احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
صحبت صالحین اور روزوں کاعظیم مجاہدہ
محمداعظم عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ
اس عہدمیں صحبت صالحین کی غرض سے حضرت اقدسؑ کوجس باخدا اور صاحب ولایت بزرگ سے الفت رہی وہ مولانا مولوی عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ یہ ایک نیک اور بزرگ اہل اللہ میں سے تھے ۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی ان کا ذکرکرتے ہوئے فرمایاہے :
’’ایک بزرگ غایت درجہ کے صالح جومردان خدا میں سے تھے اور مکالمہ الہٰیّہ کے شرف سے بھی مشرّف تھے اور بمرتبہ کمال اتباع سُنّت کرنے والے اور تقویٰ اور طہارت کے جمیع مراتب اور مدارج کو ملحوظ اور مرعی رکھنے والے تھے اور اُن صادقوں اور راستبازوں میں سے تھے جن کو خدائےتعالیٰ نے اپنی طرف کھینچاہواہوتا ہے اورپرلے درجہ کے معمور الاوقات اور یاد الٰہی میں محو اور غریق اور اسی راہ میں کھوئے گئے تھے جن کانام نامی عبد اللہ غزنوی تھا ۔‘‘
(ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 143حاشیہ)
یہ صالح بزرگ رہنے والے تو افغانستان کے تھے لیکن وہاں ان کی اتنی مخالفت ہوئی کہ حاسد دشمنوں نے ان کاجینامشکل کردیا۔افغانستان کی بدنصیب حکومت کے ایما پرسخت اذیت ناک تکالیف پہنچائی گئیں۔قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کیں۔داڑھی مونڈھ کرمنہ کالاکرکے گدھےپربٹھایاگیا الغرض سخت دکھ اورتکالیف کےبعد ان کووہاں سے نکال دیاگیا اور یہ پنجاب میں چلے آئے۔لیکن معلوم ہوتاہے کہ مصلحت ایزدی ان کو وہاں سے پنجاب میں لائی تھی۔کیونکہ پنجاب سے ایک نورظاہرہونے والاتھا اور تقدیر خداوندی تیاری کر رہی تھی کہ ایسے بزرگان دین اورملہمین کہ ایک خلقت جن کی مرید اور مداح ہووہ اس نورکی گواہی دیتے ہوئےان کوتیارکریں ۔اور ان بزرگان میں سے ایک ارہاص یہ بزرگ حضرت مولوی عبداللہ غزنوی صاحب ؒ بھی تھے ۔ جیساکہ ایک جگہ حضورؑ نے خودفرمایا:
’’ مجھے معلوم ہوتاہے کہ مولوی عبداللہ غزنوی اس نور کی گواہی کے لئے پنجاب کی طرف کھنچاتھا۔اور اس نے میری نسبت گواہی دی ۔‘‘
(نزول المسیح ،روحانی خزائن جلد 18صفحہ 615)
ایک جگہ آپؑ نے انہیں اپناارہاص بھی قراردیاچنانچہ فرمایا:
’’میں اُن کواپنے اس منصب کے لئے بطورارہاص کے سمجھتاتھا یاجیساکہ یحییٰ عیسیٰ کے پہلے ظاہرہوا ……‘‘
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 251)
حضرت اقدسؑ نے غزنوی صاحب کے بارہ میں کیا کیا فرمایا ان سے اپنی محبت کا اظہارکن الفاظ میں فرمایا اوریہ صحبت صالحین کیسی رہتی تھی یہ تفصیل ذرابعدمیں بیان ہو گی۔ اس سے قبل مناسب ہے کہ عبداللہ غزنویؒ صاحب کی مختصرسوانح اور تعارف پیش خدمت کردیاجائے۔
یہ تعارف آپ کی سوانح پرمشتمل ایک کتاب سے لیا گیاہے جوکہ آپؒ کے پوتے مولوی عبدالجبارغزنوی اور اس زمانہ کے ایک اور اہل اللہ اور ولی اللہ حضرت مولوی غلام رسول قلعوی نے تحریرفرمائی ۔ یہ کتاب مطبع القرآن والسنۃ امرتسرسے شائع ہوئی ۔اس کا نام ہے ’’سوانح عمری مولوی عبداللہ غزنوی مرحوم‘‘۔ اس کے پہلے 24صفحات عبدالجبار غزنوی کی مرتب سوانح پرمشتمل ہیں اور 24تا44صفحات مولوی غلام رسول صاحب کی تصنیف ہے۔ اسی کتاب کے آخرپر46صفحات پرمشتمل کچھ خطوط وغیرہ ہیںجوعبداللہ غزنوی صاحب کے لکھے ہوئے ہیں۔اس سوانح عمری کے مطابق:
نام اور پیدائش
آپ کا اصلی نام محمد اعظم ہے ، محمد اعظم بن محمد بن محمد بن محمد شریف عمرزئے۔ مگرآپ نے اپنا عبد اللہ نام رکھ لیا اس لیے کہ اس نام میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور بندے کی عبودیت کا اظہار اور فروتنی کا اقرار ہے۔اوریوں عبد اللہ غزنوی کے نام کے ساتھ مشہور ہوئے۔
آپ 1230ہجری(1815ء ناقل) میں بہادر خیل کے قلعہ میں جو شہر غزنی کے ضلع میں واقع ہے پیدا ہوئے ۔
تعلیم وتدریس اورمقبولیت
لڑکپن میں آپ اپنے زمانے کے عالموں سے علم حاصل کرتے رہے اورتحصیل میں مصروف رہے اور فرماتے تھے کہ جب میں الہام کو نہ سمجھتا تھا اور توحید سے بخوبی واقف نہ تھا ایک بار میں اپنے دادا محمد شریف کی قبر کے پاس جو اس دیار میں مرجع اور مقبول انام ہے گیا تو القاء ہوا لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ لیکن اس وقت میں نے غلطی کی اور میں نے خیال کیا کہ یہ ورد مجھ کو وظیفہ کرنے کے لیے سکھایا گیا ہے اب میں نے جان لیا کہ وہ اللہ کی طرف سے الہام تھا کہ میرے سوا دوسرے کی طرف رجوع کرنا عبادت اور استعانت میں شرک ہے۔ فرماتے تھے کہ چھوٹی عمر میں مجھ کو یہ شوق از حد تھا کہ جنگل اور تنہائی میں جا کر دعا کروں اور اس کی طرف کمال توجہ تھی اور مجھ کو خیال تھا کہ ہر ایک شخص کو دعا کا شوق اور ذوق ایسا ہی ہوگا ۔ان دنوں میں بعض ارباب ذوق و باطن آپ کو فرماتے کہ تمہاری پیشانی چمکتی ہے خبردار ایسا نہ ہو کہ برے عالموں کی صحبت میں رہ کر اپنے دل کو خراب کر لو۔ اور تمام خاص و عام آپ کی صلاحیت اور تقویٰ پر جو طفولیت میں تھی حیران تھے اور علوم متداولہ کی تحصیل میں آپ تھوڑی مدت مشغول رہے آپ کی زیرکی اور فہم کی تیزی اور فکر کی سلامتی پر لوگ حسرت کی انگلیاں چباتے اور تعجب کرتے تھے آخر الامر جب آپ قوت کی شدت اور جوانی کی حد کو پہنچ گئے تو آپ کو جذبہ غیبی اور عنایت ربانی نے پالیا اور آپ ان تمام چیزوں سے جو اللہ تعالیٰ کے سوا ہیں بیزار ہو کر اپنے مالک کی طرف متوجہ ہوگئے اور تنہائی اور لوگوں سے کنارہ کشی آپ نے اختیار کی۔ دفعۃً حضور دائمی اورپاس انفاس یعنی احسان کامرتبہ آپ کو دیا گیا اور مرجع خلائق ہو گئے۔ آپ پہلے پہل لوگوں کی صحبت سے اس قدر بھاگتے تھے کہ تمام ناطے داروں اور دوستوں سے ہجرت کر کے خواجہ ہلال کے پہاڑمیں جہاں پر کوئی باشندہ نہ تھا جاکر رہنا اختیار کیا پس اس حدیث کے مضمون کے مطابق جس میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو دوست بناتا ہے تو اس کے لیے قبولیت زمین میں رکھ دی جاتی ہے لوگ اس جگہ بھی آپ کے پیچھے پہنچتے تھے زمانے کے عالم و فاضل آپ کے کام میں حیران تھے یہانتک کہ بعض لوگ صرف دیکھنے کے ساتھ اور بعض صحبت اور مجلس کے ساتھ صاحب حالات اور واردات ہو گئے اور آپ کے لباس سے شاگردوں کو فائدہ حاصل ہونے لگا چنانچہ ایک طالب علم کو آپ کی پوستین اٹھانے سے وجد آگیا اور اسی سبب سے طالب علم مذکور پوستین کے مرید کے ساتھ مشہور ہوگیا علاوہ اس کے بہت لوگ صاحب حالات عجیبہ کے ہو گئے اور ما سوی اللہ سے فارغ ہو کر اللہ کی طرف راجع ہو گئے اور آپ لوگوں کے ملنے جلنے سے بہت ایذا پاتے یہانتک کہ فرماتے اگر کوئی شخص ہندوستان سے میرے پاس آنے کا ارادہ کرتا تو میرے دل میں ایسا صدمہ پہنچتا کہ گویا مجھ کو کسی نے گولی لگا دی اور بہت ایذا پاتے اور لوگوں سے نفرت کرتے ۔ امیروں اور دنیا داروں سے تاوقت وفات اس قدر گریزاں رہے کہ کسی کی باوجود ان کے بہت درپے ہونے کے ملاقات نہیں کی اور اپنی اولاد اور دوستوں کو ہمیشہ یہ وصیت کرتے رہے کہ دنیا داروں کی صحبت زہر قاتل ہے اپنے مالک کی طرف متوجہ ہوؤ وہ تم کو ضائع نہیں کرے گا اور فرماتے تھے الحمد للہ الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو دنیا داروں اور امیروں سے ابتدا اور انتہا میں محفوظ رکھا ہے ابتدا میں تو یہ حالت تھی کہ امیر لوگ سینکڑوں روپیہ خرچ کرتے کہ ایک بار میرا منہ دیکھیں لیکن میں ہرگز ہرگز ان کو اجازت نہ دیتا تھا کہ میرے مکان کے پاس سے گذریں دور دور سے چلے جاتے اس کے پیچھے سنت کی تابعداری کے شوق کی آگ نے میرے سینے میں شعلہ مارا پس پھر تو تمام لوگ دشمن بن گئے اور انہوں نے مخالفت کا جھنڈا اٹھایا الحمدللہ یہ بھی اللہ عزوجل کی تربیت تھی کہ آخر عمر میں اسی طرح اُس نے مجھ کو دنیا داروں سے بچا لیا ورنہ میری اولاد تو بسبب توجہ امیروں اور حاکموں کے ان کی صحبت اور مجالست اختیار کر لیتے اور دین سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے اور اس کی نعمت اور عمدہ تربیت ہے ۔آپ کے ملک میں سب لوگ کیا خاص اور کیا عام شرک اور بدعتوں اور رسموں میں مبتلا تھے اور عالم اور مشائخ اسی کو دین سمجھتے تھے پھر بیچارے عامیوں کا کیا ذکر ہے آپ کو غیب سے کبھی الہام کے ساتھ اور کبھی خواب میں ان کاموں سے روکا جاتا اور کتاب و سنت کی ترغیب دی جاتی آپ حیران ہوتے کہ اس ولایت میں کتاب و سنت کے علم کا نام ونشان تک نہیں ہے اور نہ کتاب و سنت کا اسباب موجود ہے کس طرح مجھ سے یہ امر انجام پذیر ہوگا جب یہ خیال کرتے توغیب سے تاکیدًا آیت
سَنُیَسِّرُکَ لِلْیُسْریٰ
کا مضمون الہام ہوتا ناچار سنت کی تابعداری اور شرک اور رسموں اور بدعتوں کا رد کرنا اختیار کیا اور کتاب و سنت کے علم کی طرف توجہ کی چونکہ اللہ عزوجل آپ کی تربیت کرنے والا تھا عرب اور عجم سے حدیث اور تفسیر کی کتابیں بہم پہنچ گئیں اور آپ نے غیبی تعلیم اور تیزی فہم اور اپنے فکر سلیم کے ساتھ محدثین کا عمدہ طریقہ اختیار کیا جو سب طریقوں سے بہتر طریق ہے اور جن مسئلوں اور جگہوں میں شبہ پڑا فاضل اجل عالم بے بدل جامع انواع تقی حامی شریعت غراوحید عصر فرید دہر شیخ حبیب اللہ قندھاری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف جو بلاد افغانستان میں ہر علم میں بے نظیر اور علوم دینیہ وغیرہ میں مجتہد وقت اور امام زمان اور زہد اور تقویٰ میں بے مثل تھے اور ان کےزہد اور تقویٰ کے بیان کے لیے ایک بڑا دفتر درکار ہے سفر فرمایا کچھ مدت اُن سے فائدہ اٹھا کر اپنے وطن کی طرف لوٹ آئے اور آپ کی یہی حالت رہی کہ جو مسئلہ مشکل پیش آتا اُن سے جا کر استفسار کر لیتے اور شیخ مذکور محققین کی طرز پر جواب دیتے اس ولایت میں شیخ مذکور کے سوا کوئی یہ طریقہ نہ رکھتا تھا اور وہ بھی بُرے عالموں اور وقت کے حاکموں کے خوف سے خاموش اور ساکت رہتے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اس سیدھے راستے کی طرف دعوت نہ کر سکتے دوسری بار آپ نے پھر قندھار کا سفر کیا اور اپنے شیخ کے پاس بعض مشکلات کو حل کرنے کےلئے حاضر ہوئے شیخ مذکور آپ کے حال پر تعجب کرتے اور عام مجلس میں جس میں شہر کے عالم موجود ہوتے فرماتے دین کے مسئلوں کو جیسے یہ شخص سمجھتا ہے میں بھی نہیں سمجھتا ۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭