21 جون 1920ء : مبلغین کلاس کا اجرا
حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت پر 21؍جون 1920ء کو پہلی یادگار مبلغین کلاس جاری ہوئی اور اس کے استاد علامہ زمان حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ جیسے مثالی عالم ربانی مقرر ہوئے۔
(الفضل 24 جون 1920ء صفحہ 1)
مولانا جلال الدین صاحب شمس۔ مولانا غلام احمد صاحب بدوملہوی۔ مولانا ظہور حسین صاحب اور مولانا شہزادہ خانصاحب مرحوم جیسے نامور علماء و فضلا اس پہلی کلاس کے ابتدائی طلبہ ہیں۔ اس کلاس میں بعد کو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ بھی شامل ہوگئے۔
(الفرقان ربوہ دسمبر 1960ءصفحہ 26)
تین سال بعد1924ء میں کر یہہ ضلع جالندھر کے ایک نہایت ذہین وطباع طالب علم کو بھی خوش قسمتی سے اس کلاس میں داخل ہوکر حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحبؓ سے شرف تلمذ حاصل ہوا۔ یہ طالب علم اب علمی دنیا میں مولانا ابوالعطاء کے نام سے مشہور ہیں۔
[نوٹ: حضرت حاجی غلام احمد صاحب آف کریام آپ کو مدرسہ احمدیہ میں داخل کرانے کے لئے خود قادیان تشریف لے گئے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ (جو اس وقت مدرسہ احمدیہ کے افسر تھے) کی خدمت میں آپ کو لے کر حاضر ہوئے چنانچہ آپ نے ان کو مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں داخل کردیا۔]
ان کے علاوہ سلسلہ کے مبلغین میں سے ابوالبشارت مولانا عبدالغفور صاحب ۔ مولوی قمرالدین صاحب سیکھوانی۔ جناب قریشی محمد نذیر صاحب اور دوسرے متعدد طلباء تھے جنہیں آپ سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت حافظ صاحب اپنے فرائض تعلیم و تربیت اور جہاد تبلیغ میں اپنی زندگی کے آخری سانس تک مصروف رہے۔ آپ نے اپنی وفات سے قبل یہ وصیت فرمائی کہ میرے شاگرد ہمیشہ تبلیغ کرتے رہیں۔(الفرقان دسمبر 1960ء صفحہ ج )۔ اور حق یہ ہے کہ آپ کے تمام شاگردوں نے آپ کی وصیت پر عمل کرنے کا اپنی اپنی حالت کے مطابق پورا پورا خیال رکھا لیکن آپ کے فیض یافتہ تلامذہ میں سے جنہوں نے آپ کے سامنے بھی بہت تبلیغ کی تھی اور آپ کے بعد تو پوری قوت سے تبلیغ کے لئے کھڑے ہوگئے ان کے متعلق خود حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا ارشاد پیش کر دینا زیادہ انسب واولیٰ ہے۔ حضورؓ نے فرمایا:
’’حافظ روشن علی صاحب وفات پاگئے تو ……اس وقت اللہ تعالیٰ نے فوراً مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کر دیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلوں کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں‘‘۔
(الفضل 19 نومبر 1940 صفحہ 4)
پھر 1956ء میں فرمایا:
’’یہ نہ سمجھو کہ اب وہ خالد نہیں ہیں۔ اب ہماری جماعت میں اس سے زیادہ خالد موجود ہیں چنانچہ [مولوی جلال الدین] شمس صاحب ہیں۔ مولوی ابوالعطاء صاحب ہیں۔ عبدالرحمان صاحب خادم ہیں‘‘۔
( الفضل 15 مارچ 1957ء صفحہ 4)
(ماخوذ تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ 256 و 257)