خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍ جون 2021ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
غزوۂ تبوک کے موقعے پر جب حضورﷺ نے چندے کی تحریک فرمائی تو حضرت عمرؓ نے سوچا کہ آج مَیں ابوبکر پر سبقت لے جاسکتاہوں چنانچہ آپؓ اپنا نصف مال لے آئے۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ اپنا سارا مال لے آئے اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کردیا
جنگِ یمامہ میں جب ستّر حفاظ شہید ہوئے تو حضرت عمرؓ نے ہی حضرت ابوبکرؓ کو قرآن ایک جگہ جمع کرنے کا مشورہ دیا
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍ جون 2021ء بمطابق 11؍احسان1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 11؍جون 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت صہیب احمد صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
گذشتہ خطبے میں حضرت عمرؓ کے حوالے سےصلح حدیبیہ کا ذکرہوا تھا۔ صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتےہوئے جب قریش کے حلیف قبیلہ بنوبکرنے مسلمانوں کے حلیف قبیلہ بنوخزاعہ پرحملہ کیااور قریش نے بنوبکر کی مدد بھی کی تو ابوسفیان معاہدے کی تجدید کےلیے مدینہ آیا۔ ڈاکٹر علی بن سلابی لکھتے ہیں کہ اس موقعے پر رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباسؓ ابوسفیان کو لےکر رسول اللہﷺ کے پاس آئے۔ راستے میں حضرت عمرؓ نے ان دونوں کو رسولِ خداﷺ کےپاس جاتے ہوئے دیکھ لیا اور آپؓ بھی وہیں پہنچ گئے۔ حضرت عمرؓ نے حضورﷺ سے عرض کی کہ مجھے اجازت دیں کہ مَیں اللہ کے دشمن ابوسفیان کی گردن ماردوں۔ اس پر حضرت عباسؓ نےکہا کہ یارسول اللہﷺ! مَیں نے ابوسفیان کو پناہ دی ہے۔حضرت عمرؓ اور حضرت عباسؓ کے درمیان مکالمہ ہوا اور حضورِ اکرمﷺ نے فرمایا کہ اے عباس! ابوسفیان کو اپنے ساتھ لےجاؤ اور صبح لےکر آنا۔
شعبان 7؍ہجری میں رسول اللہﷺ نے حضرت عمرؓ کو ایک سریے میں تیس آدمیوں کے ساتھ قبیلہ ہواز ن کی شاخ تربہ کی طرف روانہ فرمایا۔
کتب سیرت وغیرہ کےمطابق سب سےپہلےغزوۂ خیبر میں رسول اللہﷺکےپرچم کا ذکر ملتا ہے۔ اس سےقبل صرف چھوٹے جھنڈے ہوتے تھے۔نبی کریمﷺ کا یہ عقاب نامی پرچم سیاہ رنگ کا تھا جو امّ المؤمنین حضرت عائشہؓ کی چادر سےبنایاگیاتھا۔جب حضورﷺخیبرمیں قیام فرما تھے تو دردِ شقیقہ کے باعث آپؐ باہرتشریف نہ لاسکے۔ ایسے میں آپؐ نے اپنا پرچم حضرت ابوبکرؓ پھر حضرت عمرؓ اورپھر حضرت علیؓ کو عطا فرمایا جن کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی۔
خیبر کی فتح کے بعد حاصل ہونے والے مالِ فَےمیں سے پانچواں حصّہ جو رسول اللہﷺ کےلیے تھا آپؐ نے مسلمانوں میں تقسیم فرمادیا۔یہود میں سے جو جلاوطنی کے لیے آمادہ ہوکر قلعوں سے اترآئے تھےآپؐ نے انہیں اس شرط پر ان کے اموال واپس کردیے کہ اس سے حاصل ہونے والا پھل اُن کےاور مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوگا۔ رسول اللہﷺ کےبعد حضرت ابوبکرؓ کے دَور میں بھی یہی نظام جاری رہا۔ حضرت عمرؓ کی خلافت میں جب آپؓ کو معلوم ہوا کہ حضورﷺ نے اپنی آخری بیماری میں فرمایا تھا کہ جزیرۂ عرب میں دو دِین اکٹھے نہ رہیں گےتوآپؓ نےایسے تمام یہود کو جن کے پاس رسول اللہﷺ کا کوئی عہدنہ تھا جلاوطن کردیا۔
جب حضرت حاطبؓ نے اہلِ مکّہ کو رسول اللہﷺ کے ارادے سے مطلع کرنے کےلیے ایک عورت کو خفیہ طورپر خط دے کربھیجا اور وہ عورت پکڑی گئی تو حضرت عمرؓ نے رسول اللہﷺ سےحضرت حاطبؓ کو قتل کردینے کی اجازت چاہی۔ لیکن رسول اللہﷺ نے ان کے غزوۂ بدر میں شریک ہونے کےباعث اس لغزش سے درگزر فرمایا۔
حنین سےواپسی پر حضرت عمرؓ نے نبی کریمﷺ سے اعتکاف بیٹھنے کی ایک ایسی نذر کےمتعلق پوچھا جو انہوں نے زمانۂ جاہلیت میں مانی تھی۔نبی کریمﷺ نے وہ نذر پوری کرنے کا ارشاد فرمایا۔
غزوۂ تبوک کے موقعے پر جب حضورﷺ نے چندے کی تحریک فرمائی تو حضرت عمرؓ نے سوچا کہ آج مَیں ابوبکرؓ پر سبقت لے جاسکتاہوں چنانچہ آپؓ اپنا نصف مال لے آئے۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ وہ زمانہ اسلام کےلیے انتہائی مصیبت کا دَور تھا لیکن حضرت ابوبکرؓ اپنا سارا مال لے آئے اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔
حضرت مسیح موعودؑ یہ واقعہ بیان کرکے فرماتے ہیں کہ ایک وہ ہیں کہ بیعت تو کرجاتے ہیں اوراقرار بھی کرجاتے ہیں کہ ہم دنیا پر دین کو مقدم رکھیں گے مگر مدد اور امداد کے موقعے پر اپنی جیبوں کو دبا کر پکڑے رکھتے ہیں۔ بھلا ایسی محبتِ دنیا سے کوئی دینی مقصد پاسکتا ہے۔
جب نبی کریمﷺ پر بیماری کا سخت حملہ ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ میرے پاس لکھنے کا سامان لاؤ تا مَیں تمہیں ایک ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم راہ سے بےراہ نہ ہوگے۔ حضرت سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کو رسول اللہﷺ کے فوت ہوجانے کاتو وہم بھی نہ تھاچنانچہ انہوں نے لوگوں کو کہا کہ ہمارے پاس کتاب اللہ موجود ہے جو ہمارے لیے کافی ہے، اس لیے حضورﷺ کو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں۔اس پر وہاں موجود لوگوں میں اختلاف ہوگیا اور شور اتنا بڑھا کہ رسول ِخداﷺنے فرمایا اٹھو اور میرے پاس سےچلے جاؤ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کو کتاب اللہ کی عزت کااس حالتِ بےقراری میں بھی اس قدر پاس تھا کہ عمرؓ کی بات سننے کےبعد کاغذ قلم دوات منگوانے کا ارادہ نہیں فرمایا۔ حضورﷺ اس واقعے کے بعدبھی چند روز زندہ رہے اور اس دن کچھ اوروصیتیں بھی کیں مگر اس خیال کا اعادہ نہیں فرمایا۔
جب رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی تو حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ فوت نہیں ہوئے اور جو شخص یہ کہےگا کہ محمدﷺ فوت ہوگئے تو مَیں اپنی تلوار سے اس کو قتل کردوں گا۔ اللہ ضرور آپؐ کو اٹھائے گا تا بعض آدمیوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے۔حضرت ابوبکرؓ جو حضورﷺ کی وفات کے وقت مدینے سے دومِیل کےفاصلے پر واقع مقام صنع میں تھے، حضرت عمرؓ کی اس تقریر کے دوران وہاں پہنچے۔ آپؓ نے آنحضرتﷺ کے چہرۂ مبارک سے کپڑا ہٹایا، آپؐ کو بوسہ دیا پھر باہر تشریف لائے اور لوگوں سے مخاطب ہوکر تقریر فرمائی۔ خداتعالیٰ کی حمدوثنا کےبعدحضرت ابوبکرؓ نے فرمایادیکھوجو محمدﷺ کو پوجتا تھا وہ سُن لے کہ محمدﷺ تو یقیناً فوت ہوگئے اور جو اللہ کو پوجتا ہے وہ یاد رکھے کہ اللہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔پھر حضرت ابوبکرؓ نے یہ آیت پڑھی کہ
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ۔۔۔الخ
یعنی محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں آپؐ سے پہلے سب رسول فوت ہوچکے ہیں تو پھر کیا اگر آپؐ فوت ہوجائیں یا قتل کیے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بَل پِھر جاؤ گے اور جو کوئی اپنی ایڑیوں کے بَل پِھر جائے تو وہ اللہ کو ہرگز نقصان نہ پہنچاسکےگا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو بدلہ دے گا۔
یہ آیتِ کریمہ سن کر لوگ اتنا روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا اللہ کی قسم! جوں ہی مَیں نے ابوبکرؓ کویہ آیت پڑھتے سنا مَیں اس قدر گھبرایا کہ دہشت کے مارے میرے پاؤں مجھے سنبھال نہ سکے اور مَیں زمین پر گِر گیا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ راوی نے کہا کہ گویا لوگ بےخبر تھے کہ یہ آیت بھی خدا نے نازل کی ہے۔حضرت عمرؓ نے کہا کہ بخدا مَیں نے یہ آیت ابوبکرؓ سے ہی سنی۔
فرمایا : اب سوچو کہ اگرحضرت ابوبکرؓ کا یہ صریح اور قطعیة الدلالت استدلال کہ تمام نبی فوت ہوچکے ہیں قرآن سے نہیں تھا تو وہ صحابہ جو ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھے محض ظنّی اور شکی امر پر کیونکر قائل ہوگئے۔ کیوں یہ حجّت پیش نہ کی کہ یا حضرت! یہ آپؓ کی دلیل ناتمام ہے۔ کیا آپ بےخبر ہیں کہ قرآن ہی آیت رَافِعُکَ اِلَیَّ میں حضرت مسیحؑ کا بجسمہ العنصری آسمان پر جانا بیان فرماتا ہے۔ کیا
بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ
آپؓ نے نہیں سنا۔ پھر آنحضرتﷺ کا آسمان پر جانا آپؓ کے نزدیک کیوں مستبعد ہے۔ صحابہ جو مذاقِ قرآن سے واقف تھے وہ اس آیت کو سن کر اور لفظ ’خَلَتْ‘ کی تشریح فقرہ
’اَفَأِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ‘
میں پاکر فی الفور آنحضرتﷺ کی موت کی وجہ سے سخت غم ناک اور چُور ہوگئےاور انہیں سمجھ آگیا کہ گذشتہ تمام نبی بھی فوت ہوچکے ہیں۔
ایک اَور موقعے پر حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ ہزارہا نیک اجر حضرت ابوبکرؓ کو بخشےکہ جلدتر انہوں نے اس فتنے کو فرو کیا اور نصِ صریح کو پیش کرکے بتلادیا کہ گذشتہ نبی مرگئے ہیں۔ اگر اس جگہ ’خَلَتْ‘ کے معنی یہ کیے جائیں کہ بعض نبی زندہ آسمان پر جا بیٹھے ہیں تب تو اس صورت میں حضرت عمرؓ حق بجانب ٹھہرتے ہیں اور یہ آیت ان کی مؤیّد ٹھہرتی ہے۔ پس ’خَلَتْ‘ کے معنی دو قسم میں ہی محصور ہیں۔ حَتْفُ اَنْفٍ یعنی طبعی موت مرنا اور مارے جانا۔
حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے وقت انصار بنی ساعدہ کےگھر حضرت سعد بن عبادہؓ کے پاس اکٹھے ہوگئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر تم میں سے ہو اور ایک امیر ہم سے۔ حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ ان کے پاس گئے ۔حضرت ابوبکرؓ نے بڑی شان دار تقریر کی اور فرمایا کہ ہم امیر ہیں اور تم وزیر کیونکہ قریش بلحاظ نسب تمام عربوں سے اعلیٰ اور بلحاظ حسب سب سے قدیم ہیں۔ اس لیے عمرؓ یا ابوعبیدہؓ کی بیعت کرلو۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ نہیں! بلکہ ہم تو آپؓ یعنی ابوبکرؓ کی بیعت کریں گے کیونکہ آپؓ ہمارے سردار، ہم سب سے بہتر اور رسول اللہﷺ کو ہم سب سے زیادہ پیارے تھے۔ یہ کہہ کر حضرت عمرؓ نے ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑا اور بیعت کرلی۔
جب خلافتِ ابوبکرؓ میں مرتدین نے سر اٹھایا تو اولاً حضرت عمرؓ نے قتال کی مخالفت کی لیکن حضرت ابوبکرؓ کے فیصلے کے آگے آپؓ نے سرِ تسلیم خم کیا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ جب مَیں نے دیکھ لیا کہ اللہ نے حضرت ابوبکرؓ کا لڑائی کےلیے سینہ کھول دیا ہے تو مَیں سمجھ گیا کہ حق یہی ہے۔
جنگِ یمامہ میں جب ستّر حفاظ شہید ہوئے تو حضرت عمرؓ نے ہی حضرت ابوبکرؓ کو قرآن ایک جگہ جمع کرنے کا مشورہ دیا۔
خطبے کے اختتام پر حضورِانور نے فرمایا کہ اب یہ ذکر چل رہا ہے جو ان شاء اللہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔
٭…٭…٭