چودھری محمد علی صاحب (قسط دوم)
ابتدائی تعلیم اور بعض اساتذہ کا تذکرہ
چودھری محمد علی صاحب کی ابتدائی تعلیم ان کے اپنے گائوں ہی میں ہوئی۔ گائوں میں صرف ایک سکول تھا جہاں مڈل تک کلاسز ہوتی تھیں۔ آپ نے اینگلوورنیکولر کا امتحان پاس کرنے کے بعد زِیرہ کے جے ایم بی ڈی ہائی سکول میں داخلہ لے لیا اور وہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
موصوف اُن دنوں کو جب وہ سکول میں پڑھا کرتے تھے بہت محبت کے ساتھ یاد کرتے تھے۔ انہیں اپنے اساتذہ کے نام بھی یاد ہیں جنہوں نے ان کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ یہیں ان کی شعر گوئی کا آغاز ہوا اوران کی پہلی نظم فیروزپور کے ایک رسالے میں چھپی جس کا بہت دنوں چرچا رہا۔ یہیں آپ نے ایک استاد کے مشورہ پر اپنے لیے جناح کا تخلص پسند کیا اور یہی تخلص آپ کی میٹرک کی سند پر آپ کے نام کا حصہ بن کر درج ہے۔
اُن دو سالوں میں جو آپ نے زِیرہ کے اس سکول میں گزارے آپ کا قیام ہوسٹل میں رہا۔ چودھری صاحب ہوسٹل میں گزرے ہوئے وقت کو اپنی زندگی کے ایک سنہرے دَور کے طور پر یاد کرتے ہیں اور اپنے سکھ ہیڈماسٹر کا ذکر بے حد احترام سے کرتے ہیں جن کی کوشش سے وہ میٹرک کے امتحان میں شامل ہوئے حالانکہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کی وفات کی وجہ سے دل برداشتہ ہو کر سکول چھوڑ کر گھر بیٹھے ہوئے تھے۔
ذیل کے مضمون میں آپ اُن ہی دنوں کی یادداشتیں چودھری محمد علی صاحب کی اپنی زبان میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ آپ بتاتے ہیں:
’’میں نے اپنے زمانۂ سکول میں بہت سے اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا ہے۔ ان میں سے کچھ مسلمان تھے تو بعض ہندو یا سکھ لیکن سب ہی ایک سے بڑھ کر ایک محبت کرنے والے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں بے حد دیانتدار تھے۔ سچ پوچھیں تو میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جو بیان کرسکیں کہ ہمارے اساتذہ اپنے فرائضِ منصبی کے ساتھ کس قدر مخلص تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں زیرہ کے ہائی سکول میں داخل ہوچکا تھا۔ ہمارے گائوں سے چار پانچ میل کے فاصلے پر ہندوئوں کا ایک پرائیویٹ سکول تھا۔ اس سکول کی بڑی شہرت تھی اور میں چاہتا تھا کہ وہاں داخل ہوجائوں۔ اس سکول کے ایک ماسٹر مولوی غلام حیدر کے متعلق مشہور تھا کہ وہ حساب بہت اچھا پڑھاتے ہیں۔ خود میٹرک پاس تھے لیکن میٹرک تک کی کلاسز کو حساب پڑھاتے تھے۔ چنانچہ میں ان سے ملنے کے لیے چلا گیا۔ ان کی کلاس اٹینڈ کی۔ بہت لطف آیا اور میں نے وہاں داخلہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔ میں اس وقت چھوٹا سا تھا لیکن میں نے چار پانچ میل کا وہ فاصلہ پیدل طے کیا۔ پھر واپس آیا۔ یوں ہی یاد آگیا ہے کہ جب میں جا رہا تھا تو راستے میں ایک سائیکل سوار اپنے سائیکل کے ٹائروں میں ہوا بھر رہا تھا۔ میں اسے پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ مجھ سے آگے نکل گیا۔ میں کچھ آگے گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ پھر ٹائروں میں ہوا بھر رہا ہے چنانچہ میں اسے پیچھے چھوڑ آیا۔ جب تیسری چوتھی دفعہ یہی ہوا تو وہ کہنے لگا بیٹے! تم کمال کے انسان ہو، اتنا تیز چلتے ہو کہ سائیکل سوار پیچھے رہ جاتا ہے۔
میں اس سکول میں داخل ہونے کا ارادہ کر چکا تھا چنانچہ زیرہ گیا اور اپنے ہیڈماسٹر سے ملا۔ وہ سکھ تھے ان کا بھلا سا نام تھا اور ان کا ایک بہت مزیدار سا تکیہ کلام بھی تھا۔ میں نے کہا کہ میں سکول لِیونگ سرٹیفیکیٹ لینے آیا ہوں۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگے نہیں تم نے یہیں رہنا ہے، کسی اور سکول میں نہیں جانا۔ میں سرٹیفیکیٹ نہیں دوں گا۔ میں اپنا سا منہ لے کر واپس آگیا۔
ہمارے ہوسٹل میں بڑی بڑی ڈارمیٹریز تھیں۔ اس کے باوجود ہیڈماسٹر نے مجھے رہائش کے لیے الگ کمرہ دیاہوا تھا۔ انہوں نے یہ اجازت بھی دے رکھی تھی کہ کوئی مجبوری ہو تو بےشک کلاس میں نہ جایا کروں۔ اساتذہ کی قابلیت کا عالم یہ تھا کہ انگریزی کے استاد نے انگریزی کے علاوہ ریاضی اور جغرافیہ پر بھی کتابیں لکھ رکھی تھیں اور انہیں عربی بھی آتی تھی لیکن یہ نہیں کہ انہوں نے اپنی کتابیں اپنے ہی سکول میں لگا رکھی ہوں۔ وہ دوسرے سکولوں میں پڑھائی جاتی تھیں۔ ہمارے پاس دو کاپیاں ہوا کرتی تھیں۔ ایک پر ہم ایک پیراگراف کا ترجمہ، کتاب کے کسی ایک سوال کا جواب اور ایک مضمون لکھا کرتے تھے اور کام کرنے کے بعد یہ کاپی ماسٹرصاحب کو دے دیتے اور جب تک یہ ان کے پاس رہتی ہم دوسری کاپی پر کام کرتے رہتے۔ جب پہلی کاپی واپس ملتی تو دوسری کاپی ماسٹر صاحب کو دے دیتے۔ کاپیوں کا یہ تبادلہ آدھی چھٹی کے وقت ہوا کرتا تھا تاکہ وقت ضائع نہ ہو۔ وہ نظارہ دیکھنے والا ہوتا تھا جب پچاس لڑکے کاپیاں ہاتھوں میں تھامے اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ہوتے تھے۔ اگر کوئی غلطی پہلی بار ہوتی تو ماسٹرصاحب اس پر لکھ دیتے ’’ایک‘‘۔ اگر دوبارہ وہی غلطی ہوجاتی تو اس پر لکھ دیتے’’دو‘‘۔ اگر تیسری دفعہ وہی غلطی ہو جاتی تو لڑکا ہسپتال پہنچ جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک لڑکے سے تیسری بار وہی غلطی ہوگئی۔ وہ میرے ساتھ کھڑا تھا۔ وہ سزا سے اتنا ڈراہوا تھا کہ اس کا پیشاب خطا ہوگیا۔ ذرا سوچیں تو سہی کہ ہمارے استاد اپنے شاگردوں سے کتنی محبت کرتے تھے۔ پچاس لڑکوں کا کام چیک کرنا آسان نہیں ہوتا۔ انسان کا دماغ چکرا جاتا ہے لیکن وہ یہ کام اپنا فرض سمجھ کر کرتے تھے۔ آج جب میں سوچتا ہوں تو جسم میں ایک جھرجھری سی دوڑ جاتی ہے۔ وہ زیادہ تر تھے کون؟ ہندو یا سکھ لیکن انہوں نے مسلمان شاگردوں کو بھی ہمیشہ اپنی اولاد کی طرح سمجھا۔
ہمارے ایک استاد سید رضا حیدر زیدی جو لکھنؤ کے رہنے والے اور بڑی ثقہ اردو بولتے تھے کہا کرتے تھےکہ لکھنؤ اور لاہور کا فرق آپ کو معلوم ہے؟ آپ لاہور جائیں اور تانگے پر بیٹھیں تو تانگے والا پوچھے گاسالم تانگہ یا کلّی سواری؟ اس کے برعکس آپ لکھنؤ جائیں اور تانگے پر بیٹھیں تووہ کہے گا: صاحب! چلیں یا انتظار کریں؟ ان کی ایک اور بات آج بھی یاد ہے۔ کلاس میں محمد علی نام کے کئی لڑکے تھے۔ کوئی محمد علی قریشی تھا تو کوئی محمد علی شیخ۔ جب میٹرک کے امتحان کے لیے داخلہ فارم جا رہے تھے تو انہوں نے مجھے کہا: محمد علی تُو بھی کوئی دُم لگالے۔ میں نے پوچھا: جی میں کیا دُم لگائوں؟ تو کہنے لگے: جناح لگالے چنانچہ میٹرک کی سند پر میرا نام محمد علی جناح لکھا ہوا ہے۔
وہ میری تُک بندی پسند کرتے تھے اور اس معاملے میں میری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ میں نے اسی زمانے میں ایک نظم لکھی تھی۔ یہ نظم فیروزپور کے ہفت روزہ ’’زمیندار‘‘نے ایک چوکھٹے میں شائع کردی۔ اس وقت میرا تخلص فاروق تھا چنانچہ نظم پر لکھا تھا: نتیجہ فکر جناب محمد علی فاروق۔ اسے میرے ایک ’’کارنامے‘‘کے طور پر لیا جا رہا تھا چنانچہ اُن دنوں جو کوئی ہمارے گھر آتا اسے کسی نہ کسی بہانے یہ رسالہ ضرور دکھایا جاتا۔ نظم کا پہلا شعر تھا:
چاندنی چھٹکی ہوئی تھی، تھا بہت اُجلا سماں
محفلِ انجم سے تھا معمور سارا آسماں
ہمارے ایک ماسٹر کا نام ہنس راج تھا۔ وہ ہمیں انگریزی کا اخبار پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ سکول کا میڈیم آف انسٹرکشن انگلش تھا یعنی تاریخ، جغرافیہ، ریاضی اور سائنس الغرض ہر مضمون انگریزی میں پڑھایا جاتا تھا۔ وہ ہمیں اپنے گھر پر بلالیا کرتے تھے۔ پڑھاتے بھی تھے اور کھلاتے پلاتے بھی تھے۔ تھے تو وہ آریہ سماجی لیکن انہوں نے کبھی مذہب کا قصہ نہیں چھیڑا حالانکہ مشہور ہے کہ آریہ سماجی عام طور پر بہت کٹّر ہوتے ہیں۔
اس سکول میں زیادہ تر استاد آریہ سماجی تھے اور کچھ مسلمان جب کہ ہیڈماسٹر سکھ تھے۔ مسجد میں نماز ہوتی تھی۔ مجھے یادہے ہمارے ایک استاد تھے مولوی محمد موسیٰ۔ وہ کہا کرتے تھے: ارے تُو بھی اپنی چونچ دھولے یعنی وضو کرلے۔
بشن دیو ہمیں ریاضی پڑھاتے تھے۔ گرمی ہو یا سردی ہو وہ زیروپیریڈ ضرور لیتے تھے لیکن ٹیوشن کا کوئی تصور نہیں تھا۔
جیسا کہ پہلے اشارۃً ذکر ہوچکاہے میں زیرہ میں تعلیم کے دوران ہوسٹل میں مقیم تھا۔ اس زمانے میں بجلی تو تھی نہیں چنانچہ رات کے کھانے کے کچھ ہی دیر بعد ایک گھنٹی بجتی۔ ہمارے کمروں میں جرمنی کے بنے ہوئے لیمپ لٹکے ہوتے تھے جن کا شیڈ بڑا اور چمنی لمبوتری سی ہوتی تھی۔ تیل سے جلتے تھے۔ ہم خود ہی ان لیمپوں کو صاف کرکے ان میں تیل ڈالتے تھے۔ پہلی گھنٹی پر ہم یہ لیمپ جلا دیتے اور دوسری گھنٹی پر ان کی روشنی میں رکھے میز کی اطراف میں بیٹھ جاتے اور تیسری گھنٹی پر مطالعہ شروع کردیتے۔
ہیڈماسٹر کی طرف سے حکم تھا کہ لڑکے سونے سے پہلے اپنی آنکھوں میں سرمہ ضرور ڈالا کریں۔ باقاعدہ چیک بھی کیا کرتے تھے۔ ایک بار میں غلطی سے سیاہ سرمے کی بجائے گھر سے سفید سرمہ لے آیا۔ ہیڈماسٹر نے چکر لگایا اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ میں نے سرمہ کیوں نہیں ڈالا۔ میں نے بتایا کہ آج میرے پاس سیاہ سرمہ نہیں ہے۔ وہ میری بات پر ہلکا سا مسکرائے اور مجھ سے کچھ کہے سنے بغیر آگے چلے گئے۔ اگلے لڑکے نے بھی سرمہ نہیں ڈالا ہوا تھا۔ اس سے وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا: ہیڈماسٹر صاحب! میں نے بھی سفید سرمہ ڈالا ہے۔ وہ اس کی چالاکی سمجھ گئے اور کہنے لگے: اچھا! شیشی لاکر دکھائو۔ لڑکا ہوشیار تھا۔ میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگا: میں سرمہ ایہدے کولوں منگیا سی۔ الغرض یہ ایک بے حد دلچسپ سکول تھا اور اس کی یادیں میری زندگی کا ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔
علاقے میں میلوں تک جنگل ہی جنگل تھا جس میں کہیں کہیں دیہات بھی تھے۔ جنگل میں بے شمار بیریاں تھیں جن کو موٹے جنگلی بیر لگتے تھے اور چھوٹے بیر بھی جن کو مقامی زبان میں ملہا کہتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم یہ بیر کھانے جایا کرتے تھے۔ طریقہ یہ تھا کہ سکول کے سارے بچوں کو ایک انتظام کے تحت وہاں بھجوا دیا جاتا۔ مسلمان لڑکے مسلمانوں کے گھروں میں، ہندو لڑکے ہندوئوں کے گھروں میں اور سکھ لڑکے سکھوں کے گھروں میں رات گزارتے۔ ہم تکیوں کے دو دو غلاف ساتھ لے جاتے تھے اور جب بیر کھا کھا کر خوب سیر ہوجاتے تو ایک غلاف اپنے گھر والوں کے لیے اور دوسرا غلاف اپنے ماسٹروں کے لیے بیروں سے بھرکرلدے پھندے واپس گھر پہنچتے۔
جن دنوں میٹرک کے داخلے جاتے تھے میرے چھوٹے بھائی کو ٹائیفائیڈ ہوگیا۔ بیماری کی خبر سن کر میں گھر گیا لیکن اس کی بیماری طول پکڑتی گئی۔ اکیس دن بخار رہا۔ پھر وقتی طور پر اترا لیکن جلد ہی دوبارہ ہوگیا۔ اس بیماری نے اسے بے حد مضمحل کردیا۔ اس پریشانی کی وجہ سے میں سکول واپس گیا نہ پڑھائی کی طرف توجہ دے سکا۔ پھر بھائی کا انتقال ہوگیا۔ اس عرصے میں شاید امتحان کے بارے میں کوئی اطلاع آئی بھی ہو مگر گھریلومصروفیات کی وجہ سے میں اس سے مکمل طور پر بے خبر رہا۔
آپ کو بتاتا چلوں کہ ہمارے گائوں میں مسلمانوں کی اس حد تک اکثریت تھی کہ سکھ ہمارے لیے تقریباً ایک عجوبہ تھے۔ ایک دن گائوں میں شور مچ گیا کہ کوئی سکھ آیاہے۔ معلوم ہوا ہمارے ہیڈماسٹر ہیں۔ ان کی ایک ٹانگ خراب تھی چنانچہ وہ لنگڑا کر چلتے تھے۔ وہ میرا پتا کرتے کرتے ہمارے گھر پہنچ گئے۔ والدین سے بھائی کی وفات پر تعزیت کی۔ میں ’’اگلے اندر‘‘یعنی اس کمرے میں جہاں پہنچنے کے لیے ایک اور کمرے میں سے گذرنا پڑتا ہے لیٹا ہوا تھا۔ یہ ایک اندھیرا سا کمرہ تھا۔ وہ مجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے اگلے اندر آگئے۔ مجھے اپنے مخصوص لب و لہجہ میں بہت پیار کے ساتھ اٹھایا اور بتایا کہ کل سے امتحان شروع ہے، تم تیار ہو جائو اور ابھی میرے ساتھ چلو۔ میں نے بہت دنوں سے کچھ پڑھا ہی نہیں تھا چنانچہ میں نے کہا: میں نے امتحان نہیں دینا۔ کہنے لگے: نہیں بیٹا! امتحان ضرور دینا ہے۔ انہوں نے خود میرے کپڑے صندوق میں رکھے اور کتابیں اکٹھی کر کے باندھیں۔ میرے والدین تو بیچارے غم سے نڈھال تھے۔ سب کچھ انہوں نے خود کیا۔ وہ ایک ٹانگ کے ساتھ یہ سارا سامان اٹھا کر تانگے تک لے کر گئے، خود اسے تانگے میں رکھا اور ہم موگا کی طرف چل پڑے جہاں ہمارا امتحانی سنٹر تھا۔
میں گوشت نہیں کھاتا تھا اور انہیں اس بات کا علم تھا۔ میں گوشت کھا ہی نہیں سکتا تھا۔ مجھے متلی ہونے لگتی تھی اور بخار ہو جاتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے میرے لیے علیحدہ کھانے کا انتظام کیا اور جو سکول ماسٹر ساتھ گئے ہوئے تھے انہیں تاکید کی کہ اس بچے کا خاص خیال رکھا جائے اور اس کی رپورٹ انہیں باقاعدہ بھیجی جاتی رہے۔‘‘
کیا تم مرزائی ہو؟ چودھری محمد علی صاحب سے ایک پنڈت کا سوال
چودھری محمد علی صاحب سکول میں ہی تھے جب انہوں نے پہلی بار ایک ہندو پنڈت کی زبان سے ’’مرزائی‘‘ کا لفظ سنا۔ اگرچہ آپ اس لفظ سے کچھ سمجھ تو نہ پائے مگر جس ماحول میں یہ بات ہورہی تھی اس سے آپ کو یہ اندازہ ضرور ہوگیا کہ شاید صحیح بات کرنے والوں کو ہی مرزائی کہا جاتا ہے۔
اس کے کچھ ہی عرصے بعد جب آپ ہائی کلاسز میں تھے حسنِ اتفاق سے آپ کو موگا میں سیرت النبیﷺ کے ایک جلسہ کے لیے مقررین کی تلاش میں پہلے امرتسر اور پھر لاہور جانا پڑا مگر انہیں اپنی کوشش میں کوئی کامیابی نہ ہوسکی۔ اتفاق دیکھیے اسی دوران قسمت انہیں احمدیہ مسجد، دہلی دروازہ لے گئی جہاں ان کی ملاقات مہاشہ محمد عمر، مربی سلسلہ سے ہوئی۔ یہی ملاقات ان کے قادیان جانے کا سبب بن گئی۔
اس باب میں چودھری محمد علی صاحب کی زبانی وہ حالات بیان کیے گئے ہیں جن کا آپ کو اس حوالے سے سامنا کرنا پڑا۔ ان ہی دنوں آپ کو موگا میں مولوی ظہور حسین صاحب، مجاہدِ بخارا کی ایک تقریر سننے کا موقع ملا جس نے آپ کو احمدیت کی طرف متوجہ کیا۔ اگرچہ بیعت آپ نے بہت عرصے بعد پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوکر کی۔
ذرا دیکھیے تو سہی چودھری صاحب کس دلچسپ پیرایہ میں یہ سارے واقعات بیان کررہے ہیں:
’’میں سکول میں تھا جب میں نے پہلی بار ایک پنڈت کی زبان سے ’’مرزائیت‘‘کا ذکر سنا اور میرا احمدیت سے بالکل ابتدائی تعارف ہوا۔ قصہ دراصل یہ تھا کہ زِیرہ شہر اور ہمارے سکول کے درمیان آریہ سماجیوں کا ایک مندر تھا۔ وہاں اسلام کے خلاف بڑی سخت تقریریں ہوا کرتی تھیں۔ ایک بار وہاں دو مقرر آئے۔ ایک کا نام چورنگی لال پریم تھا اور دوسرے کا نام تھا ست دیو۔ ست دیو بڑا جسیم تھا۔ ان دونوں نے اسلام کے خلاف تقریریں کیں۔ ہم سننے جاتے تھے۔ مسلمان تھے لہٰذا تکلیف ہوتی تھی۔ اگلے دن وہ ہمارے سکول میں راہٹ پر نہانے لگے تاہم وہ بیل یا اونٹ کی بجائے خود اسے کھینچ رہے تھے۔ ہم باڑ کے پیچھے سے چھپ کر دیکھ رہے تھے۔ وہ اپنے کپڑے دھونے کے بعد لنگوٹ کس کر بیٹھ گئے۔ سانس وانس لیے۔ ان کو پتا چل گیا تھا کہ لڑکے انہیں دیکھ رہے ہیں چنانچہ انہوں نے ہمیں اپنے پاس بلالیا اور باتیں کرنے لگے۔ سکھ تو اپنے کیس سے پہچانے جاتے تھے اور باقی لڑکوں کا ہندو یا مسلمان ہونا ان کے نام سے کھل جاتا تھا۔ جب ہم بیٹھ گئے تو وہ ایک لڑکے سے پوچھنے لگے: تم ماس کھاتے ہو۔ یہی سوال انہوں نے باقی لڑکوں سے کیا۔ میری باری آئی تو میں نے بتایا کہ میں گوشت نہیں کھاتا لیکن کھانا چاہیے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ گوشت ہر کوئی کھاتا ہے حتّٰی کہ آپ بھی کھاتے ہیں۔ دراصل میں نے بچوں کے کسی رسالے میں یا کسی اور جگہ پڑھا تھا کہ سبزیوں کو بے جان نہیں سمجھنا چاہیے، ان میں بھی جان ہوتی اور موقع کے مطابق انہیں تکلیف یا خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ اگر میں غلطی نہیں کررہا تو اس مضمون میں یہ بھی لکھا تھا کہ کسی سائنسدان کو اِس تحقیق پر کوئی بہت بڑا انعام بھی مل چکا ہے۔ میں نے پنڈت جی سے کہا کہ اس لحاظ سے سبزی خوری بھی گوشت خوری کی ہی ایک شکل ہے۔ میری یہ بات سن کر اس نے اچانک مجھ سے پوچھا کہ کیا تم مرزائی ہو؟ یہ لفظ میرے لیے بالکل نیا تھا لہٰذا سمجھ نہ پایا کہ اس نے یہ بات کیوں کی ہے لیکن میں سوچنے لگا کہ میں نے بات تو صحیح کی ہے لہٰذا کیا اُس کی بات کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ مرزائی ہمیشہ صحیح بات کرتے ہیں؟
میں پیدائشی احمدی نہیں ہوں نہ ہی یہ کہنا درست ہوگا کہ میں نے اس کی بات سن کر احمدیت کے بارے میں غوروفکر شروع کردیا تھا بلکہ سچ پوچھیں تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ احمدیت ہے کیا۔ یہ تو مجھے بہت بعد میں احساس ہوا کہ یہ ایک عالمگیرتحریک ہے اور ایک نہ ایک دن ساری دنیا اس پر غور کرنے پر مجبور ہوجائے گی لیکن بہرحال جیسے کسی نے کہا ہے کہ
میں ایک تِنکا سامنے دریا کے آگیا
جہاں تک میری قبولِ احمدیت کا تعلق ہے میں یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ کوئی بھی معاملہ ہو، اس کی بیک گرائونڈ آہستہ آہستہ بنتی ہے اور ممکن ہے کہ یہ واقعہ بھی میرے تحت الشّعور میں محفوظ رہ کربعد میں میری قبولِ احمدیت کا ایک سبب بنا ہو۔
رات کو اس کا لیکچر تھا۔ ہم سننے گئے۔ وہاں اس نے تقریر کی: حضرات! دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسلام میں ہر چیز کا حل موجود ہے۔ میں صرف حلال و حرام کا اسلامی حل آپ کو بتا دیتا ہوں۔ آپ خود فیصلہ کرلیں کہ اسلام کا یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے۔ اس کے بعد وہ کہنے لگے: آپ کو پتا ہے مسلمانوں کے پانچ فقہے ہیں، چار اہل سنت کے اور ایک اہل تشیع کا۔ کوئی ایک چیز لے لیجیے۔ وہ دو فقہوں میں حرام ہے تو باقی تین میں حلال۔ دوسری چیز چار فقہوں میں حلال ہے تو ایک میں حرام۔ اس نے ایک فہرست بنا رکھی تھی جس میں مختلف فقہوں میں بعض اشیا کے حرام یا حلال ہونے کے بارے میں متضاد آرا کا حوالہ تھا اور اسے بڑی تیزی کے ساتھ سناتا جارہا تھا۔ لوگ ہنستے جا رہے تھے اور ایک اودھم مچا ہوا تھا۔ مذاق ہو رہا تھا کہ اچانک ایک شخص کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: پنڈت جی! یہ بکواس بند کریں۔ آپ کون ہیں؟ پنڈت جی نے پوچھا۔ میں حافظ حسن علی۔ یاد رہے حافظ حسن علی وہاں کے ایک معروف بزرگ تھے۔ ان کا درس تھا۔ ہمارے گائوں میں بھی آتے رہتے تھے۔ حضرات! یہحافِظہیں یاحافَظہیں یعنی یہ حافظِ قرآن ہیں یا نابینا؟ پنڈت جی نے ان کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔
اتنی دیر میں ایک اور شخص کھڑا ہوا۔ پتلا دبلاسا۔ کہنے لگا: پنڈت جی! آپ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ مجھے سٹیج پر آکر اپنی باتوں کا جواب دینے کی اجازت دیں۔ اس نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ اس نے کہا: آپ کا علاج۔ میں قادیان سے آیاہوں۔ وہ کہنے لگا: آپ حضرات سے ہماری بحث نہیں، ہم مسلمانوں سے بات کررہے ہیں۔ شور مچ گیا کہ احمدی مسلمان ہیں اور مسلمانوں کی طرف سے بات کرنے کے اہل ہیں۔ پھر نعرہ ہائے تکبیر بلند ہونے لگے۔ اس شخص نے کہا: اگر آپ مجھے اس وقت اجازت نہیں دیں گے تو ہم الگ سے ایک جلسہ کریں گے۔ آپ اس میں آئیں اور اپنی شری متیوں کو بھی ساتھ لائیں۔ ہم ان کو وید سنائیں گے۔ اگلی صبح پنڈت جی اپنا بوریابستر اٹھا کر بس پر چڑھنے کو تھے کہ لوگوں نے انہیں پکڑ کر نیچے کھینچ لیا کہ اب جاتے کہاں ہو۔ خیر کچھ بحث و تمحیص کے بعد پنڈت جی چلے گئے اور اس کے بعد ہم نے دوبارہ ان کی شکل نہیں دیکھی لیکن شام کو جلسہ ہوا۔ اس شخص نے تقریر کی اور وید کے کچھ شلوک بھی پڑھے۔ ان میں نیوگ کا ذکر بھی آیا۔ اب جو سناتن دھرمی تھے وہ کہنے لگے: مولوی صاحب! ہمارا اس میں کیا قصور ہے؟ انہوں نے کہا: ہم آپ کو آپ ہی کی وید سنا رہے ہیں۔ تو یہ تھا جماعتِ احمدیہ سے میرا پہلا تعارف۔
ہمارے علاقے میں کمیونزم کا بہت زور تھا خصوصاً موگا کے علاقہ میں۔ موگا ہمارا شہر تھا۔ ہماری فیملی موگا میں رہتی تھی۔ گائوں بھی آتے جاتے رہتے تھے۔ میرے والد صاحب اپنے گائوں میں بڑے تھے۔ وہ شاید بچوں کی پڑھائی کی خاطر یہاں منتقل ہوئے تھے۔ سارے ضلع میں سرکاری ہائی سکول صرف ایک تھا اور وہ بھی فیروزپور میں لیکن موگا میں کئی سکول تھے حتّٰی کہ آریوں کا سکول بھی تھا، دیوسماجی جو خدا کو نہیں مانتے ان کا بھی سکول تھا اور عیسائیوں کا بھی سنٹر تھا۔ بہت بڑی جگہ تھی۔ بہت بڑا ہسپتال بھی تھا۔ ان ہی دنوں انگریزی کی ایک کتاب میری نظر سے گذری۔ اس کا ٹائٹل پیج غائب تھا لہٰذا پتا نہیں اس کا نام کیا تھا اور کس کی لکھی ہوئی تھی۔ اس میں آیتیں بھی تھیں اور بہت اچھی کتاب محسوس ہوتی تھی۔ میں یہ کتاب دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ اسلام کو انگریزی میں بھی لکھا جاتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں اپنی حیرت میں یہ کتاب دوسروں کو دکھاتا پھرتا تھا۔ ہمارے گائوں سے کچھ ہی فاصلے پر ایک اور گائوں تھا، جلال آباد۔ اس گائوں کے دو لڑکے افضل اور اکبر جو آپس میں سگے بھائی تھے میرے سکول میں پڑھا کرتے تھے اور میرے قریبی دوست تھے۔ ان کا تعلق ایک نیک خاندان سے تھا۔ اکبر تو اب فوت ہو چکا ہے البتہ افضل جو بعد میں ہائی کورٹ کا جج ہوگیا تھا امریکہ آباد ہو چکا ہے۔ میں ان سب کے ساتھ اپنی حیرت شیئر کرتا رہا۔
(جاری ہے)