و ہ علامتیں جو قرب قیامت کے لئے خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں بیان فرمائی ہیں اکثر ان میں سے ظاہرہو چکی ہیں
یہ صحیح نہیں ہے جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قیامت کا کسی کو علم نہیں۔ پھر آدم سے اخیر تک سات ہزار سال کیونکر مقرر کر دئے جائیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کبھی خدا تعالیٰ کی کتابوں میں صحیح طور پر فکر نہیں کیا۔ میں نے آج یہ حساب مقرر نہیں کیا۔ یہ تو قدیم سے محققین اہل کتاب میں مسلّم چلا آیا ہے یہاں تک کہ یہودی فاضل بھی اس کے قائل رہے ہیں۔ اور قرآن شریف سے بھی صاف طور پر یہی نکلتا ہے کہ آدم سے اخیر تک عمر بنی آدم کی سات ہزار سال ہے۔ اور ایسا ہی پہلی تمام کتابیں بھی باتفاق یہی کہتی ہیں اور آیت
اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ(الحج:48)
سے بھی یہی نکلتا ہے اور تمام نبی واضح طور پر یہی خبر دیتے آئے ہیں۔ اور جیسا کہ میں ابھی بیان کرچکا ہوں سورۃ والعصر کے اعداد سے بھی یہی صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آدم سے الف پنجم میں ظاہر ہوئے تھے اور اس حساب سے یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ہزار ہفتم ہے۔ جس بات کو خدا نے اپنی وحی سے ہم پر ظاہر کیا اس سے ہم انکار نہیں کر سکتے اور نہ ہم کوئی وجہ دیکھتے ہیں کہ خدا کے پاک نبیوں کے متفق علیہ کلمہ سے انکار کریں۔ پھر جبکہ اس قدر ثبوت موجود ہے اور بلاشبہ احادیث اور قرآن شریف کے رو سے یہ آخری زمانہ ہے پھر آخری ہزار ہونے میں کیا شک رہا۔ اور آخری ہزار کے سر پر مسیح موعود کا آنا ضروری ہے۔ اور یہ جو کہا گیا کہ قیامت کی گھڑی کا کسی کو علم نہیں۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ کسی وجہ سے بھی علم نہیں۔ اگر یہی بات ہے تو پھر آثار قیامت جو قرآن شریف اور احادیث صحیح میں کہے گئے ہیں وہ بھی قابل قبول نہیں ہوں گے کیونکہ ان کے ذریعہ سے بھی قرب قیامت کا ایک علم حاصل ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں لکھا تھا کہ آخری زمانہ میں زمین پر بکثرت نہریں جاری ہوں گی۔ کتابیں بہت شائع ہوں گی جن میں اخبار بھی شامل ہیں اور اونٹ بیکار ہو جائیں گے۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سب باتیں ہمارے زمانہ میں پوری ہوگئیں اور اونٹوں کی جگہ ریل کے ذریعہ سے تجارت شروع ہوگئی۔ سو ہم نے سمجھ لیا کہ قیامت قریب ہے۔ اور خود مدت ہوئی کہ خدا نے آیت
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ (القمر:2)
اور دوسری آیتوں میں قرب قیامت کی ہمیں خبر دے رکھی ہے۔ سو شریعت کا یہ مطلب نہیں کہ قیامت کا وقوع ہر ایک پہلو سے پوشیدہ ہے بلکہ تمام نبی آخری زمانہ کی علامتیں لکھتے آئے ہیں اور انجیل میں بھی لکھی ہیں۔ پس مطلب یہ ہے کہ اس خاص گھڑی کی کسی کو خبر نہیں۔ خدا قادر ہے کہ ہزار سال گزرنے کے بعد چند صدیاں اور بھی زیادہ کردے کیونکہ کسر شمار میں نہیں آتی۔ جیسا کہ حمل کے دن بعض وقت کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں۔ دیکھو! اکثر بچے جو دنیا میں پیدا ہو تے ہیں وہ اکثر نو مہینے اور دس دن کے اندر پیدا ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی کہا جاتا ہے کہ اس گھڑی کی کسی کو خبر نہیں جبکہ دردِ زہ شروع ہوگا۔ اسی طرح دنیا کے خاتمے پر گواب ہزار سال باقی ہے لیکن اس گھڑی کی خبر نہیں جب قیامت قائم ہو جائے گی۔ جن دلائل کو خدا نے امامت اور نبوت کے ثبوت کیلئے پیش کیا ہے ان کو ضائع کرنا گویا اپنے ایمان کو ضائع کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ قرب قیامت پر تمام علامتیں بھی جمع ہوگئی ہیں اور زمانہ میں ایک انقلاب عظیم مشہود ہو رہا ہے اور وہ علامتیں جو قرب قیامت کیلئے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں بیان فرمائی ہیں اکثر ان میں سے ظاہر ہو چکی ہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرب قیامت کے زمانہ میں زمین پر اکثر نہریں جاری ہو جائیں گی اور بکثرت کتابیں شائع ہوں گی۔ پہاڑ اڑا دئے جائیں گے، دریا خشک کردئے جائیں گے اور زراعت کیلئے زمین بہت آباد ہو جائے گی۔ اور ملاقاتوں کیلئے راہیں کھل جائیں گی۔ اور قوموں میں مذہبی شور و غوغا بہت پیدا ہوگا اور ایک قوم دوسری قوم کے مذہب پر ایک موج کی طرح ٹوٹ پڑے گی تا اُن کو بالکل نابود کردے۔ انہی دنوں میں آسمانی قرنا اپنا کام دکھلائے گی اور تمام قومیں ایک ہی مذہب پر جمع کی جائیں گی۔ بجزاُن ردّی طبیعتوں کے جو آسمانی دعوت کے لائق نہیں۔ یہ خبر جو قرآن شریف میں لکھی ہے مسیح موعود کے ظہور کی طرف اشارہ ہے۔ اور اسی وجہ سے یاجوج ماجوج کے تذکرہ کے نیچے اس کو لکھا ہے۔ اور یاجوج ماجوج دو قومیں ہیں جن کا پہلی کتابوں میں ذکر ہے۔ اور اس نام کی یہ وجہ ہے کہ وہ اَجِیْج سے یعنی آگ سے بہت کام لیں گی اور زمین پر ان کا بہت غلبہ ہو جائے گا۔ اور ہر ایک بلندی کی مالک ہو جائیں گی۔ تب اُسی زمانہ میں آسما ن سے ایک بڑی تبدیلی کا انتظام ہوگا اور صلح اور آشتی کے دن ظاہر ہوں گے۔ ایسا ہی قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ان دنوں میں زمین سے بہت سی کانیں اور مخفی چیزیں نکلیں گی۔ اور ان دنوں میں آسمان پر کسوف و خسوف ہوگا۔ اور زمین پر طاعون بہت پھیل جائے گی اور اونٹ بیکار ہو جائیں گے۔ یعنی ایک اور سواری نکلے گی جو اونٹوں کو بیکار کر دے گی۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام کاروبار تجارتی جوکہ پہلے اونٹوں کے ذریعے سے چلتے تھے اب ریل کے ذریعہ سے چلتے ہیں۔ اور وہ وقت قریب ہے کہ حج کرنے والے بھی ریل کی سواری میں مدینہ منورہ کی طرف سفر کریں گے اور اس روز اس حدیث کو پورا کردیں گے جس میں لکھا ہے کہ
وَلَیُتْرَكَنَّ الْقِلاَصُ فَلاَ يُسْعَى عَلَيْهَا۔
(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ209تا 212)