تاریخ احمدیت

حضرت مصلح موعودؓ کے دستِ مبارک سے اخبار ’الفضل‘ کے اجرا کی کہانی

(تقریر محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب مرحوم)

1913ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جماعتی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اخبارشروع کرنے کا ارادہ کیا۔اس اخبار نے اپنے سو سال 2013ء میں پورے کیے۔ اس سال روزنامہ الفضل نے اپنی سو سالہ تقریبات کا انعقاد کیا۔ اس موقعے پر پاکستان کے بعض اضلاع میں الفضل سے متعلق تقریبات بھی منعقد ہوئیں۔ ضلع لاہور کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے سیمینار میں صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب (صدر بورڈ روزنامہ الفضل)نے ایک مقالہ پیش کیا جو بشکریہ محترم طاہر مہدی امتیاز احمد صاحب، مینیجر الفضل انٹرنیشنل لندن قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

1924ء میں الفضل کے سائز میں تبدیلی کی گئی۔ اس موقع پر مدیر صاحب الفضل نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں درخواست کی کہ نئے سائز کے پہلے شمارہ میں شائع کرنے کے لیے تبرک کے طور پر چند الفاظ فرمائیں۔ مدیر صاحب الفضل کی یہ درخواست ایک ایسے مضمون کے لکھنے کے لیے محرک ثابت ہوئی جس میں حضور نے نہ صرف الفضل کے اجرا کی ضرورت کے لیے سرمایہ مہیا کرنے والوں اور ابتدا سے الفضل کے لیے معاونت کرنے والوں کا تذکرہ کیا ہے بلکہ خلافت سے قبل کی اپنی زندگی کے ایک دور پر بھی روشنی ڈالی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد اور خلافت اولیٰ میں بعض سرکردہ احباب کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں کا بھی تذکرہ فرمایا ہے۔

حضورؓ فرماتے ہیں:

’’1913ء آیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سےبُعد اور نورِ نبوت سے علیحدگی نے جو بعض لوگوں کے دلوں پر زنگ لگا دیا تھااس نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا اور بظاہر یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ پاش پاش ہو جائے گا۔ نہایت تاریک منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔ مستقبل نہایت خوف ناک نظر آتا تھا۔ بہتوں کے دل بیٹھے جاتے تھے۔ کئی ہمتیں ہار چکے تھے ایک طرف وہ لوگ تھے جوکسی شمار میں ہی نہ سمجھے جاتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جو عہد میں نے کیا تھا وہ بار بار مجھے اندر ہی اندر ہمت بلند کرنے کے لئے اکساتا تھا۔مگر میں بے بس اور مجبور تھا۔ میری کوششیں محدود تھیں۔میں ایک پتے کی طرح تھا جسے سمندر میں موجیں ادہر سے ادہر لیے پھریں‘‘۔

’’بدر‘‘ اپنی مصلحتوں کی وجہ سے ہمارے لئے بند تھا ’’الحکم‘‘ اول تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح کبھی کبھی نکلتا تھا اور جب نکلتا تھا تو اپنے جلال کی وجہ سے لوگوں کی طبیعتوں پر جو اس وقت بہت نازک ہو چکی تھیں بہت گراں گزرتا تھا۔ ’’ریویو‘‘ ایک بالا ہستی تھی جس کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔میں بے مال و زَر تھا۔ جان حاضر تھی۔مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لاتا۔ اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرمائے،ان کی سستی کو جھاڑے۔ان کی محبت کو ابھارے۔ ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور یہ اخبار ثریا کےپاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا۔اس کی خواہش میرے لئے ایسی ہی تھی جیسی ثریا کی خواہش،نہ وہ ممکن تھی نہ یہ۔‘‘

ان صورت حال میں سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی لیکن باوجود اخبار کو جماعت کی زندگی کے لیے حد درجہ ضروری سمجھنے کے حضور کچھ بھی نہ کر سکتے تھے۔ جو لوگ سلسلہ کے کام کر رہے تھے اور اخبار جاری کر سکتے تھے ان کو اس ضرورت کا احساس ہی نہ تھا اور جن کو اخبار نکالنے کا خیال آیا بھی وہ بھی سلسلہ کی ضرورت کے لیے نہ آیا، جماعت کے مقاصد کے حصول کے لیے نہ آیا بلکہ اس خیال سے آیا کہ جماعت کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا جائے جبکہ حضور اپنے مالی حالات کے لحاظ سے اخبار کے لیے سرمایہ مہیا کرنے سے بھی قاصر تھے۔ آخر حضور کے دل کی تڑپ رنگ لائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے اصلاح احوال کے لیے حضور کو اپنے گھر سے ہی کچھ ایسے معاون میسر آ گئے جنہوں نے اس ناممکن کام کو ممکن بنا دیا اور اخبار نکالنے کی صورت پیدا ہو گئی۔ اس سلسلہ میں حضورؓ بیان فرماتے ہیں:

’’خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح حضرت خدیجہؓ کے دل میں رسول کریمﷺکی مدد کی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا …اپنے دو زیور مجھے دے دئے… مَیں زیورات کو لے کر اسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دونوں کڑےفروخت ہوئے۔ یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا۔ الفضل اپنے ساتھ میری بےبسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گا۔‘‘

حضرت سیدہ ام ناصرؓ کی اس قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اس قربانی نے نہ صرف مجھے ہاتھ دئےجن سے میں دین کی خدمت کے قابل ہوا اور میرے لئے زندگی کا ایک نیا ورق الٹا دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے ایک بہت بڑا سبب پیدا کر دیا‘‘۔

الفضل کے سرمایہ مہیا کرنے میں دوسری ہستی حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی تھی۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور تحریر کرتے ہیں:

’’آپ نے اپنی ایک زمین جو قریباً ایک ہزار روپے میں بکی الفضل کے لئے دیدی۔ مائیں دنیا میں خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں مگر ہماری والدہ کو ایک خصوصیت حاصل ہےاور وہ یہ کہ احسان صرف ان کے حصہ میں آیا ہے اور احسان مندی صرف ہمارے حصہ میں آئی… ہے۔ وہ اب بھی ہمارے لئے تکلیف اٹھاتی ہیں اور ہم بھی کئی طرح ان پر بار ہیں… پیدائش سے اس وقت تک ان کی طرف سے احسان ہی احسان ہیں اور یہاں ایک بدلے کا خیال بھی۔ ایک نہ پوری ہونے والی امیدوں کا سلسلہ۔‘‘

اس سلسلے میں ایک اَور معاون اور یہ معاون بھی حضورؓ کے اپنے خاندان سے ہی تعلق رکھتے تھے کا ذکر کرتے ہوئے حضورؓ تحریر کرتے ہیں:

’’تیسرے شخص جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نےتحریک کی وہ مکرمی خان محمد علی خان صاحبؓ ہیں۔ آپ نے کچھ روپیہ نقد اور کچھ زمین اس کام کے لئے دی۔ پس وہ بھی اس رو کے پیدا کرنے میں جو اللہ تعالیٰ نے ’’الفضل‘‘ کے ذریعہ سے چلائی حصہ دار ہیں۔ اور السّابقون الاوّلون میں سے ہونے کے سبب سے ا س امر کے اہل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اس قسم کا کام لے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہر قسم کے مصائب سے محفوظ و مامون رکھ کر اپنے فضل کے دروازے ان کے لئے کھولے‘‘۔

اخبار کے جاری کرنے کے لئے روپے کا انتظام ہو جانے کے بعد حضورؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر اخبار کے اجرا کی اجازت کی درخواست کی اور نام رکھنے کی استدعا کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح نے اجازت مرحمت فرمائی اور ’’الفضل‘‘ نام رکھا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور تحریر کرتے ہیں:

’’اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام الفضل فضل ہی ثابت ہوا‘‘

الفضل کے انتظام اور انصرام اور ادارتی کام میں معاونت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’جب الفضل نکلا ہے اس وقت ایک شخص جس نے اس اخبار کی اشاعت میں شائد مجھ سے بھی بڑھ کر حصہ لیا ہے وہ قاضی ظہور الدین صاحب اکمل ہیں۔ اصل میں سارے کام وہی کرتے تھےاگر ان کی مدد نہ ہوتی تو مجھ سے اخبار کا چلانا مشکل ہوتا۔ رات دن انہوں نے ایک کر دیا… شروع میں قاضی صاحب ہی مینجری کا کام کرتے تھے اور مضمون نویسی میں بھی میری مدد کرتے‘‘۔

بے بسی اور لاچاری کے اس پس منظر میں الفضل اخبار نکلا اور اپنے پہلے پرچہ کے ساتھ ہی اس کی مخالفت شروع ہو گئی۔ اور بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ احباب جماعت الفضل کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہر پرچہ کے شائع ہونے پر ایک بڑے طبقہ جماعت کی طرف سے پُر زور مخالفت کی جاتی اور اس مخالفت میں جھوٹ اور سچ۔ صحیح اور غلط کی بھی تمیز نہ کی جاتی۔‘‘

یہ مخالفت جماعت کے سرکردہ افراد تک اور اخبارات تک محدود نہ تھی بلکہ الفضل کے خلاف اس طرح پروپیگنڈا کیا گیا تھا کہ جماعت کے عام لوگ بھی اس مخالفت سے متأثر ہوئے اور انہوں نے بھی الفضل کی مخالفت شروع کر دی اور یہ معاملہ اس حد تک بڑھا کہ ایک نو عمر جوان جس کی ابھی داڑھی مونچھیں بھی نہ نکلی تھیں الفضل کی مخالفت پر اس طرح کمر بستہ ہوا کہ روزانہ عین دفتر الفضل کے سامنےبیٹھ کر پیغام صلح کی تائید اور الفضل کی مزعومہ غلطیوںپر بآواز بلند بحث کرتا اور طعن و تشنیع سے کام لیتا۔ دفتر الفضل کے سامنے بیٹھ کر مستقلاً اس قسم کا پروپیگنڈا اخبار کی ساکھ اور اس کی خریداری کے لیے حد درجہ نقصان رساں اور مضر تھا اور اس وجہ سے الفضل کے کارکنان اسے نا پسند کرتے تھےلیکن مخالفت کے ان حالات میں جن سے اخبار الفضل کے کارکنان اور اس کے مدیر محترم دوچار تھے کچھ بھی نہ کر سکتے تھے اور مجبوری اور لاچاری کی اس حالت میں اس نوجوان کی ہر قسم کی طنزیہ گفتگو سننے پر مجبور تھے۔ یہ نوجوان بعد میں قادیان سے چلا گیا اور اپنی طعن و تشنیع سے لبریز گفتگو کو ناکافی سمجھتے ہوئے پیغام صلح میں الفضل کے خلاف مضمون بھی لکھے لیکن انسان کچھ سوچتا ہے اور خدا کے ارادے کچھ اَور ہوتے ہیں۔ اس نوجوان کے لیے بھی کچھ اور ہی مقدر تھا۔ کچھ وقت کے بعد وہی نوجوان حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر کے دوبارہ قادیان آیا اور الفضل کے جس دفتر کے دروازہ پر بیٹھ کر وہ الفضل کے خلاف طعن و تشنیع کے تیر چلاتا تھا اسی دروازہ سے خدا کی تقدیر نے اسے دفتر کے اندر داخل کر دیا اور بالآخر وہ الفضل کا ایڈیٹر بنا۔ خدا کی قدرت کے رنگ نرالے ہیں اور کوئی ان کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہ نوجوان جو بعد میں ایڈیٹر رہا میاں غلام نبی بلانوی تھے!

لیکن مخالفت کے اس ماحول اور ان مشکل حالات میں صرف ایک آواز تھی جس نے حضرت صاحبزادہ صاحب کا حوصلہ بڑھایا اور نئے اخبار کی حوصلہ افزائی کی اور یہ آواز حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی تھی۔ جب حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے حضور الفضل کے اجراء کے لیے درخواست پیش کی تو حضورؓ نے ان الفاظ میں اجازت مرحمت فرمائی:

’’ہفتہ وار پبلک اخبار کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جس قدر اخبار میں دلچسپی بڑھے گی خریدار خود بخود پیدا ہوں گے۔ ہاں تائید الٰہی، حسن نیت، اخلاص اور ثواب کی ضرورت ہے۔ زمیندار، ہندوستان، پیسہ میں اور کیا اعجاز ہے وہاں تو صرف دلچسپی ہے اور یہاں دعا نصرت الٰہیہ کی امید بلکہ یقین ہے۔ نور الدین‘‘

حضرت صاحبزادہ صاحب نےجب اخبار کے اجراء کا ارادہ کیا تو آپ کے علم میں نہ تھا کہ لاہور سے پیغام صلح بھی جاری کیا جا رہا ہے۔ اسی دوران میں کہ الفضل کی اشاعت و اجراء کے جملہ انتظامات مکمل ہو چکے تھےلیکن ابھی اشاعت شروع نہ ہوئی تھی کہ لاہور سے پیغام صلح کے پراسپیکٹس پہنچ گئے۔ جب صاحبزادہ صاحب نے وہ ملاحظہ کیے تو انہوں نے ارادہ کیا چونکہ سلسلہ کا ایک اور ا خبار شائع ہو رہا ہے اس لیے الفضل کی اشاعت شروع نہ کی جائے اور اس غرض سے صاحبزادہ صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولّ کے حضور دوبارہ اس معاملہ کو پیش کیا لیکن حضور نے حکم فرمایا:

’’مبارک ہے کچھ پرواہ نہ کریں وہ اور رنگ ہے یہ اور کیا لاہور میں اخبارات نہیں۔نور الدین‘‘

اور پھر جب الفضل کا پہلا پرچہ نکلا اور آپ کے حضور پیش کیا گیا تو پیغام صلح کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئےجسے جماعت کے اس وقت کے سرکردہ افراد نے لاہور سے شائع کرنا شروع کیا تھا۔ آپؓ نے فرمایا:

’’پیغام بھی میں نے پڑھا ہے اور الفضل بھی مگر یہاں

شَتَّانِ بَیْنَھُمَا

یعنی کُجا وہ کُجا یہ۔‘‘

بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ اس مبارک انسان کے منہ سے نکلی ہوئی بات کس قدرمبنی بر حق تھی اور کس طرح پیغام صلح نے جماعت کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کی۔ کس طرح الفضل نے جماعت کی شیرازہ بندی کے لیے جماعت کو مستحکم و مضبوط کرنے کے لیے کام کیا۔ 1913ء میں جاری ہونے والا پیغام صلح آج بھی جاری ہے اور 1913ء میں ہی جاری ہونے والا اخبار الفضل بھی جاری ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ پیغام صلح ہفتہ وار ہے اور الفضل روزانہ۔ اگر 1913ء سے اب تک ان دونوں اخباروں کا کوئی مطالعہ کرے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ کونسا اخبار جماعت کے لوگوں کو ان کے آقا علیہ السلام کی تعلیم اور ان کے عقائد سے دور کرنے میں کوشاں رہا اور کونسا اخبار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو عام کرنے اور بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھانے کے لئے اور حقیقی اسلام کی طرف بلانے میں کوشش کرتا رہا اور آج بھی کوشاں ہےاور جیسا کہ خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا فرمان پہلے سنایا ہے دونوں اخباروں کے مطالعہ کے بعد ہر مطالعہ کرنے والا یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہےکہ

’’پیغام بھی میں نے پڑھا ہے اور الفضل بھی۔ مگر یہاں شتّان بینھما یعنی کُجا وہ کُجا یہ۔‘‘

اپنے اسی مضمون میں جو یاد ایام کے عنوان سے الفضل 4؍ جولائی میں شائع ہوا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اخبار کے کام میں معاونت کرنے والے دو اَور بزگان کا بھی ذکر فرمایا ہے؛ ایک حضرت صوفی غلام محمد صاحب رضی اللہ عنہ اور ایک حضرت مولوی عبد الرحیم نیر صاحبؓ۔ یہ دونوں بزرگ حضرت صاحبؓ اور حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکملؓ کے اخبار کے قلمی اور انتظامی امور میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ اسی طرح حضورؓ نے بعض اَور بزرگان کا بھی تذکرہ فرمایا جو خلافت ثانیہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے دنیا پر اظہار کے لیے جماعت کو عطا کیے تھے۔ ان میں حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ، حضرت چودھری فتح محمد صاحبؓ،حضرت ماسٹر محمد الدین صاحبؓ شامل تھے۔ یہ بزرگان جماعت کے دیگر کاموں کے علاوہ اپنی تحریروں سے اخبار الفضل کی قابل قدر قلمی معاونت بھی کرتے رہے۔

اس موقع پر اُن مقاصد کا اور ان اغراض کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جن کے حصول کے لیے حضورؓ نے اخبار الفضل کا اجرا کیا تھاان خواہشوں،آرزوؤں اور تمناؤں کا تذکرہ بھی جن کے ساتھ حضورؓ نے اس کٹھن کام کا بیڑہ اٹھایاتھاان پر اُن دعاؤں سے روشنی پڑتی ہےجو حضور رضی اللہ عنہ نے الفضل کے اجرا کے وقت کی تھیں اور جن کی ایک جھلک ہمیں اخبار الفضل کے پہلے شمارہ میں ملتی ہے۔ حضورؓ الفضل کا آغاز کرتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام کی پیروی میں الفضل کی کشتی سمندر میں ڈالتے ہوئے بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖھَا کی دعا کرتے ہیں اور اپنے رب کے حضور عرض کرتے ہیں:

’’اے میرے دلدار میرے محبوب خدا! تو دلوں کا واقف ہےاور میری نیتوں اور ارادوں کو جانتا ہے۔ میرے پوشیدہ رازوں سے واقف ہے۔ میرے حقیقی مالک میرے متولی۔تجھے علم ہے کہ تیری رضا حاصل کرنے کے لئے اور تیرے دین کی خدمت کے ارادہ سے یہ کام میں نے شروع کیا ہے۔ تیرے پاک رسول کے نام کے بلند کرنے اور تیرے مامور کی سچائیوں کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے یہ ہمت میں نے کی ہےتو میرے ارادوں کا واقف ہےمیری پوشیدہ باتوں کا رازدار ہے۔ میں تجھی سے اور تیرے ہی پیارے چہرہ کا واسطہ دے کر نصرت و مدد کا امید وار ہوں۔ تو جانتا ہے کہ میں کمزور ہوںمیں ناتواں ہوں۔میں ضعیف ہوں۔میں بیمار ہوں۔میں تو اپنے پہلے کاموں کا بوجھ بھی اٹھا نہیں سکتا۔ پھر یہ اور بوجھ اٹھانے کی طاقت مجھ میں کہاں سے آئے گی۔ میری کمر تو پہلے ہی خم ہے۔ یہ ذمہ داریاں مجھے اور بھی کبڑا کر دیں گی۔ ہاں تیری ہی نصرت ہےجو مجھے کامیاب کر سکتی ہے۔ صرف تیری ہی مددسے میں اس کام سےعہدہ برا ہو سکتا ہوں۔ تیرا ہی فضل ہے جس کے ساتھ میں سر خرو ہو سکتاہوں اور تیرے ہی رحم سے میں کامیابی کا منہ دیکھ سکتا ہوں۔ دین اسلام کی ترقی اور اس کی نصرت خود تیرا کام ہےاور تو ضرور اسے کر کے چھوڑے گا۔ مگر ثواب کی لالچ اور تیری رضا کی طمع ہمیں اس کام میں حصہ لینے کے لئے مجبور کرتی ہے۔ پس اے بادشاہ! ہماری کمزوریوں پر نظر کراور ہمارے دلوں سے زنگ دور کر۔اسلام کی ترقی کے دن پھر آئیں اور پھر یہ درخت بار آور ہو اور اس کے شیریں ثمر ہم کھائیں اور تیرا نام دنیا میں بلند ہوتیری قدرت کا اظہار ہو۔ نور چمکے اور ظلم دور ہو۔ہم پیاسے ہیں اپنے فضل کی بارش ہم پر برسااور ہمیں طاقت دے کہ تیرے سچے دین کی خدمت میں ہم اپنا جان ومال قربان کریں اور اپنے وقت اس کی اشاعت میں صرف کریں۔ تیری محبت ہمارے دلوں میں جاگزین ہو اور تیرا عشق ہمارے ہر ذرہ میں سرایت کر جائےہماری آنکھیں تیرے ہی نور سے دیکھیں اور ہمارے دل تیری ہی یاد سے پر ہوں اور ہماری زبانوں پر تیرا ہی ذکر ہو تو ہم سے راضی ہو جائےاور ہم تجھ سے راضی ہوں تیرا نور ہمیں ڈھانک لے۔ اے میرے مولا! اس مشتِ خاک نے ایک کام شروع کیا ہے اس میں برکت دےاور اسے کامیاب کر۔ میں اندھیروں میں ہوں تو آپ ہی راستہ دکھا۔لوگوں کے دلوں میں الہام کرکہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض کو لاکھوں نہیں کروڑوں تک وسیع کر اور آئیندہ نسلوں کے لئے بھی اسے مفید بنااس سبب سے بہت سی جانوں کو ہدایت ہو۔ میری نیتوں کا تو واقف ہےمیں تجھے دہوکا نہیں دے سکتا کیونکہ میرے دل میں خیال آنے سے پہلےتجھے اس کی اطلاع ہوتی ہےپس تو میرے مقاصد و اغراض کو جانتا ہےاور میری دلی تڑپ سے آگاہ ہےلیکن میرے مولا میں کمزور ہوں اور ممکن ہے کہ میری نیتوںمیں بعض پوشیدہ کمزوریاں بھی ہوں تو ان کو دور کراور ان کے شر سے مجھے بچا لےاور میری نیتوں کو صاف کراور میرے ارادوں کو پاک کرتیری مدد کے بغیر میں کچھ بھی نہیں کر سکتاپس اس ناتواں و ضعیف کو اپنے دروازہ سے خائب و خاسرمت پھیریو کہ تیرے جیسے بادشاہ سے میں اس کا امیدوار نہیں۔ تو میرا دستگیر ہو جااور مجھے تمام ناکامیوں سے بچا لے۔ آمین ثم آمین ثم آمین۔‘‘

(الفضل 18؍ جون 1913ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button