الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
مکرم حمیدالدین احمد صاحب
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ11؍اپریل2013ء میںمکرم عبدالباری قیوم شاہد صاحب نے اپنے بھائی مکرم حمیدالدین احمد صاحب مرحوم کا ذکرخیرکیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ بھائی حمید صاحب 4ستمبر 1932ء کو فیروز پور میں پیدا ہوئے۔چند سال بعد ہمارے والد کیپٹن شیخ نواب دین صاحب نے جو اس وقت قلعہ آرسنل فیروزپور میں ملازم تھے،قادیان میں ایک مکان کرایہ پر حاصل کر کے میری والدہ اور دوبیٹوں کو وہاں چھوڑ دیا تاکہ قادیان کے دینی اور روحانی ماحول میں بچوں کی بہتر رنگ میں پرورش ہو سکے۔گاؤں کی ایک دُور کی رشتہ دار بوڑھی عورت کو والدہ صا حبہ کے پاس رکھا کیونکہ اس عورت کا بھی کوئی سہارا نہ تھا۔ 1942ء تک والد صاحب قادیان میں دو مکان اور ایک پلاٹ خرید چکے تھے۔ آپ جہاں بھی ٹرانسفر ہوکر جاتے تو آپ کو فرنشڈ رہائش ملتی چنانچہ والدہ اور چھوٹے کمسن بچے آپ کے ساتھ رہنے لگے لیکن بڑے تینوں بیٹے قادیان میں زیرتعلیم رہے۔ پھرتقسیم ملک کے وقت تینوں بھائی اپنے والد صاحب کے پاس الٰہ آباد چھوکی چھاؤنی آگئے۔جہاں سےساری فیملی سپیشل فوجی ٹرین کے ذریعہ بمبئی پہنچی اور دسمبر1947ء میں بذریعہ سٹیمر بحری سفر کرکے کراچی آگئی۔میری عمر اس وقت صرف پانچ سال تھی۔ مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے قافلہ کے ساتھ کراچی سے لاہور تک ایک ہی بوگی میں سفر کرنا بھی یاد ہے۔
لاہور میں پہلے جلسہ سالانہ میں ہم سب شامل ہوئے۔ اس کے بعد والد صاحب کا تبادلہ لاہور سے راولپنڈی ہوگیا۔ جبکہ بھائی حمید صاحب اور بھائی غالب صاحب دونوں اپنے ایک تایا زاد بھائی سعید احمد صاحب کے ہمراہ لاہور سے چنیوٹ جا کر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ ہاؤس میں داخل ہوگئے۔ سرزمین ربوہ کی افتتاحی تقریب کے لیے جب محترم عبدالسلام اختر صاحب اور مکرم مولوی محمدصدیق صاحب نے ٹرک کے ذریعہ سامان لا کر ربوہ میں پڑاؤ ڈالا تو ان دونوں کے لیے کھانا پانی وغیرہ چنیوٹ سے پیدل ربوہ لانے والوں میں بھائی حمید صاحب اور بھائی غالب صاحب بھی شامل تھے۔ دونوں بھائی تقریب افتتاح میں بھی شامل ہوئے۔
بھائی حمید صاحب نے میٹرک کا امتحان تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ سے پاس کیا۔ بعدازاں کام کے ساتھ ساتھ پنجابی فاضل کا امتحان 1960ء میں اور 1967ء میں انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔1968ء میں کراچی یونیورسٹی سے مارکیٹنگ مینجمنٹ کاکورس پاس کیا۔ 1972ء میں ایلیمنٹری بک کیپنگ اکاؤنٹس کا امتحان لندن چیمبر آف کامرس سے پاس کیا۔
اگست1951ء میں اپنے والد صاحب کے کالا ضلع جہلم میں قیام کے دوران آپ نے کالا آرڈیننس ڈپو میںLDCکی حیثیت سے ملازمت کرلی۔دو سال بعد والد صاحب کا تبادلہ سہالہ راولپنڈی ہوگیا تو آپ نے بھی اپنا تبادلہ چک لالہ راولپنڈی کروالیا۔اگست1954ء میں ملازمت سے فراغت حاصل کرکے والدہ صا حبہ و دیگر بھائی بہنوں کے پاس ربوہ آگئے اور پہلے نظارت مال صدرانجمن احمدیہ ربوہ اور بعد ازاں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں ملازم رہے۔ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں خدمت کے دوران حضرت مصلح موعودؓ کی ڈاک ربوہ سے نخلہ و مری لے جانے اور لانے کی بھی توفیق پاتے رہے۔ 16جون1956ء کو نظام وصیت میں شامل ہوئے۔ اپنے تما م لازمی اور طوعی چندہ جات باقاعدگی سے ادا کرتے رہے۔جماعت کے اخبار و رسائل کے باقاعدہ خریدار تھے۔ نظام سلسلہ سے ہمیشہ مضبوط تعلق قائم رہا۔جہاں بھی رہے جماعت اور ذیلی تنظیم کے مثالی کا رکن رہے۔قیام ربوہ کے دوران اپنی جماعت میں سیکرٹری امورعامہ اورمجلس خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کی مجلس عاملہ کے فعال ممبر رہے۔حلقہ ڈرگ روڈ کراچی میں جنرل سیکرٹری اور خدام کی مجلس عاملہ میں ناظم مال رہے۔ مجلس انصاراللہ ماڈل کالونی میں منتظم عمومی کے طور پر بہت فعال کردار ادا کرتے رہے۔ زعیم اعلیٰ صاحب اور دیگر سب لوگ ان کے کام کی تعریف کرتے تھے۔ انصاراللہ کا سہ ماہی پرچہ باقاعدگی سے حل کیا کرتے اور متعدد بار نمایاں پوزیشن حاصل کر کے انعامات بھی حاصل کیے۔علمی مقابلوں میں اکثر حصہ لیتے۔تلاوت نظم کے مقابلوں کے بے شمار انعامات ان کے پاس موجود تھے۔
1962ء میں آپ فیروز سنز لیمیٹڈ کراچی میں اسسٹنٹ مینیجر کی حیثیت سے ملازم ہوئے۔ ڈیڑھ سال بعد یہ ملازمت ترک کردی۔ پھر مئی1964ء سے جنوری1970ء تک مغل ٹوبیکو کمپنی کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں بطور اسسٹنٹ کام کیا۔آپ پنجاب و سندھ سیکشن کے انچارج تھے اور ایک فعال داعی الی اللہ تھے۔چنانچہ جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے کمپنی کے دو دوستوں کو اپنے خرچ پر ربوہ لے گئے۔واپسی پر انتظامیہ کو پتہ لگا تو ان تینوں کو کمپنی کی ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔1970ء سے 1975ء تک آپ نے ماڈرن موٹرز میں کام کیا۔ اور اس کے بعد 1994ء تک مختلف کمپنیوں میں مینیجر اور آڈیٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔ آپ کو 1970-71ء میں رضا کار شہری دفاع کی تنظیم کے آفس انچارج کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔
1994ء میں آپ کی تعیناتی جماعت احمدیہ کراچی کے شعبہ رشتہ ناطہ کے ضلعی دفتر میں ہوئی اور ساڑھے چار سال تک نہایت اخلاص، محنت اور فرض شناسی کے ساتھ دفتری امور سرانجام دیتے رہے۔ بالآخر ہرنیا اور پائلز کے آپریشنزکے بعد فراغت حاصل کر لی اور اپنی مقامی جماعت اور مجلس انصاراللہ ماڈل ٹاؤن کراچی کے لیے وقف ہوگئے۔ آپ کی عمومی صحت بوجہ شوگر اور کالا موتیا کمزور ہوتی جارہی تھی لیکن روزمرہ امور کی سرانجام دہی میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔
آپ کی کوئی اولاد نہ تھی لیکن دونوں میاں بیوی میں انتہا درجہ کا پیار تھا۔ اپنے بھائی بہنوں اور ان کے بچوں کے ساتھ بھی پیار اور شفقت کاایک مثالی تعلق تھا۔ آپ کا گھر ہمیشہ عزیز بچوں کی گہما گہمی سے محبتوں کا گہوارہ بنا رہتا تھا۔آپ کی اہلیہ کی بصارت سے محروم ایک ہمشیرہ بھی آپ کے ہاں رہتی تھیں۔ آپ اُن کا بھی اپنی سگی بہن کی طرح خیال رکھتے تھے اور اُن کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے۔گھر کا ماحول ہمیشہ بڑا پاکیزہ رکھا۔حضور انور کا خطبہ جمعہ باقاعدگی سے سنا جاتا۔نمازیں باجماعت ادا ہوتیں۔ خلیفہ وقت کی خدمت میں تو کثرت سے دعائیہ خطوط لکھا ہی کرتے تھے لیکن خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی کئی بزرگ ہستیوں سے بھی خط و کتابت کا تعلق تھا۔ دعوت الی اللہ اور مہمان نوازی آپ میاں بیوی کے دو خصوصی اوصاف حمیدہ تھے۔ بے شمار سعید روحیں زیر تبلیغ رہیں۔ اپنے گھر کی ایک بالکنی میں دانہ دُنکا بکثرت بکھیرے رکھتے۔ جہاں ساراد ن بڑے چھوٹے پرندے چُگنے آیا کرتے تھے۔ بلیوں کے لیے الگ کھانا رکھا جاتا تھا اور کہا کرتے تھے کہ یہ سب بھی ہمارے روزانہ کے مہمان ہیں۔
محترم بھائی حمید صاحب مرحوم ایک نیک، صالح، دعاگو اور مستجاب الدعوات بزرگ انسان تھے ۔بڑے بااصول، نفاست پسند ،خوددار اور سلسلہ کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار رہتے۔سچی خوابیں دیکھنے والے تھے۔
………٭………٭………٭………
مکرمہ سرداراں بی بی صاحبہ
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 20؍مارچ 2013ء میں مکرمہ خورشید بی بی صاحبہ نے اپنی والدہ مکرمہ سرداراں بی بی صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے جن کی پیدائش ضلع گورداسپور کے گاؤں پیروشاہ کے مکرم میاں اللہ بخش صاحب (وینس) اور مکرمہ اللہ رکھی صاحبہ کے ہاں ہوئی۔ پیروشاہ گاؤں قادیان سے پانچ کلومیٹر جانب مشرق واقع ہے۔ آپ کُل چار بہنیں اور ایک بھائی تھا۔ تعلیمی ذرائع میسر نہ آنے کے سبب آپ دنیاوی تعلیم نہ حاصل کرسکیں۔ قریباً اٹھارہ سال کی عمر میں آپ کی شادی مکرم اللہ دتہ بھٹی صاحب ساکن سٹھیالی ضلع گورداسپور سے ہوئی۔ آپ کے بطن سے آٹھ بچے پیدا ہوئے۔پہلے دو بچے صغر سنی میں ہی فوت ہوگئے تو آپ نے کمال صبر کا نمونہ پیش کیا۔ پھر ایک بیٹی (مضمون نگار) کی پیدائش ہوئی۔
محترمہ سرداراں بی بی صاحبہ نہایت دیندار تقویٰ شعار تھیں۔ آپ کا تعلق بھی دینی گھرانے سے تھا۔چنانچہ آپ کے والد صاحب کے نام کے ساتھ بھی میاں لگا کرتا تھا جو کہ اس زمانہ میں دینی علوم پر عبور ہونے پر دلالت کرتا تھا۔ آپ یتیموں کا بے حد خیال رکھا کرتی تھیں۔ اپنے خاوند کے ایک بھائی مکرم اللہ دادصاحب اور اُن کی اہلیہ کی یکے بعد دیگرے وفات کے بعد اُن کے دو خوردسالہ بچوں کو کمال محبت اور شفقت کے ساتھ مکرمہ سرداراں بی بی صاحبہ نے اپنے سایہ ٔ عاطفت میں لے لیا۔ ابھی گھر میں آٹھ بچے اتنے بڑے نہیں ہوئے تھے کہ آپ کے خاوند مکرم اللہ دتہ صاحب کی بھی وفات ہوگئی اور تمام گھریلو ذمہ داریاں آپ پر آگئیں۔آپ نے نہایت ہی صبر کے ساتھ ان سب بچوںکو پالا۔
مکرم اللہ دتہ صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ پھر مرحومہ نے بھی بیعت کرلی اور بعدازاں حضورؓ کی طرف سے سٹھیالی میں بھجوائے جانے والے مربیان سے قرآن کریم پڑھنا سیکھا۔
تقسیم ہندوستان کے بعد آپ آٹھوں بچوں کو لے کر پاکستان آگئیں۔ پہلے تین چار سال سٹھیالی کلاں ضلع شیخوپورہ اور پھر بہوڑو چک 18 کے قریب ایک بے آب وگیاہ مقام پر مستقل سکونت اختیار کی۔ اپنا گھر بار چھوڑ کر اور اپنے بچوں کے علاوہ دو اَور یتیموں کو پالنا کوئی آسان کام نہ تھا۔لیکن پھر بھی آپ نہایت توکل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں اوریہاں آپ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کی فکر میں لگ گئیں۔ سب کو دینی تعلیم بھی دلوائی اور اپنے دو بیٹوں کو ایم اے تک تعلیم دلوائی۔
نمازوں اور تلاوت قرآن کریم کی طرف آپ خصوصیت کے ساتھ توجہ دیا کرتی تھیں اور کبھی کوئی نماز نہ چھوڑی تھی۔ اسی طرح اپنی اولاد کو بھی نمازوں کا خاص پابند رکھتیں اور عمدہ اخلاق سکھانے کی طرف توجہ دیتیں۔بے آب وگیاہ جگہ پر مکان بسانے کے بعد آپ نے اپنے بچوں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹی سی مسجد بنائی جس میں پانچ وقت اذان ہوا کرتی تھی اور ہم تین بہن بھائی اپنا زمیندارانہ کام چھوڑ کر تمام نمازیں باجماعت ادا کرتے۔ خلافت اور نظام جماعت کے ساتھ آپ نے سب بچوں کو مضبوطی کے ساتھ منسلک کیا ہوا تھا۔ آپ کے بیٹے مکرم عبدالحمید بھٹی صاحب کوبطور امیر جماعت شیخوپورہ بھی خدمت کی توفیق عطا ہورہی ہے۔ ایک دوسرے بیٹے مکرم عبدالمجید صاحب کو سانگلہ ہل میں ایک لمبا عرصہ بطور صدر خدمت کی توفیق ملی۔ مضمون نگار بھی اپنی مجلس میں سالہاسال تک بطور سیکرٹری اور سات سال تک بطور صدر لجنہ خدمت کی توفیق پاتی رہی ہیں۔ مرحومہ کے دو پوتے اور ایک نواسہ مربیان سلسلہ کے طور پر خدمت بجالارہے ہیں۔ مکرمہ سرداراں بی بی صاحبہ صرف پچاس سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔
………٭………٭………٭………