاعت کی خبر دیتے ہوئے دورہ انڈونیشیا کے دوران حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا کہ’’جماعت انڈونیشیا کے لمبے صبر اور دعاؤں کے بعد آج وہ وقت آیا ہے کہ خلیفة المسیح آپ میں موجود ہے۔حضور نے فرمایا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نئی صدی کے اختتام سے قبل انڈونیشیا سب سے بڑا احمدی مسلم ملک ہوگا۔ا نشاء اللہ ‘‘

(بحوالہ رپورٹ دورہ انڈونیشیا مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍جولائی 2000ء صفحہ2)

چینی قوم کے لیے دعا ؤںکی اپیل

مسجد مبارک اسلام آباد ( یوکے) کے افتتاح کے بعد اگلے جمعہ کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے چینی قوم کو اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کی خاطر دعائیہ تحریک کرتے ہوئے فرمایا:

’’بنیاداس مسجد کی مکرم عثمان چینی صاحب نے رکھی تھی اور اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چینی قوم کا بھی اس میں حصہ ہے اور اس لیے ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ چین میں بھی اسلام کو جلد پھیلانے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔مکرم عثمان چینی صاحب کی بڑی خواہش تھی، ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ چین میں کسی طرح احمدیت اور اسلام کا حقیقی پیغام پہنچ جائے۔ہمیں جہاں ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کرنی چاہیے وہاں چین میں بھی اور دنیا کے ہر ملک میں بھی احمدیت اور حقیقی اسلام کے پھیلنے کے لیے بہت دعائیں کرنی چاہئیں۔اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 10؍جون 2019 صفحہ 9)

جاپان کو مشرقی ایشیا میں اسلام احمدیت کی اشاعت کا مرکز بنانے کی خواہش

جاپانی قوم کو اسلام احمدیت سے رُوشناس کروانا حضرت مسیح موعود دعلیہ السلام کی خواہش تھی۔اسی منشا کی تعمیل میں سرزمین جاپان خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیر معمولی دعاؤں اور توجہ کا مرکز رہی۔سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جاپان میں احمدیت کی اشاعت کو مشرقی ایشیا میں احمدیت کی گونج کے مترادف قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ

’’جاپان کتنا عظیم الشان ملک ہے، اگر ہم وہاں مشن کھول دیں اور خدا کرے، وہاں ہماری جماعت قائم ہوجائے تو احمدیت کی آواز سارے مشرقی ایشیا میں گونجنے لگ جائے گی۔‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍نومبر1954ء)

مشرقِ بعید کے ممالک میں خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زیر سایہ اسلام احمدیت کی اشاعت کی یہ نہایت معمولی سی جھلک پیش کی گئی ہے اور بطور مثال چند ممالک کا ذکر کیا گیا ہے۔ان ممالک کے علاوہ آج ملائیشیا میں بھی اسلام احمدیت کی ترویج واشاعت کے مستقل مراکز قائم ہیں، جزائر فلپائن میں بھی ایک مخلص جماعت خلافت سے وابستہ ہے، تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور ویتنام میں بھی اسلام احمدیت کا پودا لگ چکا ہے، کوریا میں بھی جماعت قائم ہے اور بحر الکاہل و بحر ہند کے دور دراز کے جزائر بھی اسلام احمدیت کے نور سے منور ہوچکے ہیں اور خلفاء کی قیادت وراہ نمائی میں اشاعتِ اسلام احمدیت کی مہم روز افزوں ترقی پذیر ہے۔

اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ مشرق میں بھی اسلام احمدیت کی اشاعت ہوگی اورسورج کی کرنوں سے دنیا میں سب سے پہلےروشنی پانے کی طرح یہ خطہ ارضی اسلام احمدیت کے نور سے بھی منور ہوگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’و اوحی الی ربی و وعدنی انہ سینصرنی حتی یبلغ امری مشارق الارض و مغاربھا۔تتموج بحورالحق حتی یعجب الناس حباب غواربھا۔‘‘

ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی کی اور مجھ سے وعدہ فرمایا کہ وہ میری مدد فرمائے گا یہاں تک کہ میرا امر زمین کے مشرقوں اور مغربوں تک پہنچ جائے گا اور سچائی کے سمندر موجیں ماریں گے یہاں تک کہ ان کی بلند موجوں کے بلبلے لوگوں کوحیران کر دیں گے۔

(لجّۃ النور،روحانی خزائن جلد 16 صفحہ408)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button