فضائل القرآن (2) (قسط 14)
روحانی طاقتوں کی تکمیل کے لئے کامل تعلیم
(3) تیسری چیز جس کا بیان کرنا ایک مذہب کے لئے نہایت ضروری ہے۔ وہ ان امور کا بیان کرنا ہے جو روحانی طاقتوں کی تکمیل اور ان کی امداد کے لئے ضروری ہیں۔ یہ مضمون ایسا وسیع ہے کہ اس میں شریعت کے تمام احکام آ سکتے ہیں۔ اور مذہب کے تمام اصول اور جزئیات پر بھی اس میں بحث ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ان کی غرض یہی ہوتی ہے کہ روحانی طاقتوں کا ارتقاء ہو۔ لیکن چونکہ اس لیکچر کے یہ مناسب حال نہیں اس لئے میں اختصاراً اس کے متعلق صرف ایک ریویو کر دیتا ہوں کہ اسلام چونکہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ (1)روح انسانی جسمانی تغیرات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور اس وجہ سے وہ جسمانی تغیرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ جیسے فرمایا
یٰۤاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا (المومنون :52)
اے رسولو! پاک چیزوں میں سے کھائو اور مناسب حال اعمال بجا لائو۔ یعنی طیبات کے کھانے سے نیک اعمال کی توفیق عطا ہوتی ہے۔ اس لئے وہ قرار دیتا ہے کہ مذہب کو ایک حد تک انسان کی غذائوں اور اس کے کانوں اور اس کی آنکھوں اور اس کی قوتِ حاسّہ پر بھی حد بندی کرنی چاہئے تا کہ معدہ اور حواس کے ذریعہ سے دماغ اور دل پر بد اثرات نہ پہنچیں اور اس کی روح مردہ نہ ہو اور اس نے اس کے متعلق دو اصول مقرر کئے ہیں۔
اول ضروری اور اصولی امور اس نے خود بتا دیئے ہیں اور ہر مسئلہ کے متعلق تفصیلی احکام دیئے ہیں مگر باوجود اس کے (2)اس نے تسلیم کیا ہے کہ بعض امور میں انسان کی بدلنے والی ضرورتیں یا مختلف ممالک کے لوگوں کے لئے بدلتے رہنے والے قوانین کی بھی ضرورت ہوگی۔ کیونکہ زمانہ کے تغیرات کے لحاظ سے ایسی ضرورتیں پیش آ سکتی ہیں جن کے متعلق اپنے طور پر قوانین بنانے پڑیں۔ چنانچہ اس کے لئے وہ یہ قاعدہ مقرر فرماتا ہے کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡ اَشۡیَآءَ اِنۡ تُبۡدَ لَکُمۡ تَسُؤۡکُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡہَا حِیۡنَ یُنَزَّلُ الۡقُرۡاٰنُ تُبۡدَ لَکُمۡ ؕ عَفَا اللّٰہُ عَنۡہَا ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ (المائدہ:102)
فرمایا۔ اے مومنو! تم آپ ہی آپ یہ سوال نہ کیا کرو کہ ہم فلاں کام کس طرح کریں اور فلاں کس طرح۔ کیونکہ بعض باتیں اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر اس حکمت کے ماتحت چھوڑ دی ہیں کہ اگر انہیں بیان کر دیا جائے تو وہ تمہارے لئے دائمی طور پر مقرر ہو جائیں گی حالانکہ وہ جانتا ہے کہ آئندہ ان میں تبدیلی کی ضرورت پیش آتی رہے گی۔ پس دوسرا اصل قرآن کریم نے یہ بتایا کہ کامل تعلیم کے بعد بھی بعض ہدایتوں میں وقتی طور پر تغیر کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ ان کو قرآن نے انسانی عقل پر چھوڑ دیا ہے۔ اور فیصلہ کرنے کا یہ طریق بتا دیا ہے کہ
اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ (الشوریٰ:39)
یعنی مومنوں کا یہ طریق ہے کہ وہ قومی معاملات کو باہمی مشورہ سے طے کیا کرتے ہیں۔ پس اسلام میں یہ نہیں کہ ہر فرد اپنی اپنی رائے پر چلے بلکہ مشورہ کرنے کے بعد جو بات طے ہو اس پر چلنا چاہئے۔ مگر باوجود ان باتوں کے چونکہ انسان پھر بھی غلطی کر سکتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لئے بعض غیبی سامان بھی مہیا کئے ہیں۔ اور وہ یہ ہیں کہ اس نے ملائکہ کو پیدا کیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ انسان کو نیکی کے رستہ پر چلاتے رہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔
لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ یَحۡفَظُوۡنَہٗ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ (الرعد:12)
یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے آگے بھی اور اس کے پیچھے بھی ملائکہ کی ایک جماعت ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی حفاظت کر رہی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لئے شریعت نازل کی اور اسے تفصیلی ہدایات دیں۔ مگر پھر بھی انسان چونکہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے اس کی حفاظت پر ملائکہ لگا دیئے گئے ملائکہ کے ایسے اعمال کے متعلق باقی کتب خاموش ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ باقی کتب نے ملائکہ کے متعلق تفصیلی بحث کی ہی نہیں۔ بلکہ ایسے رنگ میں بحث کی ہے کہ ایک طبقہ ان کو خدا کی بیٹیاں کہنے لگ گیا۔ دنیا اس امر پر ہنستی ہے مگر تجربہ کار لوگ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان احسانوں میں سے ایک احسان ملائکہ کا وجود ہے مگر یہ موقع اس پر تفصیلی بحث کرنے کا نہیں ہے۔
روحانی نتائج کا اظہار
(3)تیسرا اصل یہ بتایا کہ چونکہ انسان اگر ایک ہی رنگ میں کام کرتا چلا جائے اور اس کے نتائج نہ دیکھے تو اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ اس لئے نتائج کے اظہار کا بھی کوئی طریق ہونا چاہئے۔ سکولوں میں طلباء کا امتحان لینے کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ نتائج دیکھ کر ان کی ہمت بڑھے اور وہ تعلیم میں ترقی کریں۔ اسی رنگ میں خدا تعالیٰ نے روحانی نتائج کے اظہار کے لئے بھی ایک طریقہ بیان فرما دیا۔ چناچہ فرمایا
ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن:61)
تم مجھے ساتھ کے ساتھ بلائو میں تمہاری پکار سنوں گا۔
غیر مذاہب کا بے اصولا پن
اب یہ تینوں باتیں اسلام کے سوا دوسرے مذاہب میں بھی ملیں گی تو سہی مگر بے اصولے طور پر۔ مثلاً (1)وہ مذاہب جو احکام دیتے ہیں ان کی حکمت نہیں بتاتے۔ (2)احکام تو دیتے ہیں مگر ایسے کہ جو انسانی حریت کو کچلنے والے ہیں۔ (3)دوسری کتابیں بعض احکام تو بیان کرتی ہیں لیکن بے جوڑ۔ یعنی وہ نہ تو یہ بتاتی ہیں کہ جو احکام وہ بیان کرتی ہیں انہیں کیوں بیان کرتی ہیں اور نہ یہ بتاتی ہیں کہ جن کو نہیں بیان کرتیں انہیں کیوں چھوڑتی ہیں۔ دانستہ چھوڑا گیا ہے یا نادانستہ۔ جیسے وید ہیں کہ بڑے بڑے اہم امور کے متعلق کچھ بیان نہیں۔ حتیٰ کہ قصاص اور عفو اور محرمات تک کے متعلق بھی کوئی حکم نہیں۔ انجیل نے تو غضب کیا ہے کہ ایک طرف تو وہ شریعت کو لعنت قرار دیتی ہے اور دوسری طرف احکام بھی دیتی ہے۔ حالانکہ اگر یہ درست ہے کہ شریعت لعنت ہے تو چاہئے تھا کہ انجیل میں کوئی بھی حکم نہ ہوتا۔ مگر حکم ہیں۔ جیسا کہ متی باب5آیت 32 میں آتا ہے:
پھر میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے۔ وہ اس سے زنا کراتا ہے۔ اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتاہے۔ (متی باب5آیت 32برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ 1922ء(مفہوماً))
اگر شریعت لعنت ہے تو معلوم نہیں اس لعنت سے لوگوں کو کیوں حصہ دیا گیا ہے۔ اور اگر کہو کہ شریعت لعنت نہیں بلکہ رحمت ہے تو باقی ضروری باتیں کیوں چھوڑ دی گئیں۔ وہ بھی بتا دی جاتیں۔ غرض ان مذاہب نے ایک بے جوڑ سی بات کر دی ہے۔ کہیں کوئی بات چھوڑ دی اور یہ نہ بتایا کہ جن احکام پر خاموشی اختیار کی ہے ان پر خاموشی کیوں اختیار کی ہے اور کہیں بیان کر دی اور اس کی حکمت نہ بتائی۔ مگر قرآن اصولی بات کہتا ہے۔ جو حکم دیتا ہے اس کی حکمت بتاتا ہے۔ اور جن احکام کو اس نے چھوڑا ہے ان کی وجہ بھی بیان کر دی ہے مگر دوسری کتابوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔ ویدوں میں بہن بھائی کی شادی کی کہیں ممانعت نہیں ہے۔ لیکن ویدوں کے ماننے والے اسے ناجائز قرار دیتے ہیں۔
قرآنی تعلیم کے مکمل ہونے کا ایک واضح ثبوت
میں ان روحانی ہدایت ناموں کی پرکھ کے متعلق ایک موٹا نسخہ بتاتا ہوں۔ ہر ایک کتاب جو قرآن کریم کے سوا ہے اس میں جو مسائل بیان ہوئے ہیں ان کے علاوہ ضرور ایسے مسائل نکلیں گے کہ جن پر عمل کرنے کو اخلاقی برائی سمجھا جائے گا۔ لیکن ان کی ممانعت اس کتاب میں نہیں ملے گی۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کریم میں ایک بھی امر ایسا نہیں جس پر عمل اخلاقی برائی سمجھا جائے اور اس سے اسلام نے نہ روکا ہو۔ یا اس کے متعلق خاص طریق عمل کا ارشاد نہ کیا ہو۔ یہ مختصر گر اس کی تعلیم کے مکمل ہونے کا ایک اہم ثبوت ہے۔
عالم معاد کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم
(4)چوتھا امر جس کے متعلق ہدایت دینا مذہب کا اہم فرض ہے وہ معاد کے متعلق ہے یعنی وہ بتائے کہ مرنے کے بعد انسان کی کیا حالت ہوگی؟ اسلام اس بارہ میں بھی مفصل بحث کرتا ہے۔ جسے اس موقع پر تفصیلاً تو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن دو آیتیں اس کی تائید میں پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ ۔ (المومنون:116)
یعنی کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ تمہاری پیدائش عبث اور فضول ہے اور تم لوٹ کر ہماری طرف نہیں آئو گے۔ یہ آیت زمین اور آسمان کی پیدائش اور احیاء اور اماتت اور اللہ تعالیٰ کی مالکیت کے ذکر کے بعد آئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ انسان میں ہم نے کتنی طاقتیں رکھی ہیں۔ کس طرح زمین اور آسمانوں کو اس کے لئے مسخر کیا۔ اس کے لئے چاند اور سورج پیدا کئے۔ ان کے اثرات رکھے۔ پھر انسان کے اندر قابلیتیں ودیعت کیں۔ کیا یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا ہے کہ انسان دنیا میں کھائے پیئے اور مر کر ختم ہو جائے، یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ انسان کے لئے بہرحال ایک اور زندگی ہونی چاہئے جس میں وہ اپنے اعمال کا جوابدہ ہو اور جو اس کی پیدائش کی غرض کو تکمیل تک پہنچانے والی ہو۔
پھر سورۃ قیامت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۔ وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ۔ اَیَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ اَلَّنۡ نَّجۡمَعَ عِظَامَہٗ۔(القیٰمۃ:2تا4)
یعنی میں مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ ہونے کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ اس پر کہا جا سکتا ہے کہ جس چیز کی دلیل دینی تھی اسی کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر ذرا آگے پڑھیں تو بات واضح ہو جاتی ہے۔ اور معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں قیامت سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے۔ کیونکہ نبی کی بعثت بھی ایک قیامت ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اسی سورۃ میں فرماتا ہے۔
یَسۡـَٔلُ اَیَّانَ یَوۡمُ الۡقِیٰمَۃِ۔ فَاِذَا بَرِقَ الۡبَصَرُ۔ وَ خَسَفَ الۡقَمَرُ ۔وَ جُمِعَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ ۔ یَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ یَوۡمَئِذٍ اَیۡنَ الۡمَفَرُّ۔(القیٰمۃ:7تا11)
یعنی لوگ پوچھتے ہیں کہ قیامت کا دن کب ہوگا ان سے کہہ دو کہ یہ وہ زمانہ ہوگا جب نظر پتھرا جائیگی۔ یعنی نئے نئے علوم نکلیں گے اور انسان حیران رہ جائیں گے وجمع الشمس و القمر اور چاند اور سورج کو گرہن لگے گا۔ اس وقت انسان کہے گا کہ اب میں بھاگ کر کہاں جا سکتا ہوں۔ یہاں قیامت سے مراد مسیح موعود کا زمانہ ہے اور اسے قیامت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب مسلمانوں کی تباہی اور بربادی انتہا کو پہنچ چکی ہوگی اس وقت خدا تعالیٰ پھر ان کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے متعلق ہے کہ مسلمان تباہ و برباد ہونے کے بعد پھر ترقی کریں گے اور اس بات کا پورا ہونا بتا دے گا کہ قرآن ایسے منبع سے نکلا ہے جہاں سے کوئی بات غلط نہیں نکلتی۔ جب یہ بات پوری ہو جائے گی تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ مرنے کے بعد کے متعلق بھی قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ بھی ضرور پورا ہوگا۔
دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ انسان کے اندر جو نفس لوامہ رکھا گیا ہے وہ بھی قیامت کا ثبوت ہے۔ انسان جب کوئی گناہ کی بات کرتا ہے تو اس پر اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے۔ ایک چھوٹا بچہ بھی جب جھوٹ بول رہا ہوتا ہے تو سمٹتا اور سکڑتا جاتا ہے کیونکہ نفس لوامہ جو اس کے اندر موجود ہے وہ اسے شرم دلا رہا ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہی نفس لوامہ جس کے نتیجہ میں انسان محسوس کرتا ہے کہ اخلاق کیا ہیں اور بد اخلاقی کیا ہے۔ گناہ کیا ہے اور ثواب کیا ہے۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ قیامت کا بھی ایک دن مقرر ہے ورنہ اس کے اندر ندامت کا یہ احساس کیوں پیدا ہوتا۔ اسی طرح قرآن کریم عذاب اور انعام کی تمام تفصیلات بتاتا ہے اور ان کی حکمتیں بتاتا ہے اور سزا اور اس کی غرض اور انعام اور اس کا مقصد اور طریق سزا اور طریق انعام غرض ہر ایک پہلو پر مفصل روشنی ڈالتا ہے جس کی مثال دوسری کتب میں بالکل نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو ناقص طور پر۔ پس ضرورت مذہب کے بیان کرنے میں بھی اسلام دوسرے مذاہب سے افضل ہے۔
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭