عفو اور در گزر
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 22؍ جنوری 2016ء میں فرمایا:
اسلام میں پہلے مذاہب کی طرح افراط اور تفریط نہیں ہے۔ اس کے اعلیٰ ترین نمونے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ جب آپؐ نے دیکھا کہ مجرم کی اصلاح ہو گئی ہے تو اپنے انتہائی ظالم دشمن کو بھی معاف فرما دیا۔ آپؐ پر، آپؐ کی اولاد پر، آپؐ کے صحابہ پر کیا کیا ظلم نہیں ہوئے لیکن جب دشمن معافی کا طالب ہوا اور خدا اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کچھ بھول کر معاف فرما دیا۔
حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینبؓ پر مکّہ سے ہجرت کے وقت ایک ظالم شخص ھبار بن اسودنے نیزہ سے قاتلانہ حملہ کیا۔ وہ اس وقت حاملہ تھیں۔ اس حملے کی وجہ سے آپ کو زخم بھی آئے اور آپ کا حمل بھی ضائع ہو گیا۔ آخر کار یہ زخم آپ کے لئے جان لیوا ثابت ہوئے۔ اس جرم کی وجہ سے اس شخص کے خلاف قتل کا فیصلہ دیا گیا۔ فتح مکہ کے موقع پر یہ شخص بھاگ کر کہیں چلا گیا۔ لیکن بعد میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ تشریف لے آئے تو ھبار مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں آپ سے ڈر کر فرار ہو گیا تھا۔ جرم میرے بہت بڑے بڑے ہیں۔ میرے قتل کی سزا آپ دے چکے ہیں۔ لیکن آپ کے عفو اور رحم کے حالات پتا چلے تو یہ چیز مجھے آپ کے پاس لے آئی ہے۔ مجھ میں اتنی جرأت پیدا ہوگئی کہ باوجود اس کے کہ مجھ پر سزا کی حد لگ چکی ہے لیکن آپ کا عفو، معاف کرنا اتنا وسیع ہے کہ اس نے مجھ میں جرأت پیدا کی اور مَیں حاضر ہو گیا۔ کہنے لگا کہ اے اللہ کے نبی ہم جاہلیت اور شرک میں ڈوبے ہوئے تھے۔ خدا نے ہماری قوم کو آپ کے ذریعہ سے ہدایت دی اور ہلاکت سے بچایا۔ مَیں اپنی زیادتیوں اور جرموں کا اعتراف کرتا ہوں۔ میری جہالت سے صرفِ نظر فرمائیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کے اس قاتل کو بھی معاف فرما دیا اور فرمایا جا ھبار اللہ کا تجھ پر احسان ہے کہ اس نے تجھے اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور سچی توبہ کرنے کی توفیق دی۔
(المعجم الکبیر للطبرانی جلد 22صفحہ 431 مسند النساء ذکر سن زینب… حدیث 1051 والسیرۃ الحلبیۃ جلد 3صفحہ 131-132 ذکر مغازیہﷺ فتح مکۃ… دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002)