حدیث رسولﷺ۔ وہ روایات جو ایک عرصہ بعد راویوں کے ذریعہ جمع کی گئیں (قسط اوّل)
شریعت اسلامیہ کا تیسرا بڑا ماخذ۔ قرآن وسنت کے لیے تائیدی گواہ
قرآن و سنت کے بعد اسلامی شریعت کا تیسرا بڑا ماخذ حدیث ہے جس سے عام طور پر مراد رسول کریمﷺ کے اقوال لیے جاتے ہیں یہ ایک عظیم الشان مضمون ہے جس کے پیچھے ایک لمبی تاریخ اور حیرت انگیز محبت اور محنت ہے۔ اس کاایک بہت گہرا پس منظر ہے جس کو سمجھے بغیر ہم حدیث کی حقیقت کو پہنچ نہیں سکتے۔
حدیث کا لفظ حدث سے نکلا ہے جس کے بنیادی معنی نئی بات، نئی چیز، نئی ایجاد اور نیا خیال ہے۔ الحدوث کسی ایسی چیز کا وجود میں آنا جو پہلے نہ ہو۔ الحدیث تازہ پھل۔
لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا۔ (الطلاق: 2)
شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات بیان کرے۔ متحدث ہر قول و فعل جو نیا ظہور پذیر ہو۔ حدیث اور قدیم بالمقابل الفاظ ہیں۔ حدثان بالکفرکفر سے نئے نئے مسلمان ہونے والے۔ حد یثة اسنانھم نئے جوان ہونے والے۔ محدثات الامورکتاب و سنت میں نئے امور شامل کرنا۔ ما لم یحدث بے وضو ہو کر نئی کیفیت ہونا۔ عام بات کے لیے بھی مستعمل ہے
وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيثًا۔ (النساء:88)
اور اللہ سے بڑھ کر کس کی بات سچی (ہوسکتی) ہے۔
چونکہ نئے خیالات اور نئی چیزیں زیادہ رواج پاتی ہیں اور ان کا ذکر کثرت سے ہوتا ہے اس لیے تحدیث کے لفظ میں کلام کرنا، بیان کرنا کے معنے جاری ہوگئے۔ جیسے تحدیث نعمت۔ اسی طرح خوابوں، کہانیوں اور واقعات کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا۔ کیونکہ یہ نئے بھی ہوتے ہیں عجیب و غریب بھی اور مشہور عام بھی۔ یہ سارے معانی قرآن شریف سے ثابت ہیں
ذِکۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ مُّحۡدَثٍ۔ نیا ذکر(انبیاء:3) وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ۔
کہانیاں بنا دیا (مومنون: 45)
تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ۔
تعبیر الرویا اور تشریح کا علم (یوسف:7)
قرآن میں حضرت موسیٰؑ کےواقعات کو حَدِیۡثُ مُوۡسٰی کہاگیا ہے۔ (طٰہٰ:10) اور قرآن کو بھی حدیث کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک جدید کلام اور غیر معمولی شریعت ہے۔
فَلۡیَاۡتُوۡا بِحَدِیۡثٍ مِّثۡلِہٖۤ اِنۡ کَانُوۡا صٰدِقِیۡنَ (طور:35)
اگر وہ سچے ہیں تو اس قرآن جیسی کوئی حدیث لے کر آئیں۔
اَفَمِنۡ ہٰذَا الۡحَدِیۡثِ تَعۡجَبُوۡنَ(النجم:60)
کیا تم اس قرآن سے تعجب کرتے ہو۔
اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا (الزمر:24)
اللہ نے سب سے بہتر بات یعنی یہ کتاب اتاری ہے۔
رسول کریمﷺ نے خود اپنے کلام کو بھی حدیث فرمایاہے:
رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِيثِ
(صحیح بخاری کتاب العلم باب الحرص علی الحدیث حدیث نمبر 97)
صحابہؓ نے رسول اللہﷺ کے سامنے آپ کے کلام کو حدیث کے لفظ سے بیان کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا
(صحیح بخاری کتاب العلم باب حفظ العلم حدیث نمبر 116)
قرآن اور سنت
حدیث کا آغاز تو یقیناًرسول کریمﷺ کی رسالت سے ہوتا ہے۔ آپﷺ پر اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری شریعت قرآن مجید نازل کی۔ آ پؐ کی ذمہ داری اس پیغام کے ابلاغ کی بھی تھی اور اس کی وضاحت اور تشریح اور اس کے احکام کو عملی جامہ پہنانے کی بھی تھی کیونکہ آپ اسوہ ٔحسنہ بھی تھے۔ پس سنت نبویﷺ قرآن کریم کے ساتھ ظاہر ہوئی جو اپنے ساتھ تواتر رکھتی ہے اور جس پر رسول اللہﷺ نے ہزار ہا صحابہؓ کو قائم کردیا اور وہ سلسلہ ایک تعامل کے رنگ میں آج تک امت محمدیہ میں قائم ہے۔ یہ تفہیم آپؐ کو وحی الٰہی کے ذریعہ ہوئی اور سنت کی بنیا د اسی پر ہے اور اور ہر نبی کے ساتھ خدا کا یہی طریق ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ
(سنن ابو داؤد کتاب السنۃ باب فی لزوم السنہ حدیث نمبر 3988)
یعنی مجھے کتاب اور اس کی مثال اور بھی عطا کیا گیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ وحی متلو کے ساتھ 3 چیزیں اور بھی نبیوں کو دی جاتی ہیں مکاشفات صحیحہ۔ رؤیائے صالحہ اور وحی خفی۔ مؤخر الذکر کے متعلق فرمایا:
’’وحی متلوکے ساتھ ایک خفی وحی عنایت ہوتی ہے جو تفہیمات الٰہیہ سے نامزد ہوسکتی ہے یہی وحی ہے جس کو وحی غیر متلو کہتے ہیں اور متصوفہ اس کا نام وحی خفی اور وحی دل بھی رکھتے ہیں۔ اس وحی سے یہ غرض ہوتی ہے کہ بعض مجملات اور اشارات وحی متلوکے منزل علیہ پر ظاہر ہوں۔ سو یہ وہ تینوں چیزیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے أُوتیت الکتاب کے ساتھ مثلہ کا مصداق ہیں۔ اور ہر ایک رسول اور نبی اور محدث کو اس کی وحی کے ساتھ یہ تینوں چیزیں حسب مراتب اپنی اپنی حالت قرب کے دی جاتی ہیں چنانچہ اس بارے میں راقم تقریر ہٰذا صاحب تجربہ ہے‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد4صفحہ 108)
رسول کریمﷺ کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو آپ کو بے پناہ وسعت نظر آئے گی۔ آپ محض ایک نبی نہیں تھے بلکہ ایک شارع نبی تھے جن پر خدا کا سب سے مکمل اور جامع اور ابدی کلام اترا۔ آپ کو کوئی قوم اور ملک ورثے میں نہیں ملا۔ کوئی دولت اور لشکر نہیں تھا۔ کوئی تعلیم اور کتاب نہیں تھی۔ ایک سر زمین بےآئین جہاں وحشت اور ظلمت اور جہالت کادور دورہ تھا۔ آپ نے تنکے چنے اور مضبوط آشیانے بنادیے۔ ذرّے اکٹھے کیے اور انہیں صحراؤں کا ظرف اور وسعت عطا کی۔ قطرے ملائے اور دریا بہادیے۔ بتوں کے پجاریوں کو توحید کی لذت سے آشنا کیا، پانچ وقت کے بادہ نوشوں کو نماز کی شیرینی پلائی۔ وحشیوں کو انسان، انسانوں کو بااخلاق اور ان بااخلاق وجودوں کو خدانما بنادیا۔ ایک ایسی امت تشکیل دی اور ایسا نظام ترتیب دیا جس کے مقدرمیں صراط مستقیم کی شرط کے ساتھ صرف اور صرف کامیابی لکھی گئی ہے۔
حدیث کا سرمایہ
بخدا! یہ سب اکیلے محمد مصطفی ٰﷺ کا کام تھا جس نے سورج کو خیرہ کردیا اور چاند کو شرما دیا۔ یہ سب اس نور کامل کی بے قرار دعائیں، اس کے اخلاق کریمانہ اور سنت مطہرہ تھی جس نے یہ انقلاب برپا کردیا۔ رسول اللہﷺ صحابہؓ کو قرآن سناتے، لکھواتے، یاد کرواتے، مطالب بیان کرتے تھے۔ صحابہؓ کو عبادت اور توحید پر اس طرح قائم کیا کہ تلواروں کی جھنکاروں میں بھی توحید کے نعرے اور سجدے تھے۔ 23سال کے صبح و شام ان کے لیے وقف تھے۔ 500سے زیادہ جمعے پڑھائے، سینکڑوں تقاریر کیں، بے بہا سوالوں کے جواب دیے، لا یعنی اعتراضوں کوپرزور دلائل سے رد کیا۔ نئے آنے والوں میں ایک ایک کو وقت دیا۔ کسی کی نماز کی اصلاح کی۔ کسی کا روزہ ٹھیک کرایا، کسی کو جہاد اور انفاق پر مائل کیا، کسی کا جھوٹ چھڑایا، کسی کی عائلی زندگی درست کی، ہر فرد کے حسب حال معدوم اخلاق قائم کیے۔
متعددغزوات میں قیادت کی۔ فتح بھی دیکھی اور دکھ بھی اٹھائے۔ درجنوں سرایا پر بھیجتے ہوئے قافلوں کی راہ نمائی کی۔ کسی کو سند خوشنودی دی کسی پرناراض ہوئے، خوشخبریاں بھی دیں اور معافیاں بھی۔ پیشگوئیاں بھی کیں اور خوشیاں بھی منائیں۔ باوجود امی ہونے کے قوم کو تحریر کی طرف متوجہ کیا اور 300 کے قریب چھوٹے بڑے خطوط آپ سے ثا بت ہیں۔
11 کے قریب ازواج اور ان کی اولاد سے معاملات کا الگ جہان ہے آ پ کی ذاتی زندگی پر دل و جان قربان ہے حجۃالوداع کے موقع پر آپ نے ایک لاکھ صحابہ کے سامنے اپنی تعلیمات کا جامع خلاصہ بھی بیان کردیا اور تبلیغ کا حق ادا کردیا۔ اس طرح حدیث رسولﷺ کا انتہائی قیمتی سرمایہ میسر آگیا جس نے بعد میں ایک عظیم الشان فن کی شکل اختیار کرلی۔
صحابہ کی محبت رسولﷺ
رسول کریمﷺ نے اپنی زندگی میں حدیث کو قلم بند نہیں کروایا۔ عربو ں کے حافظے بہت پختہ اور مثالی تھے اور صحابہؓ کی رسول کریمﷺ سے محبت اس سے بھی بڑھ کر تھی اس لیے ہزاروں صحابہ آپ کی یاد یں ہر وقت سینے سے لگائے پھرتے تھے بعض تو دھونی رماکر مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کی شکل میں بیٹھ گئے بعض نے ایک دوسرے کے ساتھ مجلس رسولؐ میں حاضر ہونے کی باریاں مقرر کرلیں (صحیح بخاری کتاب العلم باب التناوُب فی العلم حدیث نمبر 87)بعض صحابہ کرید کرید کر دوسرے صحابہ اور ازواج مطہرات سے رسول اللہﷺ کی باتیں معلوم کرتے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح حدیث نمبر4675)الغرض دونوں طرف محبت کی آگ برابر لگی ہوئی تھی۔ کچھ پڑھے لکھے صحابہؓ نےرسول اللہﷺکی کچھ باتیں تحریری طور پر آپ کی زندگی میں ہی محفوظ کرلی تھیں ان میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عمرو بن حزمؓ شامل تھے۔ بعض صحابہؓ نے چھوٹے چھوٹے مجموعے بھی تیار کرلیے تھے مثلاً حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت عمر وبن عاصؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت جابرؓ، حضرت انسؓ وغیرہ۔ مگر یہ سب انفرادی اور ابتدائی تحریری کوششیں تھیں اور ذاتی معلومات پر منحصر تھیں اور بغیر کسی ترتیب کے تھیں۔
تدوین حدیث کا آغاز
رسول اللہﷺ کی وفات 11ھ میں ہوئی تاریخ کے مطابق آخری فوت ہونے والے صحابی رسول حضرت ابو الطفیل عامر بن واثلہؓ متوفی 110ھ تھے پھر تابعین کا دور شروع ہوا جو آخری تابعی حضرت خلف بن خلیفہ کی وفات 181 ھ تک جاری رہا(تدریب الراوی از علامہ سیوطی جلد 2 صفحہ 228، 243 باب نمبر 39، 40 مکتبۃ الریاض الحدیثہ۔ ریاض)رسول اللہﷺ کے بعد جب صحابہؓ آپس میں ملتے تو کہتے آؤ رسول اللہﷺ کی باتوں سے ایمان تازہ کریں۔
اجْلِسْ بِنَا نُؤْمِنْ سَاعَةً (صحیح بخاری کتاب الایمان باب بنی الاسلام علی خمس)۔
فتوحات کے نتیجے میں کثرت سے نئے آنے والے تابعین صحابہ سے ملتے اور ان سے رسول اللہؐ کی باتیں پوچھتے اس طرح کئی مقامات پر درس حدیث کی مجلسیں منعقد ہونے لگیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ہر جمعرات کو مجلس منعقد کرتے تھے تو سامعین نے اصرار کیا کہ یہ مجلس روزانہ ہونی چاہیے (صحیح بخاری کتاب العلم باب من جعل لاھل العلم ایاما معلومۃ۔ حدیث نمبر68 ) حضرت عمرؓ نے کئی صحابہ کو متفرق ممالک اسلامیہ میں بھیجا تاکہ وہ نو واردین کو اسلام سکھائیں اور قرآ ن و سنت کا علم دیں۔ (الفاروق از شبلی نعمانی صفحہ267)جس طرح حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں قراء کی شہادت پر صحابہ کی توجہ قرآن کی تحریری تدوین کی طرف ہوئی اسی طرح خلافت راشدہ کے بعد بڑے بڑے صحابہ کی وفات پر مسلمانوں کی توجہ اس طرف ہوئی کہ حدیثیں تحریری طور پر محفوظ کی جائیں۔ چنانچہ بنو امیہ کے تقویٰ شعار حکمران حضرت عمر بن عبد العزیز( 99 تا 101ھ) جن کو دوسری صدی کا مجدد بھی کہا جاتا ہے نے اس طرف بھرپور توجہ دی اور اپنے عمّال کو حکم دیا کہ صحابہ اور تابعین فوت ہورہے ہیں اس لیے احادیث کو حیطہ تحریر میں لانے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ اس ضمن میں ایک عظیم مہم کا آغاز ہوا۔ روایات کے مطابق حدیث کی پہلی تبویب حضرت امام ابو حنیفہ (80 تا 150 ھ) نے کتاب الآثار میں کی۔ (الرسالہ المستطرفہ صفحہ9ازامام محمد بن جعفر الکتانی۔ طبع 5۔ دار البشارۃ الاسلامیہ بیروت۔ لبنان 1993ء)پھر حضرت امام مالک ( 93 تا 179ھ )نے جن کی ساری عمر مدینہ میں بسر ہوئی تھی۔ حدیث و آثار نبوی کی مشہور کتاب مدون کی جس میں مختلف عناوین کے ماتحت حدیثیں جمع کیں اور فتاویٰ بھی درج کردیے اس کتا ب کو بڑے بڑے علماء نے تحسین کی نظر سے دیکھا اس لیے اسے موطا کہا جاتا ہے یعنی جس پر اتفاق رائے کیا جائے۔
مگرپھر ایسے لوگ بھی اس مہم میں داخل ہوگئے جو بےتوجہی سے بیان کرتے تھے یا ان کے حافظے پہلوں کی طرح پختہ نہیں تھے اور احادیث گڈ مڈ کر جاتے تھے یا جھوٹی احادیث تخلیق کرتے تھے اس لیے لازم ہوا کہ صحیح احادیث کی پہچان اور پرکھ کے لیے ضروری قواعد و ضوابط بنائے جائیں۔ اسے فن حدیث کہا جاتا ہے۔ اس ضمن میں بہت سے علوم ایجاد ہوئے جیسے علم اسماء الرجال، علم جرح و تعدیل۔ علم الناسخ والمنسوخ، علم غریب الحدیث، علم علل الحدیث۔ راویوں کے حالات اکٹھے ہونے لگے ان کی چھان پھٹک ہونے لگی۔ قریباً 5 لاکھ انسانوں کے حالات صرف اس لیے جمع کیے گئے کہ ان کے ذریعہ ملنے والی روایات کا جائزہ لیا جا سکے۔ اس فن کے متعلق مشہور محقق ڈاکٹر سپر نگر نے لکھا ہے:
’’کوئی قوم دنیا میں نہ ایسی گذری، نہ آج تک موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا سا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو، جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے۔ ‘‘
(انگریزی مقدمہ اصابہ مطبوعہ کلکتہ 1853ء)
احادیث کی صحت کا مرتبہ پہچاننے کے لیے اصطلاحات ابھرنے لگیں جو بحث و مباحثہ کے بعد قبول عام کی سند پاتی رہیں۔
مستند کتب حدیث
پھر خدا نےایسے بزرگ علماء اور ماہرین علم حدیث کو عطا کیے جنہوں نے اپنے آپ کو اس علم کے لیے وقف کردیا۔ مدتوں سفر کیے شہر شہر دکھ اٹھائے احادیث اور راویوں کے حالات کی تلاش میں جان ہلکان کی اور صحیح احادیث جمع کرتے رہے۔ ایک ایک حدیث پر بحث کی۔ ہر راوی کے حالات اور اخلاق اور کردار کا مشاہدہ کیا اس کو اعلیٰ شرائط پر پورا پایا تو اس کی روایت اپنی کتاب میں پوری سند کےساتھ درج کی اس ضمن میں بہت سے محسنوں کے نام قابل قدر ہیں مگر سب سے بڑھ کر امام بخاری( 194 تا 256ھ) اور امام مسلم (206تا 261ھ )ہیں جنہوں نے اخذ حدیث کے لیے سب سے کڑی شرائط طے کیں سخت اصول بنائے اور خاص نصرت الٰہی کے ماتحت اپنی کتب ترتیب دیں۔ امت مسلمہ میں ان کی قبولیت عامہ ان کی دربار خداوندی میں سند خوشنودی کی دلیل ہے۔ اس لیے صحیح بخاری کو اصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ کہا جاتا ہے۔ اور صحیح مسلم کو دوسرے نمبر پر رکھا جاتا ہے اور دونوں کو شیخین کہتے ہیں یعنی ان کی کسی حدیث کی صحت پر اتفاق اس کوبلند مرتبہ عطا کردیتا ہے۔
اس کے بعد صحاح ستہ کی باقی چار کتب بھی منظر عام پر آئیں سنن ابوداؤد(202تا275ھ)، سنن ابن ماجہ(209 تا273ھ)۔ جامع ترمذی (209تا 275ھ)، سنن نسائی(214تا 303 ھ)۔
صحاح میں 105 صحابہ کی رویاات ہیں (تاریخ الحدیث صفحہ 134)ان کے علاوہ بھی بہت سی کتب ان سے پہلے بھی اور بعد میں بھی تخلیق ہوتی رہیں۔ مسند احمد (164ھ تا 241ھ ) امام احمد سے بخاری اور مسلم نے روایت کی ہے۔ ایک ایک علاقے کے راویوں پر مشتمل۔ ایک ایک صحابی کی روایات پر مشتمل، ایک ایک مضمون پر مشتمل احادیث کی کتب آ تی رہیں اور اسلام کا دامن بھرتا چلا گیا۔
پس آج جب ہم حدیث کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے مراد رسول اللہﷺ سے منسوب وہ روایات ہیں جودوسری اور تیسری صدی ہجری میں راویوں کے ذریعے سلسلہ وار سند کے ساتھ جمع کی گئیں۔ شروع میں ان کا مقصد محض رسول اللہﷺ کے اقوال جمع کرنا تھااور وہ بھی دین کے عملی حصہ کے متعلق جیسا کہ روایات سے ثابت ہے:
قال أبو هريرة لما ولي عمر قال : أقلوا الرواية عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إلا فيما يعمل به۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنےتو انہوں نے حکم دیا کہ رسول اللہﷺ سے کم روایات بیان کی جائیں سوائے عملی احکامات کے۔
(مصنف عبد الرزاق جلد 11صفحہ 262۔ حدیث نمبر 20496 باب الکذب علی النبی )
مگر بعد میں حدیث کے لفظ کو وسعت دے کر رسول اللہﷺ کے زمانے کے حالات حتیٰ کہ دشمنوں کے حالات بھی جمع کر دیے گئے کیونکہ یہ قرآن کریم اور احادیث رسول کو سمجھنے میں مددگار تھے۔
آغاز کی کتب میں رسول اللہﷺ اور کتاب کے مصنف کے درمیان عام طور پر تین راوی ہیں مثلاً موطا امام مالک جبکہ صحیح بخاری میں عام طور پر پانچ راوی ہیں اور بعد کی کتب میں اس سے بھی زیادہ ہیں۔ بخاری میں 16روایات ثلاثیات ہیں یعنی درمیانی واسطے 3ہیں مسلم میں 80حدیثیں رباعیات ہیں یعنی واسطے 4 ہیں۔
(تاریخ الحدیث صفحہ 104تا105۔ از قاضی عبد الصمد صارم)
امام مسلم اور امام نسائی نےامام بخاری سے، اسی طرح امام ترمذی نے امام بخاری اورامام مسلم سے روایات کی ہیں اس طرح ایک راوی کا اضافہ ہوگیا10ویں صدی ہجری میں علامہ جلال الدین السیوطی نے 30حدیثیں بڑے فخر کے ساتھ کتاب عشاریات السیوطی میں لکھی ہیں یعنی ان کے اور رسول اللہﷺ کے درمیان 10 واسطے ہیں۔ یقیناً زمانی فاصلہ اور مختلف طبائع کے راویوں کے ذریعہ حدیث کا حصول کئی قسم کے شکوک پیدا کردیتا ہے اور گو ا ئمہ حدیث نے ان سب پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن یہ بہر حال ایک ظنی چیز ہے یقینی امر اور ہر عیب اور ہر آلائش سے پاک ہمارے پاس صرف قرآن ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود خدائے بزرگ و برتر نےلیا ہے اور 1400سال سے یہ وعدہ سچا نکلتا چلا آرہا ہے۔
قرآن کے ساتھ دوسری نعمت سنت نبوی کی ہے یعنی رسول اللہﷺ کی وہ فعلی روش جو قرآن کے ساتھ ظاہر ہوئی جس پر رسول اللہﷺ کاربند رہے جوہزارہا مسلمانوں کے تعامل کے ساتھ آج تک امت مسلمہ میں موجود ہے۔ پس قرآن کریم کے احکامات کی تفصیل اور تبیین کے ذریعے اوّل نمبر پر سنت محمدیہ ہے جس کو خداوند کریم نے اسوہ ٔحسنہ کہہ کر پکارا ہے اور حدیثیں اس کے لیے تائیدی گواہ کے طور پر ہیں۔
سنت اور حدیث میں فرق
امت مسلمہ میں عام طور پر ماخذ شریعت قرآن و حدیث کو کہا جاتا ہے مگر قرآن و حدیث کے درمیان سنت نبوی کا ایک بہتا دھارا موجود ہے جو ایک طرف قرآن سے آبدار موتی اور روانی لیتا ہے اور دوسری طرف حدیثوں کے ایک حصےکو اپنے تعامل کی پناہ میں سمیٹ لیتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اسی لیے عام علماء کے بر عکس سنت اور حدیث کو ایک چیز قرار نہیں دیا بلکہ دونوں کو الگ الگ قرار دے کر ایسی واضح تعریف کی ہے کہ ہر چیز نکھر کرسامنے آجاتی ہے فرماتے ہیں :
’’مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کیلئے تین چیزیں ہیں (١)قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کرہمارے ہا تھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے وہ شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے (٢) دوسری سُنّت اور اس جگہ ہم اہلحدیث کی اصطلاحات سے الگ ہو کر بات کرتے ہیں۔ یعنی ہم حدیث اور سُنّت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اورسنّت الگ چیز۔ سُنّت سے مُراد ہماری صرف آنحضرتﷺ کی فعلی روش ہے جو اپنے اندرتواتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اورہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سُنّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادة اللہ یہی ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کیلئے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں۔ (٣) تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور حدیث سے مُراد ہماری وہ آثار ہیں کہ جو قصّوں کے رنگ میں آنحضرتﷺ سے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کئے گئے ہیں۔ پس سنّت اور حدیث میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ سنّت ایک عملی طریق ہے جو اپنے ساتھ تواتر رکھتا ہے جس کو آنحضرتﷺ نے اپنے ہاتھ سے جاری کیا اور وہ یقینی مراتب میں قرآن شریف سے دوسرے درجہ پر ہے۔ اور جس طرح آنحضرتﷺ قرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سنّت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے۔ پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سنّت معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے۔ یہ دونوں خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے بجا لائے اور دونوں کو اپنا فرض سمجھا۔ مثلاً جب نماز کے لئے حکم ہوا تو آنحضرتﷺ نے خدا تعالیٰ کے اِس قول کو اپنے فعل سے کھول کر دکھلادیا اور عملی رنگ میں ظاہر کر دیا کہ فجر کی نماز کی یہ رکعات ہیں اور مغرب کی یہ اور باقی نمازوں کے لئے یہ یہ رکعات ہیں۔ ایسا ہی حج کر کے دکھلایا اور پھر اپنے ہاتھ سے ہزار ہا صحابہ کو اِس فعل کا پابند کر کے سلسلہ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا۔ پس عملی نمونہ جو اب تک اُمّت میں تعامل کے رنگ میں مشہود و محسوس ہے اِسی کا نام سنّت ہے۔ لیکن حدیث کو آنحضرت صلعم نے اپنے رُوبرو نہیں لکھوایا اور نہ اس کے جمع کرنے کیلئے کوئی اہتمام کیا۔ کچھ حدیثیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جمع کی تھیں لیکن پھر تقویٰ کے خیال سے اُنہوں نے وہ سب حدیثیں جلادیں کہ یہ میرا سماع بلاواسطہ نہیں ہے خدا جانے اصل حقیقت کیا ہے۔ پھر جب وہ دَور صحابہ رضی اللہ عنہم کا گذر گیا تو بعض تبع تابعین کی طبیعت کو خدا نے اس طرف پھیر دیا کہ حدیثوں کو بھی جمع کر لینا چاہئے تب حدیثیں جمع ہوئیں۔ اِس میں شک نہیں ہوسکتاکہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متّقی اور پرہیزگار تھے اُنہوں نے جہاں تک اُن کی طاقت میں تھاحدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو اُن کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبہ الحال راوی کی حدیث نہیں لی۔ بہت محنت کی مگر تا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اِس لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر رہی بایں ہمہ یہ سخت ناانصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور نکمّی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ اُن حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی۔ یہودیوں میں بھی حدیثیں ہیں اور حضرت مسیح کے مقابل پر بھی وہی فرقہ یہودیوں کا تھا جو عامل بالحدیث کہلاتا تھا لیکن ثابت نہیں کیا گیا کہ یہودیوں کے محدثین نے ایسی احتیاط سے وہ حدیثیں جمع کی تھیں جیسا کہ اسلام کے محدثین نے۔ تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اُس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بیخبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے نا آشنا تھے کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنّت کے ذریعے سے ان میں پیدا ہوگیا تھا تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلادیئے تھے اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اُن حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مُدّت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اِسلام کی اصلی تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے اُن ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا۔ تا ہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نورٌ علٰی نور ہوگیا اور حدیثیں قرآن اور سنّت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہوگئیں ‘‘
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد19 صفحہ 209 تا 211)
اسی مضمون کو دوسری طرح بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’احادیث کا سلسلہ تعامل کے سلسلہ کی ایک فرع اور اطراد بعد الوقوع کے طورپر ہے مثلاًمحدّثین نے دیکھا کہ کروڑہا آدمی مغرب کے فرض کی تین رکعت پڑھتے ہیں اورفجرکی دو اور مع ذالک ہر ایک رکعت میں سورہ فاتحہ ضرور پڑھتے ہیں اور آمین بھی کہتے ہیں گوبالجہر یا بالسّر اور قعدہ اخیرہ میں التحیات پڑھتے ہیں اور ساتھ اسکے درود اور کئی دعائیں ملاتے ہیں اور دونوں طرف سلام دے کر نماز سے باہر ہوتے ہیں۔ سو اِس طرز عبادت کو دیکھ کرمحدثین کو یہ ذوق اور شوق پیدا ہوا کہ تحقیق کے طور پر اس وضع نماز کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاویں اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے اس کو ثابت کریں ‘‘
(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ301)
حدیث میں کیا ہے؟
احادیث مسلمانوں کے لیے ایک نہایت متبرک کلام ہے جس کا بنیادی مقصد سنت کے لیے تائیدی گواہیاں اکٹھی کرنا تھا لیکن پھر اس کو وسعت دیتے ہوئے بہت سے دیگر معاملات اور تاریخی امور بھی جمع کر دیے گئے۔ چنانچہ اب ہمارے پاس ذخیرہ احادیث میں بےشمار چیزیں موجود ہیں۔
1۔ قرآنی آیات کی تفسیر جو رسول اللہﷺ نے فرمائی اور دیگر آیات اس کی تائید کرتی ہیں اور سنت اور احادیث صحیحہ اس کی مؤید ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ اس حوالے سے فرماتے ہیں :
’’ہمارے دین کا تمام مدار قرآن شریف پر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث قرآن کی مفسر ہے اور جو قول ان دونوں کے مخالف ہو وہ مردود اور شیطانی قول ہے‘‘
(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10صفحہ62)
’’حدیثوں کو ہم اس سے زیادہ درجہ نہیں دے سکتے کہ وہ بعض مقامات میں بطور تفصیل اجمالات قرآنی ہیں ‘‘
(سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ41)
2۔ دین اسلام کی تفصیلات مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی تفاصیل، عبادات، معاملات، نکاح، طلاق وغیرہ کا جامع نقشہ۔
3۔ حدیث اسلامی تاریخ کا مبدء اور منبع ہے۔ رسول کریمﷺ کی حیات طیبہ، آپؐ کا شجرہ آبا٫، ازواج واولاد، آپؐ کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی، آغاز نبوت، مشکلات اور مصائب، ہجرت، غزوات وسرایا، معاہدات، خطوط، سیرت و اخلاق، وفات پر صحابہؓ کا رد عمل اور خلافت راشدہ کا آغاز۔
4۔ رسول کریمﷺ کی ذاتی زندگی، آپؐ کا حلیہ ولباس، رہن سہن، کھانا، سواری، علاج، طب نبوی کے نام سے باقاعدہ کتب موجود ہیں۔
5۔ خلافت راشدہ میں مسلمانوں کے کارنامے، فتوحات، اسلامی نظام حکومت اور فلاحی ریاست کا قیام۔
6۔ فقہ اسلامی کی بنیادیں، بزرگ علماء کے فتاویٰ، ان کے دلائل، باہمی اختلافات اور ان کا حل۔
7۔ رسول اللہﷺ کے صحابہؓ اور صحابیاتؓ کے نام، تعارف، خدمات، قربانیاں اور کارنامے۔
8۔ دشمنان اسلام کے نام، تعارف، مخالفانہ رویے اور ان کے انجام۔
9۔ رسول اللہﷺ کے زمانہ سے لے کر قیامت تک پیشگوئیوں کا ایک طویل سلسلہ جو بہت حد تک پورا ہو چکا ہے اور بہت کچھ پورا ہو رہا ہے۔
10۔ عرب کی تاریخ و ثقافت، ماحول، زمانہ جاہلیت و مابعد کے حالات، غیر قوموں سے تعلقات۔
حدیث کو جانچنے کا معیار
صحیح احادیث کو پہچاننے کے لیے بہت سے اصول بنائے گئے ہیں جن میں سے 2 بنیادی طریق اصول روایت اور درایت کہلاتے ہیں۔ یاد رہے کہ کسی بھی واقعہ کی صحت دوطرح سے آزمائی جاتی ہے۔
اول: طریق روایت ہے کہ جس واسطے سے ہم تک وہ بات پہنچی ہے وہ کس حد تک قابلِ اعتماد ہے۔ یعنی راوی کی سچائی اور ثقاہت کو زیربحث لایا جائےاور اس کے حافظہ اور شہرت کو مد نظر رکھیں۔
دوم: طریق درایت یعنی کیا وہ واقعہ یا بات اپنی ذات میں ایسی ہے کہ اسے درست یقین کیا جائے۔ ان اصول روایت اور درایت کو اصول حدیث کہتے ہیں جن کی آگے بہت سی قسمیں ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ عربی کتاب سر الخلافہ میں فرماتے ہیں :
’’درایت اور روایت دونوں امور توام ہیں جو شخص دونوں کو بیک وقت بنظر غائر نہیں دیکھتا وہ گھاٹے میں پڑ جاتا ہے۔ ہمارے دین کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ عقل کو نقل کے ساتھ اور درایت کو روایت کے ساتھ جمع کر دیتا ہے۔ ‘‘
(ترجمہ ازسر الخلافہ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 428)
حدیث کے حوالے سے تو علم درایت میں اوّل و آخر کسوٹی قرآن و سنت ہے اور اس کے بعد یہ بھی کہ وہ مسلمہ عصری ریکارڈ، تاریخی حقائق اور قانونِ قدرت اور زیادہ ثقہ روایات کے خلاف نہ ہو۔ علم حدیث کے تمام مجموعے اصول روایت کے ماتحت تیار کیے گئے ہیں یعنی تمام مستند اور صحیح کتب حدیث صرف اس حوالے سے مرتب ہوئی ہیں کہ ان کے راویوں پر مصنف کو اعتماد تھا اور اسی پہلو سے انہیں صحیح یا حسن یاضعیف یا موضوع وغیرہ اصطلاحات سے یاد کیا جاتا ہے۔ صحیح کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ لازماً اور یقیناً صحیح ہے اور ضعیف کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ لازماً ضعیف ہے۔ بلکہ ان کے راویوں اور اتصال اسناد کے باعث یہ نام دیے گئے ہیں۔ درایت کی بحث محدثین نے قارئین پر چھوڑ دی ہیں اور وہ اپنے علم کی بنا پر اس کی تعبیر کر سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ محدثین کی اصطلاح صحیح حدیث کی وضاحت میں فرماتے ہیں :
’’ان کا کسی حدیث کی نسبت یہ کہنا کہ یہ صحیح ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ حدیث من کل الوجوہ مرتبہ ثبوت کامل تک پہنچ گئی ہے جس میں امکان غلطی کا نہیں بلکہ ان کا مطلب صحیح کہنے سے صرف اس قدر ہوتا ہے کہ وہ بخیال ان کے ان آفات اور عیوب سے مبراہے جو غیر صحیح حدیثوں میں پائی جاتی ہیں اور ممکن ہے کہ ایک حدیث باوجود صحیح ہونے کے پھر بھی واقعی اور حقیقی طور پر صحیح نہ ہو‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 25تا26)
الٰہی تفہیم سے راہ نمائی
حضرت مسیح موعودؑ نے کئی مقامات پر حدیث کے مقام اور مرتبہ پر روشنی ڈالی ہے۔ مباحثہ لدھیانہ جو مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے ساتھ1891ءمیں ہوا اس میں مولوی صاحب کے بعض سوالات اور اعتراضات کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ کا علمِ لدنی خوب کُھل کر سامنے آیا اور آپؑ نےحکم اور عدل ہونے کے لحاظ سے عام علما ٫ کے برعکس اس مضمون کو ایک نئی روشنی عطا کی۔ سب سے اہم بات آپؑ نے یہ بیان فرمائی کہ آپؑ محدثین کے متبع اور ان کی اصطلاحات کے پابند نہیں بلکہ الٰہی تفہیم سے گفتگو کرتے ہیں۔ فرمایا:
’’میں تومحدثین کا متبع اورشاگرد ہوکرگفتگو نہیں کرتا تامیرے لئےان کےنقش قدم پر چلنا یا ان کی اصطلاحوں کا پابند ہونا ضروری ہو بلکہ الٰہی تفہیم سے گفتگو کرتا ہوں ‘‘
(الحق لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 89)
پھر فرمایا کہ تمام ازلی و ابدی سچائیوں کے ماپنے کا پہلا اور آخری پیمانہ قرآنِ کریم ہے کیوں کہ وہ الحق کی زبان سے اور الروح الامین کے واسطہ سے مطاع کل جہان کے قلبِ مطہر پر اترا ہے وہ ہر اختلاف کا حکم اور ہر برکت کا منبع ہے خواہ وہ سچائیاں دینی ہوں یا دنیاوی،انفسیہوں یا آفاقی۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :
’’ حدیثوں کے پرکھنے کے لئے قرآن کریم سے بڑھ کر اور کوئی معیار ہمارے پاس نہیں ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ36)
پھر فرمایا جہاں تک کل احادیث کا تعلق ہے ان کے دو حصے ہیں ایک حصہ تو سنت رسول یا تعامل کی پناہ میں آگیا ہے یعنی وہ حدیثیں سنت رسول کی تائیدی گواہ ہیں وہ تو بلا بحث قبول ہیں۔ حضورؑ فرماتے ہیں :
’’احادیث کے دو حصہ ہیں ایک وہ حصہ جو سلسلہ تعامل کی پناہ میں کامل طور پر آگیا ہے۔ یعنی وہ حدیثیں جن کو تعامل کے محکم اور قوی اور لاریب سلسلہ نے قوت دی ہے اور مرتبہ یقین تک پہنچا دیا ہے۔ جس میں تمام ضروریات دین اور عبادات اور عقود اور معاملات اور احکام شرع متین داخل ہیں۔ سو ایسی حدیثیں تو بلاشبہ یقین اور کامل ثبوت کی حد تک پہنچ گئے ہیں اور جو کچھ ان حدیثوں کو قوت حاصل ہے وہ قوت فن حدیث کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوئی اور نہ وہ احادیث منقولہ کی ذاتی قوت ہے اور نہ وہ راویوں کے و ثاقت اور اعتبار کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے بلکہ وہ قوت ببرکت و طفیل سلسلہ تعامل پیدا ہوئی ہے۔ سو میں ایسی حدیثوں کو جہاں تک ان کو سلسلۂ تعامل سے قوت ملی ہے ایک مرتبہ یقین تک تسلیم کرتا ہوں ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 35)
اس اقتباس میں ضروریات دین کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کا مطلب بیان کرتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں :
’’فی الواقعہ احادیث کے دو ہی حصے ہیں ایک وہ جو احکام اور ایسے امور سے متعلق ہیں جو اصل تعلیم اسلام اور تعامل سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک وہ جو حکایات اور واقعات اور قصص اور اخبار ہیں جن کا سلسلہ تعامل سے کچھ ایسا ضروری تعلق قرار نہیں دیا گیا سو میں نے ضروریات دین کے لفظ سے انہی امور کو مراد لیا ہے جن کا سلسلہ تعامل سے ضروری تعلق ہے‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 86)
پھر فرمایا:
’’سلسلۂ تعامل کی حدیثیں یعنی سنن متواتر ثہ متعاملہ جو عاملین اور آ مرین کے زیر نظر چلی آئی ہیں اور علیٰ قدر مراتب تاکید مسلمانوں کی عملیات دین میں قرناً بعد قرنٍ و عصراً بعد عصرٍ داخل رہی ہیں وہ ہرگز میری آویزش کا مورد نہیں اور نہ قرآن کریم کو ان کا معیار ٹھہرانے کی ضرورت ہے اور اگر ان کے ذریعہ سے کچھ زیادت تعلیم قرآن پر ہو تو اس سے مجھے انکار نہیں۔ ہر چند میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ80تا81)
اہل سنت اور شیعہ کتب کا اتفاق اس تواتر کو مزید قوت عطا کرتا ہے
(ماخوذ ازشہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ298)
’’حدیث کو قرآن کریم سے مطابق ہونا چاہئے۔ ہاں اگر سلسلہ تعامل کے رو سے کسی حدیث کا مضمون قرآن کے کسی خاص حکم سے بظاہر منافی معلوم ہو تو اس کو بھی تسلیم کرسکتا ہوں کیونکہ سلسلہ تعامل حجت قوی ہے۔ ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4صفحہ42)
’’دوسرا حصہ حدیثوں کا جن کو سلسلۂ تعامل سے کچھ تعلق اور رشتہ نہیں ہے اور صرف راویوں کے سہارے سے اور ان کی راست گوئی کے اعتبار پر قبول کی گئی ہیں ان کو میں مرتبہ ظن سے بڑھ کر خیال نہیں کرتا اور غایت کار مفید ظن ہوسکتی ہیں کیونکہ جس طریق سے وہ حاصل کی گئی ہیں۔ وہ یقینی اور قطعی الثبوت طریق نہیں ہے‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 35)
اس دوسرے حصہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’اخبارو قصص کو جو امر متنازعہ فیہ ہے، سلسلۂ تعامل سے کوئی معتدبہ تعلق نہیں جو کچھ ہمیں مسلمان بننے کیلئے ضرورتیں ہیں وہ احکام فرمودہ اللہ اور رسول سے حاصل ہیں اور وہی احکام تعامل کی صورت میں عصراً بعد عصرٍصادر ہوتے رہتے ہیں مسلم اور بخاری میں کئی جگہ بنی اسرائیل کے قصے اور انبیاء اور اولیاء اور کفار کی بھی حکایتیں ہیں جن پر بجز خاص خاص لوگوں کے جو فن حدیث کا شغل رکھتے ہیں دوسروں کو اطلاع تک نہیں اور نہ حقیقت اسلامیہ کی تحقیق کیلئے ان کی اطلاع کچھ ضروری ہے سو وہی اور اسی قسم کے اور امور ہیں جن کا نام میں احادیث مجردہ رکھتا ہوں۔ سنن متوارثہ کے نام سے انہیں موسوم نہیں کرتا اور وہی ہیں جو سلسلۂ تعامل سے خارج ہیں اورمسلمانوں کو تعامل کی حدیثوں کی طرح ان کی کوئی بھی ضرورت نہیں اگر اسی مجلس میں بعض قصص بخاری یا مسلم کے حاضر الوقت مسلمانوں سے دریافت کی جائیں تو ایسے آدمی بہت ہی تھوڑے نکلیں گے جن کو وہ تمام حالات معلوم ہوں بلکہ بجز کسی ایسے شخص کے جو اپنی معلومات کے بڑھانے کی غرض سے دن رات احادیث کا شغل رکھتا ہے اور کوئی نہیں ہے جو بیان کرسکے لیکن ہریک مسلمان ان تمام احکام اور فرائض کو جو ہم پہلے حصہ میں داخل کرتے ہیں عملی طور پر یاد رکھتا ہے کیونکہ وہ مسلمان بننے کی حالت میں دائمی طور پر اس کو کرنی پڑتی ہیں یا کبھی کبھی کرنے کیلئے وہ مجبور کیا جاتا ہے‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 86تا87)
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭