متفرق مضامین

روزِ ہجر سے شامِ وصال تک

(آصف محمود باسط)

ہر احمدی بچہ بچپن ہی سے خلافت کی محبت اپنی ماں کے دودھ کے ساتھ پیتا ہے،مگربات جذباتیت سے آگے شعور کی عمر سے پہلے کم ہی پہنچتی ہے

میں سنہ 2002ء میں اہلیہ اور اپنے دو سالہ بچے کو لے کر پاکستان سے لندن پہنچا تو مہاجر تو تھا ہی، حالت بھی مہاجروں والی ہی تھی۔زمین پر پیر جماتےجماتے کوئی سال بھر کا عرصہ لگ گیا۔حواس بحال ہوئے تو ارد گرد کے حال احوال سے کچھ واقفیت حاصل ہونے لگی۔میرے والدین اور یہاں مقیم بہنوں کے علاوہ اکثر لوگ اجنبی تھے۔وہ جو نظر آتے تھے اور وہ بھی جو نظر تو کم کم آتے ، مگر ان کا تذکرہ یہاں وہاں ہوتا رہتا۔ مگر عجیب بات تھی کہ جس مقام پر یہ تذکرے سننے کو ملتے وہ جگہ کبھی اجنبی نہ لگی۔ مسجد فضل نے پہلے ہی دن سے پورے جوش و خروش سے میرا استقبال کیا۔اس مسجد کو میں نے دیکھا تو پہلی بار2؍اپریل2002ء کو غروبِ آفتاب کے وقت، مگر اس کے در و دیوار ایسے تھے گویا ہمیشہ سے دل و دماغ پر نقش ہوں۔

ہم زیمبیا میں مقیم تھے جب ایک روز صبح سویرےحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات کی خبر آئی۔ ہر احمدی بچہ بچپن ہی سے خلافت کی محبت اپنی ماں کے دودھ کے ساتھ پیتا ہے،مگربات جذباتیت سے آگے شعور کی عمر سے پہلے کم ہی پہنچتی ہے۔ میرا بھی یہی حال تھا۔مجھے یہ تو معلوم تھا کہ خلیفۂ وقت میرے والدین کو ہر چیز سے بڑھ کر عزیز ہیں، مگر ان کی وفات پر یوں گھر میں سوگ پڑ جائے گا، یہ بات سمجھ سے باہر تھی۔یوں بھی کسی عزیز کی وفات سے یہ میرا پہلا واسطہ تھا۔

گھر میں عجیب بے رونقی اور اداسی پھیل گئی۔والدصاحب سے کچھ بھی پوچھو تو مختصر سا جواب اور ساتھ ہی دعا کرو، دعا کرو کا ورد۔انہوں نے شاید بتایا تو ہوگا، مگر سچ پوچھیں تو مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ ایسا کیا ہے جس کے لیے دعا کرنی ہے۔ ایک خلیفہ وفات پاگئے ہیں، اللہ اور دے گا۔ نادانی میں سوچی گئی اس بات کا اظہار تب بھی کرنے کی ہمت نہ تھی کہ خلافت سے متعلق کوئی بھی بات ہمیشہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا پڑتی تھی۔ یہی دیکھا تھا، اور یہی سیکھ لیا تھا۔ دعا تو کی مگر معلوم کچھ نہ تھا کہ کیا مانگ رہا ہوں۔

انہی دنوں خوف کے امن میں تبدیل ہونے کا تذکرہ بھی پہلی مرتبہ سنا اور اس کے لیے امی ابو کو دعائیں مانگتے بھی سنا۔یہ کیا خوف ہے؟ کیسا امن؟ پھر امن کا لفظ خود امی ابو نے ہی تو ہمیشہ جنگ کے متضاد کے طور پر رٹوایا تھا۔خدا جانے کہاں جنگ چھڑ گئی ہے!!

اسی سوگ کی کیفیت میں ایک ہی دن گزرا تھا کہ پھر امی ابو کے ڈھلکے ہوئے چہروں پر خوشی اور رونق لوٹ آئی۔ اس رونق کے لوٹنے کا پہلا سبب وہ اعلان بنا جو ابو نے فون پر بات کرتے کرتے کیا۔ ’’میاں طاری‘‘ اور میری امی خوشی سے نہال ہو گئیں۔ رونے لگ پڑیں۔ سجدے میں گر گئیں۔ ہم بچوں کو بھی رکوع و سجود پر لگا دیا۔پھر رفتہ رفتہ تفصیل بتائی گئی۔ وہ ابو جنہوں نے بے ساختہ، اپنی روانی اور پرانی عادت میں ’’میاں طاری‘‘ کہہ دیا تھا، اب نہایت عقیدت اور احترام سے انہیں حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کہنے لگے۔ان کے بارے میں بتانے لگے۔ پھر ان کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی اصطلاح استعمال کرنے لگے۔خلیفۃ المسیح الثالث کی اصطلاح اس قدر زبان پر گھر کر گئی ہوئی تھی کہ خلیفۃ المسیح الرابع کی اصطلاح بہت اجنبی لگی۔ مگر اس اصطلاح سے مانوس ہونے میں ذرا بھی وقت نہ لگا، اس لیے کہ یہ اصطلاح کئی روز تک اس کثرت سےگھر میں گونجتی رہی کہ ہماری زبان پربھی رواں ہو گئی۔اگلے کئی دن حضورؒ کے تعارف میں گزرے۔خلافت کے مقام اور منصب سے کچھ واقفیت انہی دنوں میں حاصل ہوئی(کچھ اس لیے کہ پوری واقفیت تو شاید آج بھی نہیں۔ بہت ہی خوش نصیب ہوں گے جو دعویٰ کریں کہ انہیں یہ واقفیت حاصل ہو گئی ہے۔یا شاید خوش فہم)۔

پھر کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ گھر میں ایک عجیب کھلبلی سی نظر آنے لگی۔ایک روز والد صاحب مستقل فون پر نظر آئے۔ کبھی معلوم ہوتا کہ ربوہ سے فون تھا۔ کبھی کہیں سے۔ کبھی وہ اِدھر اُدھر فون ملاتے نظر آتے۔پھر انہوں نے ہمیں بتایا کہ حضورپاکستان سے ہجرت کر کے لندن تشریف لے گئے ہیں۔اب حضور ہمیں اپنے قریب محسوس ہونے لگے۔حالانکہ فاصلہ پاکستان سے کچھ زیادہ نہیں تو شاید اتنا ہی ہوگا۔مگر یہ قرب کا احساس یوں جاگا کہ ابو ہمیں حضور کو خط لکھنے کو کہتے۔ بتاتے کہ کس طرح لکھنا ہے۔ ابتدائی جملہ یوں ہونا چاہیے (سچ پوچھیں تو ابتدائی جملہ آج بھی میں اسی طرح لکھتا ہوں)۔پھر خط کا مضمون اور پھر اختتام اور پھر اسے بڑے ادب سے تہ کرواتے اور لفافہ میں ڈال کر اس پر پتہ لکھنے کو کہتے

16 Gressenhall Road

London, UK SW18 5QL

1984ء سے لے کر 2002ءتک، یعنی عرصہ 18 سال تک ہمارے لیے کُل انگلستان یہی ایک ایڈریس رہا۔ہم بڑی باقاعدگی سے اسی پتہ پر خط لکھا کرتے اور اس ایڈریس سے بڑی باقاعدگی سے جواب آیا کرتے۔یہ جواب ہم اپنے سینوں سے لگائے پھرتے۔اللہ تعالیٰ میرے والدین کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے ان خطوط کے ہر ہر حرف کو سر آنکھوں پر رکھنا سکھایا۔خلیفۂ وقت کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے ہم سب کے حق میں ہمیشہ قبول کیا۔اللہ ان دعاؤں کو میرے والدین کے حق میں بھی ہمیشہ قبول کرتا رہے کہ ان دعاؤں کی درخواستوں کے پیچھے ، جو میں آج تک حضور کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، میرے والدین کی خلافت سے محبت اور عقیدت کا بہت بڑا کردار ہے۔

خیر، جس روز میں لندن میں وارد ہوا، اس روز ایئرپورٹ سے سیدھا اپنی ہمشیرہ کے گھر گئے۔ان سے پوچھا کہ مسجد فضل کتنی دور ہے؟ انہوں نے بتایا کہ کوئی پانچ نہیں تو سات منٹ کی مسافت۔ مجھے سخت حیرت ہوئی کہ کوئی مسجد فضل سے اس قدر نزدیک بھی رہ سکتا ہے۔میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے وہاں لے جائیں۔انہوں نے کہا کہ ابھی کچھ ہی دیر میں مغرب کا وقت ہونے والا ہے۔مغرب پہ چلیں گے۔

سو ہم مسجد فضل پہنچے تو غروبِ آفتاب کا وقت تھا۔یہ مسجدکتنی ہی بار ایم ٹی اے پر دیکھی تھی۔ مگرایم ٹی اے پر تو بہت بعد میں دیکھی، پہلے تو زیمبیا میں کئی سال آڈیو کیسٹ کے ذریعہ اس میں ارشاد فرمودہ خطبات سنے تھے۔خطبے کے دوران کہیں پاس سے ٹرین کے گزرنے کی آواز بھی آیا کرتی تھی۔والد صاحب زیارت کر کے واپس زیمبیا آئے تھے تو بتاتے تھے کہ پاس ہی ریل کی پٹری ہے اور وہاں سے ہر منٹ دو منٹ بعد ایک ریل گاڑی گزرتی ہے۔یہ اس کی آواز ہے۔پھر ایم ٹی اے پر خطبات آنے شروع ہوئے۔ہمارے ذہنوں میں اس مسجد کا تصور تبدیل ہو گیا۔پہلے تو ذہن میں یہی رہا کہ ایک مسجد ہوگی جس کی دیوار کے پاس سے ریل گاڑیاں گزرتی ہوں گی۔پاکستان میں ریل کی پٹڑیوں کے آس پاس کا جو تصور تھا، اس میں مسجد کی گنجائش نہ بنتی تھی۔ کیا معلوم تھا کہ انگلستان میں ریل کی پٹڑی کے آس پاس تو کیا کہیں بھی غلاظت کے ویسے ڈھیر نہیں۔

پھر بات ویڈیو تک پہنچی تو اس مسجد کا دیدار نصیب ہوا۔ کیا ہی خوش رنگ نظارہ تھا۔سالہاسال حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو اس مسجد میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے سنا۔ کبھی لقائےباری تعالیٰ کا مضمون، کبھی خلیج کا بحران، کبھی تعلیم، کبھی تربیت ، کبھی اصلاح۔ کئی خطبات تھے جو اسی مسجد کے محراب سے ارشاد فرمائے گئے تھے۔

ڈھلتے سورج کو باہر چھوڑ کر مسجد میں گیا تو کچھ ہی دیر بعد مسجد میں وہ سورج طلوع ہوا جسے یوں طلوع ہوتے کئی سال تک صرف ٹی وی کی آنکھ سے دیکھا تھا۔ ٹی وی پر روشنی تو آجاتی ہے، حدت نہیں آتی۔مگر اس روشنی اور حدت کا امتزاج دل کی گہرائیوں کو چھوگیا۔مسجد میں آتے ہوئے تو دیکھنا مشکل تھا، مگر جب نماز پڑھا کر پلٹے، تو حضور کا دیدار ہوا۔ مگر ساتھ ایک عجیب احساس بھی۔

حضورؒ بہت مختصر مختصر قدم اٹھاتے، بڑی احتیاط سے چلتے ہوئے جا رہے تھے۔یہ وہ چال تو نہیں جوہم نے حضورؒ کی ویڈیوز وغیرہ میں دیکھی تھی۔ وہ سبک خرامی کہاں گئی؟ مگر پھر دل کو سمجھایا کہ اصل اور عکس ہمیشہ ایک سے نہیں ہوتے۔ تصویر میں دیکھے ہوئے چہرے اور مقامات جب اصل میں دیکھو تو مختلف دکھائی دیا کرتے ہیں۔ خود کو یہ تسلی دے کر گھر آگیا۔ دل کی عجیب و غریب حالت تھی۔میں نے ہوش کی حالت میں کبھی خلیفۃ المسیح کو قریب سے نہیں دیکھا تھا۔

1982ءمیں جب ہم زیمبیا جا رہے تھے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے ہماری فیملی کو ازراہِ شفقت ملاقات کا شرف عطا فرمایا تھا۔تب میں صرف 7سال کا تھا۔یہ ملاقات اگرچہ ذہن پر آج بھی نقش ہے مگر ایک خواب کی طرح۔ دھندلی،مدھم اور موہوم سی یاد۔ملاقات کی تفاصیل سب یاد ہیں مگر سُن سُن کر۔پھر ہم زیمبیا چلے گئے۔ کچھ ماہ بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا انتقال ہوگیا۔پھر کچھ سال بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ہجرت کر کے لندن تشریف لے گئے۔پانچ سال بعد ہم ربوہ میں وارد ہوئے تو وہاں قصرِ خلافت کے درودیوارتو تھے، مگر اس قصر کا قیصر ہجرت کر کے جاچکا تھا۔

اس کے بعدحضور ؒکی خدمت میں دعا کے خطوط لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔اسی ہجر کو گلے سے لگائے بچپن سے لڑکپن میں قدم رکھا، لڑکپن سے نوجوانی میں اور پھر جوانی میں۔اسی ہجر کی حالت میں شادی بھی ہوگئی اور ایک بچہ بھی اسی ہجر کے دَور میں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ یعنی ایک طویل زمانہ خلیفۂ وقت کو دیکھے بغیر گزرگیا۔

سو میں طویل زمانوں کی مسافت طے کرتا دیارِ حبیب میں حاضر ہوا تھا۔ میرا وجود انتظار کے اس سفر کی دھول میں اٹا پڑا تھا۔میں اس روزبے حد خوش تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ اب مجھے کوئی پریشانی نہیں۔کوئی فکر نہیں۔

مجھے لگ رہا تھا کہ ایسا ہے، مگر ایسا نہیں تھا۔نماز پڑھ کرگھر آئے تو گھر میں بار بار حضورؒ کی صحت کے بارے میں پریشان کن انداز میں تذکرہ ہوتا رہا۔یہ بات سبھی کے لیےتکلیف کا باعث تھی، مگر انتظار کی دھول میں آئے ایک دور کے مسافر کے لیے دل توڑدینے والی بات تھی۔جلد سے جلد ملاقات کی درخواست بھیجی۔بہت جلد ملاقات مل بھی گئی۔ کچھ ہی روز بعد مَیں ، میری اہلیہ اور ہمارا دو سالہ بچہ عزیزم رومان محمود باسط کمرۂ انتظار میں بیٹھے ملاقات کے لیے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔اب اس سے پہلے کہ آپ کو آگے کا احوال سناؤں، اس کمرۂ انتظار میں میرے ساتھ بیٹھیں اور اُس وقت میرے دل کا جو حال تھا، وہ سُن لیں۔

وہاں انتظار کرتے ہوئے دل میں جذبات عجیب طرح سے گڑبڑائے ہوئے تھے۔اردو شاعری ہجر اور وصال کےتجربات کے بیان سے بھری پڑی ہے۔میں نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز میں ان تجربات سے لدے پھندے اشعار کو بہت پڑھا تھا۔اس انتظار میں کبھی کسی شاعر کا کوئی مصرع آنکھوں کے آگے گھومتا، کبھی کسی کا۔پھر یاد آتا کہ یہ وقت تو درود شریف پڑھنے اور دعا کرنے کا ہے۔پھر جذبات غالب آجاتے۔ وہ جو فیض نے کہا کہ

جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے

اُس روز معلوم ہوا کہ ویرانے میں چپکے سے بہار آتی ہے تو کیا حشر برپا کر دیتی ہے۔اسے سہارنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ انسان بوکھلا کر رہ جاتا ہے۔

میں اندر جاؤں گا تو کیسے بات شروع ہوگی۔ کیا کہوں گا؟ حضور کیا فرمائیں گے۔ پھر دل میں ایک خوش فہمی بھی تھی جو کئی سالوں سے دل میں لیے پھرتا تھا۔

ہوا یوں کہ جب نوجوانی کی عمر میں شعر کہے تو روزنامہ الفضل کو بھی بھیج دیے۔ امید تو نہیں تھی کہ شائع ہوں گے، مگر محترم نسیم سیفی صاحب مرحوم و مغفور نے انہیں کہیں آخری صفحہ سے کچھ پہلے ایک کونے میں سمو ہی دیا۔میرے لیے تو یہ بہت ہی بڑی بات تھی۔اوّل اوّل کی مشقِ سخن الفضل کے کسی بھی گوشے میں جگہ پالے، میرے لیے اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی تھی۔ میں کئی دن اترایا پھرا۔لوگ مبارکباد دیتے رہے۔میرا دل اور بھی بڑھ جاتا۔ مگر لوگوں کی مبارکبادیں اور داد اور حوصلہ افزائی ایک دن سب کی سب اچانک پھیکی اور ماند پڑ گئیں۔ بات ہی کچھ ایسی ہوگئی۔

ان دنوں حضورؒ کے خطوط پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ کےدفتر سے ایک کارکن لے کرآیا کرتے تھے۔انہوں نے ایک خط لاکر پکڑا دیا۔ مگر یہ خط عام معمول میں آنے والے خطوں سے مختلف تھا۔عام طور پر تو خط ایک چھوٹے چوکور سے لفافہ میں آیا کرتا۔لفافہ اپنی شکل و صورت سے ہی اپنے پاکستانی نژاد ہونے کا پتہ دیا کرتا۔ مگر اس روز جو لفافہ آیا وہ بڑے سائز کا بڑا عمدہ سا لفافہ تھا۔میں نے جھٹ اسے کھولا۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے لیٹر ہیڈ پر ٹائپ کیا ہوا چند سطور کا خط تھا۔ میں خط پڑھتا جاتا اور کبھی ہنستا، کبھی روتا، کبھی اچھلتا، کبھی کودتا(یاد رہے کہ میری عمر اس وقت صرف 17 سال تھی)۔امی ابو چونک کر باہر آگئے۔میں نے انہیں پڑھنے کے لیے دے دیا۔ میرے ماں باپ دونوں نہال ہو گئے۔ابوکا تو اظہار کا ہمیشہ اپنا ہی ایک الگ رنگ رہا، مگر امی مجھے کبھی چومتیں، کبھی ساتھ لگاتیں۔خط تھا ہی ایسا

پیارے آصف محمود باسط

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الفضل میں آپ کی غز ل پڑھی۔ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ کلام ہے۔ اپنا تعارف تو کروائیں کہ آپ کون ہیں اور ہو سکے تو تصویر بھی بھیجیں۔ دیکھوں تو سہی کہ احمدیت کی شعری دنیا میں یہ ابھرتا ہوا ستارہ کون ہے؟

والسلام

میرے اشعار تو خیر کیا تھے، یہ حضرت صاحبؒ کی شفقت اور محبت تھی کہ ایک نوجوان کی چھوٹی سی کوشش پر اسے اٹھا کر ساتھ لگا لیا اور محبت کے اظہار کی انتہا کردی۔

ظاہر ہے میں نے جواب بھی لکھا اور تصویر بھی بھیجی۔ بڑی دعائیں ملیں۔پھر یوں ہوا کہ اکثر غزلوں اور نظموں پر حضور ؒکی طرف سے محبت بھرے خطوط آتے۔ میرے ٹوٹے پھوٹے کلام پر میری اتنی حوصلہ افزائی ہوتی کہ میرا دامن چھوٹا پڑ جاتا۔

تو کئی سال کا یہ زمانہ اس خوش فہمی میں گزارا کہ کبھی حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا تو حضورؒ مجھے پہچان لیں گے۔سو آج میں حاضر تھا۔اپنے اس محبوب کے دروازے پرجو لاکھوں لوگوں میں بھی مجھے پہچانتا ہے۔

یہ سب خیالات ذہن میں دوڑتے پھر رہے تھے۔اتنے میں ہم انتظارگاہ کی ایک منزل سے دوسری کی طرف بلائے گئے، پھر تیسری کی طرف اور پھر اس دروازے کے سامنے کھڑے تھے جس کے کھلنے پر دیدار ِیار نصیب ہونے والا تھا۔ ملاقاتوں کے ’’کہنہ مشق‘‘ رشتہ داروں نے کہہ کر بھیجا تھا کہ ملاقات کے آخر پر کہہ دینا کہ تصویر بنوانی ہے۔ حضور کھڑے ہوجائیں گے اور یادگار تصویر ہو جائے گی۔

دروازہ کھلا۔ ہم اندر گئے۔ حضورؒ اپنی کرسی پر تشریف فرما تھے۔چہرہ روشن اور کِھلا ہوا۔ ہم سامنے بیٹھ گئے۔میں نے کچھ کہنا چاہا مگر حضور ؒنے میرے ننھے سے بچے کو بڑی محبت سے مخاطب کیا۔اس کا حال پوچھا۔چاکلیٹ نکالی اور بڑی محبت سے اس کے ہاتھ میں تھما دی۔ساتھ ہی الوداع کرنے والے انداز میں دستِ مبارک اٹھا یا۔میرے لیے تو ایسے تھا جیسے انسان سٹیشن پر فقط اتنی دیر سے پہنچے کہ گاڑی چل تو پڑی ہو، مگر ابھی پلیٹ فارم پر ہی رینگ رہی ہو۔وہ گاڑی کی طرف دوڑے اور گاڑی تیز ہوتی ہوتی آگے بڑھ جائے۔اس کا ہاتھ گاڑی کے آخری ڈبے کو چھو جائے، مگر کہیں پڑ نہ سکے۔پھر اس کے دیکھتے دیکھتے گاڑی چھوٹ جائے اور وہ پلیٹ فارم پر اپنے سامان سمیت کھڑا اسے دور ہوتا دیکھتا رہ جائے۔میری گاڑی بھی چھوٹ گئی تھی۔میں اسے جاتا دیکھ رہاتھا۔اگرچہ ابھی نظروں کے سامنے ہی تھی۔

حضورؒ کا دستِ مبارک اٹھا تو ہم بھی اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔اٹھتے اٹھتے میں نےکچھ کہنا چاہا۔ مگر حضورؒ نے بڑی بھرپورمسکراہٹ کے ساتھ فرمایا ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘۔ اور ہم باہر تھے۔

باہر آئے تو ہم تینوں ظاہر ہے کہ بہت خوش تو تھے ہی۔ سب سے زیادہ خوش میرا بچہ تھا کہ اس نے حضور ؒکو دیکھ لیا تھا اور اسے چاکلیٹ بھی ملی تھی۔ ہمیں بھی حضورؒ کے دیدار کی بے انتہا خوشی تو تھی، مگر دل میں ایک عجیب طرح کی خلش سی بھی رہ گئی تھی۔؎

اس کو نہ پاسکے تھے تو، دل کا عجیب حال تھا

اب چو پلٹ کے دیکھیے، بات تھی کچھ محال بھی

سب سے پہلے تو بیگم ناخوش ہوئیں کہ آپ نے کمال کردیا کہ تصویر کا کہا ہی نہیں۔ اتنا تاریخی موقع تھا۔ پھر گھر پہنچ کر دیگر عزیز بھی اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے رہے اور قدرے خفا بھی لگے کہ تصویر کی درخواست نہیں کی۔میں انہیں کیا بتاتا کہ مجھ پر کیا گزری تھی۔خلیفۂ وقت کا مقام اور منصب ایسا ہوتا ہے کہ اس ہستی سے وہ اصطلاحات اور باتیں منسلک کرتے خوف آتا ہے۔ عام آدمی ہوتا تو میں کہہ بھی دیتا مگر اس عالی مرتبہ پر فائز آدمی، جس سے دل اور جان کا ایک عجیب تعلق بھی ہے، اس ہستی کے بارے میں کیسے وہ کہہ دوں جسے دل ہزار محبتوں اور عقیدتوں میں ڈوب کر تسلیم کرنے سے انکاری تھا۔بس اتنا کہا کہ مجھے ہمت نہیں ہوئی کہ حضورؒ کو اٹھ کر کھڑے ہونے کی زحمت دوں۔جو سمجھ دار تھے سمجھ گئے، اکثر کی حیرت برقرار رہی۔

میں اس بوجھل دل کے ساتھ کئی دن گھومتا رہا۔ پھر دل میں وہ خوشی خود بخود پھوٹ نکلی جو ملاقات کے فوراً بعد پھوٹتی ہے۔کیا ہوا اگر مجھے نہیں پہچانا۔ حضور کا مجھے پہچاننا ضروری نہیں تھا۔میں حضور کو پہچانتا ہوں، یہ اللہ کا بڑا کرم ہے۔ دنیا نہیں پہچانتی مگر جماعت احمدیہ کو تواللہ تعالیٰ نے یہ پہچان عطا کی ہے۔ یہ عظیم شخصیت اس کرسی پر تشریف فرما ہے جو آنحضورﷺ کی امانت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے توسط سے ان تک پہنچی ہے۔ خدا نے خود انہیں اس پر بٹھایا ہے۔پھر دل نے یہ بھی کہا کہ نادان! ایک مدت سے اس محبوب کے دیدار کو ترسا کرتے تھے۔آج جب دیکھ لیا تو یوں ناشکری کرتے ہو!

بس پھر کیا تھا۔ صبح شام حضورؒ کا دیدار حاصل کرنے مسجد فضل جا نکلتا۔ صبح وشام نمازوں پر حضور ؒکو دیکھتا اور دل خوش ہو جایا کرتا۔جب ملازمت شروع کر دی تو رات کی نماز پر مسجد فضل حاضر ہوا کرتا۔انہی دنوں میں اطلاع ملی کہ محترم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب حصولِ تعلیم کے لیے لندن تشریف لا رہے ہیں۔

اٹھارہ اپریل 2003ءاور جمعہ کا دن تھا۔ میں مسجد فضل میں تھا اور جمعہ کے بعد کہیں جانے کا ارادہ تھا جہاں سے واپسی رات گئے ہونا تھی۔مگر ارادہ ملتوی ہوا اور مسجد فضل میں مغرب کی نماز بھی مل گئی اور نماز کے بعد ہونے والی حضورؒ کی مجلسِ علم و عرفان میں بھی بیٹھنے کا موقع میسر آگیا۔مجھے محمود ہا ل میں جگہ ملی تھی، مگر اُس روز اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جونہی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ السلام علیکم کہہ کر تشریف لے جانے کے لیے اٹھے، محمود ہال میں بیٹھے ہوئے اکثر احباب دروازہ پر دیدار کا شرف حاصل کرنے پہنچ گئے۔ حضورؒ کا دیدار نصیب ہوا۔ معلوم نہیں تھا کہ یہ آپ کا آخری دیدار ہے۔

اگلے روز نصف صبح کے وقت ایم ٹی اے پر جو اعلان نشر ہوا اور اس سے ساری دنیا میں پھیلی جماعت احمدیہ کی جو حالت ہوئی، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ایسا لگا کہ جماعت کی کمر ٹوٹ گئی ہو۔مگر جو اعلان ہوا تھا، اس کے آخری الفاظ کا مفہوم یہ تھا کہ ہمارا سو سال سے زائد کا تجربہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔آخر پر وہ نام ذکر ہوا جن کی طرف سے یہ اعلان تھا۔ ’’مرزا مسرور احمد۔ ناظر اعلیٰ و امیر مقامی ربوہ‘‘

اس وقت جماعت کی کمرِ ہمت اگر کسی بات نے باندھی تو بظاہر وہ ان الفاظ کا نتیجہ تھی جو پیغام میں پڑھے گئے۔ مگر کسے معلوم تھا کہ اصل تسلی اس کے بھی بعد اس نام میں تھی جو اس پیغام کے آخر پر پڑھا گیا تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وصیت کے مطابق یہ اندوہناک اطلاع اس درویش صفت بزرگ نےدنیا کو دینی تھی۔ سو اس ارشاد کی تعمیل ہوئی۔دنیا بھر میں پھیلے احبابِ جماعت کواُس روز شاید پہلی مرتبہ اس نام سے شناسائی ہوئی ہو۔ورنہ یہ درویش صفت بزرگ تو اپنے آقا و مطاع ﷺ کی طرح اپنے یارِ نہاں کی گود کے غار سے کبھی باہر ہی نہ آیا تھا۔پاکستان کا ایک طبقہ حضور کو انتظامی حوالہ سے جانتا تھا۔ پھر ایک بہت مخصوص طبقہ تھا جو اس بزرگ کی ان صفات سے واقف تھا جو اسے عام انسان سے الگ کرتی تھیں۔

یہ اعلان سن کر تقریباًدوڑ لگا کر مسجد فضل پہنچا۔وہاں لوگ دور ونزدیک سے جمع ہونے شروع ہو چکے تھے۔ سب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات کا سُن کر سکتہ کے عالم میں تھے۔ سب کی آنکھیں نم تھیں۔لبوں پر دعائیں جاری تھیں۔بے یقینی تھی۔ گھبراہٹ تھی۔ یتیم ہوجانے کا صدمہ تھا۔مسجد فضل کے احاطہ کی فضا غم اور رنج میں ڈوبی ہوئی تھی۔یہاں برطانیہ میں جس روز سورج نہ نکلے، وہ دن یوں بھی اداس اور ویران لگتا ہے۔ اُس روز سورج بھی نہ نکلا تھا، اور ایک آفتاب غروب بھی ہو گیا تھا۔مگر پوری فضا پر طاری کیفیت کو ایک لفظ میں بیان کرنا ہو، تو وہ لفظ ہے ’’خوف‘‘۔

یہ کیفیت مجھے جون 1982ء کی اُس صبح میں لے گئی جب زیمبیا میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی رحلت کی خبر ہمیں پہنچی تھی۔میرے والد اور والدہ کی کیفیت بالکل یہی تھی۔میں کم عمری کے باعث اس کیفیت کو سمجھ نہ سکا تھا۔ مگر آج معلوم ہوا تھا کہ وہ کیفیت ’’خوف‘‘ کی کیفیت تھی۔اب کیا ہو گا؟ کیسے ہوگا؟ کون ہوگا؟ کوئی آزمائش تو جماعت کو نہ آلے گی؟ کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے۔ اور سو طرح کے اندیشے۔

اُس روز مسجد فضل کے ماحول نے اُسی خوف کی چادر اوڑھ لی تھی۔اُس روز معلوم ہوا تھا کہ یہ خوف کیسا عجیب خوف ہوتا ہے۔اسی خوف کے ہاتھوں تو میرے والدین 1982ء میں نڈھال ہو گئے تھے۔آج یہاں سب، مجھ نالائق سمیت اس خوف کاشکار تھے۔آنکھوں میں سیلِ اشک ، جبینوں پہ غم کی دھول۔ہر کوئی خاموش تھا۔ کوئی بات کرتا تھا تو صرف اس قدر کہ اب کیا ہوگا؟آئندہ کچھ دن یہ خوف کے بادل جماعت احمدیہ کے سروں پر منڈلاتے رہے۔ہم یتیم جو ہو چکے تھے۔ جماعت کے سر سے وہ سایہ اٹھ گیا تھا جو کسی مہربان، شفیق ، کفیل باپ سے بھی زیادہ محبت، شفقت اور کفالت کرنے والے وجود کا سایہ تھا۔

نمازوں میں ایک عجیب کیفیت تھی۔اُن دنوں ہر کسی کا ہرسجدہ آہ و بکا کی ایک عجیب تصویر تھی۔ذرا ہوش سنبھلتے تو لوگ ایک دوسرے سے اُس گمنام آدمی کے بارے میں پوچھتے جن کا نام اعلان کے آخر پر لیا گیا۔ کوئی لاعلمی کا اظہار کرتا نظر آتا، اور کوئی خوش قسمت جو اس نام سے پہلے سے واقف تھا، مختصر تعارف کرواتا سنائی دیتا۔میں اُن خوش قسمت لوگوں میں تھا جنہیں اس نام سے شناسائی تھی۔ تھوڑی ہی سہی، مگر تھی تو۔

میں جب بھی اس نام کے بارے میں سنتا یا کسی کو تعارف کرواتا تو ذہن پر حضرت صاحبزادہ صاحب کی کوئی تصویر آکر چلی جاتی۔کبھی آپ دفتر نظارت تعلیم میں بیٹھے نظر آتے۔ کبھی آپ نصرت جہاں اکیڈمی میں کسی تقریب کے مہمان خصوصی کے طور پر نظر آتے۔ کبھی آپ ربوہ میں اپنا سائیکل دفتر کےباہر سائیکل سٹینڈ پر کھڑاکرتے دکھائی دیتے۔ کبھی احمدیہ ہاسٹل دارالحمد، لاہور میں کسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دکھائی دیتے، کبھی ربوہ میں اپنی عاجزانہ سی گاڑی میں ڈرائیو کرتے، اقصیٰ چوک سے راجیکی روڈ پر مڑتے نظر آتے۔ کبھی دفتر نظارت علیاء میں تشریف فرما یاد آتے اور کبھی وہ دن یاد آتا جب میرا ولیمہ تھا اورہم ایوانِ محمود میں جمع تھے۔ گیٹ کھلا تھا اور یہ درویش اس تقریب کو رونق بخشنے کے لیے تشریف لائے تھے۔

مگر یہ قدرتی بات تھی۔ آپ جب کسی کی بات کررہے ہوتے ہیں تو ذہن پر کوئی نہ کوئی تصویر نقش ہوتی ہے۔ تنہا چہرہ کم ہی ہوتا ہے۔ہمیشہ اُس کے ارد گرد کا ماحول بھی، دھندلا ہی سہی، مگر ہوتا ہے۔تو اُن دنوں جب بھی آپ کا نام آتا، آپ کی کسی نہ کسی تصویر کے رنگ قرطاسِ خیال پر ابھرنے لگتے۔

ہر تصویر میں کئی رنگ ہوتے۔سادگی، شرافت، نجابت، ٹھہراؤ، وقار۔ اور پھر ان رنگوں میں سب سے اُجلا وہ رنگ جو صرف اللہ والوں کے چہرہ پر ہوتا ہے۔وہ رنگ جو خدا کے قرب کے بغیر عطا نہیں ہوتا۔روشنی کی کرن کسی منشور سے گزرتی ہے تو وہ سب خوبصورت رنگ الگ الگ دکھائی دیتے ہیں جو نور کی اس کرن میں مقید ہوتے ہیں۔یہی رنگ یکجا ہو جائیں، تو نور کہلاتا ہے۔ سو اُس چہرہ پر وہ جلوۂ صد رنگ سب سے نمایاں تھا۔

یادوں میں ابھرتی ڈوبتی تصویروں میں سے بعض میں چھوٹی داڑھی یاد آتی جو بالکل سیاہ تھی۔ پھر بعد کی تصویروں میں یہ داڑھی پوری ہوگئی مگر کہیں کہیں چاندی جھلکنے لگی۔سر کےبال سب کے سب سیاہ ہی یاد تھے۔یہاں یہ یاد رکھیں کہ یادوں کی ان تصویروں کے مختلف نقوش اور رنگ شعوری کوشش سے سوچے نہیں جارہے تھے۔بس جیسے کسی یاد میں کوئی بات کہیں نمایاں ہوتی ہے، اسی طرح ان یادوں میں بھی کبھی کچھ نمایاں ہوجاتا، کبھی کچھ۔

میری ملاقاتیں حضرت صاحبزادہ صاحب سے اگرچہ بہت زیادہ نہیں رہی تھیں، مگر جتنی تھیں وہ سب دل پر نقش تھیں۔ ان ملاقاتوں کا احوال یاد آتا تو کبھی خوشی غالب آجاتی، کبھی خوف۔ خوف اس لیے کہ میری نوجوانی، نادانی، کم عمری، کم عقلی ، نالائقی اور بے وقوفی کا زمانہ بھی آپ کے سامنے گزرا تھا(یہاں یہ مراد نہیں کہ یہ زمانہ اب گزرگیا ہے۔ نوجوانی اور کم عمری کے سواباقی سب جوں کا توں ہے)۔

بی اے کرنےکے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب (ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) ہی کی شفقت تھی کہ آپ نے مجھے نصرت جہاں اکیڈمی میں پڑھانے کی ذمہ داری سپرد فرمائی۔آپ ناصر فاؤنڈیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے نصرت جہاں اکیڈمی کے نگرانِ اعلیٰ تھے۔مجھے ایک رقعہ دے کر محترم خالد گورایہ صاحب (پرنسپل نصرت جہاں اکیڈمی) کے پاس بھیجا ، اور اگلے روز سے میں وہاں پڑھانے لگا۔

اس کے ساتھ ماہانہ الاؤنس کی جو صورت بنی، اس پہلے الاؤنس سے نظام وصیت میں شامل ہونے کی توجہ بھی آپ ہی نے دلائی تھی، اور یوں میں اس بابرکت نظام کا حصہ بنا تھا۔

پھر ایم اے میں داخلے کے وقت آپ ہی نے مجھے یہاں سے نکالا ورنہ میں وہیں ٹکے رہنے پر ضدی اور بے تمیز بچوں کی طرح مصر تھا۔یہ تلقین کہ یونیورسٹی میں جاکر پڑھو کہ اس سے exposure بڑھتا ہے، بھی آپ ہی کی عطا تھی۔جب عرض کی کہ داخلہ تو ہوگیا ہے، مگر ابھی کوئی مہینہ بھر کا وقت کلاسیں شروع ہونے میں باقی ہے تو یونیورسٹی ہی میں جاری ایک کمپیوٹر کورس کرنے کی راہ نمائی بھی آپ ہی نے عنایت کی۔اس کورس کے لیے بطور وظیفہ رقم بھی آپ نے بحیثیت ناظر تعلیم منظور فرمائی اوراس کورس میں داخلہ ممکن ہوا۔یہ آج سے 22 سال پہلے کی بات ہے۔اُس دن سے آج تک میں نے کمپیوٹر سے بہت فائدہ اٹھایا۔ ٹائپنگ اور کمپوزنگ میں کبھی احتیاج نہیں ہوئی۔ آج یہ مضمون بھی کمپیوٹر پر ہی ٹائپ کررہا ہوں۔ تب سے آج تک، ہر دن جب بھی کمپیوٹر سےفائدہ اٹھایاہے، وہ چہرہ آنکھوں کے آگے آجاتا رہا ہے جس نے بڑی محبت سے یہ سامان پیدا فرمایا کہ کمپیوٹر سے ابتدائی واقفیت حاصل ہو۔

پھرایم اے میں داخلہ ہوگیا۔ میں نے حاضر ہوکر بتایا کہ ایم اے فلسفہ میں داخلہ ہوا ہے۔ آپ کاوہ جملہ مجھے کبھی نہیں بھولتا کہ ’’ایک شاعر، اوپر سے فلسفہ۔ اللہ خیر کرے‘‘۔ پھر ساتھ آپ نے ایک لطیفہ سنایا کہ ایک فلسفی نے کسی کسان کو پوچھا کہ یہ تم نے بیل کے گلے میں گھنٹی کیوں باندھ رکھی ہے؟ اس نے کہا کہ جب تک یہ ہل کو کھینچتا یا کولہو کو چکردیتا رہتا ہے، گھنٹی بجتی رہتی ہے اور مجھے پتہ ہوتا ہے کہ بیل رک نہیں گیا، بلکہ چل رہا ہے۔ فلسفی نے پوچھا کہ اگر یہ چلتا تو رہے مگر اپنی گردن ہلانا بند کردے تو تمہیں کیسے معلوم ہوگا کہ وہ رکا نہیں اور چل ہی رہا ہے؟ کسان نے بڑی سادگی سے جواب دیا کہ جناب یہ بیل ہے فلسفی نہیں۔

لیکن یہاں یہ اقرار کرنا بھی آج ضروری ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی یہ بات دعا بن کر لگی ،اور اللہ نے ہمیشہ خیر کی۔اس خیر کا وسیلہ بھی ہمیشہ حضرت صاحبزادہ صاحب ہی بنے ، اور آج تک آپ ہی میرے لیے ہر خیر کا وسیلہ ہیں۔

پھر جب لاہور پہنچا تو رہائش کے لیے بجز دارالحمد (احمدیہ ہاسٹل، واقع مسلم ٹاؤن لاہور) کے اور کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ یہ ادارہ ان دنوں جماعت احمدیہ لاہور کے زیر انتظام تھا۔ مگر جو حال تھا، اس کے ساتھ ’’انتظام‘‘ کا لفظ مبالغہ تھا۔ وہ ادارہ جہاں کبھی حضرت مصلح موعودؓ نے ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ جیسے معرکہ آرا خطابات ارشاد فرمائے تھے اور کبھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے خلافت سے قبل احمدیہ سٹوڈنٹس ایسو سی ایشن سے خطاب ارشاد فرمارکھے تھے، عجیب نقشہ پیش کرتا تھا۔جو کچھ ہوتا تھا، چلیں اس سب کو شرارتوں کا نام دے لیتے ہیں کہ وہاں سب نوجوان طلبا ءہی تھے اور یہ عمر شرارتوں کے عروج کی عمر ہوتی ہے۔مگر اس ادارےکی قسمت جاگنے کا وقت بھی تب آیا جب اس ادارہ کو نظارتِ تعلیم کے سپرد کر دیا گیا۔اس تبدیلی کے وقت ہم بھی وہیں مقیم تھے۔اس ادارے کی حالت تیزی سے بہتری کی طرف مائل ہوئی۔دیرینہ امراض جاتے جاتے وقت تو لیتے ہی ہیں، مگر ماہر طبیب میسر آجائے تو کم از کم شفایابی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ سو ہم جب وہاں تھے، افاقہ کا یہ سفر شروع ہو چکا تھا۔

انہی دنوں میں حضرت صاحبزادہ صاحب ہاسٹل تشریف لایا کرتے۔میں بھی اس ماحول کی شرارتوں کے اثر سے پاک نہیں تھا۔اور شاید آپ کو علم بھی تھا۔ (اس ’’شاید‘‘ کے ساتھ میں نے 22 سال گزارے۔ اس ’’شاید‘‘ کا عقدہ کیسے کھلا، وہ آگے آجائے گا)۔

تو اُن دنوں میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ وفات پاچکے تھے، اور جب لوگ ہر طرف اس گمنام درویش کا سراغ ڈھونڈتے پھرتے تھے، اور آپ کا نام پردۂ سماعت سے آ آکر ٹکراتا رہتا تھا، اور جو یادیں بنتی بکھرتی تھیں، ان میں یہ سب زمانے بھی یاد آتے تھے۔

وہ دن بھی یاد آیا جب آپ خاکسار کے ولیمے پر تشریف لائے تھے۔اس کی تصویرصرف یادوں ہی میں نہیں، حقیقت میں بھی میرے پاس محفوظ ہے۔میں اور میرے عزیز اس بزرگ کے گرد جمع ہیں۔وہی سادگی، وہی نور۔ تصویر میں سب کے ہاتھ میں چائے کی کاغذی پیالیاں ہیں۔اب دیکھتا ہوں تو شرمندگی ہوتی ہے۔ مگر دولہا اپنی شادی اور ولیمہ کے دن کس قدر بے بس اور لاچارہوتا ہے، وہ تو سب شادی شدہ احباب جانتے ہی ہیں۔ تو آپ کے استقبال میں جو کوتاہی رہ گئی ہوگی، اسے اپنی بے بسی پر محمول کر کے دل کی تسلی کا سامان کرتا ہوں۔

تو ان دنوں کی کیفیت کی طرف واپس چلتے ہیں جہاں خوف ہر طرف ڈیرے ڈالے بیٹھا تھا۔روزانہ لوگ اپنے امام کے چہرۂ مبارک کا دیدار کرنے مسجد فضل میں قطاراندر قطار کھڑے نظرآتے۔دیکھ کر نکلتے اور پھر قطار میں لگ جاتے۔ یہ بے قراری اور اضطراب کا اظہار تھا۔اس وقت جماعت کا امام وفات پاچکاتھا۔جماعت یتیم ہو چکی تھی۔جہاں سب چین پاتے تھے، وہ شجر اب نہیں رہا تھا۔ تو چہرۂ مبارک کو دیکھ دیکھ کر ہی دلوں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتے۔ کئی بار دیکھتے تا کہ اس ناقابلِ یقین خبرپر کسی طرح یقین کی صورت پیدا ہوسکے۔

ایک ایسی ہی دوپہر کو یہ خبر پھیلی کہ ربوہ سے مجلسِ انتخابِ خلافت کے نمائندگان لندن پہنچ گئے ہیں۔اُس وقت کچھ معلوم تو تھا نہیں کہ کہاں پہنچے ہیں، کب پہنچے ہیں، کون کون پہنچ گیا ہے۔ مگر یہ ضرور معلوم تھا کہ قافلے پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔

اس روز رات کی نماز کے بعد دیکھا تو مسجد فضل کی عمارت کے دروازے کے عین سامنے ایک ہجوم نظر آیا۔لوگ کسی کے گرد جمع تھے۔میں نے ایڑیاں اٹھا کر دیکھا کہ یہ کون صاحب ہیں جن سے لوگ اس قدر جوش و خروش سے مل رہے ہیں اور تعزیت کر رہے ہیں۔ مگر ہجوم ایسا تھا کہ معلوم نہ ہوسکا۔ قریب گیا تو معلوم ہوا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ہیں۔مَیں نے آپ کو کئی سالوں بعد دیکھا تھا۔ مگر حلیہ، حالت، چہرہ سب ویسا ہی تھا۔داڑھی کے کچھ بال سفید، کچھ سیاہ۔آپ بہت صبر اور تحمل سے سب سوگواروں کو ملتے جاتے۔میں بھی اس قطار میں لگ گیا۔قطار کیا تھی، ایک ہجوم تھا جو امڈا چلا آتاتھا۔ کوئی کہیں سے آگے آجاتا، کوئی کہیں سے لپک کر معانقہ کی کوشش کرتا۔میں اس حیرت میں مبتلا تھا کہ آج صبح تک تو لوگ پوچھتے پھرتے تھے کہ یہ مرزا مسرور احمد نامی صاحب کون ہیں، اور اب جب آپ آئے ہیں تو سب اس طرح مل رہے ہیں جیسے برسوں کی شناسائی ہے۔اور بہت سے لوگ بھی تو پاکستان سے آنے والے قافلہ میں آئے ہیں۔خاندان حضرت مسیح موعود ؑکے اور احباب بھی تو آئے ہیں جن کی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے رحمی رشتہ کا تعلق بھی تھا۔پھر یہ ہجوم یہاں میاں صاحب کے گرد ہی کیوں ہے؟

میں اپنی سی کوشش کرتا رہا کہ آگے بڑھوں اور میری بھی باری آجائے۔ مگراس ہجوم میں تو ہر آدمی ایک دوسرے سے بڑھ کر صدمے کا مارا ہوا تھا۔جب کافی دیر تک باری نہ آئی تو میں نے سوچا کہ چلو، کل کسی نماز کے بعد میاں صاحب سے مل کر اظہار تعزیت کر لوں گا۔ ہمت ہار کر میں مسجد فضل کے گیٹ سے باہر آگیا۔ گیٹ سے نکل کر بیرونی جنگلے کے ساتھ ساتھ چلتا گھر کی طرف روانہ تھا کہ پھر وہ ہجوم نظر آیا۔ اس زاویہ سے نظر حضرت صاحبزادہ صاحب کے چہرہ پر پڑی۔ آپ کے چہرہ پر کچھ تھا جو بہت عجیب اور غیر معمولی تھا۔میں نے زیادہ غور نہیں کیا ، بس یہ نظر آیا کہ آپ کے چہرہ کی جو حالت ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ سوگوار اور اداس آدمی ہیں۔میرے قدم رک گئے اورمیں نے واپس دوڑ لگا دی۔میں ملوں گا اور آج ہی ملوں گا، اسی وقت ملوں گا!

اب میں دوبارہ اُس ہجوم میں تھا اور دھکم پیل کی پروا کیے بغیر حضرت صاحبزادہ صاحب کی طرف بڑھتا جاتا تھا۔بالآخر میں آپ کے بالکل سامنے آگیا۔میرے سامنے اب صرف ایک صاحب تھے جو معانقہ کررہے تھے۔حضرت صاحب نے ان سے معانقہ کرتے کرتے نظر اٹھائی اور میری نظر آپ کی نظر سے مل گئی۔اس نظر میں ایک برقی طاقت تھی۔آنکھوں میں ایک عجیب درد تھا۔جونہی وہ صاحب ہٹے، میں لپک کر حضرت صاحبزادہ صاحب کے گلے سے لگ گیا۔میرے سلام کے جواب میں آپ کا ’’وعلیکم السلام‘‘ آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے۔سکون کی ایک منزل آپ کانام اعلان کے آخر پر سن کر طے ہوئی تھی، دوسری منزل آپ سے معانقہ کے بعد ملی۔وہ جو آپ نے پیغام میں فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا، تو اس بات پر یقین آپ کے سینۂ مبارک سے لگ کر حاصل ہوا۔

رحلت کی خبر سننے سے لے کر اس وقت تک میرا ذہن اس بات کو قبول نہیں کرتا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ وفات پا گئے ہیں۔فطری سی بات ہے کہ ذہن میں آتا توتھا کہ آئندہ خلیفہ کون ہوگا، مگر تب بھی اس خیال کو جھٹک دیتا۔والدین نے بچپن سے ہی ایسا یہ سبق ذہن نشین کروایا تھا کہ ’’آئندہ خلیفہ‘‘ کی اصطلاح کے قریب سے بھی نہیں گزرتے تھے۔

لوگ صبح و شام ایک دوسرے کے گلے لگ کر اظہار تعزیت کررہے تھے، ایک دوسرے کو تسلیاں دے رہے تھے۔میں خود بھی صبح سے بہت لوگوں سے اظہار تعزیت کرتے وقت گلے مل چکا تھا۔ ان میں پاکستان سے آئے ہوئے بہت سے بزرگان بھی شامل تھے۔لیکن آج بہت ڈرتے ڈرتے یہ عرض کرتا ہوں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کے گلے لگ کر مجھے کچھ الگ محسوس ہوا۔ یہ مت پوچھیں کہ کیا محسوس ہوا کیونکہ میرے پاس اس احساس کے لیے کوئی نام نہیں۔ میں نے اس وقت اپنے اس احساس کو سمجھنے کے لیے جو نام دینا چاہا، دل نے اس کے بارے میں سوچنے نہیں دیا۔ بچپن کا سبق جو ایسا پختہ تھا۔ان دنوں میں سینکڑوں لوگوں سے سینکڑوں دفعہ تو مصافحہ معانقہ ضرور ہوا ہوگا۔ ہم سب حزن اور رنج کے مارے ہوئے لوگ جوتھے۔ سب ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ مگر ان سینکڑوں معانقوں میں یہ ایک معانقہ تھا جو سب سے جدا تھا۔ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ یہ اجنبی احساس کیوں ہے! شاید میں کچھ دیر اور لپٹ لیتا۔

کچھ دیر کہاں جناب! وہاں تو لوگوں کا ریلہ ایسا تھا کہ مجھے معلوم بھی نہ ہوا اور میں آگے بڑھ چکا تھا۔ وہ ثانیہ گزر چکا تھا۔ مجھے لگا کہ میں شدید سردی میں چلتے چلتے کسی الاؤ کے پاس سے گزرا تھا۔ ابھی ہاتھ تاپنے ہی لگا تھا اور ابھی اس حدت نے ٹھٹھرتے جسم کو چھوا ہی تھا کہ جرس کی آواز آگئی اور مجھے آگے بڑھ جانا پڑا۔

اگلا دن عجیب کیفیت لیے ہوئے تھا۔ دو یا تین مرتبہ نمازوں کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نظر آئے۔ میں ایک قدم آگے نہ بڑھا سکا۔ آپ کبھی اکیلے تھے اور کبھی ساتھ مجلس مشاورت کے بعض اہل کار۔مگر میں ایک قدم آپ کی سمت نہ بڑھا سکا۔ وہ احساس جو گذشتہ روز ہوا تھا، بڑا سکون آور تھا، اس کی بہت تمنا بھی تھی، مگر میرے قدم مجھے روک لیتے رہے۔ مگر ایک اور دھچکہ ابھی لگنا باقی تھا۔

جس روز انتخابِ خلافت ہونا تھا، اس دوپہر کو میں چلتا ہوا اس سڑک پر آرہا تھا جس کا نام میلروز روڈ ہے۔ جو مسجد فضل سے متصل گیسٹ ہاؤس تک جاتی ہے۔پیدل چلتے ہوئے میں ابھی موڑ مڑا ہی تھا کہ سامنے سے حضرت صاحبزادہ صاحب آتے ہوئے دکھائی دیے۔وہی عاجزی جو ہمیشہ آپ کے وجود کا حصہ رہی ہے، مگر چہرہ پر ایک رعب ۔ نگاہیں ہمیشہ کی طرح جھکی ہوئی، مگر آنکھوں میں رتجگوں کے سرخی مائل ڈیرے۔چال میں وہی مانوس انکساری، مگر ہر قدم ایسا پروقار جیسے کوئی بادشاہ آرہا ہو۔ میں ٹھٹھک کر وہیں رک گیا جہاں کھڑا تھا۔ محفوظ فاصلے پر۔ کیونکہ مجھے محسوس ہوا کہ اوّل تو اس وقت ملنا مناسب نہیں، لیکن اگر یہ نگاہیں میری نظروں سے ٹکراگئیں، تو میں تاب نہیں لا سکوں گا۔ تو اس روز، دوپہر کو میں نے یہ عجیب منظر دیکھا کہ ’’وہ بادشاہ آیا‘‘ اور اپنے ساتھ چلنے والے احباب سمیت مسجد سے ملحقہ عمارت میں چلا گیا۔

اس کے بعد مجھے آپ کا دیدار شام کو نصیب ہوا۔ جب آپ انتخابِ خلافت سے قبل مسجد میں تشریف لے جارہے تھے۔اس وقت آپ شلوار قمیص میں ملبوس تھے۔اوپر ایک سادہ سا کوٹ زیبِ تن تھا۔مگر اس وقت وہ کیفیت نہیں تھی جو دوپہر کو دیکھی تھی۔یہ میرے لیے ایک عجیب حیرت ناک بات تھی۔ یہ تو وہ آدمی ہے ہی نہیں۔ یہ تو ایک الگ انسان معلوم ہوتا ہے۔ اس وقت آپ مجھے ایک ایسا درویش دکھائی دیے جو اپنے رب کے حضور گر کر مٹی کا ڈھیر ہو گیا ہو۔مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ وقار، وہ شان و شوکت، وہ جاہ و حشمت، وہ آنکھوں سے جھلکتا رعب سبھی کچھ اب بھی موجود تھا، مگر اب سلوک کی کوئی نئی منزل تھی ۔

اُس وقت تو کچھ سوچنے اور سمجھنے کو جی بھی نہ چاہتا تھا۔جی چاہتا تھا تو بس اس قدر کہ یہ وقت اب جلد گزر جائے اور ہم یہ جان لیں کہ خدا نے آج کس کو ہمارے امام کے طور پر چن لیا ہے۔

اس نماز کی جو کیفیت تھی، اسے بیان اور اظہار سے کچھ علاقہ نہیں۔وہ ایک عجیب و غریب کیفیت تھی۔ ہر آدمی خوف کی حالت میں تو تھا ہی، مگر ایسے جیسے دہلیز پر پہنچ جائے۔ دستک کی ہمت نہ ہو۔ قدم آگے اٹھا لینے کا اختیار نہ ہو، اور یوں مجبوراً دہلیز پر کھڑا رہے۔ہر آدمی ، جہاں بھی تھا، ایسا ہی تھا۔خوف کے بادل ٹلنے کا وقت قریب آرہا تھا، مگر اس کے ساتھ ساتھ اندیشے، گھبراہٹیں، وسوسے بھی دامنگیر تھے۔

مجلس ِ انتخاب کا اجلاس شروع ہوگیا۔ لوگ مسجد فضل کی سڑک پر جمع ہونا شروع ہو گئے۔ دل کی کیفیت ایسی تھی کہ اس ماحول میں رکنا محال ہوگیا۔میں کسی ایک سڑک کی طرف نکل گیا۔ وہاں سے کسی اور سڑک پر مڑ گیا۔ بہت سا وقت گزار کر واپس مسجد کی طرف آیا۔انسانوں کا ایک ہجوم تھا جو ایک ساکت و جامد دریا کی طرح ہر گلی کوچے میں پھیلا ہوا تھا۔سب دم سادھے انتظار کی گھڑیاں بمشکل کاٹ رہے تھے کہ کب وہ اعلان ہو جسے سننے کو ہر احمدی کا دل بے تاب تھا۔

ایسے سناٹے میں جب مسجد فضل کے مائیک پر دستک ہوئی ، اس کا اثر تو ہم سبھی کو یاد ہوگا۔ ایسے تھا کہ کسی نے سوتے ہوئے آدمی کے کان پر ڈھول پیٹ دیا ہو۔ سب چونک گئے۔ اور پھر وہ اعلان ہوا جس کا ہر ہر لفظ دلوں کو سکینت سے قریب کرتا جارہا تھا۔ خوف کے سائے پیچھے رہتے جارہے تھے۔ سمومِ غم کے تھپیڑوں کی جگہ بادِ بہار کے نرم اور خوشگوار جھونکے لینے لگے تھے۔ پھر وہ اعلان ہوا، جس پر بے اختیار دلوں سے نعرۂ تکبیر بلند ہوا۔ ہر دل سے۔ اور ہر دل نے اس کا جواب واشگاف انداز میں ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر دیا۔

حضرت مرزا مسرور احمد صاحب سلمہٗ ربہٗ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ظہور ہوچکا تھا۔ یہ ایک تاریخ ساز لمحہ تھا۔ خوف کو امن میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھنے کا تجربہ بھی کیسا عجیب تھا۔ اس سے پہلے نہ تو ایسا خوف محسوس کیا تھا اور جو سکون اورامن حاصل ہوا تھا، اس کی تو کیا ہی بات۔

یہ اعلان سننے سے لے کر مسجد میں جاکر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کرنے تک کا جو مرحلہ ہے، میں اسے بیان کیے بغیر آگے چلتا ہوں۔ یہ وقت ایک عجیب جذباتی کیفیت سے معمور تھا۔ میری اپنی حالت جیسی تھی، مجھے اُس کے اظہار سے خوف آتا ہےکہ کہیں اُس نازک شیشہ کو ٹھیس نہ پہنچ جائے۔وہ سبھی کے لیے ایک بہت ہی ذاتی ، بہت ہی نجی، بہت ہی پرائیویٹ لمحہ تھا۔

جماعت احمدیہ کے ایک نئے دَور کا آغاز ہو گیا۔ حضور کو مسجد فضل میں بالمشافہ دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ کیسی ناقابل یقین تبدیلی تھی۔ آنکھ بھر کر نہیں دیکھا جاتا تھا۔ انہی دنوں میں ایک شعر کہا تھا کہ

اُس کا پیکر تو ایک سورج ہے

اُس پہ ٹھہرے مری نظر کیسے

یہ کیفیت آج بھی ایسی ہی ہے، اور میری ہی نہیں، بڑے بڑے دل گردے والوں کی بھی ایسی ہی ہے۔

رات اپنے نصف پر تھی، مگر آسمانِ احمدیت پر ایک نیا سورج طلوع ہو چکا تھا۔اِس سورج کی روشنی سے کُل جہان نے روشنی پانی تھی۔اس سورج سے کفر اور الحاد کی برفیں پگھلنی تھیں۔اس سورج سے زندگی کی حدت نصیب ہونا تھی۔ اس سورج کی روشنی میں بہت سے شب گزیدہ قافلوں نے منزلِ مقصود کا نشان پانا تھا۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ غم زدہ جماعت جو کئی دن سے خوف کے اندھیروں میں سہمی بیٹھی تھی، اس جماعت کے ہر فرد نے اس سورج کی روشنی میں بیدار ہوکر خوف کی چادر اتار پھینکنی تھی اور نئے دن کا استقبال کرنا تھا۔اس سورج کی روشنی اور حدت سے بہت سی روحانی فصلیں پکنی تھیں جن سے ایک دنیا نے زندگی کا مائدہ حاصل کرنا تھا۔

حضور نے مسجد فضل کے آس پاس موجود ہزاروں احمدیوں سے بیعت لی۔ حضور مسجد سے باہر تشریف لائے، وہاں موجود جمِ غفیر کو ہاتھ ہلا کر سلام کیا۔ سب نے اپنے نئے امام کے دیدار کا شرف حاصل کیا۔ پھر حضور اپنی رہائش گاہ میں تشریف لے گئے۔

خوف، انتظار ، خوشی۔ تینوں تند و تیز دھاروں میں تیرتے، ہچکولے کھاتے ہم ان دریاؤں کے پار اترے تو رات کا ایک بج چکا تھا۔ گھروں کو لوٹے مگر نیند کا نام و نشان نہیں تھا۔ گھرمیں بھی نئے امام کی باتیں ہوتی رہیں۔ میرے والد صاحب ان زمانوں کو یاد کرتے رہے جب انہیں دارالقضا میں حضور کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ میں اپنی یادیں دہراتا رہا۔ یوں صبح کی نماز کا وقت ہو گیا۔ ہم پھر بصد اشتیاق مسجد فضل میں موجود تھے۔ حضور کو تشریف لاتے ہوئے دیکھا۔ وہی حلیہ مبارک جو کل شام کو تھا۔ وہی شلوار قمیص، وہی کوٹ ۔ جو ایک فرق تھا وہ بہت بڑا فرق تھا۔ خلافت کی دستار حضورکی خوبصورت قامت کو اور بھی پروقار بنا رہی تھی۔ رنگ ہی اور تھے۔نور ہی اور تھا۔

خدا جانے وہ رات کیسی گزری ہوگی۔ کیا کیا باتیں ہوئی ہوں گی۔ حضور کا گریہ تو لوگوں کے سامنے ہی زاروقطار تھا۔ تنہائی میں اپنے رب سے ملے ہوں گے تو کیا عالم ہوا ہوگا۔پھر اُس رات تو خدا زمین پر اترا ہوا تھا۔اپنے بندہ کو چننے اور دنیا کو اپنا انتخاب دکھانے کے لیے۔ تو جو آدمی خدا خود منتخب کرنے زمین پر اترا تھا، وہ آدمی اپنے خدا سے کیسے قرب کی حالت میں ملا ہوگا۔ یہ کیسے تاریخ ساز لمحات تھے جب یہ رات ڈھل رہی تھی اور سویرے کا نور ظاہر ہورہا تھا۔ الحمد للہ کہ ہم اس تاریخ ساز نماز میں شامل تھے جو خلافت خامسہ کی پہلی نماز تھی اور جو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی امامت میں پہلی باجماعت نماز تھی۔

اس روز حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کو سپردِ خدا اور آپؒ کے جسدِ خاکی کوسپردِ خاک کر دیا گیا۔یہ سب اسلام آباد میں ہوا تھا۔ اس خطہ ٔزمین پر جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو بہت محبوب تھی۔جہاں آپؒ کو دفن کیا گیا، اس سے چند گز کے فاصلہ پر وہ گھر تھا جہاں آپؒ نے کئی جلسوں کے دوران ، کئی اجتماعوں کے دوران قیام فرمایا تھا۔

پھر سنا ہے کہ اگلے روز سےحضور دفتر میں تشریف فرما ہوئے۔ پھر باقی کی سب نمازیں بھی ہوئیں۔پھر پانچوں نمازیں بھی مسجد فضل میں ہونے لگیں۔خلافتِ خامسہ کے بابرکت دَور کا آغاز ہوچکا تھا۔

اُس روز کے بعد کے کچھ دن دنیا بھر سے آئے ہوئے مہمانوں نے اپنے امام سے اپنے ملکوں کے وفود کے ساتھ محمود ہال میں شرفِ ملاقات حاصل کیا۔ میں انگلستان کی قطار میں لگا اپنی باری کے انتظار میں کھڑاتھا۔ چلتے چلتے میں اپنے امام کے پاس پہنچا۔حضور نے ازراہِ شفقت معانقہ کا شرف بخشا۔ میرے اندر وہی لہر دوڑ گئی جو اس روز دوڑی تھی جب میں دھکم پیل سے گھبرا کر جانے لگا تھا، مگر پھر پلٹ آیا تھا۔ وہی حدت، وہی زندگی، وہی لطیف سا سکون۔ میں اس روز اپنے امام کے گلے لگا تو جانا کہ میں اُس روز جس آدمی کے گلے لگا تھا، وہ تب کسی اور دنیا میں جاچکا تھا۔ وہ ظاہر میں ہمارے سامنے ایک عام آدمی تھا، مگر خدا اسے چن چکا تھا۔اس پر فرشتے اتر چکے تھے۔ وہ نورکی ایک چادر میں لپٹ چکا تھا۔ ایک ثانیہ بھر کی ملاقات تھی۔ مگر کیا ہی ملاقات تھی۔اللہ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ میں نے خوف کی حالت کو امن میں تبدیل ہوتے دیکھ لیا تھا۔

میں جو دنیا کی خاک چھانتا، دنیاداری کے ریلے میں بہتا انگلستان پہنچا تھا۔میں جو خدا کے ہونے پر غور کیا کرتا تھا۔ اور اس کے نہ ہونے کے امکان پر بھی۔میں جو کبھی کارل مارکس تو کبھی سگمنڈ فرائڈ کا دلدادہ رہا تھا۔میں نے مذہب کی جو چادر اوڑھ رکھی تھی، وہ شاید سماجی مجبوریوں کی چادر تھی۔ میں جو خلافت کو ایک لیڈرشپ تو مانتا تھا، مگر اس کی روحانیت سے پوری طرح واقف نہ تھا۔ میری خوش نصیبی تھی کہ میں اس آدمی کے گلے لگ کر آیا تھا جسے خدا نے اپنےلمس سے ممسوح کیا تھا۔میں نے اس نور سے اپنی آنکھوں اور اپنے سینہ کو منور ہوتا محسوس کیا۔الحمدللہ۔

سچ پوچھیں تو خلافت پر سچا ایمان مجھے اُسی روز نصیب ہوا۔ اور زیادہ سچ پوچھیں تو اسی ایمان کے طفیل مجھے خدا کی ذات پر بھی ایمان نصیب ہوا۔ میں اس ہستی کا قرض کبھی اتار نہیں سکوں گا۔ میں کیا، میری اولاد در اولاد بھی حضور انور کی ممنون احسان رہے گی کہ آپ ہی کے طفیل میرے اندھیرے دل میں ایک چراغ روشن ہوا ۔ اللہ مجھے اور میرے بچوں اور ان کے بچوں کو بھی حضورکے قدموں کی خاک میں جگہ دیتا چلا جائے۔

میں اس ملاقات کے بعد محمود ہال سے باہر نکل آیا۔ دل کا عجیب حال تھا۔ وہ سب یادیں جو تصویروں کی طرح کئی دن سے میرے ذہن ودل کے گلی کوچوں میں گھوم رہی تھیں، اب نئے سرے سے، نئے رنگ میں کسی فلم کی طرح ذہن کے پردہ پر آنے اور جانے لگیں۔ کبھی تیزتیز، کبھی بہت سست رو۔

مگر اب ان یادوں کے ساتھ ایک نئے جذبے کا احساس بھی تھا۔ کبھی لگتا کہ یہ خوش نصیبی کا احساس ہے کہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ سے خلافت سے بہت پہلے ملنے کا شرف پا چکا ہوں۔کبھی لگتا کہ یہ احساس تو ایک حسرت ہے جو کہتی ہے کہ تب کیوں نہ تم ان کے شایانِ شان طریق پر ان سے ملے۔ تم انہیں ایک جماعتی عہدیدار سمجھتے رہے، مگر یہ تو عالمِ روحانی کی بلندیوں پر فائز آدمی تھے۔

میں ماضی میں حضور کے ساتھ اپنے ملنے جلنے کے انداز کے عامیانہ پن پر خود کو کوستا رہا۔ مگر ساتھ ساتھ احساسات کا ایک اور دھارا بھی تھا جو چل رہا تھا۔

وہ دن بھی یاد آرہا تھا جب حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی رحلت پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کے ناظر اعلیٰ و امیر مقامی بننے کا اعلان فرمایا تھا۔ ساتھ آپ نے فرمایا تھا کہ اب ان کے لیے یہ الہام گویا پورا ہوا کہ ’’اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں۔‘‘ پھر دعا کی تحریک بھی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ انہیں جانشینی کا حق ادا کرنے والا بنائے۔یہ شاید ایک بہت بڑا اشارہ تھا۔ مگر خداایسے اشاروں کو لطیف چادروں میں چھپائے رکھتا ہے۔

آپ کے ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی بننے کے چند دن بعد میرا ولیمہ تھا۔ آپ اس روز میرے ولیمہ میں تشریف لائے تھے۔ یہ خیال آتا تو ساتھ آپ کی عاجزی مگر اس میں سے جھلکتا رعب اوروقار بھی یاد آتا۔ کیا تب آنکھیں اس نور کو پہچان پائی تھیں، جو آج ظاہر و باہر ہوگیا ہے۔ شاید ہاں۔ شاید نہیں۔

پھر وہ وقت بھی یاد آیا جب میں ربوہ کے گلی کوچوں، دفتروں میں ربوہ میں رہنے والے مختلف بزرگوں سے ملا کرتا تھا۔ 1990ء کی بات ہے۔ یعنی اس زمانہ کی جب ربوہ میں بہت سے بزرگ تھے۔ ان سے ملنے کا اشتیاق رہتا کہ میں نووارد تھا اور پہلی مرتبہ اتنے بزرگوں کو ایک ہی جگہ ایک ساتھ پایا تھا۔ انہیں دنوں میں مَیں ایک گمنام سے میاں صاحب سے ملنے تحریک جدید کے دفتر وکالتِ مال ثانی بھی گیا تھا۔ یہ گمنام سے میاں صاحب مسجد مبارک کے باقاعدہ نمازیوں میں سے ایک تھے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ کون ہیں۔ پھر کہیں سے تعارف حاصل ہوا اور میں ان سے ملنے پہنچ گیا۔ ٹھیک سے یاد نہیں مگر آپ سے یہ پہلی ملاقات دفاتر تحریک جدید کے ایک خوبصورت برآمدے میں ہوئی تھی، جہاں ستونوں میں سے چَھن چَھن کر موسمِ سرما کی دھوپ آتی تھی، اور ماحول اس میں نہاتا تھا۔ یہ ملاقات بہت مختصر تھی۔رسمی سلام دعا۔ میرے ذہن پر وہ مسکراہٹ آج تک نقش ہے کیونکہ آج بھی وہی مسکراہٹ حضور کے چہرۂ مبارک پر تب پھیلتی ہے جب کچھ فرمانا چاہتے ہوں، مگر خاموشی کو بہتر خیال فرمائیں۔

پھر ایک روز آپ مسجد مبارک میں نظر آئے تو ملنے کا شرف حاصل کیا ۔ آپ مسجد مبارک کے اس دروازے سے تشریف لایا کرتے جو قصرِ خلافت کی طرف کھلتا تھا۔وہیں کہیں قریب ہی بیٹھ جایا کرتے اور پھر اسی جگہ کے قریب نماز ادا کر کے تشریف لے جایا کرتے۔

مجھے وہ دن بھی یاد آئے جب سب بزرگوں سے ملنے کے بعد ان گمنام میاں صاحب سے ملا تھا، مگر یہ سب سے الگ لگے تھے۔سب سے ہٹ کر۔ عام اور سادہ سا حلیہ جس میں ظاہری طور پر نیکی تقویٰ کے کوئی علامتی ملبوسات نہیں تھے۔ایک خاموشی تھی، ایک سادگی تھی، ایک عاجزی تھی، مگر کچھ تو تھا جو اس خاک نشیں نظر آنے والے کو عرش نشیں بناتا تھا۔

دل کٹ کر رہ جاتا اور کہتا کہ آہ! کم عقلی، نادانی، کوتاہ بینی کے وہ دن۔کبھی لوٹ آئیں تو ان سادہ سے میاں صاحب کو اس محبت سے ملوں، اس محبت کا اظہار کروں جو آپ کی شان کے شایان ہو۔

وہ دن کیسے عجیب دن تھے۔ سبھی ایک جذباتی اور روحانی کیفیت سے دوچار تھے۔ مگر میں تو اپنا احوال بیان کرسکتا ہوں، سو عرض کرتا ہوں کہ میں نے تو گویا پہلی دفعہ خلافت کی اہمیت کو جانا تھا(جان تو ہم شاید کبھی نہیں سکتے، مگر ایک جھلک حاصل ہوئی تھی)۔ خلافتِ خامسہ کے ظہور کے ساتھ نازل ہونے والے سکون اور امن کے ذریعہ خدا کی ذات پر یقین حاصل کیا تھا۔میرا ذہن ان دنوں عجیب عجیب کیفیتوں سے دوچار ہوتا۔ کبھی کچھ سوچتا ، کبھی کچھ۔ میں یہ سوچا کرتا کہ آخر وہ کون سا لمحہ تھا جب خدا نے اپنے اس فرستادہ کو چن لیا تھا۔ جب جب مجھے آپ سے ملنے کا موقع میسر آیا، ان میں کون سے مواقع اس لمحہ سے پہلے کے تھے اور کون سے بعد کے۔ کیامیں کبھی آپ کو اس لمحہ کے بعد بھی ملا تھا۔

اسی ادھیڑ بُن میں ایک خیال ذہن میں آیا۔یہ خیال نہایت ذوقی ہے مگر پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی نظم ’’میرے درد کی جو دوا کرے …‘‘ اُن دنوں میں بہت چلا کرتی۔بالخصوص آپؒ کی رحلت اور انتخابِ خلافت کے درمیانی روز و شب میں۔سو ان دنوں یہ نظم ذہن پر نقش تھی۔ معنی پر کبھی بہت گہرائی میں غور نہیں کیا تھا۔ ایک روز یہ نظم ذہن میں نت نئے معنی کھولنے لگی۔

میرے درد کی جو دوا کرے، کوئی ایسا شخص ہوا کرے

یہاں حضورؒ ایک شخص کا ذکر فرما رہے تھے۔ خدا کے لیے شخص کی ترکیب تو استعمال نہیں ہوتی۔

وہ جو بے پناہ اداس ہو، مگر ہجر کا نہ گلہ کرے

حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب نے زندگی کا بیشتر حصہ یوں گزارا کہ خلیفۂ وقت سے مکانی اعتبار سے دوری تھی۔ خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا زمانہ تھا تو آپ وقف کر کے افریقہ میں رہے۔پاکستان آئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ لندن ہجرت کر چکے تھے۔ یہ سارا زمانہ آپ نے ایک ہجر کی کیفیت میں گزارا اور کوئی گلہ کیے بغیر اپنی مفوضہ ذمہ داریوں میں مصروف رہے۔

مری چاہتیں ، مری قربتیں ، اسے یاد آئیں قدم قدم

تو وہ سب سے چھپ کے لباسِ شب میں لپٹ کے آہ و بکا کرے

سب سے چھپ کر رہنے والا شخص تو حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ہی تھے۔ کسی منبر کسی مجلس میں کبھی اس بات کا اظہار نظر نہ آیا۔بلکہ آپ تو صاحبِ اختیار ہوتے ہوئے بھی مجلس اور منبر پر کم کم ہی نظر آئے۔ یہ بات آپ کو اس دور کا واحد آدمی بناتی ہے جسے سب مجلس و منبر پر مدعو کرنا باعثِ سعادت جانتےتھے، مگر یہ پوشیدہ تھے اور پوشیدہ رہنا پسند فرماتے رہے۔ایسا آدمی رات کے اندھیروں میں ہی اپنے دل کو کھولتا ہوگا، اُس رب کے حضور جو ہمیشہ سے اُس کا واحد سہارا تھا۔

بڑھے اُس کا غم تو قرار کھو دے وہ میرے غم کے خیال سے

اٹھیں ہاتھ اپنے لئے تو پھر بھی مرے لئے ہی دعا کرے

خلوت کا احوال تو معلوم نہیں۔ مگر جلوت میں یہی دیکھا کہ اگر کہیں دو چار الفاظ ارشاد فرما ہی دیے، تو خلافت کی اہمیت اور برکات کو بیان کرنے میں اور پھر ساتھ ہی یہ کہ ’’دعا کر لیں‘‘۔ سو صاف ظاہر ہے کہ یہ دعا کس کے لیے ہوتی ہوگی۔

بڑا شور ہے مرے شہر میں ، کسی اجنبی کے نزول کا

وہ مری ہی جان نہ ہو کہیں، کوئی کچھ تو جا کے پتہ کرے

لیں جناب! یہ تو کھلی کھلی اس نور کے نزول کی باتیں لگتی ہیں جو حضرت صاحبزادہ صاحب کے دل پر آسمان سے خدا نے نازل کردیا تھا، وہ بھی اتنی خاموشی سے کہ خود انہیں بھی معلوم نہ ہوا۔

یہ تو میرے دل ہی کا عکس ہے، میں نہیں ہوں پر ، مری آرزو

کو جنون ہے، مجھے یہ بنا دے تو پھر جو چاہے قضا کرے

لیجیے! یہ بلاتبصرہ چھوڑنے کے لائق ہے۔ ضرورت ہی نہیں۔

اُسے ڈھونڈتی ہیں گلی گلی، مری خلوتوں کی اداسیاں

وہ ملے تو بس یہ کہوں کہ آ! مرا مولیٰ تیرا بھلا کرے

آخری مصرعہ کیسا ہمہ جہت ہے۔ ’’وہ بادشاہ آیا‘‘۔ ’’اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں‘‘۔ ’’اللہ انہیں جانشینی کا حق ادا کرنے والا بنائے‘‘۔

میرا دل یقین سے پُر ہو گیا کہ خدا تعالیٰ کی قدرتِ ثانیہ کانُور حضرت مرزا مسرور احمد صاحب (ایدہ اللہ تعالیٰ) کے قلبِ معطر پر اسی زمانہ میں نازل ہوا۔یہ نظم 1996ء میں تحریر فرمائی گئی تھی۔

پھر خیال آیا کہ اس کےبعد بھی میں حضور انور سے ملا تھا۔ میرا ولیمہ اس کے بعد ہی تو ہو اتھا۔یونیورسٹی نے ایم اے کی ڈگری اورمیر ی والدہ نے میرا نکاح نامہ تقریباً ایک ہی دن میرے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔ ملازمت کی سخت ضرورت تھی۔لاہور میں بہت سی جگہوں پر درخواستیں دے رکھی تھیں۔ حضرت میاں صاحب تب ناظر اعلیٰ وامیر مقامی تھی۔ربوہ جانا ہوا تو حاضرِ خدمت ہوا۔ آپ نے ملازمت کے حصول کی کوشش میں مجھ غریب کے لیے اپنے دستِ مبارک سے خط تحریر فرمایا تھا۔ ہر احمدی کی طرح مجھے بھی بڑوں اور بزرگوں سےادب سے ملنا سکھایا گیا تھا۔خیال آیا کہ میں ادب سے ضرور ملا تھا، مگر شایداس طرح نہ ملا تھا جس طرح آپ کے شایانِ شان تھا۔

اور پھر وہ ملاقات جو اللہ کے فضل سے میں نےجاتے جاتے پلٹ کر، دوڑ کر، بھیڑ میں لگ کر کی تھی۔اُس روز تو یقیناً کوئی اور ہی بات تھی۔

جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم

جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

آپ کے مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعدایک سال کا عرصہ ادھر اُدھر ملازمت کرتا رہا۔پہلے ایک وکیل کے ہاں نوکری کی، پھر ایک بینک میں ملازمت مل گئی۔دنیا داری کی نظر سے دیکھیں تونوکری بری نہیں تھی۔اچھی تھی۔ مگر ایک روز افتخار عارف کا ایک شعر پڑھ بیٹھا

شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر

سگِ زمانہ ہیں ، ہم کیا، ہماری ہجرت کیا

اس شعر نے اندر تک کاٹ کر رکھ دیا ۔ میں نے حضور کی خدمت میں زندگی وقف کرنے کی درخواست تحریر کی۔ اللہ تعالیٰ نے ستاری کا سلوک فرمایا، اور حضور نے شفقت کا کہ اس نااہل ترین آدمی کو اپنی غلامی میں قبول فرما لیا۔

پھر محض شفقت سے ملاقات کا شرف حاصل ہونے لگا ۔ اس بیش بہا دُرِّ نایاب کے کئی پہلو دیکھے ہیں۔جو پایا یہیں سے پایاہے۔الحمدللّٰہ علیٰ ذٰلک۔

اوپر ذکر آچکا ہے کہ میں اپنی نادانیوں کے بارے میں سوچتا تھا تو خیال آتا تھا کہ ’’شاید‘‘ حضور کو وہ کوتاہیاں اور نادانیاں فراموش ہو گئی ہوں۔ مگر گاہے بہ گاہے حضور ان زمانوں میں سے کسی نہ کسی بات کا ذکر کردیتے ہیں۔ خود تو خوب مسکراتے ہیں اور میں اُس ادھیڑ عمرآدمی کی طرح شرمندہ سا ہوکر رہ جاتا ہوں جس کے سامنے اس کے بچپن کی وڈیو لگا دی جائے جس میں وہ ہونکوں کی سی حرکتیں کرتا پھر رہا ہے۔

ایک دفعہ ربوہ کی کوئی بات ہو رہی تھی۔کسی صاحب کے ذکر پر فرمایا ’’یاد ہے؟‘‘ عرض کی کہ جی حضور یاد ہے۔ فرمایا ’’یہ وہ زمانہ تھا جب تم ہر کسی کو بزرگ سمجھ کے دونوں ہاتھوں سے سلام کیا کرتے تھے؟ کرتے تھے نا؟‘‘

میں اس سوال کے لیے تیار نہ تھا۔یقیناً میرے چہرے پر آتے جاتے رنگ حضور نے دیکھے ہوں گے۔ساتھ ہی فرمایا ’’مجھے تمہاری نوجوانی کے زمانے کی سب باتیں یاد ہیں‘‘۔

میں ہنسوں کہ رو پڑوں؟ حضور مجھے میرے نام سے ہی جانتے ہیں، میرے لیے تو یہی بہت خوشی کی بات ہے۔ کجا یہ کہ حضور کو میری کچھ باتیں بھی یاد ہوں۔خیر! ہنسنے اور روہانسے پن کی عجیب کیفیت میں یہ بات گزر گئی۔

کئی موقعوں پر ان زمانوں کی نادانیوں اور شرارتوں کا اشارۃً ذکر فرمایا۔

ابھی کچھ ہی دن پہلے فرمایا ’’میں ایک دفعہ ہاسٹل آیا تھا۔ میری فلاں بات پر تمہارا بڑا قہقہہ نکلا تھا۔ یاد ہے؟‘‘

سر جتنا جھک سکتا ہے اتنا جھکا کر عرض کی کہ جی حضور یاد ہے۔

تو حضور نے یہ چلمن جب جب اٹھا کر ان زمانوں کی کسی بات کا ذکر فرمایا، میرے دل میں حضورکے لیے محبت کئی گنا بڑھ جاتی رہی۔ اورآج بھی بڑھ جاتی ہے۔ حضور نے ان زمانوں کی نادانیوں کے باوجود، میری نااہلی کے باوجود مجھے برداشت کیا ہوا ہے۔خدائے ستار و غفور ورحیم ہمیشہ میرے آقا کی آنکھیں میری طرف سے ٹھنڈی رکھے۔

وقت گزرتا گیا۔آج جب یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو اس رات کو قریب اٹھارہ برس کا عرصہ گزرچکا ہے۔ حضور اُس روز کے بعد سے ایک ہی کام میں مصروف ہیں۔اشاعتِ دینِ اسلام کا عظیم الشان کام۔دن اور رات کا ہر لمحہ اسی کام میں مصروف ہیں۔ کہیں تدابیر ، کہیں دعائیں، کہیں غور و فکر، کہیں مطالعہ، کہیں ملک کے عمائدین سے خطاب کرنے کے لیے مضامین اور عناوین کا چناؤ۔ ہر لمحے ، ہر ثانیے کا ہر حصہ، اسی کام میں صرف ہو رہا ہے۔

جماعت احمدیہ کے ذریعہ دینِ اسلام کو زمین کے کناروں تک پہنچانے کی دُھن۔اپنی جماعت کی فلاح اور بہبود کے لیے تربیتی نصائح۔ نئی نسل کےدل میں دین کا بیج بونے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری۔قرآن کریم کی اشاعت۔ مساجد کا قیام۔ طلبا ءو طالبات کو نصائح۔جامعہ کے طلبا ءکو میدان عمل میں جانے کے لیے اپنے وجودِ مبارک کے ذریعہ چارج کرنا تا کہ یہ توانائی تاحیات ان کے کام آئے۔انسانیت کے دکھوں اور تکلیفوں کا مداوا کرنے کے لیے سکیمیں۔ غریب اور نادار لوگوں کے لیے پانی اور خوراک اور تعلیم جیسی زندگی بخش نعمتوں کی فراہمی کی فکر۔خدا جانے اور کیا کیا کچھ۔اتنا کچھ کہ اگر کوئی عام آدمی یہ سب کرسکتا ، تو کئی زندگیاں درکار ہوتیں۔اور حضور ہیں کہ ہر روز اپنے خداداد عظیم مقصد کی تکمیل میں مصروف ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا ایک قول پڑھا تو کانپ کر رہ گیا۔فرمایا تھا کہ ’’خلافت ایک مردم کُش ذمہ داری ہے۔اللہ کا فضل شاملِ حال نہ ہو تو انسان ہلاک ہوجائے‘‘۔

تو ہم یہ کیسے بھول جائیں کہ حضور دن اور رات اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں مصروف ہیں۔

آنحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ

شَیَّبَتْنِیْ ہُوْدٌ۔

یعنی مجھے سورۂ ہود نے بوڑھا کردیا۔ مفسرین کا کہنا ہے کہ اس میں اشارہ اس آیت کی طرف ہے

فَاسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ وَ مَنۡ تَابَ مَعَکَ وَ لَا تَطۡغَوۡا ؕ اِنَّہٗ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ۔

پس جیسے تجھے حکم دیا جاتا ہے (اس پر) مضبوطی سے قائم ہو جا اور وہ بھی (قائم ہو جائیں) جنہوں نے تیرے ساتھ توبہ کی ہے۔ اور حد سے نہ بڑھو۔ یقیناً وہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے۔

حضور بڑے بلند حوصلہ اور ہمت والے ہیں۔ مگر آنحضورﷺ تو سب سے زیادہ جفاکش اور باہمت وجود تھے۔ اگر آپ ﷺ اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ مجھے بوڑھا کر گئی، تو ہم آپؐ کے اس عاشقِ صادق کو کیسے بھول جائیں جس کے قلب ِمبارک پر یہ آیت اس روز گویا نازل ہوئی جب خلافت کی مردم کُش ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ڈالی گئی۔جب آپ نے اپنے پہلے الفاظ میں یہ فرمایا کہ میری گردن اب اس ہستی کے ہاتھ میں ہے جس کے قبضہ میں کُل کائنات کی تمام طاقتیں ہیں۔آپ اپنے خدا کی خاطر اس ذمہ داری کو اٹھائے، اس کے دیے ہوئے حکم سے خود بھی مضبوطی سے اشاعت دین اسلام کی ذمہ داری پر قائم ہیں، اور اپنی جماعت کو بھی اس دین پر قائم رکھنے کی خاطر ہر لمحہ کوشاں ہیں۔آپ کے دل کی کیفیت کیا قیامت خیز کیفیت ہوتی ہوگی!

ہم سب کتنی خوشی سے یہ باتیں کرتے ہیں کہ ہمارا بچہ حضور کے دَورخلافت میں پیدا ہوا اور اب جوان ہوگیا۔فلاں بچہ کتنا چھوٹا ساتھا جب حضورکی کلاسوں میں آتا تھا، اور اب اس کے بچے حضورکی کلاسوں میں آتے ہیں۔کبھی فلاں حضور کے سامنے کلاسوں میں کچھ پڑھا کرتا تھا، آج اس کے بچے نے حضور کی کلاس میں کچھ پڑھا۔ کوئی کہتا ہے کہ حضور خلیفہ ہوئے تھے تو میری شادی بھی نہیں ہوئی تھی، آج میرے تین بچے ہیں اور یہ بچے بھی ملاقاتوں میں جاکر حضور کی محبت کے مورد بنتے ہیں۔ کسی نے وہ پین آج تک سنبھال کر رکھا ہوا ہے جو حضور نے اسے چھوٹے ہوتے ہوئے دیا تھااورآج اس کا بچہ حضور سے پین لے کر آیا ہے اور اس سے سکول کا کام کرتا ہے۔ کتنا زمانہ گزر گیا! ایک نسل پیدا ہو کر جوان ہو گئی۔اس طویل عرصے کے شب وروز حضور پر بھی توگزرے۔حضور پر بھی تو ایک لاکھ اور کئی ہزار راتیں اور ایک لاکھ اور کئی ہزار دن گزرے۔

پہلے ذکر گزرا کہ حضور کو میں نے جب جب دیکھا، وہ سب تصویریں یادوں میں نقش ہیں۔ یہ بھی ذکر گزرا کہ یادوں کی ان تصویروں میں کہیں بال بالکل سیاہ ہیں، کہیں کم اور پھر کہیں اور زیادہ کم۔ مگر ایک روزایسا ہوا کہ حضور نے یاد فرمایا۔ ظہر کے بعد اور عصر سے پہلےکا وقت تھا۔اندر گیا تو حضور پگڑی کے بغیر تشریف فرما تھے۔ حضور نے جو ہدایت دینی تھی وہ ارشاد فرمائی۔میں باہر نکل آیا۔میں نے اس طرح حضور کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔سر کے موئے مبارک، ریشِ مبارک سب میں ان تصویروں کی ایک بھی جھلک نظر نہ آئی جو میری یاد میں محفوظ تھیں۔نور میں نہائی ایک براق چاندی۔

مجھے بغیر رسمی اختتام کے اس مضمون کو ختم کرنے کی اجازت دیں۔

اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنَا بِرُوْحِ الْقُدُسِ۔

حضور نے ہمیشہ ہمیں صرف دیا ہے، کبھی کچھ مانگا نہیں۔سوحضور ہمیں خود تو نہیں کہیں گے۔آئیے سب اپنے آپ سے کہیں کہ

قومِ احمد جاگ! تو بھی ،جاگ اس کے واسطے

ان گنت راتیں جو تیرے درد میں سویا نہیں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button