خلافت کی اہمیت اور برکات۔ حضرت مسیح موعود ؑ اور خلفائے سلسلہ کی نظر میں
خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ آدم ؑکو خلیفہ بنایا کس نے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِم۪ۡ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔ (النور:56)
اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا۔ اور جو دین اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اُسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے (اور) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دیئے جائیں گے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَاکَانَتْ نُبُوَّۃٌ قَطُّ اِلَّا تَبِعَتْھَا خِلَافَۃٌ
(کنز العمال)
کوئی ایسی نبوت نہیں گزری جس کے بعد خلافت قائم نہ ہوئی ہو۔
امام الزمان سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دعویٰ کے متعلق فرماتے ہیں:
’’مَیں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیت کاملہ کے مَیں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے‘‘
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد 18صفحہ381حاشیہ)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خلافت کی ضرورت کے متعلق فرماتے ہیں:
’’چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کیلئے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے ‘‘
(شہادۃ القرآن،روحانی خزائن جلد6صفحہ353)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خلافتِ احمدیہ کے خدائی وعدہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سُنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا وے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی… میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے ‘‘
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 305تا306)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے احمدیہ بلڈنگس لاہور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں نے تمہیں بار ہا کہا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ آدم ؑکو خلیفہ بنایا کس نے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً ۔(البقرۃ:31)
اس خلافت ِآدمؑ پر فرشتوں نے اعتراض کیا … مگر انہوں نے اعتراض کرکے کیا پھل پایا؟ تم قرآن مجید میں پڑھ لو، آخر انہیں آدمؑ کے لئے سجدہ کرنا پڑا۔ پس اگر مجھ پر کوئی اعتراض کرے اور وہ اعتراض کرنے والا فرشتہ بھی ہو تو میں اُسے کہدوں گا کہ آدم کی خلافت کے سامنے سربسجود ہو جاؤ تو بہتر ہے۔اور اگر وہ اِبَاءاور اِسْتِکْبَار کو اپنا شعار بناکر اِبْلِیْس بنتا ہے تو پھر یاد رکھے کہ ابلیس کو آدم کی مخالفت نے کیا پھل دیا۔میں پھر کہتا ہوں کہ اگر کوئی فرشتہ بن کر بھی میری خلافت پر اعتراض کرتا ہے تو سعادتمند فطرت اُسے اُسْجُدُوْالِادَمَ کی طرف لے آئے گی۔‘‘
(بدر 4؍جولائی 1912ء)
پھر فرمایا:
’’تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں۔ تم خلافت کا نام نہ لو، مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہوسکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے۔اگر تم زیادہ زور دوگے تو یاد رکھو میرے پاس ایسےخالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے۔‘‘
(بدر 4؍جولائی 1912ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعُود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
’’تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدرتِ ثانیہ کے نزول کیلئے دعاؤں کی جو شرط لگائی ہے وہ کسی ایک زمانہ کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئے ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اِس ارشاد کا یہ مطلب تھاکہ میرے زمانہ میں تم یہ دعا کرتے رہو کہ تمہیں پہلی خلافت نصیب ہو۔ اور پہلی خلافت کے زمانہ میں اس دُعا کا یہ مطلب تھا کہ الٰہی اس کے بعد ہمیں وہ دوسری خلافت ملے اور دوسری خلافت میں اس دُعا کے یہ معنی ہیں کہ تمہیں تیسری خلافت سے اور تیسری خلافت میں اس دُعا کے یہ معنی ہیں کہ تمہیں چوتھی خلافت ملے۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری شامتِ اعمال سے اِس نعمت کا دروازہ تم پر بند ہوجائے۔
پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں مشغول رہو اور اس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جب تک تم میں خلافت رہے گی دُنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آسکےگی اور ہر میدان میں تم مظفر و منصور ہوگے کیونکہ یہ خدا کا وعدہ ہے جواس نے اِن الفاظ میں کیا کہ
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ
مگر اس بات کو بھی یاد رکھو کہ
مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔
خدا تمہارے ساتھ ہو اور ابدا لآباد تک تم اس کی برگزیدہ جماعت رہو۔‘‘
(خلافت راشدہ، انوارالعلوم جلد15صفحہ152تا153)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ خلیفۂ وقت کی اطاعت کی اہمیت کے متعلق فرماتے ہیں:
’’میں نے متواتر جماعت کو بتایا ہے کہ خلافت کی بنیاد محض اور محض اِس بات پر ہے
اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَآئِہٖ
یعنی امام ایک ڈھال ہوتا ہے اور مومن اِس ڈھال کے پیچھے سے لڑائی کرتا ہے۔ مومن کی ساری جنگیں امام کے پیچھے کھڑے ہوکر ہوتی ہیں۔ اگر ہم اس مسئلہ کو ذرا بھی بھلا دیں ۔ اس کی قیود کو ڈھیلا کردیں اور اس کی ذمہ داریوں کو نظر انداز کردیں تو جس غرض کےلئے خلافت قائم ہے وہ مفقود ہو جائے گی… اگرایک امام اور خلیفہ کی موجودگی میں انسان یہ سمجھے کہ ہمارے لئے کسی آزاد تدبیر اور مظاہرہ کی ضرورت ہے تو پھر خلیفہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اُٹھاتا ہے اس کے پیچھے اُٹھاتا ہے۔اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے۔ اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے ۔ اپنی آرزوؤں کو اُس کی آرزوؤں کے تابع کرتا ہے اور اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کرتا ہے۔ اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہو جائیں تو ان کےلئے کامیابی اور فتح یقینی ہے۔‘‘
(الفضل4؍ستمبر1937ء)
پھر حضور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خواہ تم کتنے ہی عقلمند اور مدبر ہو اپنی تدابیر اور عقلوں پر چل کر دین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے جب تک تمہاری عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت نہ ہوں اور تم امام کے پیچھے پیچھے نہ چلو ہرگز اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت تم حاصل نہیں کرسکتے۔ پس تم خدا تعالیٰ کی نصرت چاہتے ہو تو یاد رکھو اس کا کوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ تمہارا اُٹھنا، بیٹھنا، کھڑا ہونا اور چلنا اور تمہارا بولنا اور خاموش ہونا میرے ماتحت ہو۔‘‘
(الفضل 14؍ستمبر1937ء)
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک پیشگوئی جو آپ نے 1914ء کےفتنہ غیر مبائعین کے آغاز پر فرمائی جسے اللہ تعالیٰ نے 1965ء میں حرف بحرف پورا کرکے ہمارے ازدیادِ ایمان کا موجب بنایا ۔
’’اِس وقت دشمن خوش ہے کہ احمدیوں میں تفرقہ پڑ گیا ہے اور یہ جلد تباہ ہو جائیں گے اور اس وقت ہمارے ساتھ زُلۡزِلُوۡا زِلۡزَالًا شَدِیۡدًا والا معاملہ ہے۔
یہ ایک آخری ابتلا ہے جیسا کہ احزاب کے موقع کے بعد پھر دُشمن میں یہ جرأت نہ تھی کہ مسلمانوں پر حملہ کرے۔ ایسے ہی ہم پر یہ آخری موقع اور دُشمن کا حملہ ہے۔ خدا تعالیٰ چاہے۔ ہم کامیاب ہوں۔ تو ان شاءاللہ پھر دُشمن ہم پر حملہ نہ کرےگا۔ بلکہ ہم دُشمن پر حملہ کریں گے۔
نبی کریم صلعم نے احزاب پر فرمایا تھا کہ اب ہم ہی دُشمن پر حملہ کریں گے۔ اور اُسے شکست دیںگے۔دشمن اب ہم پرکبھی حملہ آور نہ ہوگا۔
یہ ایک آخری ابتلا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے تودُشمن کو پھر کبھی خوشی کا موقع نہ ملے گا۔‘‘
(الفضل 25؍مارچ 1914ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافتِ ثالثہ کے دورِ سعادت کے متعلق فرمایا:
’’میں ایسے شخص کو جس کو خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لاکر کھڑا ہو جائے گا تو…اگر دُنیا کی حکومتیں بھی اُس سے ٹکر لیںگی تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی۔‘‘
(خلافتِ حقہ اسلامیہ ،انوار العلوم جلد26صفحہ31)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’پس یہ برکتیں بتاتی ہیں کہ خلیفہ خدا نے مقرر فرمایا ہے کیونکہ ایسی نصرت کے کام، ایسی نصرت کے واقعات اور ایسی نصرت کے مظاہرے ہوتے ہیں کہ جن میں انسانی ہاتھ کا دخل نہیں ہوتا۔اس سے پتہ لگتا ہے کہ جس طرح اس نصرت میں انسانی ہاتھ نظر نہیں آرہا، اسی طرح انتخاب ِخلافت میں انسانی ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے۔یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان جو کہے اللہ تعالیٰ مجبور ہو جائے اور اس کی مدد اور نصرت کرنا شروع کردے۔کیا تم اپنے زور سے اللہ تعالیٰ کو مجبور کرسکتے ہو؟
نہیں! جب تم اس کے فضل اور رحم کو جذب نہیں کروگے تم اس کی مدد اور نصرت کس طرح سے کرسکتے ہو۔‘‘
(خطبات ناصر جلد ششم صفحہ 524)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’احمدیت نے دنیا کو محض نظریاتی اور اعتقادی لحاظ سے ہی ازسرنو وہ اسلام نہیں دیا جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام تھا بلکہ وہ نظام بھی عطا کیا جو اس آسمانی پانی کی حفاظت کا ذمہ دار ہوتا ہے اور دُنیا کے کونے کونے تک اس کی ترسیل کا انتظام کرتا ہے۔ یہی وہ نظام ہے جسے اسلامی اصطلاح میں ’’نظامِ خلافت‘‘ کہا جاتا ہے جس کے بغیر دینی اقدار کی کما حقہ حفاظت ناممکن ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سے آج تک کی اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ نظام خلافت کا ہاتھ سے جاتا رہنا ہے۔یہ صرف اسلام کا المیہ ہی نہیں بلکہ فی الحقیقت اسے چودہ سو سال میں تمام بنی نوع انسان کا سب سے بڑا المیہ کہنا چاہئے کیونکہ دنیا کی اکثریت کی اسلام سے محرومی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اسلامی نظام خلافت کی برکات سے محروم ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ4؍مارچ 1988ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
جماعت احمدیہ میں خلافت کی اطاعت اور نظام جماعت کی اطاعت پر جو اس قدر زور دیا جاتا ہے یہ اس لئے ہے کہ جماعتی نظام کو چلانے کے لئے یک رنگی پیدا ہونی ضروری ہے اور اس زمانے کے لئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہے کہ مسیح موعودؑ کے آنے کے بعد جو خلافت قائم ہونی ہے وہ عَلٰی مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃ ہونی ہے اور وہ دائمی خلافت ہے اور جس کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے۔ کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ9؍جون2006ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جون2006ءصفحہ5)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’…ہمیشہ یاد رکھیں کہ خلافت کے ساتھ عبادت کا بڑا تعلق ہے۔ اور عبادت کیا ہے؟ نماز ہی ہے۔ جہاں مومنوں سے دلوں کی تسکین اور خلافت کا وعدہ ہے وہاں ساتھ ہی اگلی آیت میں اَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ (النور:57) کا بھی حکم ہے۔پس تمکنت حاصل کرنے اور نظام خلافت سے فیض پانے کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ نماز قائم کرو، کیونکہ عبادت اور نماز ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہوگی۔ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس انعام کے بعد اگر تم میرے شکر گزار بنتے ہوئے میری عبادت کی طرف توجہ نہیں دو گے تو نافرمانوں میں سے ہو گے۔پھر شکر گزاری نہیں ناشکرگزاری ہو گی اور نافرمانوں کے لئے خلافت کا وعدہ نہیں ہے بلکہ مومنوں کے لئے ہے۔پس یہ انتباہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اپنی نمازوں کی طرف توجہ نہیں دیتا کہ نظام خلافت کے فیض تم تک نہیں پہنچیں گے۔اگر نظام خلافت سے فیض پانا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرو کہ یَعْبُدُونَنِیْ (النور:56) یعنی میری عبادت کرو۔ اس پر عمل کرنا ہو گا۔ پس ہر احمدی کو یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا لینی چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا، جو خلافت کی صورت میں جاری ہے، فائدہ تب اٹھا سکیں گے جب اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍اپریل 2007ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل4؍مئی2007ءصفحہ7)
ایک اور خطبہ جمعہ میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’…اگر خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو محبت، پیار اور نظام جماعت کا احترام اور اطاعت اور خلافت سے مضبوط تعلق پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ13؍نومبر2009ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل4؍دسمبر2009ءصفحہ7)
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’نظامِ خلافت کی برکات سے فائدہ اٹھانے کے لئے، اُس نظام سے فائدہ اٹھانے کے لئے جس کے دائمی رہنے کی آنحضرتﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی تقویٰ پر چلنا بھی شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خلافت سے فیض پانے کے لئے ایمان اور اعمالِ صالحہ کی شرط کو رکھا ہے۔ ایمان کی مضبوطی تبھی ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت دل میں ہو۔ اعمالِ صالحہ کی بجا آوری کی طرف توجہ تبھی ہو گی جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی کامل اطاعت کا جوا اپنی گردن میں ڈالنے کی ہماری کوشش ہو گی۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍اپریل 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍مئی2010ءصفحہ7)
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہم سب کو خلافت احمدیہ سے ہمیشہ وابستہ رہنے اور خلیفۂ وقت کی طرف سے ملنے والی ہر ہدایت پر عمل کرنے اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی توقعات پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭