حسن سلوک کے اعلیٰ معیار
صلہ رحمی:رشتہ داروں کے حقوق
صلہ رحمی کےضمن میں رشتہ داروں کےحقوق بیان کرتےہوئے حضورایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’صلہ رحمی بھی بڑا وسیع لفظ ہے اس میں بیوی کے رشتہ داروں کے بھی وہی حقوق ہیں جو مرد کے اپنے رشتے داروں کے ہیں۔ ان سے بھی صلہ رحمی اتنی ہی ضروری ہے جتنی اپنوں سے۔ اگر یہ عادت پیدا ہو جائے اور دونوں طرف سے صلہ رحمی کے یہ نمونے قائم ہو جائیں تو پھر کیا کبھی اس گھر میں تُو تکار ہو سکتی ہے؟ کوئی لڑائی جھگڑا ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ کیونکہ اکثر جھگڑے ہی اس بات سے ہوتے ہیں کہ ذرا سی بات ہوئی یا ماں باپ کی طرف سے کوئی رنجش پیدا ہوئی یا کسی کی ماں نے یا کسی کے باپ نے کوئی بات کہہ دی، اگر مذاق میں ہی کہہ دی اور کسی کو بری لگی تو فوراً ناراض ہو گیا کہ میں تمہاری ماں سے بات نہیں کروں گا، میں تمہارے باپ سے بات نہیں کروں گا۔ میں تمہارے بھائی سے بات نہیں کروں گا پھر الزام تراشیاں کہ وہ یہ ہیں اور وہ ہیں تو یہ زود رنجیاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر، یہی پھربڑے جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍جولائی 2004ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر، مسی ساگا، کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل16؍جولائی 2004ء)
رحمی رشتے اور ان کی اہمیت
رحمی رشتوں کی اہمیت بتاتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:
’’پھر صلہ رحمی ہے۔ آپس میں جو رشتہ دار ہیں ان کو ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت کا سلوک اور تعلق بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس میں ترقی کریں۔ صلہ رحمی کیا ہے؟ عورتیں اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ اپنے خاوندوں کے رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ ساسیں جو ہیں وہ اپنی بہوؤں کا خیال رکھیں۔ اپنی بہوؤں کے رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ ایک پیار اور محبت کی فضاء پیدا کریں تا کہ جماعت کی جو ترقی کی رفتار ہے وہ پہلے سے تیز ہو۔ جو اکائی میں، جو ایک ہونے میں، جو محبت میں اﷲ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں و ہ پھُوٹ میں اور لڑائیوں میں نہیں ہوتے۔ تو اﷲ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنےکی کوشش کریں۔ ‘‘
(خطاب فرمودہ 2؍نومبر2008ء برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ)
اسی حوالے سے ایک اور موقع پرفرمایا:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ رحمی رشتے صرف اپنے رحمی رشتے نہیں ہیں، اپنے خون کے رشتے نہیں ہیں بلکہ خاوند اور بیوی کے جو اپنے اپنے رحمی رشتے یا خون کے رشتے تھے، وہ شادی کے بعد ایک دوسرے کے رحمی رشتے بن جاتے ہیں۔ یعنی خاوند کے ماں باپ بہن بھائی بیوی کے ماں باپ بہن بھائی بن جاتے ہیں اور اسی طرح بیوی کے ماں باپ، بہن، بھائی خاوند کے ماں باپ بہن بھائی بن جاتے ہیں۔ جب یہ سوچ ہوگی تو کبھی رشتوں میں دوریاں پیدا نہیں ہوسکتیں۔ کبھی تعلقات خراب نہیں ہوسکتے۔ پس فرمایا کہ ان کے حق دونوں کو اس طرح ادا کرنے چاہئیں جس طرح اپنے رشتہ داروں ماں باپ بہن بھائی کے حق ادا کرتے ہو۔ یہ حکم صرف لڑکی کے لئے نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں نے کہا آپس کے تعلقات نبھانے کے لئے اِسی طرح لڑکے کو بھی صبر اور دعا کا حکم ہے جس طرح لڑکی کو ہےاور اسی طرح دونوں طرف کے سسرالوں کا بھی فرض ہے کہ لڑکے اور لڑکی کی غلط طور پر رہنمائی کر کے یا نامناسب باتیں کر کے رشتوں میں دراڑیں ڈال کر معاشرہ کا امن اور سکون برباد نہ کریں اور اسی طرح اس پہلی آیت میں یہ سبق بھی دیدیا ہے کہ اس شادی کے نتیجے میں جو تمہاری اولاد پیدا ہوگی اُس کی نیک تربیت تم دونوں پر فرض ہے تاکہ آئندہ پھر معاشرہ میں نیکیاں پھیلانے والی نسل چلے اور فرمایا یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک تم اللہ کا تقویٰ اختیار نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا تقویٰ یہ ہے کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرنا۔ اپنی تمام ذاتی خواہشات کو پیچھے چھوڑ دینا اور صرف اور صرف یہ مقصد سامنے رکھنا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے خوش ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یاد رکھومجھے دھوکہ نہیں دیا جاسکتا کیونکہ میں تمہارے ہر فعل اور عمل پر ہر وقت نگرانی کر رہا ہوں۔ پس اگر احمدی جوڑے اس حکم کو سامنے رکھیں تو وہ اُن احکام کی تلاش بھی کریں گے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح کی آیات میں پانچ جگہ تقویٰ کا لفظ استعمال فرمایاہے۔ پس ہو ہی نہیں سکتا کہ جو اس حد تک خدا تعالیٰ کے تقویٰ کو مد نظر رکھے اس کا گھر کبھی فساد کا گڑھ بن سکتا ہے، یا کبھی اس میں فساد پیدا ہوسکتا ہے۔ کبھی لڑائی جھگڑے اس میں پیدا ہوسکتے ہیں اور اسی طرح جو رحمی رشتوں کا پاس کرنے والا ہوگا۔ جو ایک دوسرے کے رشتوں کا پاس کرنے والا ہوگا۔ ان کا خیال رکھنے والا ہوگا اس کی دعاؤں کی قبولیت کی خوشخبری بھی اس میں دے دی گئی ہے۔ ‘‘
(خطاب فرمودہ 4؍اکتوبر2009ء برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ)
(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 63تا66)
٭…٭…٭