متفرق مضامین

خدا تعالیٰ کی ستّاری کا شیوہ اختیار کریں

(خالد محمود شرما۔ کینیڈا)

قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے کہ

’’صِبْغَۃَ اللّٰہِ‘‘

اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ ’’اللہ کا رنگ اختیار کرو‘‘یعنی صفات الٰہیہ کو اپنانے اور اس کا مظہر بننے کی کوشش کرتے رہو۔ خدا تعالیٰ کی صفات پر ہم غور کریں تو تمام صفات الٰہی ایک دوسرے سے ایسی مربوط نظر آئیں گی جیسے زنجیر ہوتی ہے ایک دوسری سے جڑی ہوئی۔ مضبوطی سے تعلق باندھے ہوئے۔ صفتِ عفو کا تعلق جہاں ایک طرف مغفرت سے ہے وہاں دوسری طرف صفتِ ستّاری سے نظر آتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ستّار ہے اس کے کیا معنی ہیں اور عفو اور مغفرت سے اس کا کیا جوڑ ہے؟ عفو کہتے ہیں کسی برائی کو دیکھنا اور حیا کرجانا۔ اللہ تعالیٰ کی ہمارے دلوں کی پاتال تک نظر ہے۔ ہمارے گناہوں کےخیالات ابھی جنم لے ہی رہے ہوتے ہیں کہ وہ اس سے واقف ہوتا ہے کوئی بھی گناہ اس سے مخفی نہیں ہے۔ لیکن وہ اس سے صَرف نظر کرتا ہے جیسے دیکھا ہی نہ ہو۔ جیسے گناہ ایک طرف ہو رہے ہوں اور نظریں دوسری طرف ہوں۔ جیسےبعض لوگ حلم کرنے والے، مغفرت کا سلوک کرنے والے عفو سے آغاز کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ برائی نظر کے سامنے ہی نہ آئے۔ بُرائی کو اس وقت دیکھتے ہیں جب پکڑنے کا ارادہ ہو۔ اسی طرح آنحضرتﷺ کی ایک فارسی میں حدیث حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر کی ہے:

’’ایں مشت خاک راگر نہ بخشم چہ کنم‘‘

کہ اس خاک کی مٹھی کو میں بخشوں نہ تو کیا کروں۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ196)

اس انسان کی حیثیت کیاہے؟ اتنا کمزور، اتنا ناقص بار بار گناہوں میں مبتلا ہونے والا۔ چلو جانے دو، بخش ہی دو۔ خاک کی مٹھی ہی تو ہے۔ تو یہ ہے مغفرت کا انداز میرے ربّ کا۔

آنحضرتﷺ نے اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کو حیّ یعنی بڑا حیا کرنے والا بیان فرمایاہے۔ یعنی ہمارے گناہوں کو دیکھتے ہوئے بھی صرف نظر کرجاتا ہےیعنی حیا کرجاتا ہے۔ عفو کا سلوک کر تاہے۔ عفو کا ایک طبعی نتیجہ ہے کہ انسان جب کسی کی برائیوں سے حیا کرےگا تو غیروں کی نظروں سے بھی اس کو چھپا کے رکھے گا۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ خود تو برائیوں سے صرف نظر کرےاور دوسروں کے سامنے ان برائیوں کی تشہیر کرتا پھرے۔ جن بندوں سے اللہ حیا کرتا ہے پھر ان کی ستّاری بھی کرتا ہے۔ اور لوگوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی بالارادہ ستّاری

چنانچہ ایک دنیا دار انسان جب اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات پر غور کرتا ہےجہاں وہ بچایا جاتا ہے تو وہ فوراً اس کو اپنی کسی چالاکی سے یا کسی اتفاقی حادثے سےتعبیر کرتا ہے جب کہ ایک عارف باللہ کو صاف دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ یہ تو محض خدا تعالیٰ کی ستّاری کاپردہ تھا جس نے یہ سارے عیوب ڈھانپ دیے وگرنہ میری کو تاہیاں اور نالائقیاں ایسی تھیں کہ بعید نہیں کہ یہ عیوب غیروں پر ظاہر ہوجاتے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ یَحۡفَظُوۡنَہٗ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ(الرعد: 12)

اس کے لئے اُس کے آگے اور پیچھے چلنے والے محافظ (مقرر) ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے مطابق اس آیت کی تشریح کچھ یوں ہے کہ اس میں حفاظت کے دوسرے معنوں کے علاوہ ایک یہ بھی معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب کچھ جاننے کے باوجود انسانوں کے عیوب کوغیروں پر ظاہر نہ ہونے کے لیے با لارادہ ملائکہ مقرر کر رکھے ہیں اور قانون قدرت بھی انسان کے عیوب غیروں سے چھپاتا ہے۔ تو یہ محض خدا کی ستّاری ہے۔ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے۔ ایک تصرف الٰہی ہے جس کے نتیجے میں میرے عیب غیروں سے پوشیدہ رہے۔ اس کو کہتے ہیں ستّاری جو عفو کا ایک طبعی نتیجہ بنتا ہے۔ (ماخوذازخطبات طاہر جلد3 صفحہ 38)

پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:

’’یقیناً اللہ تعالیٰ حیا اور ستر کو پسند فرماتا ہے۔ ‘‘

(مسند احمد بن حنبل جلد 4صفحہ 224)

برائیوں کی تشہیر سے اجتناب کریں

بعض لوگوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ تجسس کرکے دوسروں کی برائیاں تلاش کرکے پھر اس کی تشہیر کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے معاشرے میں برائیاں کم ہونے کی بجائےپھیلتی ہیں اور برائیوں سے شرم مٹ جاتی ہے۔ مغربی معاشرے کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں میڈیا کے ذریعے برائیوں کی اتنی تشہیرکی جاتی ہے کہ سارا معاشرہ دکھوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ برائیاں کرنے والے ڈھیٹ ہوجاتے ہیں کہ اب تو پردہ اٹھ ہی گیا ہے تو جو چاہے کرو۔ اور اسی بارے میں آنحضرتﷺ نے ہمیں بڑی تاکید فرمائی ہے کہ

’’اگر تو لوگوں کی کمزوریوں کے پیچھے پڑے گا تو انہیں بگاڑ دے گا، یا ان میں بگاڑ کی راہ پیدا کر دے گا۔‘‘

(سنن ابی داؤد۔ کتاب الادب باب ما فی النھی عن التجسس)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

’’دوسرے اگر کسی کا یہ عیب اور کمزوری اس میں بعض عہدیداروں کو بھی محتاط رہنا چاہئے، بعض دفعہ بات کر جاتے ہیں۔ کسی عہدیدار یا اس کے کسی قریبی کی طرف سے یا اس کے حوالے سے کسی کی بات باہر نکلے تو نظام کے خلاف بھی رد عمل ظاہر ہو جاتا ہے۔ فرمایا پھر اس کا ذمہ دار پردہ دری کرنے والا ہے۔ وہ شخص ہے جس نے یہ باتیں باہر نکالیں …۔

ایک برائی کو ظاہر کرنے سے اس کی اہمیت نہیں رہتی اور آہستہ آہستہ اگر وہ مستقلاً برائیاں ظاہر ہونی شروع ہو جائیں تو معاشرے میں پھر برائیوں کی اہمیت نہیں رہتی اور یہ تجربے سے ثابت ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ حجاب ختم ہو جائے تو پھر برائی کا احساس ہی باقی نہیں رہتا…۔ آپﷺ نے جو یہ فرمایا تھا کہ ان برائیوں کے اظہار سے تم اور بگاڑ پیدا کرو گے تو آجکل اگر جائزہ لیں، جیسا کہ میں نے کہا، ان برائیوں کے اظہار کی وجہ سے ہی یہ برائیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری اولادوں کو بھی ان برائیوں سے محفوظ رکھے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ19؍ نومبر 2004ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل3؍دسمبر2004ءصفحہ6)

پھر آپ برائیوں کی تشہیر نہ کرنے کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ کسی کے عیب اور غلطیاں تلاش کرنا تو دور کی بات ہے اگر کوئی کسی کی غلطی غیر ارادی طور پر بھی علم میں آ جائے تو اس کی ستّاری کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ہر ایک کی ایک عزت نفس ہوتی ہے۔ اس چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ دوسرے اگر کوئی برائی ہے، حقیقت میں کوئی ہے تو اس کے اظہار سے ایک تو اس کے لئے بدنامی کا باعث بن رہے ہوں گے دوسرے دوسروں کو بھی اس برائی کا احساس مٹ جاتا ہے، جب آہستہ آہستہ برائیوں کا ذکر ہونا شروع ہو جائے۔ اور آہستہ آہستہ معاشرے کے اور لوگ بھی اس برائی میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ہمیں واضح حکم ہے کہ جو باتیں معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والی ہوں یا بگاڑ پیدا کرنے کا باعث ہو سکتی ہوں، ان کی تشہیر نہیں کرنی، ان کو پھیلانا نہیں ہے۔ دعا کرو اور ان برائیوں سے ایک طرف ہو جاؤ۔ اور اگر کسی سے ہمدردی ہے تو دعا اور ذاتی طور پر سمجھا کر اس برائی کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہی سب سے بڑا علاج ہے۔ سوائے اس کے کہ ایسی صورت ہو کہ جس میں جماعتی خبر ہو یا جماعت کے خلاف کوئی بات سنیں، جماعتی نقصان کا احتمال ہو اور کوئی ایسی بات پتہ لگے جیسا کہ میں نے کہا، جس سے جماعتی نقصان ہونے کا خدشہ ہو تو پھر متعلقہ عہدیداروں کو، یا مجھ تک یہ بات پہنچائی جا سکتی ہے۔ ادھر ادھر باتیں کرنے کا پھر بھی کوئی حق نہیں اور کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے برائی پھیلتی ہے۔ اگر مثلاً اس غلطی کرنے والے شخص کی اصلاح کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی یا جھوٹ بول کر غلط بیانی کرکے وقتی طور پر اس نے اپنی جان بچا لی تو دوسرے بھی جن کی طبیعت میں کمزوری ہے وہ بھی بعض دفعہ ایسی باتیں کر جائیں گے، اپنی کمزوریاں ظاہر کرنے لگ جائیں گے۔ کیونکہ ان کے ذہنوں میں بھی یہ ہوتا ہے کہ فلاں شخص کی غلطی پکڑ کے اس عہدیدار نے یا اس شخص نے کیا کر لیا جو ہمارے خلاف ہو جائے گا۔ اس شخص کا کیا بگڑ گیا ہے۔ زبان کا مزہ لینے کے لئے بعض باتیں کر لو بعد میں دیکھی جائے گی۔ اس قسم کی باتیں برائیاں پھیلاتی ہیں، حجاب اٹھ جاتے ہیں۔

تو بہرحال یہ تو ایسے لوگوں کی سوچ کا قصور ہے، تقویٰ کی کمی ہے لیکن جس شخص کو نظام کے خلاف کوئی بات پتہ چلے، اس کا بہرحال یہ فرض بنتا ہے کہ ایسی بات صرف نظام جماعت کو ہی بتائے اور ادھر ادھر نہ کرے۔ کیونکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ سننے والے کو کوئی غلطی لگ جاتی ہے۔ بعض دفعہ بات کرنے والا باوجود جماعتی اخلاص کے وقتی جوش میں کوئی ایسی بات کہہ جاتا ہے جس پر بعد میں اسے بھی شرمندگی ہوتی ہے اور ایک دفعہ بات سن کے آگے پھیلا دینا مزید شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔ بعض دفعہ صحیح الفاظ کسی نے ادا نہیں کئے ہوتے تو اس وجہ سے اس بات کی بہت زیادہ بھیانک شکل نظر آنے لگ جاتی ہے۔ تو بہرحال کوئی بھی ایسی کمزوری ہو یا تو اس کو علیحدگی میں سمجھا دیا جائے یا جماعتی عہدیدار کو بتا دیا جائے کہ اس طرح کی بات میں نے سنی ہے آپ تحقیق کر لیں۔ لیکن کسی کی، کسی قسم کی بات کو کبھی بھی پھیلانا نہیں چاہئے جس سے کسی کی عزت پر حرف آتا ہو۔ ہو سکتا ہے کسی وقت یہی غلطی آپ سے بھی ہو جائے اور پھر اس طرح چرچا ہونے لگے، بدنامی ہو تو کتنی تکلیف پہنچتی ہے۔ ہر ایک کو اس سوچ کے ساتھ اگلے کی بات کرنی چاہئے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ19؍ نومبر 2004ء

مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل3؍دسمبر2004ءصفحہ5)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے اور مسلمانوں نے جس خدا کو مانا ہے وہ رحیم، کریم، حلیم، توّاب اور غفّار ہے۔ جو شخص سچی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اور اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔ لیکن دنیا میں خواہ حقیقی بھائی بھی ہو یا کوئی اور قریبی عزیز اور رشتہ دار ہو وہ جب ایک مرتبہ قصور دیکھ لیتا ہے پھر وہ اس سے خواہ باز بھی آ جاوے مگر اسے عیبی ہی سمجھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کیسا کریم ہے کہ انسان ہزاروں عیب کرکے بھی رجوع کرتا ہے تو بخش دیتا ہے۔ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے بجز پیغمبروں کے(جو اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں ) جو چشم پوشی سے اس قدر کام لے بلکہ عام طور پر تو یہ حالت ہے جو سعدی نے کہا ہے

خدا داند بپوشد و ھمسایہ نداند وبخروشد

(خداتعالیٰ تو جانتے ہوئے بھی پردہ پوشی کرتا ہے لیکن ہمسایہ تھوڑا علم ہونے کے باوجود اس کی مشہوری کرتاہے۔ ناقل)

پس غور کرو کہ اس کے کرم اور رحم کی کیسی عظیم الشان صفت ہے۔ یہ بالکل سچ ہے کہ اگر وہ مؤاخذہ پر آئے تو سب کو تباہ کر دے۔ لیکن اس کا کرم اور رحم بہت ہی وسیع ہے اور اس کے غضب پر سبقت رکھتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ137تا138، ایڈیشن1988ء)

ستّاری نہ کرنے والوں کے لیے انذار

ایک اور روایت بھی ملتی ہے اس میں پردہ پوشی نہ کرنے والے کوایک انذار بھی ہے، ڈرایا بھی گیا ہے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ

’’جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی کے کسی عیب کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کے عیب کو ڈھانپ دے گا اور ستاری فرمائے گا۔ اور جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی پردہ دری کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے عیب اور ننگ کو اس طرح ظاہر کرے گا کہ اس کے گھر میں اس کو رسوا کر دے گا۔ ‘‘

(سنن ابن ماجہ کتاب الحدود باب الستر علی لمومن دفع الحدود…)

پس دیکھیں کس قدر انذار ہے۔ کمزوریاں تو سب میں ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ جب ننگ ظاہر کرکے رسوا کرنے لگے تو ہم ایک دوسرے کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہیں۔ ہر ایک سے چھپتے پھریں۔ اس لیے ہمیشہ دوسروں کے عیب دیکھنے کی بجائے ہر ایک کو اپنے پر نظر رکھنی چاہیے۔ حضرت عیسیٰؑ کی طرف ایک قول منسوب ہےکہ انسان کو دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے مگر اپنی آنکھ کا شہتیر دکھائی نہیں دیتا۔

محمد علی مضطر عارفی صاحب مرحوم کا شعر یاد آگیا:

اشکوں میں ہیں انا کی چٹانیں چھپی ہوئی

جیسے سمندروں میں ہمالے پڑے ہوئے

دنیا میں کی گئی ستّاری آخرت کی ستّاری کی ضمانت ہے

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا:

’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی اسے اکیلا و تنہا چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی حاجات پوری کرتا جاتا ہے۔ اور جس نے کسی مسلمان کی کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مصائب میں سے ایک مصیبت کم کر دے گا اور جو کسی مسلمان کی ستاری کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی ستاری فرمائے گا۔ ‘‘

(ریاض الصالحین۔ باب فی قضاء حوائج المسلمین)

ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے راز اور سرگوشی کے انداز میں فرمایا کہ

’’تم میں سے کوئی اپنے ربّ کے قریب ہو گا۔ یہاں تک کہ وہ اپنا سایۂ رحمت اس پر ڈالے گا، پھر فرمائے گا تو نے فلاں فلاں کام کیا تھا! وہ کہے گا ہاں میرے ربّ! پھر کہے گا فلاں فلاں کام بھی کیا تھا؟ وہ اقرار کرے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ میں نے اس دنیا میں تیری کمزوریوں کی پردہ پوشی کی آج قیامت کے دن بھی پردہ پوشی کرتا ہوں اور انہیں معاف کرتا ہوں۔ ‘‘

(بخاری کتاب الادب باب ستر المومن علی نفسہٖ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’اصل میں انسان کی خداتعالیٰ پردہ پوشی کرتا ہے کیونکہ وہ ستار ہے اور بہت سے لوگوں کو خداتعالیٰ کی ستاری نے ہی نیک بنا رکھا ہے۔ ورنہ اگر خدا تعالیٰ ستاری نہ فرمائے تو پتہ لگ جاوے کہ انسان میں کیا کیا گندپوشیدہ ہیں۔

انسان کے ایمان کا بھی کمال یہی ہے کہ تخلق باخلاق اللّٰہ کرے۔ یعنی جو اخلاق فاضلہ خدا میں ہیں اور صفات ہیں ان کی حتی المقدور اتباع کرے اور اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرے۔ مثلاً خداتعالیٰ میں عفو ہے انسان بھی عفو کرے، رحم ہے، حلم ہے، کرم ہے، انسان بھی رحم کرے، حلم کرے لوگوں سے کرم کرے۔ خداتعالیٰ ستار ہے، انسان کو بھی ستاری کی شان سے حصہ لینا چاہئے۔ اور اپنے بھائیوں کے عیوب اور معاصی کی پردہ پوشی کرنی چاہئے۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب کسی کی بدی یا نقص دیکھتے ہیں، جب تک اس کی اچھی طرح سے تشہیر نہ کر لیں ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ فرمایا حدیث میں آیا ہے کہ جو اپنے بھائی کے عیب چھپاتا ہے خداتعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرتا ہے انسان کو چاہئے کہ شوخ نہ ہو، بے حیائی نہ کرے، مخلوق سے بدسلوکی نہ کرے، محبت اور نیکی سے پیش آوے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد5صفحہ608تا609،ایڈیشن1988ء)

خدا تعالیٰ کی ستّاری کا شیوہ اختیار کرو

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے حضرت مسیح موعودؑ کے گھر سے کچھ چاول چرائے، چور کا دل نہیں ہوتا اس لیے اس کے اعضا میں غیر معمولی قسم کی بیتابی اور اس کا ادھر ادھر دیکھنا بھی خاص وضع کا ہوتا ہے۔ یعنی وہ چوری کر لے تو اس کے ایکشنز(Actions)اور طرح کے ہو جاتے ہیں۔ کسی دوسرے تیز نظر نے تاڑ لیا اور پکڑ لیا۔ وہ وہاں موجود تھا۔ اس کی تیز نظر تھی اس کو شک ہوا کہ ضرور کوئی گڑ بڑ ہے اور شور پڑ گیا۔ اس کی بغل میں سے کوئی پندرہ سیر کے قریب چاولوں کی گٹھڑی نکلی اور اس کو ملامت اور پھٹکا ر شروع ہو گئی۔ حضرت مسیح موعودؑ بھی کسی وجہ سے ادھر تشریف لائے اور پوچھا کہ کیا واقعہ ہے تو لوگوں نے یہ بتایا تو فرمایا کہ یہ محتاج ہے کچھ تھوڑے سے اسے دے دو اور نصیحت نہ کرو یعنی بلاوجہ اس کو کچھ کہو نہ۔ اور خداتعالیٰ کی ستاری کا شیوہ اختیار کرو۔

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ ازحضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ جلداول صفحہ105تا106)

حرف آخر

پس آنحضرتﷺ کےفرمان کے مطابق اگر ہم وہ بندے بننا چاہتے ہیں جن پر قیامت کے روز خدا تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہوگا تو چاہیے کہ ہم اپنے بھائیوں سے مغفرت، عفو اور ستّاری کا سلوک کریں۔ ستّاری کا شیوہ اپنانے سے اللہ کی ستّاری اس دنیا میں بھی حاصل ہوگی اور اخروی دنیا میں بھی حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم سب خدا تعالیٰ کی صفت ستّاری کو اس طرح اپنائیں کہ تمام دنیا اس سے فیض پانے والی ہو۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button