غیظ وغضب
غیظ وغضب کیا ہے؟
غیظ وغضب عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ جس کے معنی طیش، غصہ، تاؤ، خفا ہونا، ناراض ہونا کے کیے جاتے ہیں۔ انگلش میں anger اور Temperاس کے مطالب ہیں۔ غصہ ایک ایسی آگ ہے جس سے انسان کے اندر جوش پیدا ہوجاتاہے۔ دل کی دھڑکن تیز، چہرہ سرخ، نبض کی رفتار زیادہ اور سانس پھولنے لگتی ہے۔ ایسی حالت میں بعض اوقات ایک مہذب اورخوبصورت آدمی کی شکل خوفناک نظر آنے لگ جاتی ہے۔ غیظ وغضب کی حالت میں کی ہوئی حرکات پر بعد میں ندامت وپریشانی ہوتی ہے۔ کئی دفعہ توہلاکت و تباہی اس کا نتیجہ ہوتاہے۔ غضب میں کہے ہوئے الفاظ دوسرے کے دل کوزخمی کرجاتے ہیں اور یہ زخم رہتی دُنیا تک دکھائی نہ دینے کے باوجود قائم و دائم رہتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ زبان کا زخم تلوار کے زخم سے گہراہوتاہے۔ ایسی حالت میں سوچنے اور سمجھنے کی طاقت موقوف ہو جاتی ہے۔ یہ شیطان کی طرف سے آتاہےاوراُس پرقابو پانے کی تاکید اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بارہا دفعہ کی ہے۔
جیسا کہ فرمایا:
الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (آل عمران:135)
وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
ایک اور جگہ فرمایا:
وَ الَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ وَ اِذَا مَا غَضِبُوۡا ہُمۡ یَغۡفِرُوۡنَ۔ (الشوریٰ:38)
اور جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں اور جب وہ غضبناک ہوں تو بخشش سے کام لیتے ہیں۔
غصہ کیوں آتا ہے اور اسے ضبط کیسے کیا جا سکتاہے؟
انگلش میں Anger Management سے مراد غصہ پر ضبط کرنا لیاجاتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات نے اس کی چند ایک وجوہات بیان کرتے ہوئے ان کا حل بھی تجویز کیا ہے۔ جن میں چند ایک یوں ہیں:
٭…غصہ آنے کی ایک بڑی وجہ انسان کے اندر کا Egoہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھنے لگتا ہے۔ تکبر اور انا کی بیماری پیدا ہونے لگتی ہے جس کی وجہ سے وہ دوسروں کو کم تر سمجھتا ہے اور اُن کی بات برداشت کرنا مشکل ہو جاتی ہے۔ اور غصہ آنے لگتا ہے۔ اگر غصہ کرنے والے کے اندر عاجزی و انکساری آجائے تو وہ اِس بیماری سے نجات پا سکتا ہے۔
٭…خواہشات کو بڑھا لیا جاتا ہے اور جب اُن کو پورا نہیں کر پاتا تو غیظ و غضب پیدا ہونے لگتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ توقعات اور خواہشات کو کم کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر راضی رہا جائے۔
٭…نیند میں کمی یا زیادتی بھی غصے کی وجہ بن جاتی ہے۔ اگر اس کا خیال رکھا جائے تو بھی غصہ پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
٭…آج کل غصہ آنے کی ایک بڑی وجہ ورزش کا نہ کرنا بھی ہے۔ لیکن اگر روزانہ ہلکی پھلکی سیر ہی کر لی جائے تو اس مرض کو کم کیا جاسکتا ہے۔
٭…زیادہ کام اپنے اُوپر لے لینے سے بھی ایک انسان اس میں شکار ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنا کام مکمل نہیں کر پاتا جس کی وجہ سےذہنی دباؤ کاشکار ہوجاتاہے۔ اور چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ آ جاتا ہے۔ اس لیے چاہیے کہ کام میں اعتدال ہو۔
نبی پاکﷺ کے بتائےہوئے طریق سے اس کا حل
سُلَيْمَانُ بْنُ صُرَدٍ، قَالَ اسْتَبَّ رَجُلاَنِ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى اللّٰه عليه وسلم فَجَعَلَ أَحَدُهُمَا يَغْضَبُ وَيَحْمَرُّ وَجْهُهُ فَنَظَرَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلى اللّٰه عليه وسلم فَقَالَ إِنِّي لأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا لَذَهَبَ ذَا عَنْهُ أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ۔
(مسلم۔ كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ۔ باب فَضْلِ مَنْ يَمْلِكُ نَفْسَهُ )
حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷺ کے پاس دو آدمیوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا تو ان میں سے ایک غضبناک ہونے لگا اور اُس کا چہرہ سرخ ہونے لگا۔ نبی کریمﷺ نے اُ س کی طرف دیکھا اور فرمایاکہ میں ایسا کلمہ جانتا ہوں اگر وہ یہ کلمہ أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ پڑھے تو غصہ جاتا رہے گا۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَنَا: إِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ قَائِمٌ فَلْيَجْلِسْ، فَإِنْ ذَهَبَ عَنْهُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْيَضْطَجِعْ۔
(سنن ابی ابو داؤد، كِتَاب الْأَدَب، ما یقال عندالغضب)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولﷺ نے ہمیں فرمایا: جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اگروہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، اگر اُس کا غصہ جاتا رہے تو ٹھیک، نہیں تو پھر لیٹ جائے۔
حَدَّثَنَا أَبُو وَائِلٍ الْقَاصُّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَإِنَّ الشَّيْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ، وَإِنَّمَا تُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَاءِ، فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَتَوَضَّأْ
(سنن ابی ابو داؤد، كِتَاب الْأَدَب، ما یقال عندالغضب)
حضرت ابووائل القاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:غصہ شیطان کی طرف سے آتاہے اور شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے، اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، لہٰذا جب کسی کو غصہ آجائے تو وضو کرلے۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ ۔ أَلَا وَخَيْرُهُمْ بَطِيءُ الْغَضَبِ سَرِيعُ الْفَيْءِ، أَلَا وَشَرُّهُمْ سَرِيعُ الْغَضَبِ بَطِيءُ الْفَيْءِ…أَلَا وَإِنَّ الْغَضَبَ جَمْرَةٌ فِي قَلْبِ ابْنِ آدَمَ، أَمَا رَأَيْتُمْ إِلَى حُمْرَةِ عَيْنَيْهِ وَانْتِفَاخِ أَوْدَاجِهِ فَمَنْ أَحَسَّ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ فَلْيَلْصَقْ بِالْأَرْضِ۔
(ترمذی، كتاب الفتن عن النبیﷺ،باب ماجاءمااخبر النبی)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:تم میں بہترین شخص وہ ہےجسے غصہ دیر سےآئےاور جلد چلاجائےاور بدترین شخص وہ ہے جسےغصہ جلد آئے اور دیر سے جائے۔ سنو! یقیناً غصہ کےوقت ابن آدم کے دل میں ایک انگارہ ہوتا ہے۔ کیاتم دیکھتے نہیں کہ غصے کے وقت آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں اورگردن کی رگیں پھول جاتی ہیں؟ لہٰذاجسے بھی غصہ آئے وہ زمین پر بیٹھ جائے۔
حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں:
’’یاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے۔ جب جوش اور غصہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی۔ لیکن جو صبر کرتا ہے اور بردباری کا نمونہ دکھاتا ہے اس کو ایک نور دیا جاتا ہے جس سے اس کی عقل و فکر کی قوتوں میں ایک نئی روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے۔ غصہ اور جوش کی حالت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں اس لئے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 180، ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)
’’یاد رکھو جو شخص سختی کرتا ہے اور غضب میں آجاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آ کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمے سے بےنصیب اور محروم کئے جاتے ہیں۔ غضب اور حکمت دونو جمع نہیں ہو سکتے۔ جو مغلوب الغضب ہوتا ہے۔ اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے۔ اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئیے جاتے۔ غضب نصف جنون ہے جب یہ زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 126-127، ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ غصہ پر ضبط کرنے کا ایک ایمان افزا واقعہ بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:
’’اس بارہ میں حضرت علیؓ کی ایک مثال بڑی ایمان افزاء ہے۔ جنگ خیبر میں ایک بہت بڑے یہودی جرنیل کے مقابلہ کے لئے نکلے اور بڑی دیر تک اس سے لڑتے رہے چونکہ وہ بھی لڑائی کے فن کا ماہر تھا اس لئے کافی دیر تک مقابلہ کرتا رہا۔ آخر حضرت علیؓ نے اسے گرا لیا اور آپ اس کی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ تلوار سے اس کی گردن کاٹ دیں۔ اتنے میں اس یہودی نے آپ کے منہ پر تھوک دیا۔ اس پر حضرت علیؓ اسے چھوڑ کر الگ کھڑے ہو گئے۔ وہ یہودی سخت حیران ہوا کہ انہوں نے یہ کیا کیا؟ جب یہ میرے قتل پر قادر ہو چکے تھے تو انہوں نے مجھے چھوڑ کیوں دیا؟ چنانچہ اس نے حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ آپ مجھے چھوڑ کر الگ کیوں ہو گئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں تم سے خدا کی رضا کے لئے لڑ رہا تھا مگر جب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو مجھے غصہ آ گیا اور میں نے سمجھا کہ اب اگر میں تم کو قتل کروں گا تو میرا قتل کرنا اپنے نفس کے لئے ہو گا، خدا کے لئے نہیں ہو گا۔ پس میں نے تمہیں چھوڑ دیا تا کہ میرا غصہ فرو ہو جائے اور میرا تمہیں قتل کرنا اپنے نفس کے لئے نہ رہے۔ یہ کتنا عظیم الشان کمال ہے کہ عین جنگ کے میدان میں انہوں نے ایک شدید دشمن کو محض اس لئے چھوڑ دیا تا کہ ان کا قتل کرنا اپنے نفس کے غصہ کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو۔ ‘‘
(سیر روحانی صفحہ 150، مطبوعہ 2017ءقادیان)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنی ذہنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو کبھی بھی تباہ و بربادنہ ہونے دیں تو بدظنی اور غضب سے اپنے آپ کو بچانا ہو گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ حقیقی مومن بنیں تو اپنی صلاحیتوں کو برمحل اور برموقع اور مناسب رنگ میں ادا کرنا ہوگا۔ غصہ کی کیفیت اگر کبھی پیدا بھی ہو تو جنونی ہو کے نہیں ہونی چاہئے بلکہ صرف اصلاح کی حد تک ہونی چاہئے۔ غصے اور بے لگام جذبات کا اظہار انسان کو جنونی بنا دیتے ہیں۔ پس ان میں اعتدال کی ضرورت ہے۔ اگر غصہ ہے تو اس حد تک جیسا کہ مَیں نے کہا جہاں اصلاح کے لئے ضروری ہے۔ اپنی اَناؤں کی تسکین کے لئے نہیں۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ اکتوبر 2014ء
مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 31؍اکتوبر2014ءصفحہ7)
٭…٭…٭