متفرق مضامین

حدیث رسولﷺ۔ وہ روایات جو ایک عرصہ بعد راویوں کے ذریعہ جمع کی گئیں (قسط دوم۔ آخری)

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

شریعت اسلامیہ کا تیسرا بڑا ماخذ۔ قرآن وسنت کے لیے تائیدی گواہ

احادیث کا مقام، غلط فہمیوں کا ازالہ اور حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آسمانی راہ نمائی

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’کتاب و سنت کے حجج شرعیہ ہونے میں میرا یہ مذہب ہے کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے۔ جس امر میں احادیث نبویہ کے معانی جو کئے جاتے ہیں کتاب اللہ کے مخالف واقع نہ ہوں تووہ معانی بطور حجت شرعیہ کے قبول کئے جائیں گے لیکن جو معانی نصوص بینہ قرآنیہ سے مخالف واقع ہوں گے ان معنوں کو ہم ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ بلکہ جہاں تک ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم اس حدیث کے ایسے معانی کریں گے جوکتاب اللہ کی نص بیّن سے موافق و مطابق ہوں اور اگر ہم کوئی ایسی حدیث پائیں گے جو مخالف نص قرآن کریم ہوگی اور کسی صورت سے ہم اس کی تاویل کرنے پر قادر نہیں ہوسکیں گے تو ایسی حدیث کو ہم موضوع قرار دیں گے‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد4صفحہ 11)

اگر کوئی حدیث قرآن کی نص صریح اورسنت مستمرہ الٰہیہ یا سنت مطہرہ معمولہ کے خلاف ہو تو اس کو ہرگز قبول نہ کرو کیونکہ وہ خدا کے رسول کا کلام نہیں ہوسکتافرمایا:

’’جو چیز قرآن سے باہر یااس کے مخالف ہے وہ مردود ہے اور احادیث صحیحہ قرآن سے باہر نہیں۔ کیونکہ وحی غیر متلو کی مدد سے وہ تمام مسائل قرآن سے مستخرج اور مستنبط کئے گئے ہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ وہ استخراج اور استنباط بجز رسول اللہ یا اسی شخص کے جو ظلّی طور پر ان کمالات تک پہنچ گیا ہو ہریک کا کام نہیں ‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4صفحہ93)

اس ضمن میں حضرت مسیح موعود ؑکو رؤیا کے ذریعہ علما٫سوکی کارستانیوں سے مطلع کیا گیاکہ وہ کس طرح حدیث کے ذریعہ قرآن پر پردے ڈالتے ہیں فرمایا:

’’مجھے رؤیامیں دکھایا گیا کہ ایک درخت باردار اور نہایت لطیف اور خوبصورت پھلوں سے لدا ہوا ہے اور کچھ جماعت تکلف اور زور سے ایک بوٹی کو اُس پر چڑھانا چاہتی ہے جس کی جڑ نہیں بلکہ چڑہا رکھی ہے وہ بوٹی افتیمون کی مانند ہے اور جیسے جیسے وہ بوٹی اُس درخت پر چڑھتی ہے اُس کے پھلوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس لطیف درخت میں ایک کھجواہٹ اور بدشکلی پیدا ہورہی ہے اور جن پھلوں کی اس درخت سے توقع کی جاتی ہے اُن کے ضائع ہونے کا سخت اندیشہ ہے بلکہ کچھ ضائع ہو چکے ہیں۔ تب میرا دِل اس بات کو دیکھ کر گھبرایا اور پگھل گیا اور مَیں نے ایک شخص کو جو ایک نیک اور پاک انسان کی صورت پر کھڑا تھا پوچھا کہ یہ درخت کیا ہے اور یہ بوٹی کیسی ہے جس نے ایسے لطیف درخت کو شکنجہ میں دبا رکھا ہے تب اُس نے جواب میں مجھے یہ کہا کہ یہ درخت قرآن خدا کا کلام ہے اور یہ بوٹی وہ احادیث اور اقوال وغیرہ ہیں جو قرآن کے مخالف ہیں یا مخالف ٹھہرائی جاتی ہیں اور ان کی کثرت نے اِس درخت کو دبا لیا ہے اور اس کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ‘‘

(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد19صفحہ212)

اسی طرح آپؑ کو الہام ہوا:

’’علما٫…چوہوں کی طرح میرے نبی کی حدیثوں کو کتر رہے ہیں ‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ 140)

’’ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں ‘‘

(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد19صفحہ212)

وہ احادیث جو پیشگوئیوں پر مشتمل ہوں اور وہ پوری ہوچکی ہیں یا ان کا ایک حصہ پور ا ہوگیا ہے تو ان کو سچا سمجھو خواہ وہ اصول روایت کے لحاظ سے کتنی ہی ضعیف ہوں۔ مثلاً سنن دار قطنی میں حدیث کسوف و خسوف کا حوالہ دیتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں:

’’کسی حدیث کی سچائی پر اس سے زیادہ کوئی یقینی اور قطعی گواہی نہیں ہو سکتی کہ وہ حدیث اگر کسی پیشگوئی پر مشتمل ہے تو وہ پیشگوئی صفائی سے پوری ہو جائے کیونکہ اور سب طریق اثبات صحت حدیث کے ظنی ہیں مگر یہ حدیث کا ایک چمکتا ہوا زیور ہے کہ اس کی سچائی کی روشنی پیشگوئی کے پورے ہونے سے ظاہر ہو جائے کیونکہ کسی حدیث کی پیشگوئی کا پورا ہو جانا اس حدیث کو مرتبۂ ظن سے یقین کے اعلیٰ درجہ تک پہنچا دیتا ہے اور ایسی حدیث کے ہم رتبہ اور یقینی مرتبہ میں ہم پلّہ کوئی حدیث نہیں ہو سکتی گو بخاری کی ہو یا مسلم کی۔ اور ایسی حدیث کے سلسلۂ اسناد میں گو بفرض محال ہزار کذّاب اور مفتری ہو اس کی قوت صحت اور مرتبہ یقین کو کچھ بھی ضرر نہیں پہنچا سکتا کیونکہ وسائل محسوسہ مشہودہ بدیہہ سے اُس کی صحت کھل جاتی ہے اور ایسی کتاب کا یہ امر فخر ہو جاتا ہے اور اس کی صحت پر ایک دلیل قائم ہو جاتی ہے جس میں ایسی حدیث ہو پس دارقطنی کا فخر ہے جس کی حدیث ایسی صفائی سے پوری ہو گئی۔ ‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ140)

یہ سوال اٹھا یا گیا کہ نزول مسیح کی پیشگوئیوں میں بہت تضادات ہیں کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ یہ سب غلط ہیں تو آپؑ نے فرمایا:

’’یہ حدیثیں ایسے تواتر کی حد تک پہنچ گئی ہیں کہ عند العقل ان کا کذب محال ہے اور ایسے متواترات بدیہیات کے رنگ میں ہو جاتے ہیں۔ ماسوا اس کے ان حدیثوں میں جو بڑی بڑی پیشگوئیاں تھیں جو امورِ غیبیہ پر مشتمل تھیں وہ ہمارے زمانہ میں پوری ہو گئی ہیں۔ پس اگر یہ حدیثیں جھوٹی اور انسان کا افترا ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اُن کی وہ غیب کی باتیں پوری ہو سکتیں جو انسانی طاقت سے باہر ہیں ….جو لوگ اِن حدیثوں سے جو مسیح موعود کے ظہور کی خبر دے رہی ہیں انکار کرتے ہیں ان کا فرض ہے کہ پہلے وہ اُس تواتر اور ہر ایک پہلو کے ثبوت سے واقفیت حاصل کریں جو ان حدیثوں کو حاصل ہے اور اس بات کو سوچیں کہ یہ خبر صرف حدیثوںکی کتابوں میں نہیں بلکہ اول یہودیوں کی کتب مقدسہ میں پھر انجیل میں پھر قرآن میں اس کی خبر دی گئی ہے اور پھر سب کے بعد حدیثوں میں اس کی تفصیل آئی ہے۔ اور تین قومیں اس خبر کو قطعی اور یقینی مانتی آئی ہیں۔ ‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 279-282)

وہ پیشگوئیاں جو ابھی پوری نہیں ہوئیں ان کو حوالہ بخدا کرو ہوسکتا ہے کسی آئندہ زمانہ میں پوری ہو جائیں ورنہ خود بخودغلط ثابت ہوجائیں گی۔ مثلاً فرمایا کوئی مثیل مسیح ظاہری طور پر دمشق میں ظاہر ہو یا رسول اللہﷺ کے روضہ مبارک کے پاس مدفون ہو۔

(ماخوذ ازازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 251-352)

سچی حدیث ایک بہت اعلیٰ درجے کے نبی الانبیاء کا کلام ہے جس کے معارف سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں اس لیے ہوسکتا ہے کہ کسی زمانے میں اس کے کچھ معنی سمجھے گئے ہوں جو درست نہ ہوں مگر بعد میں خدا نے ان کے سچے معنی کھول دیے۔ مثلاً صحیح مسلم کی حدیث

وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ حدیث نمبر 221)

یعنی اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان پر سواری نہیں کی جائے گی۔ اس کو آخرت پر چسپاں کیا گیا مگر درحقیقت اس کے معنے مسیح موعود کے زمانہ میں نئی سائنسی سواریوں کی ایجاد تھی۔ اسی طرح دجال کو ما فوق الفطرت وجود سمجھا گیا مگر اب اس کے معنے کھل گئے ہیں۔ حضورؑ فرماتے ہیں:

’’یہ ہم قبول کرتے ہیں کہ اِن حدیثوں کے درمیانی زمانہ کے بعض علماء نے غلط معنے کئے ہیں اور اُن کی غلط فہمیوں کا عوام پر بہت ہی بُرا اثر ہوا۔ اور جو لوگ معقول پسند تھے مثلاً معتزلہ وہ ایسے غیر معقول معنے سُن کر سرے سے حدیثوں کی صحت سے ہی انکاری ہو گئے۔ لیکن اس انکار سے جو کسی تاریخی جرح پر مبنی نہ تھا بلکہ محض اس خیال پر مبنی تھا کہ مضمون غیر معقول ہے حدیثوں کی صحت میں فرق نہیں آسکتا۔ بلکہ باوجود انکار کے پھر بھی اس قسم کی حدیثیں اس درجۂ تواتر پر تھیں کہ وہ لوگ بھی تواتر کو ردّ نہ کر سکے اور سرا سیمہ رہ گئے۔ اگر اسی زمانہ میں ان حدیثوں کے وہ معنے کئے جاتے جو اَب کئے جاتے ہیں تو اسلام کا ایک بھی فرقہ اُن سے منکر نہ ہوتا۔ لیکن افسوس کہ ہر ایک استعارہ کو حقیقت پر حمل کرکے اور ہر ایک مجاز کو واقفیت کاپیرا یہ پہنا کر ان حدیثوں کو ایسے دشوار گزار راہ کی طرح بنایا گیا جس پر کسی محقق معقول پسند کا قدم ٹھہر نہ سکے۔ سو حدیثوں پر کوئی الزام نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کا قصور فہم ہے جنہوں نے ایسے معنے کئے اور عوام کو افسوس ناک غلطیوں میں مبتلا کیا اور بعض حال کے زمانہ کے معقول پسند بھی جو ان حدیثوں کی صحت سے انکار کرتے ہیں ان کے ہاتھ میں بجز اس کے کوئی وجہ انکار نہیں کہ وہ ان معنوں کو جو اِس زمانہ کے علماء کرتے ہیں معقولیت اور سنّت اﷲ اور قانون قدرت سے خارج پاتے ہیں۔ لیکن ایسے منکر اُسی وقت تک معذور تھے جب تک کہ صحیح معنے جو سراسر سنّت اﷲ میں داخل ہیں اُن پر ظاہر نہیں کئے گئے تھے۔ ‘‘

( ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 281-282)

یہ نہ سمجھیں کہ صحیح حدیث کےمعارف اب تمام ہوچکے ہیں اور مزید گنجائش نہیں بلکہ قیامت تک ان کے معارف ظاہر ہوتے رہیں گےکیونکہ رسول اللہﷺ کا زمانہ قیامت تک ہے۔ بہت سے اہل کشف رسول اللہﷺ کی مجلس میں حاضر ہوکر حدیث رسولﷺ کی صحت یا سقم معلوم کرلیتے ہیں۔ پس اگر وہ قرآن کے مطابق ہوں اور آسمانی نشان ان کی تائید کریں تو انہیں قبول کرنا چاہیے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حمزہ الزیات نے راوی ابان بن عیاش سے متعدد حدیثیں سنیں۔ حمزہ کو خواب میں رسول اللہﷺ کی زیارت ہوئی تو انہوں نے وہ ساری احادیث توثیق کے لیے رسول اللہﷺ کو سنائیں تو آپ نے صرف پانچ یا چھ کی تصدیق فرمائی۔

(صحیح مسلم المقدمہ باب الکشف عن معائب رواۃ الحدیث جلد 1 صفحہ 25)

سنن ابو داؤد میں ہے کہ ایک شخص نے صحابی حضرت ابوعیاشؓ سے سنی ہوئی ایک حدیث خواب میں رسول اللہ کو سنائی اور تصدیق چاہی۔ تو آپﷺ نے فرمایا :صدق۔ اس نے سچ کہا ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب النوم باب ما یقول اذا اصبح حدیث نمبر 5077)۔ الہام اور کشف کے ذریعہ تصحیح احادیث کو جائز رکھنے والے بزرگان میں شیخ محمد اکبر محی الدین بن علی المعروف ابن عربی الطائی المالکی (638ھ) اور ان کے بعد اکثر صوفی مزاج علماء (مثلاً خلعی اور سیوطیؒ وغیرہ) شامل ہیں۔ چنانچہ شیخ محی الدین ابن عربی جو 17؍رمضان المبارک 560ھ سپین میں پیدا ہوئے فتوحات مکیہ میں متعدد مقامات پر لکھتے ہیں۔ عرفت صحۃ الحدیث بصحۃ کشفہ و صحۃ الکشف بصحۃ الحدیث یعنی میں نے کشف کے ذریعہ حدیث کی صحت کا عرفان حاصل کیا اسی طرح کشف کی صحت کا عرفان حدیث کی صحت سے کیا۔ (ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت از غازی عزیز صفحہ 42 فاروقی کتب خانہ الفضل مارکیٹ اردو بازار لاہور)نیز لکھتے ہیں کہ میں نے کئی بار بیداری اور خواب میں حضرت رسول اللہﷺ کی زیارت کی اور آپ سے فتویٰ دریافت کیا۔ (فتوحات مکیہ جلد چہارم صفحہ 522) (زیارت نبیﷺ بحالت بیداری حصہ دوم محمد عبد المجید صدیقی ایڈووکیٹ صفحہ 98)قرآن کے ایک لفظ کے معنی دریافت کرنے کا ذکر بھی ہے۔ (فتوحات مکیہ جلد 8صفحہ 387۔ دارا لکتب العلمیہ بیروت طبع اول 1999ء)

حضرت حافظ نور محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ

’’حضرت مسیح موعودؑ نے بہت مرتبہ زبان مبارک سے فرمایا کہ میں نے بار ہا بیداری میں ہی آنحضرتﷺ سے ملاقات کی ہے اور کئی حدیثوں کی تصدیق آپ سے براہِ راست حاصل کی ہے۔ خواہ وہ لوگوں کے نزدیک کمزور ہو کم درجہ کی ہوں۔ ‘‘

(سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم روایت نمبر 572 صفحہ 550، تذکرہ صفحہ 678)

حضورؑ فرماتے ہیں:

’’بہت دفعہ ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ پیغمبر خداﷺ ایک بات بتلاتے ہیں۔ مَیں اُس کو سنتا ہوں مگر آپ کی صورت نہیں دیکھتا ہوں۔ غرض یہ ایک حالت ہوتی ہے جو بین الکشف و الالہام ہوتی ہے۔ رات کو آپؐ نے مسیح موعود کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ

یَضَعُ الْحَرْبَ وَ یُصَالِحُ بَیْنَ النَّاسِ

یعنی ایک طرف تو وہ جنگ و جدال اور حرب کو اٹھا دے گا اور دوسری طرف اندرونی طور پر مصالحت کرا دے گا۔ …پھر اس کے بعد فرمایا:

سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ۔ سَلْمَان

یعنی دو صلحیں۔

اور پھر فرمایا:

عَلٰی مَشْرَبِ الْحَسَنِ

یعنی حضرت حسنؓ میں بھی دو صلحیں تھیں۔ ایک صلح تو انہوں نے حضرت معاویہ کے ساتھ کر لی، اور دوسری صحابہؓ کی با ہم صلح کر وا دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسیح موعود حسنی المشرب ہے…۔

(الحکم 10؍نومبر 1900ء صفحہ 3، تذکرہ صفحہ 313)

حدیث کا حوالہ ہے

یَضَعُ الْحَرْبُ (صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسیٰ حدیث نمبر 3448 ) سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ(مستدرک حاکم جلد3 صفحہ 61حدیث نمبر 6539)

حضرت مسیح موعودؑ نے جب بعض اہم مسائل کی وجہ سے نمازیں جمع کیں تو بعض لوگوں کے وساوس دور کرتے ہوئے حدیث نبوی

تُجْمَعُ لَہٗ الصَّلَاۃُ

(مسند احمد جلد 13 صفحہ 281 حدیث نمبر 7903۔ امالی ابن بشران جلد1 صفحہ 19 حدیث نمبر503 )کے حوالے سے فرمایا:

’’ہمارا مسلک ہمیشہ حدیث کے متعلق یہ رہا ہے کہ جو قرآن اور سنت کے مخالف نہ ہو وہ اگر ضعیف بھی ہو تو تب بھی اس پر عمل کرلینا چاہیے۔ اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تو اصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم، القا، اور الہام کے بدوں نہیں کرتا بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں جہاں تک خدا تعالیٰ نے مجھ پر اس جمع صلوٰتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے رسول اللہﷺ نے ہمارے لئے

تُجْمَعُ لَہٗ الصَّلَاۃُ

کی بھی عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جو اب پوری ہورہی ہے میرا یہ بھی مذہب ہے کہ اگر کوئی امر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا جاتاہے مثلا ًکسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے متعلق تو گو علماء ظواہر اور محدثین اس کو موضوع یا مجروح ہی ٹھہراویں گے مگر میں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کو موضوع کہوں گااگرچہ خدا تعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پر ظاہر کردی ہے جیسے

لَا مَھْدِی اِلَّا عِیْسیٰ

والی حدیث ہے محدثین اس پر کلام کرتے ہیں مگر مجھ پر خدا تعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور میرا یہ مذہب میرا ہی ایجاد کردہ نہیں بلکہ خود یہ مسلم مسئلہ ہے کہ اہل کشف یا اہل الہام لوگ محدثین کی تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے۔ خود مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ میں اس مضمون پر بڑی بحث کی ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ مامور اور اہل کشف محدثین کی تنقید کے پابند نہیں ہوتے ہیں۔ تو جب یہ حالت ہے پھر میں صاف صاف کہتا ہوں کہ میں جو کچھ کرتا ہوں خدا تعالیٰ کے القاء اور اشارہ سے کرتا ہوں۔ یہ پیشگوئی جو اس حدیث

تُجْمَعُ لَہٗ الصَّلٰوۃُ

میں کی گئی ہے یہ مسیح موعودؑ اور مہدی کی ایک علامت ہے۔ یعنی وہ ایسی دینی خدمات اور کاموں میں مصروف ہوگا کہ اس کے لئے نماز جمع کی جائے گی۔ اب یہ علامت جبکہ پوری ہوگئی ہے اور ایسے واقعات پیش آگئے پھراس کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیےنہ کہ استہزاء اور انکار کے رنگ میں۔ ‘‘

(الحکم 24؍نومبر 1902ء)

ہماری مسلّمہ کتب حدیث

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’ہماری کتب مسلّمہ مقبولہ جن پر ہم عقیدہ رکھتے ہیں اور جن کو ہم معتبر سمجھتے ہیں بہ تفصیل ذیل ہیں:

اوّل قرآن شریف۔ مگر یاد رہے کہ کسی قرآنی آیت کے معنے ہمارے نزدیک وہی معتبر اور صحیح ہیں جس پر قرآن کے دوسرے مقامات بھی شہادت دیتے ہوں کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں اور نیز قرآن کے کامل اور یقینی معنوں کے لئے اگر وہ یقینی مرتبہ قرآن کے دوسرے مقامات سے میسر نہ آ سکے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل بھی اس کی مفسر ہو غرض ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے ہرگز جائز نہیں پس ہریک معترض پر لازم ہوگا کہ کسی اعتراض کے وقت اس طریق سے باہر نہ جائے۔ دوم۔ دوسری کتابیں جو ہماری مسلم کتابیں ہیں ان میں سے اول درجہ پر صحیح بخاری ہے اور اس کی وہ تمام احادیث ہمارے نزدیک حجت ہیں جو قرآن شریف سے مخالف نہیں اور ان میں سے دوسری کتاب صحیح مسلم ہے اور اس کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیح بخاری سے مخالف نہ ہو اورتیسرے درجہ پر صحیح ترمذی۔ ابن ماجہ۔ مؤطا۔ نسائی۔ ابو داؤد۔ دارقطنی کتب حدیث ہیں جن کی حدیثوں کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیحین سے مخالف نہ ہوں یہ کتابیں ہمارے دین کی کتابیں ہیں ‘‘

(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 86تا87)

’’مسلمانوں کے لئے صحیح بخاری نہایت متبرک اور مفید کتاب ہے یہ وہی کتاب ہے جس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے۔ ایسا ہی مسلم اور دوسری احادیث کی کتابیں بہت سے معارف اور مسائل کا ذخیرہ اپنے اندر رکھتی ہیں اور اس احتیاط سےان پر عمل واجب ہے کہ کوئی مضمون ایسا نہ ہو جو قرآن اور سنّت اور اُن احادیث سے مخالف ہو جو قرآن کے مطابق ہیں۔ ‘‘

( کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 65تا66)

مباحثہ لدھیانہ کے دوران آپؑ سے پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے بخاری اور مسلم کی کسی حدیث کو موضوع قرار دیا ہے تو آپؑ نے فرمایا:

’’ میں نے اپنی کتاب میں کسی حدیث بخاری یا مسلم کو ابھی تک موضوع قرار نہیں دیا۔ بلکہ اگر کسی حدیث کو میں نے قرآن کریم سے مخالف پایا ہے تو خداتعالیٰ نے تاویل کا باب میرے پر کھول دیا ہے‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 21تا22)

اپنے علم حدیث کے متعلق آسمانی راہ نمائی کا ذکر کر کے فرماتے ہیں:

’’اب تک تو مجھے ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ بخاری یا مسلم کی کوئی حدیث صریح مخالف قرآن مجھ کو ملی ہو جس کی میں کسی وجہ سے تطبیق نہ کرسکا بلکہ جو کچھ بعض احادیث میں کچھ تعارض پایا جاتا ہے خدا تعالیٰ اس تعارض کے دور کرنے کیلئے بھی میری مدد کرتا ہے۔ ‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 26)

احادیث کی شرح میں احتیاط

حدیث کسی معمولی انسان کا کلام نہیں بلکہ روحانیت کے شہنشاہ کا کلا م ہے جو افصح العرب بھی ہے اور جوامع الکلم کا حا مل بھی۔ اس لیے اس کو سمجھنے کے لیے خاص بصیرت کی ضرورت ہے اور ان پاک بندوں کی بھی جو حامل علم الٰہی ہوں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’قرآن اور احادیث صحیحہ کی پیروی کرنا ضروری ہے اگر کوئی امر اس کے مخالف ہوگا تو ہم اس کے وہ معنے ہرگز قبول نہیں کریں گے جو مخالف ہوں احادیث پر نظر ڈالنے کے وقت یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ ایسی حدیثوں پر بھروسہ نہ کریں جو ان احادیث سے مناقض اور مخالف ہوں۔ جن کی صحت اعلیٰ درجہ پر پہنچ چکی ہو اور نہ ایسی حدیثوں پر جو قرآن کی نصوص صریحہ بینہ محکمہ سے صریح مخالف اور مغائر اور مبائن واقع ہوں پھر ایک ایسا مسئلہ جو قرآن اور احادیث صحیحہ نے اس پر اتفاق کر لیا ہے اور کتب دین میں صراحت سے اس کا ذکر ہے اس کے مخالف کسی بے ہودہ قول یا کسی مغشوش اور غیر ثابت حدیث یا مشتبہ اثر سے تمسک کر کے اعتراض کرنا یہ خیانت اور شرارت کا کام ہے…کتب احادیث میں رطب و یا بس سب کچھ ہوتا ہے اور عامل بالحدیث کو تنقید کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ ایک نہایت نازک کام ہے کہ ہریک قسم کی احادیث میں سے احادیث صحیحہ تلاش کریں اور پھر اس کے صحیح معنی معلوم کریں اور پھر اس کے لئے صحیح محمل تلاش کریں۔ ‘‘

( نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 408)

پھر فرمایا:

’’ا س زمانہ کے بعض نادان کئی دفعہ شکست کھا کر پھر مجھ سے حدیثوں کی رو سے بحث کرنا چاہتے ہیں یا بحث کرانے کے خواہشمند ہوتے ہیں مگر افسوس کہ نہیں جانتے کہ جس حالت میں وہ اپنی چند ایسی حدیثوں کو چھوڑنا نہیں چاہتے جو محض ظنّیات کا ذخیرہ اور مجروح اور مخدوش ہیں اور نیز مخالف اُن کے اور حدیثیں بھی ہیں اور قرآن بھی ان حدیثوں کو جھوٹی ٹھہراتا ہے تو پھر میں ایسے روشن ثبوت کو کیونکر چھوڑ سکتا ہوں جس کی ایک طرف قرآن شریف تائید کرتا ہے اور ایک طرف اس کی سچائی کی احادیث صحیحہ گواہ ہیں اور ایک طرف خدا کا وہ کلام گواہ ہے جو مجھ پر نازل ہوتا ہے اور ایک طرف پہلی کتابیں گواہ ہیں اور ایک طرف عقل گواہ ہے۔ اور ایک طرف وہ صدہانشان گواہ ہیں جو میرے ہاتھ سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ پس حدیثوں کی بحث طریق تصفیہ نہیں ہے۔ خدا نے مجھے اطلاع دے دی ہے کہ یہ تمام حدیثیں جو پیش کرتے ہیں تحریف معنوی یا لفظی میں آلودہ ہیں اور یا سرے سے موضوع ہیں۔ اور جو شخص حَکم ہو کر آیا ہے اس کا اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پاکر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر ردّ کرے۔ ‘‘

( تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ51)

صحت حدیث کے خارجی دلائل

علماء اور بزرگان اور محدثین نے جس محنت اور جان فشانی سے احادیث کو اکٹھا کیا ہےبعد کے واقعات، ان کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں اور وہ متعدد پہلوؤں سے اپنی صداقت کی خود دلیل ہیں۔

1۔ وہ پیشگوئیاں جو احادیث میں درج تھیں اور سالوں بعد بلکہ بعض سینکڑوں سالوں بعد پوری ہو گئیں وہ اس بات کی گواہ ہیں کہ ان حدیثوں کے راوی بھی سچے تھے اور ان کو ہم تک پہنچانے والے بھی سچے تھے۔ مثلاً رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد خلافت راشدہ کا قیام، خلافت راشدہ کے بعد غیر صالح حکومتوں کا قیام، آخری زمانہ میں خلافت علیٰ منہاج نبوت کا قیام امت محمدیہ میں سلسلہ مجددین کا اجرا جس کے آخر پر مسیح موعود نبی اللہ کی آمد ہوئی، (مسند احمد جلد 30 صفحہ 355 حدیث نمبر 18406 ومسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال حدیث نمبر 2937۔ سنن ابو داؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن الماۃ۔ حدیث نمبر 4295) شام، ایران اور یمن کی فتح (مسند احمد جلد 38 صفحہ 133 حدیث نمبر 17946)، قسطنطنیہ کی فتح، (مسند احمد جلد 6 صفحہ 203حدیث نمبر 6645) اور، ایم ٹی اے کا اجرا جس کے ذریعے امام مہدیؑ کا پیغام اس کے جانشین کے ذریعہ دنیا کے کناروں تک پہنچ رہا ہے۔ (بحارالانوار جلد52 صفحہ 336 از شیخ محمد باقر مجلسی۔ داراحیاء التراث العربی بیروت)

2۔ رسول اللہﷺ نے اپنے زمانے کے حکمرانوں کو جو خطوط لکھے ان میں سے بعض دستیاب ہو گئے ہیں۔ مثلاًشاہ مصر مقوقس کے نام اور شاہ ایران کسریٰ کے نام خط مل چکے ہیں اور ان کی عبارتیں بہت معمولی تغیر کے ساتھ وہی ہیں جو احادیث میں درج ہیں۔

(تفصیل سیرت خاتم النبیین ازصفحہ 822)

3۔ طب اور سائنس سے تعلق رکھنے والے امور جن کی جدید سائنس تصدیق کر رہی ہے مثلاً رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب کسی علاقے میں وبا ہو تو اس علاقے میں نہ جاؤ اور اگر وہاں موجود ہو تو وہاں سے باہر نہ جاؤ تا کہ بیماری نہ پھیلے۔ (صحیح بخاری کتاب الطب باب فی الطاعون حدیث نمبر5728) سائنس آج کی عالمی بیماریوں کی روک تھام کا پہلا اصول یہی بتاتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے بیکٹیریاز اور دوسرے آنکھ سے نظر نہ آنے والے جراثیم کو جن کے نام سے یاد کیا اور ان سے آلودہ چیزوں کے استعمال سے منع کیا۔ ( مسند ابي داؤد الطيالسی جلد 1 صفحہ 225 حدیث نمبر 279) جدید سائنس اس کی بھی تائید کرتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے صفائی وغیرہ کے متعلق جو احکامات دیے آج کی ساری مہذب دنیا اس کی پیروی کر کے عملاً رسول اللہﷺ کی صداقت کی گواہی دے رہی ہے۔

4۔ حدیثوں کے بہت سے الفاظ مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوئے جنہوں نے ان کی صحت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ مثلاً جنگ بدر کے موقع پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: شَاهَتِ الْوُجُوهُ(معجم کبیر طبرانی جلد 3 صفحہ 203 حدیث نمبر 3128)حضرت مسیح موعودؑ کو یہ حدیث 5 دفعہ الہام ہوئی (دیکھیےمثلاً تذکرہ صفحہ 130 وغیرہ )۔ آپﷺ کی یہ دعا بھی ہے اللّٰهُمَّ إِنْ تَهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ لَا تَعْبُدْ فِي الْأَرْضِ۔ (سنن نسائی کتاب السیر باب الصلوٰۃ عند الالتقا٫حدیث نمبر 8574)یہ حضرت مسیح موعودؑ کو بھی الہام ہوئی۔ (تذکرہ صفحہ 352)جنگ خیبر میں فرمایا: اَللّٰہُ اَکْبَرُ خَرِبَتْ خَیْبَرُ(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر حدیث نمبر 4197 )حضرت مسیح موعودؑ کو جلسہ مذاہب عالم سے پہلے یہ الہام ہوا۔ (مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 615)

غیروں کا اعتراف حقیقت

جن غیر مسلم مفکرین اور دانشوروں نے غیر متعصبانہ نظر سے حدیثوں کو دیکھا ہے وہ ان کی عظمت کا اقرار کرنے پر مجبور ہیں۔ مثلاً مشہور مورخ ایڈورڈ گبن رقمطراز ہے:

’’محمدﷺ کے اقوال سچائی کے ان گنت درس، اور آپ کے افعال نیکی و خیر خواہی کی لا تعداد مثالیں ہیں عام اور ذاتی زندگی کی تفصیلات آپ کے اصحاب اور ازواج کے ذریعہ محفوظ ہیں۔ ‘‘

(Decline and fall of the roman empire. V 3. P 139)

مشہور روسی فیلسوف ٹالسٹائی نے اپنے ملک و قوم کی اصلاح کے لیے احادیث کا انتخاب کر کے ترجمہ شائع کیااور لکھا کہ مسلمان جب قرآن و حدیث میں غور کریں گے تو اپنی ہر دینی و دنیوی ضرورت کا علاج اس میں پائیں گے۔

(ایک مسیحی نامہ نگار اخبار وطن مصر۔ منقول از تاریخ الفقہ)

ہائنٹگر نے ایک لمبی چوڑی فہرست ان اخلاقی احکام کی دی ہے جو مسلمانوں میں بطور حدیث کے رائج ہیں ان سے بہتر کوئی دستور العمل انسان کے عملاً نیکی کی طرف راغب اور بدی سے محترز کرنے کے لیے نہیں ہو سکتا۔

(تمدن عرب ڈاکٹر لیبان۔ موخر الذکر دونوں حوالے تاریخ الحدیث از قاضی عبد الصمد صارم سے لیے گئے ہیں )

الغرض قرآن وسنت کے بعد عالم انسانیت کے لیے حدیث ایک عظیم الشان تحفہ ہے اگر قرآن کا موضوع خدائے بزرگ و برتر کی ہستی ہے تو حدیث کا موضوع محسن اعظم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔ جمع حدیث کے اہتمام، چھان پھٹک اور ان کے مطالب و مفاہیم کے لیے جو محنت کی گئی وہ معجزہ سے کم نہیں۔ جو محبت اور للہیت حدیث نبوی کو ملی ہے وہ قرآن کے علاوہ کسی الہامی کتاب کو میسر نہیں آئی۔ یہ مسلمانوں کے عشق رسولؐ کا ایک دل آویز باب ہے اور سچی حدیث قرآن کریم کی روشنی میں رسول اللہﷺ کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ پس حدیث سے محبت رسول اللہﷺ سے سچی محبت کی علامت ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ اور ہزاروں صحابہؓ اور تابعین نے اسی محبت کے طفیل عزت اور عظمت پائی۔ اس پر عمل کرنے والوں نے آسمانی رفعتوں کو چھو لیا۔ یہ راہ آج بھی کھلی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی برکت سے نوازے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button