حیا کیا ہے؟ ایمان کا حصہ کیسےہے؟ (قسط نمبر10۔ آخری)
قرآن و حدیث اور ارشادات حضرت مسیح موعودؑ و خلفائے کرام کی روشنی میں ا س کا تعارف
حضرت سمعیہؓ .
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
’’…ابتدائے اسلام کی ایک عورت کا بھی میں آپ کو واقعہ سناتا ہوں۔ آپ کو تو برقعے میں گرمی لگتی ہے۔ حضرت سمعیہؓ کا یہ حال تھا کہ جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں تو اس جرم کی سزا میں اور ان کو ارتداد پر مجبور کرنے کے لئے پورا زرہ بکتر پہنا کر دھوپ میں تپتی ہوئی ریت پر کھڑا کر دیا جاتا تھا یہاں تو درجہ حرارت 120 تک پہنچتا ہے عرب میں صحرا میں 140تک بھی پہنچ جاتا ہے اور ان کے حواس مختل ہو جایا کرتے تھے۔ اس وقت ان سے پوچھا جاتا تھا۔ تو روایتوں میں آتا ہے کہ ان کو بات سمجھ نہیں آتی تھی اس قدر شدت گرمی اور تکلیف سے وہ پاگل ہوئی ہوتی تھیں۔ پھر ان کو ایذا ءدینے والے اوپر کی طرف انگلی اٹھاتے تھے اور تب وہ سمجھتی تھیں کہ کہتے ہیں کہ خدائے واحد کا انکار کردو۔ تو بات کرنے کی تو طاقت نہیں تھی سر ہلا دیا کرتی تھیں کہ یہ انکار نہیں ہو گا۔ ایسی بھی پردہ پوش مستورات اسلام میں گزری ہیں۔ ‘‘
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے مستورات سے خطابات فرمودہ 27؍دسمبر 1982ء، اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلد 2صفحہ 16تا 17)
حضرت اُم شعیبؓ
پھر حضرت اُم شعیبؓ کا واقعہ آتا ہے ان کے ساتھ بھی دشمن یہی سلوک کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا جب انہیں تکلیف دی جا رہی تھی اور حالت یہ تھی کہ اس عورت کا بیٹا بھی یہ نظارہ کر رہا تھا اور اس کا خاوند بھی نظارہ کر رہا تھا اور کچھ پیش نہیں جاتی تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے عمار صبر کرو، اے اُم عمار صبر کرو اور اے اُم عمار کے خاوند تم بھی صبر کرو کیونکہ خدا صبر کرنے والوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ ‘‘
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے مستورات سے خطابات فرمودہ 27؍دسمبر 1982ء، اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلد 2صفحہ 16تا 17)
حضرت اُمّ ابّانؓ
عُتبہ بن ربیعہ کی خوبصورت اور بہادر بیٹی تھیں۔ کمسن ہونے کے باوجود فنون حرب سے خوب واقف تھیں اورتیر اندازی میں اس قدر کمال تھا کہ اُڑتے ہوئے پرندے کو گرا لیا کرتی تھیں۔ عباد ت گزار بھی بہت تھیں۔ حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ خلافت میں اسلامی لشکر کے ساتھ خدمت کرنے کے ارادہ سے شام گئیں۔ اُس وقت آپؓ کی شادی کو چند ہی روز گزرے تھے اور آپؓ کے شوہر ابّان بن سعید بھی مجاہدین میں شامل تھے۔ اسلامی لشکر حضرت خالدبن ولیدؓ کی قیادت میں اجنادین کے مقام پر ٹھہرا۔ جب فوجیں صف آرا ہوئیں تو حضرت خالدؓ خواتین کے پاس آئے اور کہا: اے دخترانِ عرب! تمہاری شجاعت، ہمت، جرأت اور استقلال مشہور ہے۔ تم نے فرمانبرداری کرکے خدا اور اس کے رسول کو راضی کرلیا ہے، مجھے تمہاری دلیری پر اعتماد ہے، اگر رومی تمہارے سامنے آجائیں تو اُن سے خوب دل کھول کر لڑو۔ اگر مسلمان پیچھے ہٹیں تو انہیں غیرت دلا کر لڑائی کی طرف لوٹاؤ۔ اُمّ ابّانؓ نے کہا کاش آپ ہمیں آگے بڑھ کر لڑنے کی اجازت دےدیتے۔
جنگ شروع ہوئی تو اتفاق سے ایک تیر ابّان بن سعید کو آکر لگا جو انہوں نے ہمت کرکے خود ہی کھینچ لیا اور زخم کو اپنے عمامہ سے باندھ دیا۔ لیکن تیر زہر میں بجھا ہوا تھا۔ زہر کا اثر سارے جسم میں پھیل گیا اور آپ شہید ہوگئے۔ جب اُمّ ابّانؓ کو اپنے شوہر کی شہادت کا علم ہوا تو فرطِ رنج سے دوہری ہوگئیں۔ جب ابّانؓ کی تدفین ہوئی تو اُمّ ابّانؓ تربت پر آئیں، فاتحہ پڑھی اور کہا: اے ابّان! پروردگار نے فرمایا ہے کہ شہید مرتے نہیں، زندہ رہتے ہیں، کھاتے پیتے اور سنتے ہیں۔ تم بھی سن رہے ہو۔ سنو! میں نے تمہارے قاتل سے قصاص لینے کا عزم کرلیا ہے۔ میدان جنگ میں جارہی ہوں، دعا کرو کہ جلد تم سے آملوں۔
یہ کہہ کر وہ واپس آئیں، زرہ بکتر پہنی اور چہرہ اس طرح ڈھک لیا کہ صرف آنکھیں، ناک اور پیشانی کا کچھ حصہ نظر آتاتھا۔ پھر تلوار حمائل کی اور کمان ہاتھ میں لے کر گھوڑے پر سوار ہو کر میدان جنگ میں پہنچیں۔ جب ابّان بن سعید کو شہید کرنے والا توماؔ آپؓ کے سامنے آیا تو آپؓ کا چہرہ جوش و غصہ سے سرخ ہوگیا اور آپؓ نے اُس کی دائیں آنکھ میں ایسا کھینچ کر تیر مارا کہ وہ آہ و فریاد کرتا ہوا پیچھے کی طرف بھاگا۔ اُمّ ابّانؓ نے یکے بعد دیگرے آٹھ دس عیسائیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور پھر مسلسل تیر چلاتی رہیں۔ آخر اسلامی لشکر سے پسپا ہوکر عیسائی بھاگ نکلے۔ اس کے بعد بھی اُمّ ابّانؓ کئی معرکوں میں شریک ہوئیں۔ نہایت سرفروشی اور بہادری سے لڑیں۔ لیکن شہادت کی تمنا پوری نہ ہوئی۔
(ماخوذ از ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلوپیڈیاصفحہ574)
ام خلاد رضی اللہ عنہا
بطور مثال حیا کی اہمیت کا اندازہ اس واقعے سے لگائیں کہ غزوہ احد کے موقعے پر ایک خاتون صحابیہ جن کا نام اُم خلاد رضی اللہ عنہا تھا، ان کے بیٹے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کے لیے گئےا ور شہید ہو گئے۔ اللہ ربّ العزت کی شان کہ یہ اپنے بیٹے کی معلومات کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں۔ جس وقت یہ آئیں تو مکمل طور پر پردے کی حالت میں تھیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپؐ نے فرمایا کہ تمہارا جوان بیٹا شہید ہو گیا ہے۔ ایک صحابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو دیکھا تو فرمایا کہ دیکھو اتنی بڑی خبر کہ جوان بیٹا شہید ہو گیا ہے یہ خبر سن کر بھی یہ عورت اتنا کامل پردے کی حالت میں نکلی۔ تو اُم خلاد رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں:
’’میرا بیٹا فوت ہوا ہے حیا فوت نہیں ہوئی۔ ‘‘
(ابودائود، کتاب الجہاد، باب فضل قتال …حدیث نمبر 2488صفحہ397، ماخوذ ازازواج مطہرات و صحابیات کا انسائیکلوپیڈیاصفحہ494)
جنتی خاتون
اسی طرح ایک واقعے سے علم ہوتا ہے کہ اس دور میں خواتین کو اپنی حیا کا اس قدر خیال ہوا کرتا تھا کہ بیماری کی حالت میں بھی انہیں اپنی سترپوشی کا احساس رہتا تھا۔ حضرت عطا بن ابو رباح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: ’’میں تمہیں جنَّتی عورت نہ دِکھاؤں؟ ‘‘میں نے عرض کی کیوں نہیں۔ کہنے لگے: ’’یہ حبشی عورت(جنتی ہے)۔ اِس نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آ کر عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مِرگی کے مَرض کی وجہ سے میرا ستر (پردہ) کھل جاتا ہے آپ میرے لیے دُعا فرمائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا چاہو تو صبر کرو تمہارے لیے جنّت ہے اور اگر چاہو تو میں اللہ عز وجل سے تمہارے لیے دُعا کروں کہ وہ تجھے عافیت عطافرما ئے۔ اِس نے عرض کی میں صبر کروں گی۔ پھر عرض کی دُعا کیجئے بوقت مِرگی میرا پردہ نہ کُھلا کرے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمادی۔ ‘‘
(ماخوذازبخاری، کتاب المرضی، باب فضل من یصرع من الریح، صفحہ1433، حدیث5652)
حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا
حضرت عثمان بن عفانؓ آپ کے اخیافی بھائی تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا نےہجرت کے وقت اس قدر طویل سفر میں جس طرح شرم و حیا کی لاج رکھی اور پردے کا اِہتمام کیا وہ آپ ہی کا خاصہ تھا۔ مسلمانوں کے حلیف قبیلے بنی خُزاعہ کا ایک شخص اپنے اونٹ پر سوار کہیں جا رہا تھا کہ وہ مکہ سے تھوڑی دور شرم وحیا کی پیکر ایک با پردہ، با حیا خاتون کو ویرانے میں پیدل سفر کرتے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسے شک گزرا کہ یقیناً یہ با حیا خاتون انہی مسلمانوں میں سے ہو گی جنہیں اہلِ مکہ نے مدینہ جانے سے روک رکھا ہے۔ سوال کرنے پر اس خاتون نے بھی اس شخص کے حلیف قبیلے بنی خُزاعہ کا فرد ہونے کی وجہ سے اعتماد کیا اور بتا دیا کہ وہ مدینہ جا رہی ہے تو اس شخص کی شرافت نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ اللہ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عاشقہ کو یوں تنہا سفر کرنے دے۔ چنانچہ اس نے اپنا سفر مؤخر کیا اور اپنا اونٹ اس با پردہ خاتون کو پیش کر کے مدینہ پہنچانے کا عزم ظاہر کیا۔ اور شرم و حیا کی پیکر اس با پردہ خاتون نے بھی اسے غیبی امداد سمجھ کر قبول کر لیا۔ ایک ایسا خاموش سفر شروع ہوا جس پر آج بھی بلاشبہ رشک کیا جا سکتا ہے۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا تن تنہا سفر کرنے والی یہ با پردہ اوربا ہمت خاتون خود اپنے سفر کی داستان کچھ یوں سناتی ہیں کہ دورانِ سفر اس شخص نے راستہ بھر مجھ سے کوئی کلام کیا نہ میں نے اُس سے کوئی بات کی۔ جب آرام کا وقت ہوتا تو وہ اُونٹ کو بٹھا کر دور چلا جاتا اور میں کجاوے سے نکل کر کسی سایہ دار درخت کے نیچے چلی جاتی، پھر وہ اونٹ کو مجھ سے دُور کسی اور درخت کے نیچے باندھ دیتا اور خود بھی وہیں کہیں آرا م کر لیتا اور جب دوبارہ سفر کا وقت ہوتا تو اونٹ پر کجاوہ رکھ کر اسے میرے پاس چھوڑ کر پھر خود دُور چلا جاتا، میرے سوار ہونے کے بعد خاموشی سے آکر نکیل پکڑتا اور مدینہ کی طرف چل پڑتا۔ یوں دوران سفر میں بھی نقاب میں رہی اور پردہ برقرار رکھنے میں مجھے کوئی دشواری پیش نہ آئی، اللہ اس شخص کو اجرِ عظیم دے اس نے بہت اچھے کردار کا مظاہرہ کیا۔
آخر جب میں مدینہ پہنچی تو سب سے پہلے حضرت اُمِّ سلمہؓ کے گھر پر حاضر ہوئی۔ میں اس وقت بھی نقاب میں تھی جس کی وجہ سے حضرت اُمِّ سلمہؓ مجھے نہ پہچان سکیں، لہٰذا میں نے چہرے سے نقاب ہٹا کر انہیں اپنا تعارف کروایا اور جب بتایا کہ میں نے تنہا ہجرت کی ہے تو وہ حیران ہو گئیں اور حیرت سے پوچھنے لگیں کہ کیا واقعی!تن تنہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہجرت کی ہے؟ میں نے اقرار کیا، ابھی ہم باتیں ہی کر رہی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور تمام بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اھلاً و سھلاً کہہ کر مجھے خوش آمدید کہا اور میرے اس طرح اسلام کی خاطر ہجرت کرنے کی تعریف کی۔
(صفۃ الصفوۃ، ذکر المصطفیات من طبقات الصحابیات، ام کلثوم بنت عقبۃ بن ابی معیط، الجلد الاول 2۔ صفحہ39)
حضرت اُمِّ حکیم بنتِ حارث رضی اللہ عنہا
اسی طرح ایک نومسلم صحابیہ کا ذکر ملتا ہے کہ کیسے قبول اسلام نے ان کی ایمانی حالت بدل دی اور وہ شوہر کی تلاش میں تنہا مگر باپردہ حالت میں نکل کھڑی ہوئیں اور بامراد لوٹیں۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جب دشمنِ اسلام ابو جہل کے بیٹے عکرمہ رضی اللہ عنہ کی زوجہ اُمِّ حکیم بنتِ حارث رضی اللہ عنہا نے اِسلام قبول کیا تو بارگاہِ رسالت میں عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !عِکرمہ (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)یمن کی طرف بھاگ گئے ہیں اور وہ اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ آپ انہیں قتل کردیں گے، لہٰذا انہیں امان عطا فرمادیجیے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے عکرمہ کو امان دےدی۔ پھر اُمِّ حکیم عکرمہ کی تلاش میں باپردہ نکل پڑیں اور آخر تِہَامَہ کے ساحل پر جاپہنچیں۔ ادھر عکرمہ بھی اسی ساحل پر پہنچ کر کشتی میں سوار ہوئے تو کشتی ڈگمگانے لگی، کشتی بان نے کہاکہ اِخلاص سے رب کو یاد کرو۔ عکرمہ بولےمیں کون سے الفاظ کہوں؟ اس نے کہا
لَا اِلٰـهَ اِلَّا اللّٰه
کہو !تو بولے اس کلمہ کی وجہ سے تو میں یہاں تک پہنچا ہوں، لہٰذا تم مجھے یہیں اُتار دو۔ اتنے میں حضرت اُمّ حکیم نے آپ کو دیکھ لیا اور ان سے کہنے لگیں اے میرے چچا زاد! میں ایک ایسی عظیم ہستی کے پاس سے آرہی ہوں جو بہت زیادہ رحم دل اور احسان فرمانے والی ہے، وہ لوگوں میں سب سے افضل ہے۔ لہٰذا خود کو ہلاکت میں مت ڈالیے!آپ کے اِصرار پر عکرمہ رک گئے، پھر آپ نے انہیں امان کی یقین دہانی کراتے ہوئے واپسی کے لیے آمادہ کر لیا، اس کے بعد دونوں مکہ لوٹ آئے اور یوں اُمِّ حکیم اپنے شوہر عِکرمہ کے ساتھ باپردہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئیں تو انہوں نے امان کی یقین دہانی کے بعد اِسلام قبول کر لیا۔
(ماخوذ ازکنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل الصحابة، عکرمه رضی الله عنه، المجلد السابع، 13/232، حدیث37416، ماخوذ از ازواج مطہرات و صحابیات کا انسائیکلوپیڈیاصفحہ565)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’’…صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کی ہمیں تلقین کی گئی ہے۔ ان کے نمونے کیا تھے؟ عورت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا کیا نمونہ دکھایا کہ آپ نے ایک شخص کو یہ کہنے پر کہ فلاں جگہ میں رشتہ کر رہاہوں۔ آپؐ نے اسے فرمایا جاؤ اور اسے کہو کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے کہ رشتے سے پہلے میں آپ کی بیٹی کو دیکھ لوں۔ لڑکی کا باپ اس بات پر دروازے کے باہر آ کے بڑا ناراض ہوا کہ میں بالکل اپنی بیٹی کو تمہارے سامنے نہیں لاؤں گا۔ بیٹی یہ باتیں سن رہی تھی۔ گھر کے دروازے سے اپنا چہرہ باہر نکال کر کہا کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے اور ان کا یہ حکم ہے تو میرا چہرہ دیکھ لو۔ مرد کا بھی تقویٰ دیکھیں کہ اس نے فوراً اپنی نظریں نیچی کر لیں کہ جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا پاس اس قدر ہے، احترام ہے تو میں اس تقویٰ کی بنیاد پر ہی رشتہ طے کرنا چاہتا ہوں اور اب مجھے چہرہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘
(خطبہ فرمودہ 6؍جون 1958ءمطبوعہ خطباتِ محمود جلد 39صفحہ140تا141)
مزید فرمایا: ’’ا گر لڑکی کھلے منہ پھرتی تو اول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور پھر لڑکی کے باپ سے کہنے کی کیا ضرورت تھی اس قسم کے بہت سے واقعات سے پتہ لگتا ہےکہ کھلے منہ عورتیں نہ پھرتی تھیں۔ ہاں کام سے باہر نکلتی تھیں جنگوں میں بھی شامل ہوتی تھیں۔
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کی ایک بیوی آپ کے پاس آئیں شام کا وقت ہو گیا آپ انہیں گھر پہنچانے کے لیے ساتھ جارہے تھے کہ راستے میں دو آدمی ملے غالباً منافق ہوں گے۔ آپؐ نے خیال کیا ان کے دل میں کوئی بدظنی پیدا نہ ہو آپؐ نے اپنی بیوی کے منہ سے پردہ ہٹا دیا۔ کہا یہ میری بیوی ہے جو میرے ساتھ ہے اگر کھلا رکھا جاتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح اپنی بیوی کا چہرہ دکھانے کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی۔ ‘‘
(اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلداول صفحہ 201تا 202)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابو داؤد کتاب اللباس میں یہ روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ایسے مردوں پر بھی لعنت بھیجی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔ اب یہ وہ باتیں ہیں جہاں تک میں نے اس زمانے کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اس زمانے کے معاشرے میں پڑھنے میں بھی نہیں ملتیں لیکن آج کے زمانے میں یہ ایک عام بات ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی احادیث واضح طور پر ثابت کرتی ہیں کہ حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ زمانے کی بالکل واضح خبریں اللہ تعالیٰ سے پائیں اور انہیں اس طرح وضاحت کے ساتھ بیان کیا کہ جیسا آج کل کی Societyکو دیکھ کر کوئی وہ باتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہا ہو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گویا کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب عورتیں مردوں جیسے لباس پہنیں گی اور مردوں جیسی ادائیں اختیار کریں گی اور اسی میں وہ اپنی برتری سمجھیں گی کہ ہم زیادہ جدید خیالات کی عورتیں ہیں، ہمیں پرانے زمانے کی باتوں کی پرواہ نہیں رہی اور ان کی جدت پسندی مردوں میں بھی پائی جائے گی اور مرد عورتوں کی طرح پھریں گے اور یہ امر واقعہ ہے کہ بعض دفعہ دکانوں پر کوئی جا رہا ہو تو پیچھے سے دیکھ کر پتہ نہیں چلتا کہ یہ مرد ہے کہ عورت ہے اور مڑیں تو پھر بھی کچھ دیر کے بعد پتہ لگتا ہے …پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لعنت بھیجی ہے اس لعنت کا مطلب یہ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اتنا نا پسند فرماتے تھے کہ اسلامی معاشرے سے اس کو دور رکھنا چاہتے تھے۔ لعنت کوئی گالی کے طور پر نہیں ہے بلکہ لعنت کا مطلب ہے دور ہٹی ہوئی چیز کہ اے خدا اس بلا کو اس بیماری کو ہم سے دور رکھ لیکن مجھے افسوس ہے کہ بسا اوقات اگر بسا اوقات نہیں تو کبھی کبھار ضرور احمدی بچیوں میں بھی مجھے یہ رجحان نظر آتا ہے۔ ‘‘
(خطاب فرمودہ8؍ستمبر1995ءمطبوعہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے مستورات سے خطابات صفحہ439)
صحابیات كی زندگیاں واقعی ہمارے لیے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہیں، لہٰذا ہمارے لیے زندگی کو شریعت کے سنہرے اُصولوں کے مطابق گزارنے کی کوشش کرنے میں صحابیات کی زندگیوں سے ماخوذ اسباق انتہائی اہمیت کے حامِل ہیں۔
صحابیاتؓ کا حیا سے متعلق مثالی کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کی طرح صحابیات رضوان اللہ عنہن نے جس طرح اپنے نیک افعال سے مسابقت بالخیر کے باب رقم کیے ہیں وہ یقینا ًدَور حاضر میں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ میدان جنگ سے لےکر علوم وفنون کی ترقی میں صحابیات رضی اللہ عنہن اپنے بیٹوں، اپنے شوہروں اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اعلیٰ اقدار کی حفاظت کرنے والی، اپنے پردے اور حیا کے تقدس کا خیال کرتی نظر آتی ہیں۔ غرض مذہبی، سیاسی، جنگی اور معاشرتی خدمات کے حوالے سے صحابیات رضوان اللہ عنہن کے نمایاں اور احسن کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور ان کا یہ کردار تمام مسلمان خواتین کے لیے مشعل راہ رہے گا۔ مضمون ہذا میں خاکسار نے ایک حقیر سی کوشش کی ہے کہ ان صحابیاتؓ کی حیا اور پردے کے متعلق واقعات کو یکجا کرکے ایک مضمون کی شکل میں آپ کے سامنے پیش کرسکوں تاکہ ہماری آنے والی اور موجودہ نسلیں ان واقعات کو پڑھ کر ان سے سبق حاصل کریں اور اپنی حیا اور پردے کے تقدس کو قائم رکھتے ہوئےاپنی اور اپنی اولاد کی نیک تربیت کے ساتھ تبلیغ اسلام کا اولین فریضہ سر انجام دے سکیں۔ اگرچہ تمام صحابیات مبارکہ رضوان اللہ عنہن کے نمونے ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، خاکسارنے کوشش کی ہے کہ چند ایک نمونے آپ کی خدمت میں پیش کرسکوں۔ اس سلسلے میں جماعتی کتب کے علاوہ چند دیگر مشہور و معروف کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ واقعات کو آپ کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ چند احادیث بھی دیگر کتب کے تراجم سے پیش کی گئی ہیں۔ میری کوشش کس حد تک ثمر بار ہوئی یہ آپ سب کی رائے پہ منحصر ہے۔ آئندہ ان شاء اللہ دَورآخرکی صحابیات کا ذکر خیر کروں گی ۔ خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ وہ میری اس حقیر سی کوشش کو قبول فرمائے۔ (آمین )