’’محمود کی آمین‘‘
تعارف
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے جب قرآن کریم ختم کیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جون 1897ء میں اس خوشی کے موقع پر ایک تقریب منعقد کی جس میں باہر سے احباب بھی شامل ہوئے اور تمام حاضرین کو (دینی کام میں جوش کے باعث) پر تکلف دعوت دی گئی۔ اس مبارک تقریب کے لیے آپ علیہ السلام نے ایک نظم ’’محمو د کی آمین ‘‘لکھ کر 7؍جون کو چھپوائی جو اس تقریب پر پڑھ کر سنائی گئی۔ اندر خواتین پڑھتی تھیں اور باہر مرد اور بچے پڑھتے تھے۔ یہ آمین (نظم) نہایت درجہ سوز و درد میں ڈوبی ہوئی دعاؤں کا مجموعہ ہے۔
مضامین کا خلاصہ
اس دعائیہ منظوم کلام کا ٹائیٹل پیج اس دعا کے ساتھ شائع ہوا کہ
رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ۔
اس منظوم کلام ’محمود کی آمین‘ سے قبل دو نہایت مختصر مگر عمیق معانی پر مشتمل نظمیں بھی شامل ہیں جو احمدی اطفال اور ناصرات کو چھوٹی عمر میں یاد کروائی جاتی ہیں۔ پہلی نظم کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:
جمال و حسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اَوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
اس بارہ اشعارپر مشتمل نظم میں جہاں قرآں کریم کی مدح میں عاشقانہ ترانہ بیان ہوا ہے وہاں اس امر کا بھی بیان ہے کہ خد اکے کلام اور انسان کے کلام میں واضح فرق ہوتا ہے جو اس کتاب کو پڑھنے سے آسانی سے سمجھ آسکتا ہے۔ جیساکہ فرمایا:
خدا کے قول سے قول بشر کیونکر برابر ہو
وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے
بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہر گز
تو پھر کیونکر بنانا نور حق کا اس پہ آساں ہے
دوسری مختصر نظم جو 9 اشعارپر مشتمل ہے، اس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:
نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلیٰ نکلا
پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا
یہ نظم بھی احمدی اطفال اور ناصرات کو نہایت ابتدائی عمر میں یاد کرواکر خوش الحانی سے پڑھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس نظم میں بھی قرآن کریم کے بے نظیر ہونے کو نہایت خوش اسلوبی سے منظوم کلام میں یوں بیان کیا گیاہے:
یا الٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا
کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ
وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا
ان دو مختصر نظموں کے بعد منظوم کلام ’محمود کی آمین‘کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:
حمد و ثنا اسی کو جو ذات جاودانی
ہمسر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی
پھر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی آمین کی خوشی میں فرمایا:
تو نے یہ دن دکھایا محمود پڑھ کے آیا
دل دیکھ کر یہ احساں تیری ثنائیں گایا
صد شکرہے خدایا صد شکر ہے خدایا
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
ہے آج ختم قرآں نکلے ہیں دل کے ارماں
تونے دکھایا یہ دن میں تیرے منہ کے قرباں
اے میرے رب محسن کیونکر ہو شکر احساں
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
پھر چند دعائیہ اشعار منظوم کلام کی صور ت میں یوں ہیں:
کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین ودولت
کر ان کی خود حفاظت ہو ان پر تیری رحمت
دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
شیطاں سے دور رکھیو اپنے حضور رکھیو
جاں پُر زِ نور رکھیو دل پُر سرور رکھیو
پھر اپنے تینوں صاحبزادوں کے نام لے کر یوں مناجات کی گئی ہیں:
لخت جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا
دے اس کو عمر و دولت کر دور ہر اندھیرا
اس کے ہیں دو برادر، ان کو بھی رکھیو خوش تر
تیرا بشیر احمد تیرا شریف اصغر
کر فضل سب پہ یکسر رحمت سے کر معطر
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
سن میرے پیارے باری میری دعائیں ساری
رحمت سے ان کو رکھنا میں تیرے منہ کے واری
اہل وقار ہوویں فخر دیار ہوویں
حق پر نثار ہوویں مولیٰ کے یار ہوویں
پھر اس پُر وقار تقریب کے (سعادت مند) حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کے لیے دعائیہ اشعار یوں تحریر فرمائے:
احبا ب سارے آئے تونے یہ دن دکھائے
تیرے کرم نے پیارے یہ مہرباں بلائے
مہماں جو کرکے الفت آئے بصد محبت
دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کومیری راحت
پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
پھر اگلے چند اشعار میں عقبیٰ کو سنوارنے کی تلقین یوں فرمائی ہے:
دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے
گر سو برس رہاہے آخر کو پھر جدا ہے
شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
اے دوستو پیارو! عقبیٰ کو مت بسارو
کچھ زاد راہ لے لو، کچھ کام میں گذارو
دنیاہے جائے فانی دل سے اسے اتارو
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
آخری اشعار میں قرآن کریم سے عشق اور محبت اور اس کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنانے کےمتعلق فرمایا:
قرآن کتاب رحماں سکھلائے راہ عرفاں
جو اس کے پڑھنے والے ان پر خدا کے فیضاں
اُن پر خدا کی رحمت جو اس پہ لائے ایماں
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
ہے چشمۂ ہدایت جس کو ہو یہ عنایت
یہ ہیں خدا کی باتیں ان سے ملے ولایت
یہ نوردل کو بخشے دل میں کرے سرایت
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
(آمین)٭…٭…٭