حیا کیا ہے؟ ایمان کا حصہ کیسےہے؟ (قسط نمبر 7)
قرآن و حدیث اور ارشادات حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے کرام کی روشنی میں ا س کا تعارف
روزمرہ زندگی میں پردے کا خیال
جیسا کہ گذشتہ قسط میں دورنگی اور منافقت کا ذکر ہوا ہےاس کی وضاحت میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا:
’’اسکولوں اور کالجوں میں بھی لڑکیاں جاتی ہیں اگر کلاس روم میں پردہ، سکارف لینے کی اجازت نہیں بھی ہے تو کلاس روم سے باہر نکل کر فوراً لینا چاہئے۔ یہ دو عملی نہیں ہے اور نہ ہی یہ منافقت ہے۔ اس سے آپ کے ذہن میں یہ احساس رہے گا کہ مَیں نے پردہ کرنا ہے اور آئندہ زندگی میں پھر آپ کو یہ عادت ہو جائے گی۔ اور اگر چھوڑ دیا تو پھر چھوٹ بڑھتی چلی جائے گی اور پھر کسی بھی وقت پابندی نہیں ہو گی۔ پھر وہ جو حیا ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔
پھر اپنے عزیز رشتہ داروں کے درمیان بھی جب کسی فنکشن میں یا شادی بیاہ وغیرہ میں آئیں تو ایسا لباس نہ ہو جس میں جسم اٹریکٹ(attract) کرتا ہو یا اچھا لگتا ہو یا جسم نظر آتا ہو۔ آپ کا تقدّس اسی میں ہے کہ اسلامی روایات کی پابندی کریں اور دنیا کی نظروں سے بچیں۔ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اور انہوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کیا۔ یعنی اِدھر اُدھر ہونے کی کوشش کی اور فرمایا اے اسماء! عورت جب بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو یہ مناسب نہیں کہ اس کے منہ اور ہاتھ کے علاوہ کچھ نظر آئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ اور ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے یہ بتایا۔
(ابوداؤد کتاب اللباس باب فیما تبدی المرأۃ من زینتھا)‘‘
(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا3؍جولائی 2004ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23؍ستمبر2005ء)
پردہ کس عمر سے شروع کرنا چاہیے؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ماؤں کو بچیوں میں چھوٹی عمر سے ہی حیا کا احساس دلانے کی طرف توجہ دلائی ہے تاکہ اس کے نتیجے میں بڑےہوکر وہ حیادار لباس کی طرف مائل رہیں۔ چنانچہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اس معاشرے میں ہمیں اپنی عورتوں اور لڑکیوں کو حجاب اور پردے اور حیا کا تصوّر پیدا کروانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حیا دار حجاب کی جھجک اگر کسی بچی میں ہے تو ماؤں کو اسے دُور کرنا چاہئے بلکہ اسے خود اپنے آپ بھی دُور کرنا چاہئے اگر اس کی عمر ایسی ہے۔ مائیں اگر گیارہ بارہ سال کی عمر تک بچیوں کو حیا کا احساس نہیں دلائیں گی تو پھر بڑے ہو کر ان کو کوئی احساس نہیں ہو گا۔ پس اس معاشرے میں جہاں ہر ننگ اور ہر بیہودہ بات کو اسکول میں پڑھایا جاتا ہے پہلے سے بڑھ کر احمدی ماؤں کو اسلام کی تعلیم کی روشنی میں، قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں اپنے بچوں کو بتانا ہو گا۔ حیا کی اہمیت کا احساس شروع سے ہی اپنے بچوں میں پیدا کرنا ہو گا۔ پانچ چھ سات سال کی عمر سے ہی پیدا کرنا شروع کرنا چاہئے۔ پس یہاں تو ان ملکوں میں چوتھی اور پانچویں کلاس میں ہی ایسی باتیں بتائی جاتی ہیں کہ بچے پریشان ہوتے ہیں جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ اسی عمر میں حیا کا مادہ بچیوں کے دماغوں میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بعض عورتوں کے اور لڑکیوں کے دل میں شاید خیال آئے کہ اسلام کے اور بھی تو حکم ہیں۔ کیا اسی سے اسلام پر عمل ہو گا اور اسی سے اسلام کی فتح ہونی ہے۔ یاد رکھیں کہ کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں ہوتا۔ ‘‘
(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا8؍اکتوبر2016ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍مارچ 2017ء)
پھر ایک اَور خطاب میں حضورانور نے اسی حوالے سے فرمایا:
’’جو مائیں بچپن سے ہی اپنے بچوں کے لباس کا خیال نہیں رکھیں گی وہ بڑے ہو کر بھی ان کو سنبھال نہیں سکیں گی۔ بعض بچیوں کی اُٹھان ایسی ہوتی ہے کہ دس گیارہ سال کی عمر کی بچی بھی چودہ پندرہ سال کی لگ رہی ہوتی ہے۔ ان کو اگر حیا اور لباس کا تقدّس نہیں سکھائیں گی تو پھر بڑے ہو کر بھی ان میں یہ تقدّس کبھی پیدا نہیں ہوگا۔ بلکہ چاہے بچی بڑی نہ بھی نظر آرہی ہو، چھوٹی عمر سے ہی اگر بچیوں میں حیا کا یہ مادہ پیدا نہیں کریں گی اور اس طرح نہیں سمجھائیں گی کہ دیکھو تم احمدی ہو، تم یہاں کے لوگوں کے ننگے لباس کی طرف نہ جاؤ تم نے دنیا کی رہنمائی کرنی ہے، تم نے اس تعلیم پر عمل کرنا ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہے اس لئے تنگ جینز اور اس کے اوپر چھوٹے بلاؤز جو ہیں ایک احمدی بچی کو زیب نہیں دیتے۔ تو آہستہ آہستہ بچپن سے ذہنوں میں ڈالی ہوئی بات اثر کرتی جائے گی اور بلوغت کو پہنچ کر حجاب یا سکارف اور لمبا کوٹ پہننے کی طرف خود بخود توجہ پیدا ہو جائے گی۔ ورنہ پھر ان کی یہی حالت ہوگی جس طرح بعض بچیوں کی ہوتی ہے۔ مجھے شکایتیں ملتی رہتی ہیں دنیا سے اور یہاں سے بھی کہ مسجد میں آتے ہوئے، جماعتی فنکشن پر آتے ہوئے تو سر ڈھکا ہواہوتا ہے، لباس بڑا اچھا پہنا ہواہوتا ہے اور باہر پھرتے ہوئے سر پر دوپٹہ بھی نہیں ہوتا بلکہ دوپٹہ سرے سے غائب ہوتا ہے، سکارف کا تو سوال ہی نہیں۔ پس مائیں اگر اپنے عمل سے بھی اور نصائح سے بھی بچیوں کو توجہ دلاتی رہیں گی، یہ احساس دلاتی رہیں گی کہ ہمارے لباس حیا دار ہونے چاہئیں اور ہمارا ایک تقدّس ہے تو بہت سی قباحتوں سے وہ خود بھی بچ جائیں گی اور ان کی بچیاں بھی بچ جائیں گی۔ اگر ہم اپنے جذبات کی چھوٹی چھوٹی قربانیوں کے لئے تیار نہیں ہوں گے تو بڑی بڑی قربانیاں کس طرح دے سکتے ہیں۔ ‘‘
(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 28؍جون2008ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍جولائی 2011ء)
شادی بیاہ کی تقریبات میں پردے کو ملحوظ رکھنا
پھر اسی طرح شادی بیاہ کے مواقع پہ اور مختلف تقاریب کے دوران پردے سے اجتناب کرنے کے لیے عورتیں مختلف بہانے تراشتی ہیں۔ عورتوں کے ایسے بہانوں کو ردّ کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’…بعض عورتیں یہ بھی سوال اٹھا دیتی ہیں کہ ہم نے میک اَپ کیا ہوتا ہے اگر چہرے کو نقاب سے ڈھانک لیں تو ہمارا میک اَپ خراب ہو جاتا ہے۔ تو کس طرح پردہ کریں۔ اوّل تو میک اَپ نہ کریں تو پھر یہ پردہ، کم از کم پردہ ہے جس کا معیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ چہرہ، ہونٹ ننگے ہو سکتے ہیں۔ باقی چہرہ ڈھانکا ہو۔
(ماخوذ ازریویو آف ریلیجنز جلد4نمبر1 صفحہ 17 ماہ جنوری 1905ء)
اور اگر میک اَپ کرنا ہے تو(چہرہ) بہرحال ڈھانکنا ہو گا۔ ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر چلتے ہوئے اپنی زینت کو چھپانا ہے یا دنیا کو اپنی خوبصورتی اور اپنا میک اَپ دکھانا ہے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍جنوری2017ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍فروری 2017ء)
اگر دیکھا جائے تو پردہ نہ کرنے کی وجہ سے عورتوں کے زیورات کی بھی نمائش ہورہی ہوتی ہے اور یہ بھی ایک نامناسب حرکت ہے۔ چنانچہ حضورانور نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں اس حوالے سے بھی احباب جماعت کو نصیحت فرمائی ہے۔ آپ نے فرمایا:
’’پھر ہمارے معاشرے میں زیور وغیرہ کی نمائش کا بھی بہت شوق ہے۔ گو چوروں ڈاکوؤں کے خوف سے اب اس طرح تو نہیں پہناجاتالیکن پھر بھی شادی بیاہ پر اس طرح بعض دفعہ ہوجاتاہے کہ راستوں سے عورتیں گزر کر جا رہی ہوتی ہیں جہاں مرد بھی کھڑے ہوتے ہیں اور وہاں ڈگر ڈگر زیور کی نمائش بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ تو اس سے بھی احتیاط کرنی چاہئے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جنوری 2004ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ء)
اب اوپرکے اقتباس میں حضور انور نے زیور کی نمائش کا ذکر کیا ہے تو یہ اظہارمردوں کے سامنے تو بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ عورتوں میں یہ اظہارایک نئی دوڑ کو جنم دے سکتا ہے اور وہ دوڑ ہے مقابلے کی دوڑ۔ اور ہوسکتا ہے کہ بعض عورتیں ایسی بھی ہو ں جو اس مقابلے کی سکت نہیں رکھتیں تو وہ حسد میں مبتلا ہوجائیں۔ تو اسلام ان تمام عوامل پہ گہری نگاہ رکھتا ہے جس سے معاشرے میں کسی قسم کے بگاڑ کا اندیشہ ہو اور ان کے سد باب کی بہترین تدبیر بھی پیش کرتا ہے۔
عورت کی اصل زینت پردے میں ہے
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ہمیں بے پردگی کے رجحانات سے پیدا ہونے والے بگاڑ سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری زینت پردے میں ہے۔ …پردہ کرو گی تو یہ تمہاری زینت کا اظہار ہے جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ اگر یہ نہیں تو یہ ساری سج دھج، زینت، میک اپ، بے پردگی تمہیں ایک وقت میں ایسی حالت میں کردے گی کہ تم ہاتھ ملو گی۔ تمہاری اس زینت کے اظہار کی وجہ سے وقتی طور پر تو شاید جو دنیادار عورتیں ہوتی ہیں ان کو سوسائٹی میں یعنی ایسی سوسائٹی میں جو دنیاداروں کی سوسائٹی ہے، پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جائے لیکن ایسے لوگوں کا انجام جو دنیادار ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ بھوسے کی طرح ہوتا ہے جو ضائع ہو جاتا ہے بلکہ اگلی نسلیں بھی ضائع ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ مجھے کسی نے بتایا کہ ایک خاتون یہاں سے کینیڈا گئیں تو وہاں ایک ایسی خاتون سے ان کا سامنا ہو گیا جنہوں نے دنیا کی خاطراپنا پردہ اتار دیا تھا۔ پاکستان سے جب ایک طبقہ باہر آتا ہے تو ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جو سب سے پہلے پردہ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ وہاں انہوں نے بڑے اچھے پردے کئے ہوتے ہیں۔ بہرحال جس نے پردہ اتارا ہوا تھا ان کوجرمنی سے جانے والی خاتون ملیں تو وہ ان جانے والی خاتون کو کہنے لگیں کہ تم کس دنیا میں رہ رہی ہو۔ اب یہ سکارف اور برقعے کا زمانہ نہیں رہا۔ یہ خوبی ہے یہاں سے جانے والی خاتون کی کہ اس نے سکارف اور برقعہ پہنا ہوا تھا۔ کینیڈا میں عموماً احمدی عورتیں حیادار ہیں، لباس کا خیال بھی رکھتی ہیں لیکن بعض ایسی بھی ہیں جو احمدی معاشرہ کو خراب کرنے کے درپے ہیں۔ اگر وہ اپنی ذات کی حد تک خراب کر رہی ہیں جو یہاں بھی شاید ہوں اور دوسرے ملکوں میں بھی ہوتی ہیں تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر ایک مہم کی صورت میں دوسروں کو بھی خراب کررہی ہیں تو ان سے بہرحال ہر عقلمند عورت کو بچنا چاہئے۔‘‘
(خطاب ازمستورات جلسہ ساالا نہ جرمنی 29؍جون2013ء)
یہاں ایک اور پہلو بیان کرنا بھی انتہائی اہم ہےجس کا تعلق تعلیم یافتہ خواتین سے ہے۔ بعض بچیاں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اپنے پیشے کے حساب سے ملازمت کرنا چاہتی ہیں انہیں یہ بالکل بھی سوچنے کی ضرورت نہیں کہ اسلام تو عورت پہ پابندیاں ہی پابندیاں لگاتا ہے۔ ہر گز نہیں۔ اسلام تو دین فطرت ہے وہ کبھی کسی ایسی بات کا حکم نہیں دیتا جس میں کوئی حکمت پوشیدہ نہ ہو جہاں تک بات ہے ملازمت یا پیشے کی تو اس بارے میں حضور انور کا یہ اقتباس آپ سب کے لیے راہ نمائی کا باعث ہوگا۔
ملازمت اور پردہ
حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ میں لڑکیوں کے ملازمت کرنے اور پردے کے حوالے سے راہ نمائی کرتے ہوئے فرمایا:
’’ایک بچی نے پچھلے دنوں مجھے خط لکھا کہ میں بہت پڑھ لکھ گئی ہوں اور مجھے بینک میں اچھا کام ملنے کی امید ہے۔ مَیں پوچھنا چاہتی ہوں کہ اگر وہاں حجاب لینے اور پردہ کرنے پر پابندی ہو، کوٹ بھی نہ پہن سکتی ہوں تو کیا مَیں یہ کام کر سکتی ہوں؟ کام سے باہر نکلوں گی تو حجاب لے لوں گی۔ کہتی ہے کہ مَیں نے سنا تھا کہ آپ نے کہا تھا کہ کام والی لڑکیاں اپنے کام کی جگہ پر اپنا برقع، حجاب اتار کر کام کر سکتی ہیں۔ اس بچی میں کم از کم اتنی سعادت ہے کہ اس نے پھر ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ آپ منع کریں گے تو کام نہیں کروں گی۔ یہ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ یہ ایک نہیں کئی لڑکیوں کے سوال ہیں، تو پہلی بات یہ ہے کہ مَیں نے اگر کہا تھا تو ڈاکٹرز کو بعض حالات میں مجبوری ہوتی ہے۔ وہاں روایتی برقع یا حجاب پہن کر کام نہیں ہو سکتا۔ مثلاً آپریشن کرتے ہوئے۔ ان کا لباس وہاں ایسا ہوتا ہے کہ سر پر بھی ٹوپی ہوتی ہے، ماسک بھی ہوتا ہے، ڈھیلا ڈھالا لباس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تو ڈاکٹر بھی پردے میں کام کر سکتی ہیں۔ ربوہ میں ہماری ڈاکٹرز تھیں۔ ڈاکٹر فہمیدہ کو ہمیشہ ہم نے پردہ میں دیکھا ہے۔ ڈاکٹر نصرت جہاں تھیں بڑا پکّا پردہ کرتی تھیں۔ یہاں سے بھی انہوں نے تعلیم حاصل کی اور ہر سال اپنی قابلیت کو نئی ریسرچ کے مطابق ڈھالنے کے لئے، اس کے مطابق کرنے کے لئے یہاں لندن بھی آتی تھیں لیکن ہمیشہ پردہ میں رہیں بلکہ وہ پردہ کی ضرورت سے زیادہ پابند تھیں۔ ان پر یہاں کے کسی شخص نے اعتراض کیا، نہ کام پر اعتراض ہوا، نہ ان کی پیشہ ورانہ مہارت میں اس سے کوئی اثر پڑا۔ آپریشن بھی انہوں نے بہت بڑے بڑے کئے تو اگرنیت ہو تو دین کی تعلیم پر چلنے کے راستے نکل آتے ہیں۔ اسی طرح مَیں نے ریسرچ کرنے والیوں کو کہا تھا کہ کوئی بچی اگر اتنی لائق ہے کہ ریسرچ کر رہی ہے اور وہاں لیبارٹری میں ان کا خاص لباس پہننا پڑتا ہے تو وہ وہاں اس ماحول کا لباس پہن سکتی ہیں بیشک حجاب نہ لیں۔ وہاں بھی انہوں نے ٹوپی وغیرہ پہنی ہوتی ہے لیکن باہر نکلتے ہی وہ پردہ ہونا چاہئے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ بینک کی نوکری کوئی ایسی نوکری نہیں ہے کہ جس سے انسانیت کی خدمت ہورہی ہو۔ اس لئے عام نوکریوں کے لئے حجاب اتارنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جبکہ نوکری بھی ایسی جس میں لڑکی روزمرّہ کے لباس اور میک اَپ میں ہو، کوئی خاص لباس وہاں نہیں پہنا جانا۔
پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حیا کے لئے حیادار لباس ضروری ہے اور پردہ کا اس وقت رائج طریق حیادار لباس کا ہی ایک حصہ ہے۔ اگر پردہ میں نرمی کریں گے تو پھر اپنے حیادار لباس میں بھی کئی عذر کر کے تبدیلیاں پیدا کر لیں گی اور پھر اس معاشرے میں رنگین ہو جائیں گی جہاں پہلے ہی بےحیائی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ دنیا تو پہلے ہی اس بات کے پیچھے پڑی ہوئی ہے کہ کس طرح وہ لوگ جو اپنے مذہب کی تعلیمات پر چلنے والے ہیں اور خاص طور پر مسلمان ہیں انہیں کس طرح مذہب سے دُور کیا جائے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍جنوری2017ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍فروری 2017ء)
اس قسط کے آخر پر میں حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمدصاحبؓ کا ایک اقتباس پیش کرنا چاہوں گی جو کہ اسلامی پردہ کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے:
’’اسلامی پردہ کالب لباب صرف یہ ہے کہ اول غیرمحرم مردوعورت ایک دوسرے کے سامنے اپنی نظروں کونیچا رکھیں اورعورت اپنے چہرہ اوربدن اورلباس کی زینت کو کسی غیر محرم مرد پر نظر یالمس وغیرہ کے ذریعہ ظاہر نہ کرے۔ دوم یہ کہ غیر محرم مردوعورت کسی ایسی جگہ میں جو دوسروں کی نظر سے اوجھل ہوخلوت میں اکیلے ملاقات نہ کریں۔ ان دو حد بندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جن میں سراسر سوسائٹی کی بہبودی اوراخلاق کی حفاظت مدّنظر ہے ایک مسلمان عورت پردہ کے معاملہ میں ہر طرح آزاد ہے۔ وہ درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرسکتی اور تعلیم دے سکتی ہے۔ وہ ورزش اورسیر وتفریح کے لئے گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔ وہ خرید وفروخت کرسکتی ہے۔ وہ پبلک جلسوں وغیرہ میں شریک ہوسکتی ہے۔ وہ غیر محرم مردوں سے ملاقات کرسکتی ہے اور ان کی بات سن سکتی اوران کو اپنی بات سنا سکتی ہے۔ وہ محنت ومزدوری کرسکتی ہے۔ وہ دفاتر اورمحکموں اور شفاخانوں اورکارخانوں میں کام کرسکتی ہے۔ وہ قومی اورملکی کاموں میں حصہ لے سکتی ہے۔ وہ جنگوں میں مناسب خدمت سرانجام دینے کے لئے شریک ہوسکتی ہے۔ غرض اسلامی پردہ عورت کی تعلیم وتربیت، اس کی نشوونما، اس کے ضروری مشاغل، اس کی جائز تفریحات میں ہرگز کوئی روک نہیں ہے۔ اورتاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورصحابہ کے زمانہ میں مسلمان عورتیں تمام ان جائز کاموں میں حصہ لیتی تھیں جو اس زمانہ میں پیش آتے تھے۔ وہ تعلیم حاصل کرتی اورتعلیم دیتی تھیں۔ وہ نمازوں میں مسلمان مردوں کے ساتھ شامل ہوتی تھیں۔ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تقریریں اورخطبات سنتی تھیں۔ وہ قومی کاموں میں مشورہ دیتی تھیں۔ وہ حج میں مردوں کے پہلو بہ پہلو مراسم حج ادا کرتی تھیں۔ وہ سفروں میں مردوں کے ساتھ جاتی تھیں۔ وہ غیر محرم مردوں کے ساتھ ضرورت پیش آنے پرملاقات کرتی اوران کی بات سنتیں اوراپنی بات سناتی تھیں۔ وہ سواری کرتی تھیں۔ وہ تفریحی تماشے دیکھتی تھیں۔ وہ جنگوں میں شریک ہوتی اورزخموں کی تیمارداری اور نرسنگ کی خدمات سرانجام دیتی تھیں اورضرورت پڑتی تومیدان جنگ میں تلوار بھی چلالیتی تھیں۔ پس پردہ پر جتنے بھی اعتراض ہوتے ہیں وہ درحقیقت اصل اسلامی پردہ پر نہیں ہیں۔ بلکہ موجودہ زمانہ کے بگڑے ہوئے پردہ پرہیں جس نے عورت کوگھر کی چاردیواری میں قریباًایک حیوان کی طرح قید کر رکھا ہے۔ مگراس نقص کے دورکرنے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ایک انتہا سے ہٹ کر دوسری انتہا کواختیار کرلیا جاوے کیونکہ یہ دونوں ضلالت وہلاکت کی راہیں ہیں اورسلامت روی کاوہی رستہ ہے جسے اسلام نے پیش کیا ہے اور جوانسانی فطرت کی سچی آوازہے۔‘‘
( سیرت خاتم النبیین صفحہ 548)
(جاری ہے)