اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ حسن اخلاق اور اسلام میں آزادیٔ ضمیر و مذہب کی تعلیم سے پھیلاہے (حصہ دوم)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
(گذشتہ سے پیوستہ)پھر ایک یہودی غلام کو مجبور نہیں کیا کہ تم غلام ہو میرے قابو میں ہو اس لئے جو مَیں کہتا ہوں کرو، یہاں تک کہ اس کی ایسی بیماری کی حالت ہوئی جب دیکھا کہ اس کی حالت خطرے میں ہے تو اس کے انجام بخیر کی فکرہوئی۔ یہ فکر تھی کہ وہ اس حالت میں دنیا سے نہ جائے جبکہ خدا کی آخری شریعت کی تصدیق نہ کر رہا ہو بلکہ ایسی حالت میں جائے جب تصدیق کر رہا ہو۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کی بخشش کے سامان ہوں۔ تب عیادت کے لئے گئے اور اسے بڑے پیار سے کہا کہ اسلام قبول کر لے۔
چنانچہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ کا ایک خادم یہودی تھا جو بیمار ہو گیا۔ رسول کریمﷺ اس کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے اور فرمایا تو اسلام قبول کر لے۔ ایک اور روایت میں ہے اس نے اپنے بڑوں کی طرف دیکھا لیکن بہرحال اس نے اجازت ملنے پر یا خود ہی خیال آنے پر اسلام قبول کر لیا۔ تو یہ جو اسلام اس نے قبول کیا یہ یقیناً اس پیار کے سلوک اور آزادی کااثر تھاجو اس لڑکے پر آپ کی غلامی کی وجہ سے تھا کہ یقیناً یہ سچا مذہب ہے اس لئے اس کو قبول کرنے میں بچت ہے۔ کیونکہ ہو نہیں سکتا کہ یہ سراپا شفقت ورحمت میری برائی کا سوچے۔ آپؐ یقینا ًبرحق ہیں اور ہمیشہ دوسرے کو بہترین بات ہی کی طرف بلاتے ہیں، بہترین کام کی طرف ہی بلاتے ہیں، اسی کی تلقین کرتے ہیں۔ پس یہ آزادی ہے جو آپ نے قائم کی۔ دنیا میں کبھی اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی۔
آپﷺ دعویٰ نبوت سے پہلے بھی آزادی ضمیر اور آزادی مذہب اور زندگی کی آزادی پسند فرماتے تھے اور غلامی کو ناپسند فرماتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شادی کے بعد اپنا مال اور غلام آپؐ کو دے دئیے تو آپ نے حضرت خدیجہ کو فرمایا کہ اگر یہ سب چیزیں مجھے دے رہی ہو تو پھر یہ میرے تصرف میں ہوں گے اور جو مَیں چاہوں گا کروں گا۔ انہوں نے عرض کی اسی لئے مَیں دے رہی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ مَیں غلاموں کو بھی آزاد کردوں گا۔ انہوں نے عرض کی آپ جو چاہیں کریں مَیں نے آپ کو دے دیا، میراا ب کوئی تصرف نہیں ہے، یہ مال آپ کا ہے۔ چنانچہ آپؐ نے اسی وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلاموں کوبلایا اور فرمایا کہ تم سب لوگ آج سے آزاد ہو اور مال کا اکثر حصہ بھی غرباء میں تقسیم کر دیا۔
جو غلام آپ نے آزاد کئے ان میں ایک غلام زید نامی بھی تھے وہ دوسرے غلاموں سے لگتاہے زیادہ ہوشیار تھے، ذہین تھے۔ انہوں نے اس بات کو سمجھ لیا کہ یہ جو مجھے آزادی ملی ہے یہ آزادی تو اب مل گئی، غلامی کی جو مہر لگی ہوئی ہے وہ اب ختم ہو گئی لیکن میری بہتری اسی میں ہے کہ مَیں آپﷺ کی غلامی میں ہی ہمیشہ رہوں۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپؐ نے مجھے آزاد کر دیا ہے لیکن میں آزاد نہیں ہوتا، مَیں تو آپ کے ساتھ ہی غلام بن کے رہوں گا۔ چنانچہ آپ آنحضورﷺ کے پاس ہی رہے اور یہ دونوں طرف سے محبت کا، پیار کا تعلق بڑھتا چلا گیا۔ زید ایک مالدار خاندان کے آدمی تھے، اچھے کھاتے پیتے گھر کے آدمی تھے، ڈاکوئوں نے ان کو اغوا کر لیا تھا اور پھر ان کو بیچتے رہے اور بکتے بکاتے وہ یہاں تک پہنچے تھے تو ان کے جو والدین تھے، رشتہ دار عزیز بھی تلاش میں تھے۔ آخر ان کو پتہ لگا کہ یہ لڑکا مکّہ میں ہے تو مکہ آ گئے او رپھر جب پتہ لگا کہ آنحضرتﷺ کے پاس ہیں تو آپ کی مجلس میں پہنچے اور وہاں جا کے عرض کی کہ آپ جتنا مال چاہیں ہم سے لے لیں اور ہمارے بیٹے کو آزاد کر دیں، اس کی ماں کا رو رو کے برا حال ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ مَیں تو اس کو پہلے ہی آزاد کر چکاہوں۔ یہ آزاد ہے۔ جاناچاہتاہے توچلا جائے اور کسی پیسے کی مجھے ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا بیٹے چلو۔ بیٹے نے جوا ب دیا کہ آپ سے مل لیاہوں اتنا ہی کافی ہے۔ کبھی موقع ملا توماں سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔ لیکن اب مَیں آپ کے ساتھ نہیں جا سکتا۔ مَیں تو اب آنحضرتﷺ کا غلام ہوچکاہوں آپ سے جدا ہونے کا مجھے سوال نہیں۔ ماں باپ سے زیادہ محبت اب مجھے آپﷺ سے ہے۔ زید کے باپ اور چچا وغیرہ نے بڑا زور دیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ زید کی اس محبت کو دیکھ کر آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ زید آزاد تو پہلے ہی تھا مگر آج سے یہ میرا بیٹا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر پھر زید کے باپ اور چچا وہاں سے اپنے وطن واپس چلے گئے اور پھر زید ہمیشہ وہیں رہے۔
( ملخص ازدیباچہ تفسیر القرآن صفحہ112)
تو نبوت کے بعد تو آپؐ کے ان آزادی کے معیاروں کو چار چاند لگ گئے تھے۔ اب تو آپ کی نیک فطرت کے ساتھ آپ پر اُترنے والی شریعت کا بھی حکم تھا کہ غلاموں کو ان کے حقوق دو۔ اگر نہیں دے سکتے تو آزاد کر دو۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی اپنے غلام کو مار رہے تھے تو آ نحضرتﷺ نے دیکھا اور بڑے غصے کا اظہار فرمایا۔ اس پر ان صحابی نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔ کہا کہ میں ان کو آزاد کرتا ہوں۔ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا تم نہ آزاد کرتے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آتے۔ تو اب دیکھیں یہ ہے آزادی۔
پھر دوسرے مذہب کے لوگوں کیلئے اپنی اظہار رائے کا حق اور آزادی کی بھی ایک مثال دیکھیں۔ اپنی حکومت میں جبکہ آپ کی حکومت مدینے میں قائم ہو چکی تھی اس وقت اس آزادی کا نمونہ ملتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کرنے لگے۔ ایک مسلمان تھا اور دوسرا یہودی۔ مسلمان نے کہا اس ذات کی قسم جس نے محمدﷺ کو تمام جہانوں پر منتخب کر کے فضیلت عطا کی۔ اس پر یہودی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے اور چن لیا۔ اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو تھپڑ مار دیا۔ یہودی شکایت لے کر آنحضرتﷺ کے پاس حاضر ہوا جس پر آنحضرتﷺ نے مسلمان سے تفصیل پوچھی اور پھر فرمایا: لَا تُخَیِّرُوْنِی عَلٰی مُوْسٰیکہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو۔
(بخاری کتاب الخصومات باب ما یذکر فی الأشخاص والخصومۃ بین المسلم والیھود)
تو یہ تھا آپ کا معیار آزادی، آزادی مذہب اور ضمیر، کہ اپنی حکومت ہے، مدینہ ہجرت کے بعد آپ نے مدینہ کے قبائل اور یہودیوں سے امن وامان کی فضا قائم رکھنے کیلئے ایک معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے مسلمانوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے یا مسلمانوں کے ساتھ جو لوگ مل گئے تھے، وہ مسلمان نہیں بھی ہوئے تھے ان کی وجہ سے حکومت آپﷺ کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن اس حکومت کا یہ مطلب نہیں تھا کہ دوسری رعایا، رعایا کے دوسرے لوگوں کے، ان کے جذبات کا خیال نہ رکھا جائے۔ قرآن کریم کی اس گواہی کے باوجود کہ آپؐ تمام رسولوں سے افضل ہیں، آپؐ نے یہ گوارا نہ کیا کہ انبیاء کے مقابلہ کی وجہ سے فضا کو مکدر کیا جائے۔ آپؐ نے اس یہودی کی بات سن کر مسلمان کی ہی سرزنش کی کہ تم لوگ اپنی لڑائیوں میں انبیاء کو نہ لایا کرو۔ ٹھیک ہے تمہارے نزدیک مَیں تمام رسولوں سے افضل ہوں۔ اللہ تعالیٰ بھی اس کی گواہی دے رہا ہے لیکن ہماری حکومت میں ایک شخص کی دلآزاری اس لئے نہیں ہونی چاہئے کہ اس کے نبی کو کسی نے کچھ کہا ہے۔ اس کی مَیں اجازت نہیں دے سکتا۔ میرا احترام کرنے کیلئے تمہیں دوسرے انبیاء کا بھی احترام کرنا ہو گا۔
تو یہ تھے آپؐ کے انصاف اور آزادی اظہار کے معیار جو اپنوں غیروں سب کا خیال رکھنے کیلئے آپ نے قائم فرمائے تھے۔ بلکہ بعض اوقات غیروں کے جذبات کا زیادہ خیال رکھا جاتا تھا۔
(باقی آئندہ)