احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
صحبت صالحین اور روزوں کاعظیم مجاہدہ
محمداعظم عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ(حصہ پنجم)
عبداللہ غزنویؒ صاحب کی اولاد(حصہ دوم)
مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کے ایک بیٹے عبد الواحد غزنوی دامادحضرت خلیفۃ المسیح الاول حکیم مولانا نور الدینؓ تھے:
حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ خلیفۃ المسیح الاول نے اپنی بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کی شادی حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنویؒ کی بزرگی کی وجہ سے ان کے بیٹے مولوی عبدالواحد صاحب کے ساتھ کر دی۔ مگر افسوس کہ اپنے اَور بھائیوں کی طرح عبدالواحدصاحب بھی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے شدید دشمن رہے بلکہ ایک دفعہ جب یہ آپؓ سے ملاقات کرنے کے لیے قادیان آئے تو آپؓ کے اصرار پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی ملنے چلے گئے۔ جب حضرت اقدس مسجد مبارک میں ان سے باتیں کرنے لگے تو حضرت مولوی صاحبؓ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ حضرت اقدسؑ کی کسی بات کا جواب نہیں دیتے تھے اور جلدی جلدی زبان ہلاتے جاتے تھے چنانچہ جب ان سے بعد ملاقات دریافت فرمایا کہ تم اُس وقت کیا پڑھ رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ سورہ کہف کی پہلی دس آیتیں پڑھ رہا تھا۔ حضرت اقدسؑ نے جب یہ بات سُنی تو بہت مُسکرائے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی یہ بیٹی جو عبدالواحدصاحب کے ساتھ بیاہی گئی تھیں ان کانام امامہ تھا یہ بڑی لائق اور تعلیم یافتہ تھیں۔ اردو، فارسی اور پشتو سے خوب واقف تھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی ان صاحبزادی کی اولاد دو لڑکوں اور دو لڑکیوں پر مشتمل تھی۔ بڑے لڑکے کا نام محمد ابراہیم اور چھوٹے کا نام محمد اسماعیل تھا۔ لڑکیوں کے نام آمنہ اور خدیجہ تھے۔ یہ صاحبزادی حضرت امامہؓ 1897ء میں مرض دق میں مبتلا ہو کر قادیان میں فوت ہو گئی تھیں اور ان کا بڑا لڑکا محمد ابراہیم بھی اسی مرض سے 1910ء میں وفات پا گیا تھا۔
(بحوالہ حیات نور صفحہ 78-79)
اپنی اسی صاحبزادی سے متعلق ایک دفعہ آپ نے مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی کو لکھا تھا کہ ’’اگر آپ سوچو تو عبدالواحد کو اپنی لڑکی امامہ رحمہا اللہ کا نکاح تمہارے والد ماجد کی محبت کا ہی ثمرہ تھا۔ ‘‘ (حیات نور صفحہ 230)
حضرت صاحبزادی امامہؓ صاحبہ اپنے پیچھے دو لڑکے اور دو لڑکیاں چھوڑ کر 26/ اگست 1898ء کو بروز جمعۃ المبارک بعمر 26، 27 سال فوت ہوئی تھی۔ فانا للہ و انا الیہ راجعون۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے رضا بالقضا کا شاندار نمونہ دکھلایا۔ حضرت اقدسؑ بھی شریک جنازہ تھے۔ گور پر پہنچ کر حضرت مولوی صاحب موصوف نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا کہ
’’ یہ ہے انسان کا خاتمہ جس کے لئے وہ حسد، بغض، کینہ، جھوٹ اور فریب کو اختیار کرتا ہے۔ ‘‘
(حیات نور صفحہ229-230)
مولانا عبدالواحد صاحب کی اولاد میں سے مولانا اسماعیل غزنوی اپنے حلقے میں معروف ہوئے، مولانا اسماعیل غزنوی سعودی عرب کے ملک عبدالعزیز بن آلِ سعود کے وزیر رہے ہیں، آپ کے واسطہ سے سعودی عرب کے اور نجد کے علماء اور موحدینِ ہند کے مابین خاصے تعلقات قائم ہوگئے۔ یہاں تک کہ اس مناسبت سے پھرسے لفظ وہابی موحدین ہند پر آ گیا، اب یہ لوگ لفظ وہابی سے زیادہ گریز نہ کرتے تھے۔ کیونکہ سعودی تعلقات سے ان کی ایک نسبت آلِ شیخ سے قائم ہوچکی تھی۔ اِس دور میں غزنوی حضرات جماعت میں ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرےاور ایک دور تک جماعتِ اہلِ حدیث کی قیادت ان کے ہاتھ میں رہی۔
عبدالجبار غزنوی
عبداللہ غزنویؒ کے بعد ان کابڑابیٹا عبداللہ بن عبداللہ ان کا خلیفہ مقرر ہوا۔ وہ تھوڑا عرصہ زندہ رہا۔ اس کی وفات کے بعد غزنوی صاحب کادوسرابیٹا عبدالجبار غزنوی جانشین مقررہوا۔ یہ ان بدنصیب مخالفین کی صف میں شامل ہواجنہوں نے خداکے مرسل اور مامور کی مخالفت کی اور کفرکے فتاویٰ پرمہرلگائی۔ حضرت اقدس بانئ سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کتاب البریہ میں ان بدنصیب مخالفین کی غلیظ گالیوں اور بدتہذیبی پرمشتمل کچھ مثالیں بطورنمونہ درج فرمائی ہیں۔ جووہ آپؑ کے بارہ میں استعمال کیاکرتے تھے۔ صفحہ 148پرغزنوی گروہ کے عنوان سے حضرت عبداللہ غزنوی صاحب کے تین بیٹوں کا ذکر موجودہے۔ جبارغزنوی نے رمضان کے مہینہ 1331ھ ستمبر 1913ء میں وفات پائی۔
(حضرت مولانا داؤد غزنویؒ مرتبہ سید ابوبکر غزنوی صفحہ234-235)
عبداللہ غزنوی صاحب کے متعلق
نواب صدیق حسن خانؒ نے اپنی تصنیف ’’تقصار من تذکار جیود والاحرار‘‘ میں لکھا:’’چرخ اگر ہزار چرخ زند مشکل کہ چنیں ذات جامع کمالات برروئے ظہور آرد ہم محدث بود و ہم محدث۔ ‘‘(حضرت مولانا داؤد غزنویؒ مرتبہ سید ابوبکر غزنوی صفحہ218) یعنی آسمان اگر ہزار بار بھی گردش کرے، تو مشکل ہے کہ اب ایسی جامع کمالات ہستی معرضِ وجود میں آئے۔ وہ محدث بھی تھے اور اللہ سے ہمکلامی کا شرف بھی انہیں حاصل تھا۔
مولانا عبد الحئیؒ نے ’’نزھۃ الخواطر‘‘ میں حضرت عبد اللہ غزنویؒ کے حالات قلمبند کرتے ہوئے افتتاحیہ جملہ یہ لکھا ہے:
’’الشیخ الامام العالم المحدث عبد اللّٰہ بن محمد بن محمد شریف الغزنوی الشیخ محمد اعظم الزاھد المجاھد الساعی فی مرضاۃ اللّٰہ المؤثر لرضوانہ علی نفسہ و اھلہ ومالہ و اوطانہ صاحب المقامات الشھیرۃ و المعارف العظیمۃ الکبیرۃ‘‘
(الاعلام المسمّی بنزھۃ الخواطر ……المجلد الثالث صفحہ1030مکتبہ دار ابن حزم بیروت 1999ء)
حضرت عبد اللہ بن محمد بن محمد شریف الغزنوی شیخ تھے، امام تھے، عالم تھے، زاہد تھے، مجاہد تھے۔ رضائے الہیٰ کے حصول میں کوشاں تھے۔ اللہ کی رضا کے لیے اپنی جان، اپنا گھربار، اپنا مال، اپنا وطن سب کچھ لٹا دینے والے تھے۔ علماء سوء کے خلاف ان کے معرکے مشہور ہیں۔
شیخ شمس الحق دیانویؒ نے ’’غایۃ المقصود‘‘ کے مقدمے میں حضرت عبداللہ غزنویؒ کی مدح و توصیف میں لکھا:
’’انہ کان فی جمیع احوالہ مستغرقا فی ذکر اللّٰہ عزوجل حتی ان لحمہ و عظامہ و اعصابہ و اشعارہ و جمیع بدنہ کان متوجھًا الی اللّٰہ تعالٰی فانیًا فی ذکرہ عزوجل۔ ‘‘
(الاعلام المسمّی بنزھۃ الخواطر ……المجلد الثالث صفحہ 1031مکتبہ دار ابن حزم بیروت 1999ء)
وہ ہروقت اور ہر حالت میں خدائے بزرگ و برتر کے ذکر میں ڈوبے رہتے تھے۔ حتی کہ ان کا گوشت، ان کی ہڈیاں، ان کے پٹھے اور ان کا ہر ہر بنِ مو اللہ کی طرف متوجہ تھا۔ اللہ عزوجل کے ذکر میں فنا ہو گئے تھے۔
سیدنذیرحسین دہلوی صاحب نے حضرت غزنوی صاحبؓ کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جہاں ان کے فضائل کااقرارکیاوہاں یہ بھی کہا کہ اس نے ہم سے حدیث پڑھی اوروہ مجھے نمازپڑھناسکھاگیا۔ جس کی وجہ ایک معروف واقعہ ہے کہ ایک دفعہ دلی میں نماز کے دوران مسجد میں اچانک آپ پر چھت آن گری، مگر اس وقت بھی آپ کی نماز میں خلل واقعہ نہ ہوا۔ بعدازاں جب آپ سے اس واقعہ کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ مجھے تو اس کا کوئی علم نہیں ہے۔
حضرت امام الزمان مہدی معہودومسیح موعودحضرت اقدس بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی متعدد تحریرات میں حضرت عبداللہ غزنوی صاحبؒ کا ذکرخیربہت محبت سے فرمایاہے۔ ایک جگہ آپؑ بیان فرماتے ہیں:
’’ایک بزرگ غایت درجہ کے صالح جومردان خدا میں سے تھے اور مکالمہ الہٰیّہ کے شرف سے بھی مشرّف تھے اور بمرتبہ کمال اتباع سُنّت کرنے والے اور تقویٰ اور طہارت کے جمیع مراتب اور مدارج کو ملحوظ اور مرعی رکھنے والے تھے اور اُن صادقوں اور راستبازوں میں سے تھے جن کو خدائےتعالیٰ نے اپنی طرف کھینچاہواہوتا ہے اور پرلے درجہ کے معمور الاوقات اور یاد الٰہی میں محو اور غریق اور اسی راہ میں کھوئے گئے تھے جن کانام نامی عبد اللہ غزنوی تھا۔
ایک دفعہ میں نے اُس بزرگ با صفا کو خواب میں اُن کی وفات کے بعد دیکھا کہ سپاہیوں کی صورت پر بڑی عظمت اور شان کے ساتھ بڑے پہلوانوں کی مانند مسلّح ہونے کی حالت میں کھڑے ہیں تب میں نے کچھ اپنے الہامات کا ذکر کر کے اُن سے پوچھا کہ مجھے ایک خواب آئی ہے اس کی تعبیر فرمائیے۔ مَیں نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ ایک تلوار میرے ہاتھ میں ہے جس کا قبضہ میرے پنجہ میں اور نوک آسمان تک پہنچی ہوئی ہے جب میں اس کو دائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزاروں مخالف اس سے قتل ہوجاتے ہیں اور جب بائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزارہا دشمن اس سے مارے جاتے ہیں تب حضرت عبد اللہ صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میری خواب کو سُنکر بہت خوش ہوئے اوربشاشت اور انبساط اور انشراح صدر کے علامات وامارات اُن کے چہرہ میں نمودار ہوگئے اور فرمانے لگے کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ آپ سے بڑے بڑے کام لے گا اور یہ جو دیکھا کہ دائیں طرف تلوار چلا کر مخالفوں کو قتل کیا جاتاہے اس سے مراد وہ اتمام حجت کاکام ہے کہ جو روحانی طور پر انوار وبرکات کے ذریعہ سے انجام پذیر ہوگا اور یہ جو دیکھا کہ بائیں طرف تلوار چلا کر ہزارہا دشمنوں کو مارا جاتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کے ذریعہ سے عقلی طور پر خدائے تعالیٰ الزام و اسکات خصم کرے گا اور دنیا پر دونوں طور سے اپنی حجت پوری کر دے گا۔ پھر بعد اس کے انہوں نے فرمایا کہ جب مَیں دنیا میں تھا تو میں اُمیدوار تھا کہ خدائے تعالیٰ ضرور کوئی ایسا آدمی پیدا کرے گا پھر حضرت عبد اللہ صاحب مرحوم مجھ کو ایک وسیع مکان کی طرف لے گئے جس میں ایک جماعت راستبازوں اور کامل لوگوں کی بیٹھی ہوئی تھی لیکن سب کے سب مسلّح اور سپاہیانہ صورت میں ایسی چستی کی طرز سے بیٹھے ہوئے معلوم ہوتے تھے کہ گویا کوئی جنگی خدمت بجالانے کے لئے کسی ایسے حکم کے منتظر بیٹھے ہیں جو بہت جلد آنے والا ہے پھر اس کے بعد آنکھ کھل گئی۔ ‘‘
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ143-146حاشیہ)
(باقی آئندہ)