ایک دن قلعہ روہتاس کےنام
تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں بہت جرّار حکمرانوں کا ذکر ملتا ہے۔ برصغیر پاک وہند کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس کے گذشتہ ایک ہزار سال انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔
1001ء کا آغاز ہندوستان میں محمود غزنوی کے حملوں سےہوا۔ ہندوستان کی اس ایک ہزار سالہ تاریخ میں غزنوی، مغل، لودھی اور تغلق خاندان اور پھر آخر میں انگریزوں کی حکومت رہی۔ ان تمام حکمرانوں میں ایک ایسا نِڈر اور معروف حکمران بھی تھا جس کا دور تو محض چند سالوں پر محیط تھا مگر اس قلیل عرصے میں اس نے نہ صرف اپنے علاقے اور رعایا کی بھرپور خدمت کی بلکہ مغل بادشاہ ہمایوں جیسے مضبوط حکمران کو بھی شکست دی۔
آج دنیا اس عظیم حکمران کو ’’شیر شاہ سوری‘‘کے نام سے جانتی ہے۔ جس کا اصل نام فرید خان تھا۔
شیر شاہ سوری کے عظیم کارناموں میں ڈاک کا مؤثر نظام اور جرنیلی سڑک یعنی GT.Road کی تعمیر خوب نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
شیر شاہ سوری نے جب مغل بادشاہ ہمایوں کو شکست دی۔ تو اسے ایک قلعے کی ضرورت محسوس ہوئی جو نہ صرف مغل حکمران کی واپسی کو روک سکے بلکہ اس قلعے سے مغلوں کی معاونت کرنے والے گکھڑوں پر بھی نظر رکھی جا سکے۔ لہٰذا قلعےکی تعمیر کے لیے مختلف علاقوں کا جائزہ لیا گیا اور بالآخر ٹلّہ بلناتھ کے علاقے میں جس کے دامن سے دریائے کاہان گزرتا تھا، ایک موزوں جگہ کا انتخاب کیا گیا۔
تاریخ کی کتابوں کا اگرجائزہ لیاجائے تو ایک انگریز تاجر William Finch اس قلعہ کا ذکر اپنی کتاب Early Travels in India میں کرتا نظر آتا ہے۔
قلعےکی تعمیر کا آغاز 1541ءمیں ہوا۔ 1543ءمیں اس قلعہ کا اندرونی حصہ جو اندر کوٹ کہلاتا ہے پایہ تکمیل کو پہنچا۔
قلعے کے بیچوں بیچ بل کھاتی سڑک آپ کو قلعہ کے جنوبی دروازہ کی طرف لے جاتی ہے۔ اس دروازے سے کچھ پہلے قلعے کے انتظامی دفاتر موجود ہیں جو کہ محکمہ اوقاف کے ماتحت ہیں۔
یہاں سے آپ کو قلعہ گھومنے کےلیے گائیڈ بھی مل سکتا ہے جو کہ آپ کو قلعے کے تمام اہم مقامات کی سیر کراتا ہے لہٰذا ہم نے بھی گائیڈ لینے کو ترجیح دی۔
قلعے کے جنوب میں سہیل دروازہ ہے جس کے ساتھ ہی قلعہ کا عجائب گھر موجود ہے۔ یہ عجائب گھر عموماً بند رہتا ہے۔ مگر ہماری خوش قسمتی تھی کہ آج یہ کھلا ہوا تھا۔ اس عجائب گھر میں شیر شاہ سوری مغل اور انگریز دَور کی قدیم چیزیں مثلاً زیور، سکے، تلواریں وغیرہ رکھی گئی ہیں جو کہ اپنے دَور کی عکاسی کرتی ہیں۔
عجائب گھر کو دیکھنے اور اس کی فوٹو گرافی کرنے کے بعد ہم اس قلعےکی بڑی باؤلی کی طرف گئے جو کہ مشرقی جانب تھی۔ یہاں ایک سوال عمومی طور پر ذہن میں آتا ہے کہ کنووں اور باؤلی میں فرق کیا ہے؟ دراصل باؤلی ایسے کنویں کو کہتے ہیں جس میں نیچے اترنے کےلیے باقاعدہ سیڑھیاں بنائی گئی ہوں۔ قلعہ روہتاس میں کل 3باؤلیاں تعمیر کی گئیں جس میں ایک بڑی اور دو چھوٹی باؤلیاں ہیں۔
باؤلی دیکھنے کے بعد گرمی کی شدت کی وجہ سے جوس اور پانی پی کر ہم نے اپنا سفر جاری رکھا۔ اس قدر دھوپ اور گرمی میں ایسی جگہ کو exploreکرنا اور پھر فوٹو گرافی کرنا انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ سورج کی تیز شعاعیں تصویر میں موجود تمام detailsکو ختم کر دیتی ہیں۔
بہر حال ہم قلعہ کی شرقی دیوار کے اوپر چڑھے جس سے قلعےکا عمومی جائزہ بآسانی لیاجاسکتا تھا۔ یوں ایک پورا دن ہم نے قلعہ روہتاس کے نام کیا اور شام کو جہلم شہر واپس اپنی رہائش گاہ پر لوٹ آئے۔ اور اس طرح قلعےکی ہیبت ناک دیواریں، اس کے دروازے ہمیشہ کے لیے ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہوگئے۔
قلعہ روہتاس کے انتہائی جنوب میں واقع یہ خوبصورت دروازہ شیر شاہ سوری کے دور حکومت میں کی گئی پتھروں کی چنائی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس دروازے کا نام جنوب مغربی برج میں مدفون ولی بزرگ ’’سہیل بخاری ‘‘کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
سہیل دروازے کے اندرونی اور بیرونی محراب کے اوپر خوبصورت اورنہایت عمدہ سورج مکھی کے طرز کے پھول آراستہ کیے گئے ہیں۔
قلعے کے مشرقی جانب موجود دیوار کا بیرونی منظر جس سے اس قلعےکی حفاظتی نقطہ نگاہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے دامن میں گہری کھائی ہے تاکہ دشمن بآسانی قلعہ کے اندر داخل نہ ہوسکے۔
قلعہ کے مغربی جانب ایک برج پر موجود یہ خوبصورت کنگرے اس قلعہ کی عظیم طرز کی عکاسی کرتے ہیں۔
قلعہ روہتاس کا مرکزی دروازہ ’’خواص خوانی‘‘ دروازہ ہے۔ خواص خوان دراصل شیر شاہ سوری کا ایک عظیم جرنیل تھا اور اس نے قلعےکی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی وجہ سے یہ دروازہ اُسی کے نام سے موسوم ہے۔
قلعہ روہتاس میں ایک بڑی باؤلی موجود ہے۔ اس باؤلی کی تقریباً تین سو سیڑھیاں ہیں۔ دراصل اس دورمیں قلعے کے اندر پانی کا وسیع ذخیرہ کیاجاتا تھا تاکہ حملے کی صورت میں فوج کو پانی وافر مقدار میں میسر ہو۔
انتہائی دائیں جانب جو گنبد نظر آرہا ہے وہ دراصل راجہ سنگھ کے محل کی باقیات ہیں۔ قلعہ روہتاس جب مغل بادشاہ اکبر کے زیر استعمال تھا تب اس نے اپنے ایک قابل جرنیل راجہ مان سنگھ کے سپرد اس قلعےکی حفاظت کی تھی۔ جبکہ تصویر کے انتہائی بائیں جانب اس دور کے چند قدیم کمرے ہیں۔ جن کے متعلق دو آراء ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ شیر شاہ سوری کا قید خانہ تھا جب کہ بعض محققین کا ماننا ہے کہ یہ مغلیہ دور میں تعمیر کردہ مہمان خانہ ہے۔
شیر شاہ سوری کے دَور میں تعمیر کی گئی یہ شاہی مسجد آج بھی اپنے خوبصورت طرز تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔