الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
’دھیروکے‘ کے چند مخلصین
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 20؍مارچ 2013ء میں مکرم محمد اشرف کاہلوں صاحب نے چک نمبر 433ج ب دھیروکے (ٹوبہ ٹیک سنگھ) کے چند مخلص خاندانوں اور افراد کے قبول احمدیت، ثبات قدم اور اخلاص و وفا کا تذکرہ کیا ہے۔
چک 433ج ب دھیرو کے تحصیل گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں احمدیت کا نفوذ 1938-39ء کے لگ بھگ ہوا جب مکرم چودھری احمد دین صاحب مرحوم نے مکرم چودھری احمد خان باجوہ صاحب معلم سلسلہ کی دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں احمدیت قبول کرلی۔ ابتدا میں آپ کے خاندان والوں نے شدید مخالفت کی اور حالات اس قدر نامساعد ہوگئے کہ آپ نے ترک سکونت کا مصمم ارادہ کرلیا۔ لیکن بعد میں ایک رؤیا صالحہ کے باعث گھر چھوڑنے کا عزم ترک کردیا۔ رؤیا میں آپ نے دیکھا کہ ایک آم کا پودا اُگا ہے۔ جو نہایت درجہ خوشنما اور جلدجلد پروان چڑھنے والا ہے۔ آپ اس کے گرد باڑ لگاتے ہیں مبادا کہیں جانور اسے تلف نہ کردیں۔ دل میں خیال آتا ہے کہ اگر مَیں یہاں سے چلا گیا تو اس کی حفاظت کون کرے گا!۔ اس کے ساتھ ہی بیداری ہو گئی اور خواب کی تفہیم ذہن میں آئی کہ آم کے پودےسے مراد احمدیت ہے اور اس کا فروغ آپ کے وہاں قیام سے ہے۔ چنانچہ اس رؤیا کے بعد آزمائشوں اور تکالیف کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے ہوئے مکرم چودھری احمددین صاحب دعوت الی اللہ میں جُت گئے۔ گو آپ کی دنیاوی اور دینی تعلیم پرائمری سے بھی کم تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے اخلاص و وفا میں برکت ڈالی اور یکے بعد دیگرے کئی افراد احمدیت قبول کرنے لگے۔ احمدیت قبول کرنے والے چند مخلص خاندانوں اور افراد کا اختصار کے ساتھ ذکر زیرنظر مضمون میں کیا گیا ہے۔
مکرم چودھری احمد دین صاحب کے خاندان میں آپ کے کزن مکرم چوہدری طالب حسین صاحب، مکرم چودھری غلام قادر صاحب، مکرم چودھری محمد صادق صاحب درویش اور مکرم چودھری محمد حسین صاحب آپ کی شبانہ روز کوششوں سے احمدیت میں آئے اور وقفے وقفے سے آپ کے حقیقی بھائی مکرم چوہدری فضل دین صاحب، مکرم چودھری رحمت علی صاحب، مکرم چودھری محمد ابراہیم صاحب کو بھی احمدیت قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کے ایک اَور کزن مکرم چودھری محمد شریف صاحب بھی احمدیت کی آغوش میں آئے۔ یہ تمام بزرگ احمدیت کے شیدائی اور مبلغ تھے۔ خلافت سے اخلاص و وفا کا رشتہ تھا۔ غریب پرور تھے۔ مظلوم کے مددگار تھے، عبادت میں شغف تھا۔
حاجی خاندان:مکرم پیراں دتہ صاحب کے چھ بیٹے تھے۔ آپ کو حج کی سعادت حاصل تھی۔ اس بنا پر یہ خاندان گاؤں میں حاجی خاندان کہلاتا تھا۔ اس خاندان میں سے مکرم چوہدری ناظر حسین صاحب، مکرم چودھری غلام حیدر صاحب، مکرم اللہ بخش صاحب اور مکرم چودھری کریم بخش صاحب کو قبولِ احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان کے ایک غیراحمدی بھائی کا پوتا احمدیت میں آیا۔
چنڈو فیملی:مکرم چوہدری غلام نبی صاحب اور آپ کے دونوں بیٹوں مکرم چودھری محمد بوٹا صاحب اور مکرم چودھری بشیر احمد صاحب نے احمدیت قبول کی۔ مکرم محمد بوٹا صاحب مرحوم کے دونوں بیٹے مکرم مبشر احمد صاحب اور مکرم مظفر احمد صاحب کراچی میں محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ دونوں بھائی یکے بعد دیگرے دہشت گردی کا نشانہ بنے اور شہید ہوگئے۔
للّی خاندان: اس خاندان کے مکرم چوہدری محمد اسماعیل صاحب، مکرم چودھری محمد ابراہیم صاحب، مکرم چودھری مولوی مبارک علی صاحب اور مکرم چوہدری رحمت علی صاحب چاروں حقیقی بھائی احمدی ہوئے۔
فیملی مولوی محمد ابراہیم صاحب:مکرم چوہدری فضل دین صاحب، مکرم چودھری محمد ابراہیم صاحب اور مکرم چودھری رحمت علی صاحب تینوں سگے بھائی تھے۔ پہلے دو نے خود احمدیت قبول کی جبکہ تیسرے بھائی کی اولاد مکرم جاوید احمد صاحب اور مکرم منور احمد صاحب احمدیت میں آئے۔ خاکسار (مضمون نگار)مکرم چوہدری فضل دین صاحب کا بیٹا ہے جو اپنے تینوں بیٹوں خاکسار، مکرم محمد اکرم صاحب اور مکرم اعجاز احمد صاحب اور اہلیہ محترمہ مبارک بی بی صاحبہ کے ساتھ احمدیت میں شامل ہوئے۔
لمّا فیملی: اس خاندان کے افراد دوسروں کی نسبت دراز قد ہونے کی وجہ سے گاؤں میں لمّا فیملی کے نام سے معروف تھے۔ اس خاندان میں سے مکرم چوہدری محمد شریف صاحب، آپ کے کزن مکرم چودھری محمد اکبر صاحب اور آپ کے بھتیجے مکرم محمد صفدر صاحب احمدی ہوئے۔
چند دیگر افراد کا ذکرخیر بھی ضروری ہے:
(1)مکرم چوہدری محمد نذیر احمد صاحب ابن اللہ رکھا زمانہ طالب علمی میں ہی احمدی ہوئے۔ اپنے والد کے اکیلے بیٹے ہیں۔ نوجوان بیٹے مکرم نصیر احمد صاحب کی وفات پر صبر جمیل کا نمونہ دکھایا۔ صائب الرائے ہیں۔ موصی ہیں اور عمدہ اخلاق کے مالک ہیں۔
(2)مکرم محمد صادق صاحب بہاولپوری اپنے خاندان میں واحد احمدی تھے۔ خاندان والوں نے ایذا رسانی کی کوئی کسر نہ چھوڑی ان کے پائے ثبات میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی۔ مرحوم عبادت گزار اور احمدیت کے فدائی تھے۔ ان کی اولاد بھی خدمت دین میں باپ کے نقش قدم پر ہے۔ ایک بیٹا مکرم محمد خالد صاحب عملہ سیکیورٹی میں شامل ہے۔
(3)مکرم غلام حسین صاحب بلوچ اپنی برادری اور خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ احمدیت قبول کرنے پر مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا۔ جسمانی تشدد بھی ہوا۔ مگر احمدیت سے ناطہ نہ توڑا۔ تبلیغ کا شوق تھا۔ عبادات میں گہری رغبت رکھنے والے تھے۔ مالی استطاعت کے مطابق چندوں میں باقاعدہ تھے۔ مکرم غلام حسین صاحب اور مکرم چودھری محمد صادق صاحب بہاولپوری نے فرقان فورس میں بھی کشمیر محاذ پر اکٹھے خدمات سرانجام دی تھیں۔ بیوی اور برادری کے زیر اثر ان کی اولاد احمدیت کی دولت سے محروم ہے۔
(4)مکرم چودھری محمد صدیق صاحب اپنے خاندان میں اکیلے احمدی ہیں۔ قبول احمدیت پر خاندان کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے ثابت قدم رہے۔
(5)مکرم چودھری محمد صادق صاحب اپنے خاندان ’کونے‘ میں واحد احمدی تھے۔ تادم مرگ احمدیت پر استقامت دکھائی۔ اہل و عیال غیر احمدی تھے۔ وفات کے وقت وصیت کی کہ میری نماز جنازہ جماعت احمدیہ پڑھے۔
(6)مکرم چودھری مراتب علی صاحب نمبردار اپنے خاندان میں تنہا احمدی ہیں۔ مختلف حیثیتوں میں خدمت دین بجالاتے رہے۔ شب بیدار، موصی، مالی جہاد میں سب سے آگے، پُرجوش داعی الی اللہ اور خوش اخلاق انسان ہیں۔
(7)مکرم ناظر حسین دیندار صاحب نے عیسائیت ترک کرکے احمدیت قبول کی۔ معمولی تعلیم تھی۔ اردو اور پنجابی روانی سے پڑھ لیتے تھے۔ دعوت الی اللہ کا خوب شوق تھا۔ خود قرآن مجید سیکھا اور اپنے اہل و عیال کو قرآن مجید پڑھایا۔ تلاوت قرآن مجید روزانہ بلند آواز سے کرتے۔ سلسلہ کی غیرت رکھنے والے تھے۔ طبیعت میں جوش تھاجو حق گوئی کا نتیجہ تھا۔ عبادت اور مالی قربانی میں پیش پیش تھے۔ اولاد کی بھی اچھی تربیت کی۔ مطالعہ کا خوب شوق تھا۔
(8)مکرم صوبے خان صاحب کا تعلق گجر برادری سے تھا۔ کاروبار پیشہ تھا۔ نظام جماعت کی خاطر دوسرے گاؤں سے ترک سکونت کرکے یہاں آباد ہوئے تھے۔ احمدیت سے عشق و محبت کا رشتہ تھا۔ بچے ابھی چھوٹے ہی تھے کہ قضائے الہیٰ سے وفات پاگئے تو ان کی اہلیہ محترمہ بچوں کو لے کر ربوہ رہائش پذیر ہوگئیں۔
(9)مکرم مولوی محمد منیر انصاری صاحب 1952-53ء کے قریب اس گاؤں میں رہائش پذیر ہوئے اور کم و بیش 20 سال یہاں قیام کیا۔ آپ ایک جید عالم دین تھے۔ اردو، عربی اور فارسی پر عبور حاصل تھا دیگر علاقائی زبانوں میں بھی سمجھ بوجھ رکھتے تھے۔ مقامی جماعت کی تعلیم و تربیت میں آپ کی گرانقدر خدمات ہیں۔ دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں گردونواح کے دیہات میں بھی جایا کرتے تھے۔ نڈر اور بے خوف انسان تھے۔ طب کے پیشہ سے وابستہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھوں میں شفا بھی رکھی ہوئی تھی، حاذق حکیم تھے، اخلاق کریمانہ کے مالک اور خوش بیاں تھے۔
(10)مکرم سید محمد صاحب نے عمر کے آخری حصہ میں خود تحقیق کرکے احمدیت قبول کرنے کا شرف پایا۔ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ احمدیت قبول کرنے پر گھر والوں نے گھر بدر کر دیا۔ مخالفت بہت ہوئی لیکن سچائی کے رستہ سے سرمُوانحراف نہ کیا۔ خدمت دین میں جُت گئے اور اعزازی معلم کے طور پر مختلف احمدی جماعتوں میں ذاتی حیثیت سے کام کیا۔ مرکز سے کوئی معاوضہ نہ لیا۔ جہاں بھی گئے بچوں کو قرآن مجید پڑھایا۔ احمدیت کے فدائی تھے۔ عبادت کا ذوق رکھتے تھے۔ شخصیت میں سادگی تھی۔ وفات سے پہلے بیمار ہوئے تو غیراحمدی تعلق داروں نے مسلسل دباؤ ڈالا کہ احمدیت سے منحرف ہوجائیں لیکن اس اللہ کے بندے نے کہا۔ ہرگز نہیں۔ اور تاکیداً وصیت کی کہ میرا غسل اور نماز جنازہ احمدیوں کے ذریعہ ہو اور پھر ایسا ہی ہوا۔ مرحوم آخر میں آئے اور اخلاص و وفا میں سبقت لے گئے۔
اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ان کی اولادوں کو بھی ان کی دعاؤں کا وارث بنائے۔
٭…٭…٭
پیسا مینار۔ ا ٹلی
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ23؍جنوری2013ءمیں اٹلی میں واقع پیسا مینار کے بارے میں مضمون شائع ہواہے۔
پیسا کا صحیح تلفظ اطالوی زبان میں ’’پیزا‘‘ ہے۔ یہ وسطی اٹلی کا شہر ہے جو دریائے آرنو پر بحیرہ ٹرینین کے قریب واقع ہے۔ گیلیلیو بھی اسی جگہ پیدا ہوا تھا۔ ’’پیسامینار ‘‘ کو ’’خمیدہ مینار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس ٹیڑھے مینار نے پیسا شہر کو بڑی شہرت بخشی۔ 190فٹ بلند یہ مینار جو عجائبات عالم میں شامل ہے اپنی تعمیر کے فوراً بعد ہی جھکنا شروع ہو گیا۔ اب یہ عمود سے 14فٹ ہٹا ہوا ہے۔ اس مینار کی تعمیر کا مقصد کلیسا کے لیے گھنٹی گھر تھا تاکہ گھنٹی کی آواز سن کر لوگ عبادت کے لیے پہنچیں۔ اس کی تعمیر کا آغاز تو 1174ء میں ہوا تھا مگر تکمیل 1350ء میں ہوئی۔ اس کی جنوبی بنیاد ریت میں رکھی گئی اور ابھی بمشکل تین گیلریاں بنی تھیں کہ یہ مینار جھکنا شروع ہو گیا۔
جب اٹلی کی یہ شہرہ آفاق یادگار پیسا مینار آہستہ آہستہ ’’نیم دراز‘‘ ہوگیا تو پوری دنیا کے لوگ اس مینار کے گرنے کے منتظر تھے۔ بالآخر اٹلی کی حکومت نے اس مینار کو سیدھا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اہل پیسا چاہتے تھے کہ یہ یادگار کم از کم 16انچ سیدھی ہو جائے تاکہ اس کی وجہ شہرت یعنی اس کا مشہور ٹیڑھا پن بھی برقرار رہے۔ اس مینار کو سیدھا کرنے کا کام پولینڈ کے ماہر تعمیرات اور انجینئر مائیکل سیموئیل کو سکی کی سربراہی میں ماہرین کی ایک ٹیم کو سونپا گیا۔ اس ٹیم نے مینار کے جھکائو کے مخالف سمت کھدائی کی اور18ماہ تک جانفشانی سے کام کیا اور مینار کو 4.8 انچ تک سیدھا کر لیا۔ اس عمل میں تقریباً26ملین ڈالر لاگت آئی۔ 17جون 2000ء کو رومی یونیورسٹی کے 200طلباء نے مینار کی 293 سیڑھیاں چڑھ کر اس کی مضبوطی اور استحکام کاثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا۔ چنانچہ آٹھ سو سال کے ٹیڑھے پن سے نجات پانے کے بعد سیدھا کرکے پیسا شہر کا یہ مینار عوام کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا۔ شہر کے باشندوں نے اپنے شہر کی شناخت دوبارہ کھل جانے کی خوشی میں 17جون 2000ء کو شہربھر میں چراغاں کیا اورمینار کے قریب سبزہ زار میں آتش بازی کا شاندار مظاہرہ بھی کیا گیا۔
٭…٭…٭