ہمارے نبیﷺ اظہار سچائی کے لئے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے
غرض یہ تمام بگاڑ کہ ان مذاہب میں پیدا ہوگئے جن میں سے بعض ذکر کے بھی قابل نہیں اور جو وہ انسانی پاکیزگی کے بھی مخالف ہیں یہ تمام علامتیں ضرورتِ اسلام کے لئے تھیں۔ ایک عقلمند کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اسلام سے کچھ دن پہلے تمام مذاہب بگڑ چکے تھے اور روحانیت کھو چکے تھے۔ پس ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے۔ اس فخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیاکو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی۔ جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اُتار کر توحید کا جامہ نہ پہن لیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے اُن سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی۔ یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرتﷺکے نصیب نہیں ہوئی۔ یہی ایک بڑی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ہے کہ آپ ایک ایسے زمانہ میں مبعوث اور تشریف فرما ہوئے جبکہ زمانہ نہایت درجہ کی ظلمت میں پڑا ہوا تھا اور طبعاً ایک عظیم الشان مصلح کا خواستگار تھا۔ اور پھر آپ نے ایسے وقت میں دنیا سے انتقال فرمایاجبکہ لاکھوں انسان شرک اور بت پرستی کو چھوڑ کر توحید اور راہ راست اختیار کرچکے تھے۔ اور درحقیقت یہ کامل اصلاح آپ ہی سے مخصوص تھی کہ آپ نے ایک قوم وحشی سیرت اور بہائم خصلت کو انسانی عادات سکھلائے۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا۔ اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں سے با خدا انسان بنایا اور روحانیت کی کیفیت اُن میں پھونک دی اور سچے خدا کے ساتھ اُن کا تعلق پیدا کردیا۔ وہ خدا کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے اور چیونٹیوں کی طرح پیروں میں کچلے گئے مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ دیا۔ بلکہ ہر ایک مصیبت میں آگے قدم بڑھایا۔ پس بلا شبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے۔ بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قوتیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بار و بر نہ رہی۔ اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانہ کی تاخر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہوگئے۔ اور چونکہ آپؐ صفات الٰہیہ کے مظہر اتم تھے اس لئے آپ کی شریعت صفات جلالیہ و جمالیہ دونوں کی حامل تھی۔ اور آپ کے دو نام محمد او راحمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی غرض سے ہیں۔ اور آپ کی نبوت عامہ میں کوئی حصہ بخل کا نہیں بلکہ وہ ابتدا سے تمام دنیا کیلئے ہے۔
اور ا یک اور دلیل آپ کے ثبوت نبوت پر یہ ہے کہ تمام نبیوں کی کتابوں سے اور ایسا ہی قرآن شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم سے لے کر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزار برس رکھی ہے اور ہدایت اور گمراہی کے لئے ہزار ہزار سال کے دور مقرر کئے ہیں۔ یعنی ایک وہ دور ہے جس میں ہدایت کا غلبہ ہوتا ہے اور دوسرا وہ دور ہے جس میں ضلالت اور گمراہی کا غلبہ ہوتا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے بیان کیا خدا تعالیٰ کی کتابوں میں یہ دونوں دور ہزار ہزار برس پر تقسیم کئے گئے ہیں۔ اول دور ہدایت کے غلبہ کا تھا۔ اس میں بت پرستی کا نام و نشان نہ تھا۔ جب یہ ہزار سال ختم ہوا تب دوسرے دور میں جو ہزار سال کا تھا طرح طرح کی بت پرستیاں دنیا میں شروع ہوگئیں اور شرک کا بازار گرم ہوگیا اور ہر ایک ملک میں بت پرستی نے جگہ لے لی۔ پھر تیسرا دور جو ہزار سال کا تھا اُس میں توحید کی بنیاد ڈالی گئی اور جس قدر خدا نے چاہا دنیا میں توحید پھیل گئی۔ پھر ہزار چہارم کے دور میں ضلالت نمودار ہوئی۔ اور اسی ہزار چہارم میں سخت درجہ پربنی اسرائیل بگڑ گئے۔ اور عیسائی مذہب تخم ریزی کے ساتھ ہی خشک ہوگیا اور اُس کا پیدا ہونا اور مرنا گویا ایک ہی وقت میں ہوا۔ پھر ہزار پنجم کا دور آیا جوہدایت کا دور تھا۔ یہ وہ ہزار ہے جس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر توحید کو دوبارہ دنیا میں قائم کیا۔ پس آپؐ کے منجانب اللہ ہونے پر یہی ایک نہایت زبردست دلیل ہے کہ آپؐ کا ظہور اس ہزار کے اندر ہوا جو روز ازل سے ہدایت کے لئے مقرر تھا۔ اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں سے یہی نکلتا ہے اور اسی دلیل سے میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا بھی ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس تقسیم کی رو سے ہزار ششم ضلالت کا ہزار ہے اور وہ ہزار ہجرت کی تیسری صدی کے بعد شروع ہوتا ہے اور چودھویں صدی کے سر تک ختم ہوتا ہے۔ اس ششم ہزار کے لوگوں کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج رکھا ہے اور ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں۔ چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزماں اس کے سر پر پیدا ہو۔ اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظل کے ہو کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے۔ اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجدّد صدی بھی ہے اور مجدّد الف آخر بھی۔ اس بات میں نصاریٰ اور یہود کو بھی اختلاف نہیں کہ آدم سے یہ زمانہ ساتواں ہزار ہے۔ اورخدا نے جو سورۂ والعصر کے اعداد سے تاریخ آدم میرے پر ظاہر کی اُس سے بھی یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ساتواں ہزار ہی ثابت ہوتا ہے۔ اور نبیوں کا اس پر اتفاق تھا کہ مسیح موعود ساتویں ہزار کے سر پر ظاہر ہوگا اور چھٹے ہزار کے اخیر میں پیدا ہوگا کیونکہ وہ سب سے آخر ہے جیسا کہ آدم سب سے اوّل تھا۔ اور آدم چھٹے دن جمعہ کی اخیر ساعت میں پیدا ہوا اور چونکہ خدا کا ایک دن دنیا کے ہزار سال کے برابر ہے اس مشابہت سے خدا نے مسیح موعود کو ششم ہزار کے اخیر میں پیدا کیا۔ گویا وہ بھی دن کی آخری گھڑی ہے۔ اور چونکہ اوّل اور آخر میں ایک نسبت ہوتی ہے اس لئے مسیح موعود کو خدا نے آدم کے رنگ پر پیدا کیا۔ آدم جوڑا پیدا ہوا تھا اور بروز جمعہ پیدا ہوا تھا۔ اسی طرح یہ عاجز بھی جو مسیح موعود ہے جوڑا پیدا ہوا اور بروز جمعہ پیدا ہوا۔ اور اس طرح پیدائش تھی کہ پہلے ایک لڑکی پیدا ہوئی پھر اس کے عقب میں یہ عاجز پیدا ہوا۔ اس طرح کی پیدائش ختم ولایت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ غرض یہ تمام نبیوں کی متفق علیہ تعلیم ہے کہ مسیح موعود ہزار ہفتم کے سر پر آئے گا۔ اسی وجہ سے گزشتہ سالوں میں عیسائی صاحبوں میں بہت شور اٹھا تھا اور امریکہ میں اس مضمون پر کئی رسالے شائع ہوئے تھے کہ مسیح موعود نے اسی زمانہ میں ظاہر ہونا تھا کیا وجہ کہ وہ ظاہر نہ ہوا۔ بعض نے ماتمی رنگ میں یہ جو اب دیا تھا کہ اب وقت گزر گیا۔ کلیسیا کو ہی اس کے قائم مقام سمجھ لو۔ القصہ میری سچائی پر یہ ایک دلیل ہے کہ میں نبیوں کے مقرر کردہ ہزار میں ظاہر ہوا ہوں۔ اور اگر اور کوئی بھی دلیل نہ ہوتی تو یہی ایک دلیل روشن تھی جو طالب حق کے لئے کافی تھی کیونکہ اگر اس کو رد کردیا جائے تو خدا تعالیٰ کی تمام کتابیں باطل ہوتی ہیں۔ جن کو الٰہی کتابوں کا علم ہے اور جو ان میں غور کرتے ہیں اُن کے لئے یہ ایک ایسی دلیل ہے جیسا کہ ایک روز روشن۔ اس دلیل کے رد کرنے سے تمام نبوتیں رد ہوتی ہیں۔ اور تمام حساب درہم برہم ہو جاتا ہے اور الٰہی تقسیم کا شیرازہ بگڑ جاتا ہے۔
(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ206تا 209)