الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت بھائی محمود احمد صاحبؓ
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 8؍مئی 2013ء میں حضرت بھائی محمود احمد صاحبؓ کی سیرت کے بارے میں اُن کی بیٹی مکرمہ سلیمہ خاتون صا حبہ کے قلم سے مضمون شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ عا جزہ کے ابا جان حضرت بھائی محمود احمد صاحبؓ کا آبائی وطن ڈنگہ ضلع گجرات تھا۔ ڈنگہ کا اصل نام دین گاہ تھا۔ انگریزوں کے وقت DINGAHمیں لکھا جانے والا یہ لفظ ڈنگہ میں بدل گیا۔
ابا جان کے دادا، والد اور بڑے بھائی حافظ قرآن تھے۔ پھر آپؓ کے بیٹے ڈاکٹرحافظ مسعود احمد صاحب (سابق نائب امیر جماعت احمدیہ سر گودھا)بھی حافظ قرآن تھے۔
ہمارے دادا جان کی حافظ قرآن ہو نے کی و جہ سے نیز بے شمار زرعی اور سکنی اراضی کا مالک ہو نے کے سبب بےحد عزت وتکریم تھی۔ ابا جان ابھی کم سن تھے جب والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ساڑھے پانچ برس کی عمر میں آپ نے قرآن پاک نا ظرہ مکمل کر لیا تھا اور روزانہ پانچوں نمازیں مسجد میں جاکر ادا کر تے۔ صبح نصف پارے کی تلاوت اتنی عمدگی سے کرتے کہ بہت سے لوگ آپ کی تلاوت سننے کے شوق میں گلی میں آجاتے جن میں امام مسجد بھی شامل تھے۔ وہ اباجان سے بہت محبت کرتے اور اکثر کہتے کاش تمہاری ماں زندہ ہو تی تو وہ تم پر سے صدقے واری جاتی۔ پھر وہ خود کہتے میں تم پر سے واری ہوجائوں۔ چنانچہ اگر کبھی بارش ہوتی تو وہ چھتری لے کر اباجان کو لینے چلے آتے۔ انہیں علم تھا کہ موسم خواہ کیسا بھی ہو، آپ مسجد ضرور آئیں گے۔ پھر انہوں نے نظرِبد سے بچانے کے لیے ایک تعویذ آپ کے گلے میں ڈال دیا۔ آپ کو اس تعویذسے بے انتہا الجھن ہوتی مگر مارے مروّت کے پہن لیا۔ لیکن ایک روز ا تار کر کپڑوں کے بکس میں چھپادیا اور گردن پر کپڑالپیٹے رکھتے تاکہ امام صاحب کو علم نہ ہو۔
کچھ عرصے بعد اباجان نے سنا کہ وہ امام مہدی جن کے آنے کی خبر مقدّس کتابوں میں مو جود ہے اُن کا نزول قادیان میں ہو چکا ہے تو آپ قادیان جانے کے لیے ازحد بے چین ہوگئے۔ پھر صرف آٹھ سال کی عمر میں ایک وکیل صاحب کی وساطت سے قادیان پہنچ گئے۔ وہاں بعض بزرگوں نے مشورہ دیا کہ پہلے استخارہ کرو جب انشراح صدر ہو جائے تو بیعت کرنا۔ چنانچہ آپ واپس لَو ٹ آئے۔ پھر 1902ء میں دوبارہ قادیان گئے اور بیعت کر لی اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔
ابا جان کو خدا تعالیٰ پر بے پناہ اعتماد تھا۔ خداتعالیٰ، اُس کے رسول اور پیاروں کی محبت آپ کا نصب العین تھا۔ دراصل محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں، یہی ان کامسلک تھا۔
پاکستان بننے تک آپ باقاعدگی سے ہر سال ایک ماہ دعوت الی اللہ کے لیے وقف کیا کرتے تھے۔ کلینک بند ہوجانے سے مالی مشکلات بھی ہوتیں اور آپ کے سفر وغیرہ کے اخراجات الگ سے ہوتے۔ امی جان آپ کے کھانے کا فکر کرتیں تو اباجان کہتے بھلی لوگ فکر کیوں کر تی ہو اُوپر والا تو بِن مانگے دیے جاتا ہے۔ اور واقعی اُوپر والا اس خوش اسلوبی سے ہمارے کام نپٹاتاکہ ہم حیران رہ جاتے۔
مہینے میں دوبار دارالشیوخ کے یتامیٰ کے لیے کھانا پکوانا بھی آپ کا معمول تھا۔ ہر ماہ کی پہلی کو پلائو پکتا اور 16تاریخ کو آلوگوشت، روٹیاں اور زردہ۔ ایک دفعہ بچے کھانا کھانے آئے تو ایک چار سالہ یتیم بچہ سردی کی شدّت سے کا نپ رہا تھا۔ اباجان نے اسے گود میں اٹھالیا، اندر لاکر اُسے اپنے چھوٹے بیٹے ودود احمد کا سویٹر، ٹوپی اور موزے پہنادیے۔
قادیان میں ایک ہوزری کا افتتاح ہوا تو اس میں بےحد نفیس اُون کوڑیوں کے بھا ئو دستیاب تھی۔ اباجان ایک بہت بڑا گٹھا اون کا اٹھا لائے۔ پھر اپنی بیٹیوں اور رشتہ دار لڑکیوں کو اکٹھا کر کے اپیل کی کہ وہ رضا کا رانہ طور پر سو یٹربُن دیں۔ لڑکیاں خوش ہو کر ایک ایک سویٹر کی اون لے گئیں اور دو دن میں دن رات کی محنت سے کئی سو یٹر تیار ہو گئے جو اباجان نے جلسہ سالانہ سے ایک روز قبل یتیم بچوں کو گھر بلواکر پہنائے۔ اُس وقت ابا جان کی اور بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔
ابا جان کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہم جماعت ہو نے کا شرف حاصل تھا۔ ایک بار حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اباجان سے فرمایا آپ کر ایہ کے مکان میں رہتے ہیں اپنا ذاتی مکان بنوالیں۔ ابا جان نے فوراً تعمیل کی اور محلہ دارالر حمت میں دو کنال کا پلاٹ خرید لیا۔ پھر حضورؓ سے بنیاد رکھنے کی استدعا کی جو آپؓ نے منظور فرمالی اور اگلے روز صبح ابھی ملگجااندھیر اتھا کہ حضور پیدل دارالرحمت تشریف لے آئے۔ حضور کو پیدل آتے دیکھ کر ہر راہ گیر ساتھ ہو تا گیا۔ ہمارے گھر پہنچنے تک ایک جم غفیر اکٹھاہو گیا۔ حضوؓ ر نے اپنے مبارک ہاتھوں سے دو اینٹیں بنیا د میں رکھ کر ان پر گار ا ڈالا اور دو اینٹیں اَور رکھ کر لمبی دعا فرمائی۔ پھر فرمایا: پلا ٹ کا فی بڑاہے پھلدار پو دے ضرور لگوائیں۔ ہمارے ہاں ایک دو بھینسیں ضرور ہوا کرتی تھیں جن کے گوبر کی بے حد عمدہ کھا دتیار کی جاتی۔
ایک دفعہ اباجان نے ہاتھ دھونے کے لیے صابن لگایا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ آپ ویسے ہی اُٹھ کر چلے گئے۔ دروازہ کھولا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو کھڑے پایا۔ ان کے ہمراہ چار صاحبزادگان کے علاوہ اَور بھی افرادتھے۔ خیر حضورؓ اندر تشریف لا کر بیٹھ گئے۔ سب اقربا ء کو فوری بلوا لیا گیا۔ امی جان نے فو راََ بریانی تیار کی کیو نکہ حضور کو ہمارے گھر کی بر یا نی بے حد پسند تھی۔ اگرچہ مرغ کا قورمہ، رائتہ اور سلاد وغیرہ بھی تھا تاہم حضورؓ نے فرمایا:آم کا اچا ر ہے تو وہ بھی لا ئیں۔ حضورؓ نے فرمایا کہ کھانا بے حد لذیذہے۔ کھانے کے بعد حضور نے ہمارا سارا گھر پھر کر دیکھا۔ ہر کمرے میں گئے حتیٰ کہ چھت پر بھی گئے جب درختوں کی جانب آئے تو فرما یا: یہ اتنے سر سبزاور قد آور کس وجہ سے ہیں؟ اباجان نے اپنی کھاد کا قصہ سنایا تو حضورؓ بہت محظوظ ہو ئے اور فر مایا میں نے محلہ دارالانوارمیں اپنے لیے جو کو ٹھی تعمیر کروائی ہے اس میں پھل دار پو دے لگوائے ہیں لیکن وہ پھل پھول نہیں رہے۔ پھر ہنس کر فر مایا: آپ اپنی فیکٹری کی کھاد ہمیں ضرور بھجوائیں۔ چنانچہ اباجان نے اسی روز بڑے بڑے بورے منگواکر کھاد بھروا کے دارالانوار بھجوادیے پھر کچھ عرصہ بعدحضورؓ کی جانب سے لکھی گئی چٹھی پرائیویٹ سیکرٹری نے بھجوائی جس میں لکھا تھا: بھائی جی! آپ کی فیکٹری کی کھاد بے حد عمدہ ہے اور مذاق میں لکھا کہ اپنی فیکٹری کو تو سیع دیں۔
ایک دفعہ محکمہ بجلی کے ایک S.D.O صاحب کاتبادلہ قادیان میں ہو گیا۔ وہ غیرازجماعت تھے انہیں رہنے کے لیے ایک کمرہ تک دستیاب نہ تھا۔ وہ ریلوے پلیٹ فارم پر تھے کہ اسی ٹینشن نے انہیں بخار میں مبتلاکر دیا۔ سٹیشن ماسٹر ہندوتھا۔ وہ انہیں یہ کہتے ہوئے اباجان کے پاس لے آیا کہ چل تجھے پرمیشر کے پاس لیے چلتا ہوں۔ ابا جان نے اسے بہت اچھی طرح دیکھا۔ دوا دی۔ وہ آپ کے بر تا ئو سے بے حد متا ثر ہوا اور اپنی داستانِ غم کہہ سنا ئی۔ آپ ہنس پڑے اور کہا اتنی معمولی بات پر بخا ر چڑھا لیا۔ میر ے گھر میں کا فی کمرے ہیں ایک تم بھی لے لو۔ وہ خوشی خوشی گھر آیا۔ امی جان اباجان کی سادہ لو حی سے پر یشان ہو گئیں اور کہا ذرا سوچ سمجھ کر وعدہ کیا کریں۔ اب اگر وعدہ کر لیا ہے تو اوپر کا پور شن دے دیں۔ اوپر تین کمرے، کچن اور ٹائلٹ بھی تھا۔ وہ شخص اس فیا ضی پر اتنا ممنون ہو ا کہ اباجان کے قدموں پر اپنا سر رکھ دیا۔ آپ خفا ہوئے اور کہا اوئے نیک بخت کیا تجھے معلوم نہیں انسان اپنے خدا کے علاوہ کسی اَور کے آگے نہیں جھکتا۔ اس کی بیٹی گیارہ سال کی تھی جس نےقرآن مجید نہیں پڑھا تھا۔ امی جان نے قاعدہ یسرناالقرآن منگواکرا سے چھ ماہ میں ناظرہ مکمل کروادیا۔ اُس دن مارے حیرت اور خوشی کے اس لڑ کی کے والدین کی حالت ناقابلِ بیان تھی۔ وہ امی جان کے لیے طلائی زیورلائے جس پر اباجان خفا ہو ئے اور کہا کیا تم ہمیں معاوضہ دے رہے ہو۔ پھر اُس نے اباجان کی منت سماجت کر کے مٹھائی بانٹنے، یتامیٰ کے لیے کپڑے بنوانے اور چراغاں کرنے کی اجازت لےلی۔ اور بہت سی نظمیں اباجان کی تعریف میں لکھواکر لایا۔
ایک بار جب اباجان ایک ماہ کے لیے قادیان سے باہر دعوت الیٰ اللہ کے لیے گئے تو امی جان اور میرا چھوٹا بھائی ودوداحمد بھی ساتھ تھے۔ اباجان مریض دیکھتے، انہیں مفت دوائیاں دیتے میرا چھوٹا بھائی پاس بیٹھا یہ رونق دیکھا کرتا۔ ایک روز ایک آدمی نے آکر کہا کہ ڈاکٹرجی! آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہو اور آپ کی باتیں بھی بہت اچھی ہیں اور مَیں ضرور آپ کا مذہب اختیار کر لیتا اگر آپ کے مُرشد بھی میرے مُرشد کی طرح مُردے کو زندہ کرسکتے۔ حسنِ اتفاق سے سامنے قبرستان تھا۔ معصوم سا کم عمر ودوداحمد جو پا س بیٹھا بڑے غور سے سب سن رہا تھا، کہنے لگا کہ اگر تیرا پیرمُردوں کو زندہ کردیتا ہے تو سامنے اتنی قبریں کیوں ہیں؟وہ شخص شرمندہ اور لاجواب ہوگیا اور اباجان بے انتہا خوش کہ ان کے بیٹے نے کتنی عمدہ بات کی ہے۔
قادیان کے نواحی دیہات میں اباجان کوا کثر مریض دیکھنے جانا پڑتا ایک بار تانگہ کروا کے مریض دیکھنے گئے۔ واپسی پر رات بہت بھیگ گئی۔ گائوں والوں کے بےحد اصرار کے باوجود آپ وہاں رات گزارنے کی بجائے واپس روانہ ہوگئے۔ آدھا راستہ طے ہوا تھا کہ تانگے کی کمانی ٹوٹ گئی۔ اتنے میں چار گھڑ سواروں نے ان معصوم مسافروں کو گھیرے میں لے لیا۔ اباجان نے اپنی اچکن اتار کران کے حوالے کردی ڈاکو نے ایک پاکٹ واچ، ایک قلم اور چالیس روپے نکال لیے اور واپس جانے کی ٹھانی۔ اباجان نے کہا: ارے بھلے مانس تُونے جو کہا میں نے مان لیا اب تُو بھی میرا ایک کہا مان ہمیں کسی گائوں یا گھر پہنچانے کا بندوبست کر دے۔ اباجان کی آواز سن کر ڈاکونے بیٹری نکال کر آن کی تو ہاتھ جوڑکر بولا: پرمیشر جی! مجھ سے بڑی غلطی ہو گئی، شما کر دیں۔ پھر وہ اباجان اور تانگہ بان کو گھر چھوڑ گیا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ کے بعد اباجان مریض دیکھنے میں مصروف تھے تو ایک جاگیردار آیا۔ ساتھ دوگن مین تھے۔ اباجان اسے دیکھنے لگے تو وہ سرگوشی میں بولا: مَیں میا سنگھ ڈاکو ہوں مَیں صرف آپ کے درشن کو آیا ہوں، بیمار نہیں ہوں اور کئی سالوں سے آپ کے پاس آرہا ہوں جبھی اُس روزآپ کو پہچان لیا تھا۔ پھر وہ کچھ نوٹ اباجان کی جیب میں ڈالنے لگا تو آپ نے واپس کردیے اور کہا شکریہ یہ میرے لیے جائز نہیں ہیں۔ وہ ہنس کر کہنے لگا: پرمیشر! دوبارہ آیا توایسے لائوں گا جو میرے پرمیشرجی کے لیے جائز ہوں۔
ایک بار اباجان گھوڑے سے گرگئے اور بہت شدید چوٹیں آئیں۔ حضرت اماں جانؓ نے سناتو حال پوچھنے ہمارے ہاں آئیں اورواپس جاکر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کو بھی بھجوایا۔
پاکستان بننے کے بعد آپ نے رتن باغ کے کیمپ میں چند دن گزارے، پھر سرگودھا آگئے۔ سرگودھا میں ہندوئوں کی متر وکہ جائیداد کی الاٹمنٹ کب کی ہو چکی تھی۔ سو آپ محترم را جہ محمود امجد خاں صاحب جنجوعہ کی کو ٹھی میں رہا ئش پذیر ہوگئے۔ حسن اتفاق سے ڈیڑھ کنال کے رقبہ پر بناایک تین منزلہ گھر جس میں 20کے قریب کمرے تھے خالی ہوا۔ اس کے حصول کے لیے قریباً ایک ہزار درخواستیں آچکی تھیں۔ جج صاحب فیصلہ نہ کرسکے تو پھر قرعہ اندازی کروائی جس میں اباجان کا نام نکل آیا۔ اس وقت اس مکان میں کوئی بھی چیز نہ تھی۔ راجہ صاحب نے ہی چارپائیاں، چھ بستر اور ضرورت کے برتن بھجوا دیے۔ یہ نومبر1947ء تھا۔ اپریل1948ء میں ایک ہندو دوست نے اباجان کے حالات سے آگاہی پاکر ہمارے قادیان والے گھر کا کلیم منظور کر وایا اور واہگہ بارڈر پر کچھ نقدی اور وہ کلیم اباجان کو دے گیا۔ مگر جب حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے قادیان کے مکانوں کا کلیم(claim)کرنے سے منع کردیا تو اباجان نے وہ کلیم ضائع کر دیا۔ خداتعالیٰ نے یہ قربانی اس طرح قبول کی کہ اُسی خالی گھر میں 1970ء میں دو عدد کاریں، تین فریج، دو ٹی وی، ایئرکنڈیشنر، عمدہ فرنیچر اور ضروریات زندگی کی ہر چیز موجود تھی۔
٭…٭…٭