تعارف کتاب

مجموعہ نظم (قسط پنجم)

(اواب سعد حیات)

(مصنفہ حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی رضی اللہ عنہ)

حضرت خواجہ میر درد دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی روحانیت اور تعلق باللہ کے حقیقی وارث حضرت سید میر ناصر نواب صاحبؓ نے انجمن حمایت اسلام لاہور کے نویں سالانہ جلسہ منعقدہ 1894ء میں اپنا جو منظوم کلام پڑھ کرسنایا تھااور اسے اسلامیہ پریس لاہور سے کتابی شکل میں طبع کیا گیاتھا۔ کا تب کا تحریر کردہ یہ دیدہ زیب اورمختصر کتابچہ محض دو درجن صفحات پر مشتمل ہے۔

دہلی میں سادات کے گھرانے میں پیدا ہونے والے حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے حضرت مرزا غلام احمدقادیانی مسیح موعود علیہ السلام کے آبائی خاندان سے قریبی مراسم لگ بھگ سال 1875ءسے چل رہے تھے، دہلی والوں کے قادیان کے ان رؤسا سے ذاتی تعلق کا یہ عالم تھاکہ حضرت میر صاحبؓ اپنی سرکاری ملازمت کے دوران سٹھیالی اور کاہنواں میں تعیناتی کے باعث نہ صرف خود قادیان رہائش رکھتے رہے بلکہ ایک دفعہ اپنے لاہور تبادلہ کی وجہ سے مختصر عرصہ کے لیےاپنے خانوادہ کو بھی قادیان میں مرزا صاحب کے گھر ٹھہرایاتھا۔

حضرت میر صاحبؓ براہین احمدیہ کی تصنیف کی اطلاع پاکر فی الفور اس کے خریدار بنے۔ پھر 1889ء میں سلسلہ احمدیہ کی بنیاد رکھی گئی تو میر صاحبؓ نے بیعت نہ کی لیکن مخالف بھی نہ بنے۔ بعد ازاں جلسہ سالانہ 1892ءمیں شرکت کی دعوت ملی تو خدا نے سینہ کھول دیا۔ خدا کی فعلی شہادت دیکھ کر اور احباب جماعت کی باہمی اخوت ومحبت کا گہراعرفان پاکر جلسہ سالانہ پر بیعت کر لی۔ اور اپنی کیفیات قلبی کو سپرد قرطاس کرکے اپنی صاف باطنی کے مزید ثبوت مہیا کرگئے۔

یوں تو حضرت میر صاحبؓ کی زندگی میں ان کے توکل اور الٰہی دستگیری کے عجیب و غریب کرشمے نظر آتے ہیں، کس طرح پر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کےلیے ایثارنفس، قربانی اور ہمدردی مخلوق کے کارہائے نمایاں کیے اور خدا کے مامورو مرسل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تعلق و رشتہ نے ان کو زندہ جاوید بنادیا۔ دراصل 1857ءکی غدر کی دردناک کہانی کے عینی شاہد اور ہڈ بیتی کے مصداق نے بے وطنی، اور بے سروسامانی کے ہر پہلو کو کمال صبر سے برداشت کیا تھا۔

سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل قادیان میں فروکش ہوئے اور اپنے فطری رجحان کے باعث محض للہ دینی اور رفاہی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ آپ کا اپنا بیان ہے کہ ’’بندہ سرکاری نوکری سے فارغ ہوکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں مشغول ہوگیا۔ گویا کہ میں ان کا پرائیویٹ سیکرٹری تھا۔ خدمتگار تھا۔ انجینئر تھا۔ مالی تھا۔ زمین کا مختارتھا۔ معاملہ وصول کیا کرتاتھا۔ ‘‘

آپ کے زیر نگرانی تعمیر ہونے والی خاک و خشت کی عمارات ہی آپ کی اصل یادگار نہیں بلکہ آپ کے ہمدردی مخلوق کے نمایاں کاموں میں دارالشیوخ کا قیام و انصرام بھی تھا۔ گوقادیان دارالامان میں مسجد نور، شفاخانہ، دار الضعفاء، احمدی بازارکا پختہ فرش اور قبرستان وغیرہ آپ کی باقیات الصالحات ہیں، لیکن آپ کے جاری کردہ منصوبوں میں وہ قابل قدر منصوبہ دارالشیوخ تھاجہاں یتامیٰ اور بے آسرا نونہال پرورش پاتے اور قوم و ملت کے مفید وجود بنتے تھے۔ کیونکہ غربا اور ضرورت مندوں کی مدد اور خبر گیری آپ کا وصف نمایاں تھا۔

زیر نظر کتاب میں خدا تعالیٰ کی منظوم حمد و ثنا کے بعد مندرج کلام میں نصرت یتامیٰ، ہمدردی ایتام اور مرثیہ قوم کا مفہوم ہی ابھرتا ہے، جو اس زمانے میں عام مسلمانوں کی حالت ہوچکی تھی کہ وہ اپنی قوم کے کمزور، ناتواں اور لاچار طبقہ کی خبر گیری سے یکسر لاپرواہ اورقاصر تھے۔ اس منظوم مجموعہ میں یتامیٰ کی قابل توجہ حالت کی بھرپور نقشہ کشی کرکے صاحب ثروت اور حیثیت لوگوں کو تلقین و ترغیب کی گئی ہے کہ وہ کس طرح اپنے ان کمزور بھائیوں کی خبرگیری کےلیے کمربستہ ہوسکتے ہیں۔ اور صاحب حیثیت لوگوں کو طرح طرح کے حوالے دےکر مخلوق خدا کی بھلائی کی ترغیب دی ہے۔

اس منظوم مجموعہ کلام کی زبان سادہ ہے اورحمد و ثنا کے بعدابتدائی ایک نظم میں ہر دو اردو اشعار کے بعد ایک نئے فارسی شعر کی گرہ لگائی گئی ہے۔ جبکہ اس کے بعداگلی طویل نظم میں ہر دو اردو اشعار کے بعد اس ایک فارسی شعر کی دہرائی کی گئی ہے:

پدر مردہ را سایہ برسر فگن

غبارش بیفشان و خارش بکن

یتامیٰ کی ہمدردی کے بیان میں اپنی پندو نصائح کے دوران حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ ناصر دہلوی نے دیگر معاصر حقائق پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

الغرض صاحبان ذوق کے لیے قریبا ًسوا صدی قبل تیار ہونے والی اس مختصر کتاب میں جہاں علمی و ادبی دلچسپی کے سامان ہیں وہاں تربیت دینی کے انداز بھی میسر ہیں۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے اپنی تصنیف حیات ناصر میں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی شاعری اور قلمی خدمات کے ذکر میں لکھا ہےکہ

’’حضرت میر صاحب قبلہ کو خدا تعالیٰ نے ذہن رسا عطافرمایا تھا۔ اور آپ شاعرانہ فطرت لیکر پیدا ہوئے تھے۔ آپ شاعر تھے۔ لیکن آپ کی شاعری نے گل و بلبل اور زلف و کاکل کی پیچیدگیوں میں گرفتار ہونا کبھی پسند نہیں کیاتھا۔ آپ جب بھی شعر کہتے تو خدمت دین کےجوش اور شوق سے کہتے۔ اور ایسے کہتے جو اپنی سلاست کے ساتھ تاثیر میں ڈوبے ہوئے ہوتے تھے۔

انجمن حمایت الاسلام لاہور کا جب نیا نیا دور شروع ہوا۔ لوگوں میں اس کی طرف قدرتی کشش تھی۔ اس کے سالانہ جلسے بڑی دھوم دھام سے لاہور میں ہوتے تھے۔ حضرت میر صاحب قبلہ بھی انجمن کے جلسہ میں شریک ہوئے اور آپ نے ایک نظم پڑھی۔

پھولوں کی گر طلب ہے تو پانی چمن کو دے

جنت کی گر طلب ہے تو زر انجمن کو دے

یہ نظم بہت پسند کی گئی۔ اورا نجمن کو اس نظم کے وقت بہت سا روپیہ وصول ہوااور حضرت نانا جان کے لئے

الدَّالُ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖ

کا موجب۔

میں اگر غلطی نہیں کرتا تو حضرت نانا جان نے پبلک جلسہ میں یہ سب سے پہلے نظم پڑھی تھی۔ میں خود اسی جلسہ میں موجود تھا۔ نہایت جرأت اور مستقل مزاجی سے پڑھا۔

جن لوگوں کو پہلی دفعہ کسی مجلس میں یا مجمع میں لیکچر دینے کا اتفاق ہوتا ہے۔ خواہ وہ بڑے سے بڑے عالم بھی کیوں نہ ہوں۔ بہت ہی کم دیکھا گیا ہے کہ وہ گھبرا نہ گئے ہوں۔

مگر میر صاحب اپنی طرح پر اپنی نظم پڑھ رہے تھے کہ گویا وہ اپنے گھرمیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس سے ان کی قوت قلبی اور نفس مطمئنہ کا پتہ چلتا ہے۔ ‘‘(صفحہ 31)

اس کتاب سے چند اشعار کا انتخاب پیش ہے:

یہ جہان یونہی رہیگا اور ہزاروں جانور

اپنے اپنے آشیان مین بولکر اڑ جائیں گے

(سر ورق)

اللہ ہے ذات میں نرالا

جورو ہے نہ کوئی اُس کا سالا

ہیں سوچنے کو ہزاروں باتیں

غفلت کا نہ ہو جو دل پہ تالا

(صفحہ1)

خدا کی رنگارنگ قدرتوں کے ذکر میں آپ نے منظوم کیا کہ

ہے موتیوں سے بھرا سمندر

ہے بُوٹیوں سے اَٹا ہمالا

ہے ناف ہرن میں مشک خالص

پھولوں میں ہے شہد اس نے ڈالا

کیڑوں میں بھرا ہے اُس نے ریشم

بھیڑوں کو عطا کیا دوشالا

(صفحہ 2)

پھر یتیموں کی خبر گیری کی نصائح کرکے فرمایا:

یتیمی کے دکھ سے مَیں واقف ہوں یار

بہت اس کے کم ہوتے ہیں غمگسار

وہ پھرتا ہے ہر دم ذلیل اور خوار

کوئی اس کی سنتا نہیں ہے پکار

مرا باشد از دردِ طفلاں خبر

کہ در طفلی از سر برفتم پدر

اگر اپنے بچوں سے ہے تجھ کو پیار

اٹھاتا ہے تو اُن کے ناز اور بار

نہیں چاہتا یہ کہ ہوویں وہ خوار

تو اس کی مَیں تدبیر بتلاؤں یار

پدر مردہ را سایہ برسر فگن

غبارش بیفشان و خارش بکن

خدا نے دیا ہے اگر تجھ کو زَر

جہاں میں کیا ہے تجھے بہرہ وَر

کئے ہیں عطا تجھ کو نورِ نظر

تُو بس چھوڑ دے یہ اگر اور مگر

پدر مردہ را سایہ برسر فگن

غبارش بیفشان و خارش بکن

اگر تجھ کو مطلوب ہے کچھ ثواب

ویا دل میں ہے تیرے خوفِ عذاب

نہیں تُو فقط طالبِ خورد و خواب

تو میری بھی اِک عرض ہے اے جناب

اگر ہے تیرے دل میں خوفِ خدا

جو رکھتا ہے تو الفتِ مصطفیٰ

یقیں ہے تجھے گر جزا و سزا

بیاؤ بیاؤ بیاؤ بیاؤ

پھر کتاب کے صفحہ 16 پر خدا کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

کروں حمد سے مَیں شروعِ بیان

کہ ہے یہ بھی اِک شیوۂ بندگان

ستائش کے لایق ہے وہ پاک ذات

کہ بخشے ہیں جس نے ہمیں جسم و جان

عطاء جس نے کی ہم کو عقل و تمیز

کہ چلتے ہیں کُل جس سے کارِ جہاں

دیئے ہیں ہمیں جس نے ہوش و حواس

ہمیں جس نے تعلیم کی بولیاں

ہمیں جس نے سننے کو بخشے ہیں کان

تکلّم کو بخشی ہے جس نے زبان

عطا جس نے کی ہے ہمیں آنکھ ناک

ہمیں جس نے بخشی ہے تاب و توان

دیئے ہیں ہمیں جس نے یہ دست و پا

کہ جن کی اعانت سے ہیں کامراں

ہمارا مصائب میں ہے دستگیر

وہ ہے حافظ و ناصرِ بندگان

نہیں اُس کے افضال کا کچھ شمار

اُسی کا ہے سب کچھ نہاں اور عیاں

اور پھر کتاب کے آخر پر نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

تمہارا عجب حال ہے دوستو

کہ ہو دوستوں ہی پہ تم بدگماں

تمہیں ایک نسخہ بتاتا ہوں مَیں

نہ اس کو کرو تم اگر رائیگاں

یہی سو دواؤں کی ہے اِک دوا

کہ حق سے ڈرو آشکار و نہاں

کرو اپنی آپس میں تم اتفاق

یہی ہے ترقی کی اِک نردباں

مدارج اسی سے ملیں گے تمہیں

سرافراز ہوگے یہاں اور وہاں

یہی عاقبت کی ہے گویا بہشت

یہی اہلِ دنیا کا ہے بوستاں

فقط مَیں تو ناقل ہوں اے دوستو

وگرنہ یہ ہے قولِ صاحب دلاں

فقط خیرخواہی سے کی ہے یہ عرض

غرض کوئی بھی یہاں نہیں درمیاں

یہ ناصرؔ ہے سب بھائیوں کا غلام

یہ عاجز تو ہے چاکرِ چاکران

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button