اخبار ’’فضل‘‘ کا پراسپکٹس
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
جماعتی ترقی اور کثرت سے احمدیت کے پھیلنے کے پیش نظر جون 1913ء میں بعض اہم اور فوری جماعتی ضروریات کا احساس کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الثانیؓ )نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی اجازت سے ایک اخبار جاری کیا جس کا نام ’’فضل‘‘ تجویز ہوا۔ اس اخبار کے پراسپکٹس میں آپؓ نے آٹھ اہم جماعتی ضروریات کا ذکر فرمایا نیز دس اہم اغراض بھی بیان فرمائیں جو اس اخبار کے ذریعے سے پوری کی جائیں گی۔ بعد میں یہی اخبار ’’الفضل‘‘ کے نام سے جاری ہوا جس کا پہلا پرچہ آج سے ٹھیک 109 سال قبل 18؍ جون 1913ء کو منظرِ عام پر آیا۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ادارہ الفضل انٹرنیشنل کو الفضل کے قیام کی بنیادی اغراض و مقاصد پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اخبار ’’فضل‘‘ کا پراسپکٹس ہدیۂ قارئین ہے۔ (مدیر)
چھوٹے بڑے کس طرح ہوتے ہیں
ہندوستان کیا ہر ملک میں جنگل کے جنگل درختوں کے کھڑے ہوتے ہیں۔ ان درختوں کو کس نے لگایا۔ اور کون ان کی حفاظت کر رہا ہے۔ کس نے ان کو پانی دیا پھر کس نے جانوروں اور حشرات الارض سے ان کی نگہبانی کی۔ وہ کونسی قوم تھی جو اپنا وقت اور مال صرف کر کے ان کے لگانے اور پھر ان کی حفاظت کرنے میں مصروف رہی اگر کوئی قوم ایسی نظر نہیں آتی تو پھر وہ کہاں سے آئے آسمان پر ایک ہستی ہے جس نے زمین کو آسمان کو سورج کو چاند کو ستاروں کو سیاروں کو آگ کو پانی کو مٹی کو ہوا کو انسان کو حیوان کو پیدا کیا ہے۔ اسی نے ان درختوں کو لگایا اور ایسے رنگ میں لگایا ہے کہ جسے دیکھ کر عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے بیج کو جسے دیکھ کر کوئی وہم بھی نہیں کرسکتا کہ اس میں سےاس قدر عظیم الشان درخت کھڑا ہوجائے گا۔ ہوائیں اڑا کر لاتی ہیں۔ اور ایک خالی جگہ پر گر جاتا ہے۔ پھر ہلکی ہوائیں اس پر کچھ گردو غبار ڈال دیتی ہیں۔ اور پھر آسمانوں اور زمینوں کا بادشاہ سورج کو حکم دیتا ہے کہ اپنی حرارت سے وہ سمندروں میں سے پانی کھینچے مون سون اسے اڑا لاتی ہیں اور رفتہ رفتہ وہ بادل کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اور اس وسیع میدان میں کہ جس میں وہ بیج آپڑا تھا آکر برستا ہے۔ اور پھر بغیر اس کے کہ کوئی انسان بیلوں اور کنووں کی مدد سے اسے پانی دے اسے پانی مل جاتا ہے اور وہ بیج اپنی طاقت کے مطابق پھولتا ہے۔ اور پھر اس میں سے ایک باریک سی شاخ نکلتی ہے جو زمین سے خوراک حاصل کرتی ہے۔ اور سورج سے حرارت لیکن چند سال نہیں گزرنے پاتے کہ وہ ایک درخت ہوجاتا ہے۔اور پھر اسے پھل لگتے ہیں اور پھر اپنے وقت پر وہ پھل زمین پر گر جاتے ہیں۔ اور ان سے اس طریق پر درخت پیدا ہوتے ہیں۔ اور ہوتے ہوتے لاکھوں لاکھ درخت پیدا ہوجاتے ہیں اور بعض دفعہ ان کا دائرہ سینکڑوں میلوں تک وسیع ہوجاتا ہے۔ کیا کوئی بیج کو دیکھ کر نتیجہ نکال سکتا تھا کہ یہ بیج اس طرح بڑھے گا۔ ہاں کیا کوئی اس چھوٹی سی شاخ کو جو بارش کے بعد زمین سے نمودار ہوئی تھی دیکھ کر فیصلہ کر سکتا تھا کہ یہ شاخ لاکھوں شاخوں کی جڑ ہوگی پھر کیا کوئی اس اکیلے درخت کو دیکھ کر کہہ سکتا تھاکہ اس درخت سے لاکھوں درخت پیدا ہوں گے۔ مگر اس دنیا کا ایک آقا ہے اس کے ایک ادنیٰ سے اشارے سے یہ سب ہوا اور ہوتا ہے۔
روحانی سلسلوں کی مثال جنگل سے
جس طرح بغیر کسی کے بیج لگائے بغیر کسی کے پانی دیئے بغیر کسی کی ظاہری حفاظت اور کوشش کے جنگل پیدا ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح نامعلوم طور سے ایک روحانی بیج دنیا میں ڈالا جاتا ہے اور اسے دیکھ کر ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ اکیلا بیج جو کسی کی حفاظت میں نہیں جلد تباہ ہوجائے گا اور کسی کے پاؤں تلے آکر پِس جائے گا۔ اور کوئی کونپل اس سے پیدا بھی ہوئی تو وہ جلد روندی جائے گی۔ لیکن وہ نادان کیا جانتا ہے کہ اس کا نگران کسی کو نظر نہیں آتا مگر وہ سب کا نگران ہے اور کوئی چیز اس کی نظروں سے پوشیدہ نہیں وہ اس کی حفاظت کرتا ہے اور الہام کے پانی سے سیراب کرتا ہے۔ وہاں بے شک اس بیج کے مالی نظر نہیں آتے۔ مگر اس کی حفاظت کے لئے ملائکہ تلواریں لئے کھڑے ہوئے ہیں۔ اور ہر ایک خطرہ سے اسے محفوظ رکھتے ہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ روحانی بیج جو خدا نے دنیا میں ڈالا ہے جلد تباہ ہوجائے گا لیکن ایک دن یہ دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں کہ وہ تمام دنیا میں پھیل گیا ہے۔ اس کے کاٹنے کی کسی کو طاقت نہیں بلکہ جو چیز اس کی لپیٹ میں آتی ہے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتی ہے۔
كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِي السَّمَاۗءِ تُؤْتِيْٓ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍۢ بِاِذْنِ رَبِّهَا وَ يَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ (ابراہیم: 25، 26) كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًا(الفتح:30)
ہماری جماعت کا بھی یہی حال ہے
چونکہ حضرت مسیح موعودؑ بھی انہی بیجوں میں سے ایک بیج تھے اس لئے ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہوا۔ آج سے تیس سال پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ یہ بیج اس قدر ترقی کرے گا اور نہ صرف اپنے اندر ترقی کرے گا بلکہ لاکھوں کا باپ ہوگا اور ہزاروں لاکھوں نفوس اس سے اپنا تعلق پیدا کریں گے اور کوئی مخالف اس پر غالب نہ ہوسکے گا۔ لیکن جو خدا کا منشاء تھا پورا ہوا اور زمین نے ایک تازہ نشان دیکھا۔ اور وہ احمدی جماعت جس کے 313آدمیوں کی فہرست نہ پوری ہوسکتی جب تک کہ بچے اور عورتیں اس میں داخل نہ کئے جائیں۔ اب اس قدر ترقی کر گئی ہے کہ ایک ہزار آدمی قادیان میں ہی موجود ہے اور مجموعی طور سے چار لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔
جماعت کے ساتھ ضروریات بھی بڑھتی ہیں
یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جماعت کی ترقی کے ساتھ ضروریات بھی ترقی کرتی جاتی ہیں۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ حضرت صاحبؑ کی کتب کے شائع کرنے کے لئے ایک پریس کی ضرورت تھی۔ اور بہت مشکل کے ساتھ ایک پریس کھڑا کیا گیا تھا پھر حضرت صاحبؑ نے ضروریات سلسلہ کے لئے ایک رسالہ نکالنا چاہا لیکن وہ اس وجہ سے رکا رہا کہ اس کے لینے والے نظر نہ آتے تھے لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی پریس یہاں کام کر رہے ہیں اور دو ہفتہ وار ایک پندرہ روزہ اور چار ماہوار رسالے یہاں سے نکل رہے ہیں اور پھر بھی ضروریات اس قدر بڑھ رہی ہیں کہ کئی معاملات ابھی توجہ کے قابل ہیں کہ جن کی طرف یہ رسالہ اور اخبار توجہ نہیں کر سکتے۔ یا تو وہ زمانہ تھا کہ ایک کرایہ کے مکان میں پندرہ سو لڑکے پڑھتے تھے ایک انٹرنس پاس ہیڈ ماسٹر تھا۔ اور اب جماعت اس حد تک ترقی کر گئی ہے کہ سینکڑوں طلباء سکول میں تعلیم پاتے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے خرچ سے بورڈنگ اور مدرسہ تیار کرنا پڑا ہے۔ اور بورڈنگ ابھی پورا نہ ہوچکا تھا کہ تنگ معلوم دینے لگا ایک انٹرنس پاس کردہ ہیڈ ماسٹر کی جگہ مولوی صدرالدین صاحب بی اے بی ٹی جیسا لائق آدمی اور مدرّسین میں کئی دیگر گریجوایٹ کام کر رہے ہیں غرض کہ جماعت کے ساتھ اس کی ضروریات بھی بڑھتی چلی گئیں اور بڑھ رہی ہیں اور ان کا پورا کرنا ہمارا فرض ہے۔
ايک نئے اخبار کي ضرورت
ان بڑھنے والي ضروريات ميں سے ايک نئے اخبار کي ضرورت ہے۔بے شک ايک وہ زمانہ تھا کہ جماعت قليل تھي۔ اور پھر اکثر لوگ زمينداروں کے طبقہ ميں سے تھے۔ ليکن اب علاوہ اس مخلص جماعت کي ترقي کے ہزاروں مخلص تعليم يافتہ پيدا ہو گئے ہيں جن کے علوم کو وسعت دينے کے لئے اخبار کي اشدّضرورت ہے ۔ پر يس کي موجودہ آسانيوں نے ساري دنيا کي خبروں سے آگاہي کو ايک سہل الحصول امر بنا ديا ہے اس لئے علم دوست طبقہ اس فائدہ سے محروم رہنا پسند نہيں کرتا۔ علاوہ ازيں اللہ تعاليٰ کے قائم کردہ سلسلوں کے افراد کو ہر معاملہ ميں دوسروں سے بڑھ کر قدم مارنا چاہئے اور سب مفيد علوم ميں ان کا نمبر دوسروں پر فائق ہونا ضروري ہے۔
دوسري ضرورت
ايک نئے اخبار کي ضرورت يہ ہے کہ بہت سے احمدي ہيں کہ جو احمد ي تو ہو گئے ہيں ۔ ليکن ان کو بھي معلوم نہيں کہ احمدي ہو کر ہم پر کيا ذمہ دارياں عائد ہوتي ہيں اور کس طرح ہميں دوسروں کي نسبت رسومات و بدعات اور مقامات اسراف سے بچنا چاہئے ۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بھي ايک سخت کوشش کي ضرورت ہے۔
تيسري ضرورت
يہ ہے کہ ترقي کرنے والي قوم کے لئے اپنے اسلاف کے نيک کاموں، بلندارادوں،وسيع الحوصلگيوں، صبرو استقلال کے کارناموں سے واقف ہونا اور اپنے کام کو پورا کرنے کے لئے ہر قسم کي مشقت اٹھانے کے لئے تيار ہونا ضروري ہو تا ہے۔اس لئے احمد ي جماعت کو تاريخ اسلام سے واقفيت بھي ضروري ہے۔خصوصاً رسول کريم ﷺ(فدا ہ ابي و امي ) اور صحابہؓ کي تاريخ سے۔
چوتھي اَشَدّ ضرورت
اس وقت يہ ہے کہ ہندوستان نہيں بلکہ دنيا کي اکثر قوموں ميں اس وقت سخت بے چيني پھيلي ہوئي ہے اور ايک دوسرے کے خلاف بغض و عناد کا دريا جوش مار رہا ہے اور اس سلسلہ ميں ہندوستان ميں بھي ايک گروہ ايساپيدا ہو گيا ہے کہ جو گورنمنٹ انگلشيہ کے خلاف عجيب عجيب رنگ سے بد ظنياں پھيلا رہا ہے اور وفاداري کے پر دہ ميں اس حکومت کو کمزور کرنے کي فکر ميں ہے اور چونکہ ہمارا کوئي ايسا اخبار نہيں کہ جو سياست کے اہم مسائل پر اس نقطۂ خيال سے روشني ڈالے کہ جو حضرت صاحب نے قائم کيا ہے اس لئے خطرہ ہے کہ ہم ميں سے بعض احباب اس رو ميں نہ بہہ جائيں اس لئے ضروري ہے کہ بڑے زور سے اس معاملہ پر حضرت صاحب کي تحريروں سے روشني ڈالي جائے اور احمد يوں ميں اس سياست کو رائج کياجائے جسے حضرت صاحب نے پيش کيا ۔اور ان اصولوں کو شہرت دي جائے جن پر حضرت صاحب ؑ احمد ي جماعت کو چلانا چاہتے تھے۔ اور احمدي جماعت کو اس موقعہ پر اس کے اہم فرائض بار بار ياد دلائے جائيں تاکہ وہ اپنے امام کے پيش کردہ معيار وفاداري پر قائم رہيں۔
پانچويں نہايت اشدضرورت
احمدي جماعت ميں تعليم کا پھيلانا ہے۔ ميں ديکھتا ہوں کہ جس طرح ہندوستان ميں اور قوميں تعليم ميں پيچھے رہي ہوئي ہيں۔ اسي طرح احمد ي بھي تعليم ميں سست ہيں حالانکہ اللہ فرماتا ہے
هَلْ يَسْتَوِيْ الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ والَّذِيْنَ لايَعْلَمُوْنَ (الزمر:10)
اور رسول کريم ﷺ فرماتے ہيں۔
کَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ الْمُؤمِنِ اَخَذَھَا حَيْثُ وَجَدَ ھَا
پس احمدي جماعت کا اہم فرض تھا کہ اس معاملہ ميں دو سروں سے بڑھ کر قدم مارتي اور اس جماعت کا کوئي فرد نہ رہتا جو تعليم يافتہ نہ ہو۔ اور نہ صرف خود تعليم حاصل کرتے بلکہ دوسروں کو بھي اس کي ترغيب ديتے۔
چھٹي ضرورت
يہ ہے کہ احمدي جماعت اب ہندوستان کے ہر گوشہ ميں پھيل گئي ہے ليکن آپس ميں ايک دوسرے سے واقفيت پيدا کرنا اور ميل ملاپ کو ترقي دينا بہت ضروري ہے اور اس کے علاوہ يہ کوشش بھي ضروري ہے کہ وہ آپس کے جھگڑے آپس ميں ہي فيصلہ کيا کريں۔
ساتويں ضرورت
احمدي جماعت کو دنيا کي ترقي سے آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ بھي اللہ تعاليٰ کے فضل سے محروم نہ رہيں ۔ اور دين دنيا ميں ترقي حاصل کريں ۔ اور اس کے لئے ضروري ہے کہ تجارت حرفت و صنعت اور ايجادات جديدہ سے انہيں آگاہ کرنے کا کوئي ذريعہ نکالا جائے۔
آٹھويں ضرورت
تبليغ کے لئے کوشش کرنا اور جن ممالک ميں تبليغ نہيں ہوئي ان کي طرف توجہ دينا اور دشمنان اسلام کي تبليغي کو ششوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا۔
ان ضروريات کو پورا کرنے کا سامان
ضروريات کو مدنظر رکھ کر ہم نے ارادہ کيا ہے کہ ايک اخبار قاديان سے نکالا جائے۔ جوان ضروريات کو پورا کرنے کے علاوہ ديگر ضروري امور ميں احمدي جماعت کي خدمت بجالائے اور اللہ تعاليٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماري اس خواہش کو پورا کرے اور اس اخبار کو مفيدبنائے۔
قوم پر بوجھ نہيں پڑنا چاہئے
ايک سوال جو ہر نئے کام کے اجراء پر لوگوں کے دل ميں پيدا ہوا کرتا ہے يہ ہے کہ کيا اس نئے اخبار کابوجھ قوم پر نہيں پڑے گا اور کيا آگے ہي بڑھتي ہوئي ضروريات کو مد نظر رکھ کر يہ ضروري نہيں کہ قوم پر مزيد بوجھ نہ ڈالا جائے ؟ ليکن اس کے جواب ميں مجھے صرف اتنا کہنے کي ضرورت ہے کہ تمہارے کام خدانےکرنے ہيں اور جب خدا نے اس سلسلہ کو قائم کيا ہے تو اس کي ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے وہ سامان بھي ضرور مہيا کرے گا۔ جس موليٰ نے بچے کي پيدائش سے پہلے ماں کي چھاتيوں ميں دودھ اتارا ہے۔ اور انسان کي پيدائش سے پہلے سورج، چاند، ستارے ،پاني اور ہوا پيدا کئے ہيں کيا وه ہماري ضرورتوں کے پورا کرنے کے لئے کوئي تدبيرنہ کرے گا؟ جرأت اور ہمت اور استقلال سے کام ليتے ہوئے اس کے حضور ميں گر جاؤ تو وہ تمہاري ہر مشکل کو آسان کر دے گا اور ہر طرف سے آسمان کے دروازے تم پر کھل جائيں گے ۔ کيا يہ سچ نہيں کہ وہ ہر احمدي کي مدد کرتا ہے اور بہت سے ہيں کہ جو زمين سے اٹھا کر آسمان پر بٹھاديئے گئے ہيں اور سينکڑوں ہيں کہ جنہيں گڑ ھوں سے نکال کر بلند پہاڑوں کي چوٹيوں پر جگہ دي گئي ہے ۔ پھر کياوه خدا تمہاري ان ضروريات کو پورا کرنے کے لئے کچھ سامان نہ کرے گا۔ مجھے خوب ياد ہے کہ جب تعليم الاسلام ہائي سکول کے لئے بورڈنگ کي تجويز ہوئي اور پچاس ہزار کي ضرورت بتائي گئي تو ہزاروں تھے جو کہتے تھے کہ اس کمزور جماعت سے يہ کب ہو سکتا ہے۔ ليکن کيا پھر صرف بورڈنگ ہي نہيں بلکہ سکول بھي تيار نہ ہو گيااور کيا تعمير کے اخراجات کے ہوتے ہوئے تمہاري ہي جيبوں سے دوسرے بيسيوں کاموں کے لئے ہزاروں نہيں بلکہ لاکھوں روپے نہيں نکلے۔يہ سب کچھ کيونکر ہواخداکے حکم سے اور اس لئے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے اور جب تم دين کي راہ ميں خرچ کرتے ہو تو وہ تمہارے لئے آمدن کے اور کئي دروازے کھول ديتا ہے ۔ پس جس نے يہ شک کيا کہ يہ جماعت اتنے بوجھ کيونکر اٹھائے گي اس نے اس بات کو جھٹلا ديا کہ يہ جماعت اللہ کے فضل سے آخَرِيْنَ مِنْھُمْ کي مصداق ہے اور اس نے اس کي ناقدري کي۔ ابھي ايک اخبار کيا بيسيوں کام تم نے کرنے ہيں اور تمہيں کرنے پڑيں گے اور وہ ضرور ہو کر رہيں گے کيو نکہ خد اکے منشا پورے ہو کر رہتے ہيں۔ ليکن يہ سب ترقي اسي طرح غير معلوم طور سے ہوگي جس طرح ايک بيج سے جنگل بن جاتا ہے اور عقل اس کو نہيں سمجھ سکتي۔
اس اخبار کے کيا اغراض ہوں گے
ميں مختصراً اس اخبار کے اغراض بيان کر دينا بھي اس جگہ ضروري سمجھتا ہوں۔
1۔ مذہب اسلام کى خوبىوں کو مخالفىن کے سامنے پىش کرنا۔ قرآن شرىف کے کمالات سے آگاہ کرنا۔
2۔ حضرت صاحبؑ کى تعلىم اور آپؑ کى جماعت کى خصوصىات کو لوگوں پر ظاہر کرنا۔
3۔ جماعت کومذ ہب اسلام سے واقف کرنا اور ہر قسم کى بدعات اور رسومات کى ظلمتوں سے نکالنے کى کوشش کرنا اور اخلاق کى درستى کى طرف توجہ دلانا۔
4۔ تارىخ ِاسلام کے ان مفىد حصوں کو شائع کرنا جن سے ہمت، استقلال ، قربانى ، جرأت، اىثار ، اىمان ، وفادارى وغىره خصالِ حسنہ مىں ترقى کى تحرىک ہو۔
5۔ تعلىم کى ترغىب دىنا اور اس کے لئےمفىد تجاوىز پىش کرنا۔
6۔ تبلىغ اسلام کى ترغىب دىنا اس کے لئے ذرائع کى تلاش کرنا اور مخالفىن کى تبلىغى کوششوں سے آگاہ کرنا۔
7۔ سىاست مىں جماعت کو ان اصولوں پر چلنے کى تعلىم دىنا کہ جن پر حضرت صاحبؑ قوم کو چلانا چاہتے تھے اور حضرت خلىفة المسىحؓ چلانا چاہتے ہىں اور گورنمنٹ کى و فادارى کى تعلىم دىنا۔
8۔ ضرورى مفىد اخبار کى واقفىت بہم پہنچانا جن سے عموماً خبروں کے لئے اور کسى اخبار کى احتىاج نہ رہے خصوصاً عالم اسلام کى خبروں سے آگاہ کرنا۔
9۔ احمدى جماعت مىں آپس مىں مىل ملاپ اور و اقفىت کےبڑھانے اور مرکزى حىثىت مىں لانے کى کو شش کرنا۔
10۔ صنعت و حرفت تجارت وغىرہ کے متعلق اور اىجادات جدىدہ کے متعلق بقدر امکان واقفىت بہم پہنچانا۔
اس پر حضرت خليفة المسيحؓ کي رائے
ميں نے اس امر کے متعلق حضرت خليفة المسيحؓ سے مشورہ ليا تو آپؓ نے جو کچھ اس پر تحرير فرمايا ہے وہ جماعت کي آگاہي کے لئے نقل کيا جا تاہے۔
’’ہفتہ وار پبلک اخبار کا ہونا بہت ہي ضروري ہے جس قدر اخبار ميں دلچسپي بڑھے گي خريدار خود بخود پيدا ہوں گے۔ ہا ں تائيد الہيٰ حسن نيت اخلاص اور ثواب کي ضرورت ہے زميندار، ہندوستان، پيسہ اخبار ميں اور کيا اعجاز ہے ؟ و ہاں تو صرف د لچسپي ہے اور يہاں دعا، نصرت الہٰيہ کي اميد بلکہ يقين۔ تَوَکُّلًا عَلَي اللّٰہِ کام شروع کرديں۔‘‘
نور الدين(دستخط)
اس تحرير کو پڑھ کر کوئي شک کي گنجائش نہيں رہتي کہ ايک ايسے اخبار کي ضرورت ہے اس لئے بموجب ارشاد حضرت خليفة المسيحؓ تَوَکُّلًا عَلَي اللّٰہِ اس اخبار کو شائع کرنے کا اعلان کيا جاتا ہے ہمارا کام کوشش ہے برکت اور اتمام خدا تعاليٰ کے اختيار ميں ہے ليکن چونکہ يہ سلسلہ خدا کي طرف سے ہے اس لئے اس کي مدد کايقين ہے۔بے شک ہماري جماعت غريب ہے ليکن ہمارا خدا غريب نہيں ہے اور اس نے ہميں غريب دل نہيں ديئے پس ميں اميد رکھتا ہوں کہ جماعت اس طرف پوري توجہ کرے گي اور اپني بے نظير ہمت اور استقلال سے کام لے کر جو وہ اب تک ہر ايک کام ميں و کھاتي رہي ہے اس کام کو بھي پورا کرنے کي کوشش کرے گي اور ميں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعاليٰ مذکورہ بالا تحرير کو صرف ارادوں اور خواہشوں تک ہي نہ رہنے دے اور سلسلہ کي ضروريات کے پورا کرنے ميں ہمارا ہاتھ بٹا ئے۔ کام کرنے والے آدمي کم ہيں اس لئے بے شک شروع ميں دقت پيش آئے گي ليکن اللہ تعاليٰ کا وعدہ ہے
اَلَّذيْنَ جَاهَدُوْافِيْنَالَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70)
خدا تعاليٰ ہميں جہاد في اللہ کي توفيق دے اور لوگوں کے دلوں ميں الہام کرے کہ وہ اس کام ميں مد ديں۔
اخبار کے متعلق ضروري اطلاع
يہ اخبار انشاء اللہ گورنمنٹ کي شرائط کو پورا کرنے کےبعداللہ تعاليٰ کو منظور ہوا تو ماہ جون کي کسي تاريخ کو شائع ہو گا بارہ صفحہ کا اخبار ہو گا ۔ اور سردست ابتدائي اخراجات کو مدنظر رکھ کر اس کي قيمت چار روپے رکھي گئي ہے۔ اللہ تعاليٰ چاہے تو اس ميں کمي کرنے کا موقعہ بھي اگلے سال مل سکتا ہے چونکہ اخبار کے شروع کرنے سے پہلے اس بات کا اطمينان بہت ضروري ہے کہ کچھ خريدار مہيا ہو جائيں اس لئے ميں اميد کرتا ہوں کہ جن دوستوں کي خدمت ميں يہ اشتہار پہنچے وہ اس کي خريداري کے متعلق اطلاع ديں۔ اخبار کا پہلا پرچہ ايسے سب دوستوں کے نام وي پي کيا جائے گا اور اميد ہے کہ احباب اپنے دوستوں ميں بھي اس کي خريداري کي کوشش کريں گے۔ في الحال اس کا ايڈيٹر ميں ہي ہوں گا يہاں تک کہ اللہ تعاليٰ کوئي مناسب آدمي بھيج دے۔ کل خط و کتابت متعلق اخبار و اطلاع خريداري قاضي محمد ظہور الدين صاحب اکمل قاديان ضلع گورداسپور کے نام ہوني چاہئے۔
لَنُ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ(آل عمران :93)رَحِمَكُمُ اللّٰهُ۔ وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن۔
المشتہر مرزا محموداحمد
حسنِ اتفاق
سب انتظام مکمل ہو چکا تھا کہ لاہور سے ايک دوست نے پيغام صلح کا پراسپکٹس ارسال کيا پيغام صلح کا ذکر تو پہلے سن چکا تھا ليکن پہلے تو ايک دوست نے بتايا کہ ابھي اس کي تجويز معرض التواء ميں رکھي گئي ہے جب تک کہ خواجہ صاحب کے رسالہ کا انتظام مکمل نہ ہو جائے بعد ميں معلوم ہوا کہ وہ جا ري تو ہو گا ليکن يہ نہ معلوم ہوا کہ کب۔ ليکن پراسپکٹس سے معلوم ہوا کہ اس کا اعلان ہو چکا ہے گو کہ پہلے ايک سے زيادہ اخبار موجود ہيں ليکن ايک وقت ميں دو اخبار کا نکالنا مناسب نہ جان کر حضرت خليفة المسيحؓ کي خدمت ميں معاملہ دوبارہ پيش کر ديا کہ وہ اخبار بھي شائع ہو رہا ہے اس لئے اگر مناسب ہو تو في الحال اسے بند رکھا جائے ليکن حضرت خليفة المسيح نے اس پر ذيل کي عبارت تحرير فرمائي
’’مبارک ہے ۔ کچھ پروا نہ کريں وہ اور رنگ ہے يہ اور۔کيا لاہور اخبار بہت نہيں‘‘
نور الدين (دستخط)
اس لئے ’’فضل‘‘ (جو نام کہ اس اخبار کا حضرت خليفۃ المسيح نے رکھا ہے) کا پراسپکٹس بھي شائع کيا جا تا ہے اللہ تعاليٰ پيغام صلح اور فضل دونوں کو جماعت کے لئے مفيد اور بابرکت بنائے۔ آمين۔
يہ اشتہار مختلف جماعتوں کے سيکرٹريوں کے نام بھيجا جائے گا۔ ميں اميد کرتا ہوں کہ وہ کسي ايسے موقعہ پر جب کہ جماعت کے سب احباب جمع ہوں اسے پڑھ کر سنا ديں تاکہ جماعت کے سب احباب اس سے آگاہ ہو جائيں۔ اور پھر دوسرے لوگوں ميں اسے تقسيم کر ديں۔ اور چونکہ کم اشاعت کي صورت ميں اخبار کو بہت نقصان پہنچتا ہے اس لئے جہاں تک ہو سکے اس کي خريداري کے بڑھانے ميں کوشاں ہوں۔ ميں ديکھتا ہوں کہ ہندو اخباروں اور عيسائي اخباروں کو مسلمان خريدتے ہيں پھر کيا وجہ ہے کہ ہمارے اخبارات کو نہ خريديں۔ ليکن ميرے خيال ميں اس امر کي طرف جماعت کے احباب کو پوري توجہ نہيں ہوئي اگر وہ اس طرف توجہ کريں تو اللہ تعاليٰ چاہے تو اس ميں بہت کچھ کاميابي ہو سکتي ہے کوئي اخبار اسي وقت اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے کہ کم سے کم تين ہزار خريدار اسے مل جائيں اور ايک ہزار خريدار ميں تو اس کي چھپائي کے اخراجات مشکل سے چل سکتے ہيں۔ اعليٰ مضامين کا حاصل کرنا اور مفيد معلو مات کا پيش کرنا اور بھي مشکل ہے اور اگر ہزار سے بھي کم ہوں تو خساره ہي خسارہ ہے۔ پس جس دوست تک يہ اشتہار پہنچےاگر پورے زورسے اس کي خريداري کے بڑھانے ميں کوشش کرے تو جماعت ميں سے ہي تين ہزار خريدار کا مل جانا کچھ بڑي بات نہيں ۔ کيا چار لاکھ کي جماعت ميں سے چار ہزار خوانده آدمي جو اخبار خريد سکے نہيں مل سکتا؟ ضرور مل سکتا ہے ليکن اول تو کوشش نہيں کي گئي دوم ان کوششوں کے ساتھ دعاؤں کي مدد نہيں لي گئي۔ ميں اميد کرتا ہوں کہ اس اخبار ميں دلچسپي لينے والے احباب دعائيں کرتے اوراللہ تعاليٰ سےمدد مانگتے ہوئے اس کے لئے کوشش شروع کريں گے تو پھر ديکھيں گے کہ خدا تعاليٰ ان کي کس طرح مدد کر تا ہے۔ اللہ تعاليٰ ايسے تمام احباب پر اپنے فضل کي بارشيں نازل کرے آمين
(مرزا محمود احمد)