الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
مکرم محمد اسلم ناصر صاحب
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 12؍دسمبر 2013ء میں شائع ہونے والے مکرم عزیز احمد طاہر صاحب کے ایک مختصر مضمون میں مکرم ماسٹر محمد اسلم ناصر صاحب کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ خاکسار 1999ء کے اواخر میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 35 سال کی ملازمت کے بعد ریٹائر ہوکر محلہ ناصر آباد شرقی ربوہ میں پہلے سے تعمیر شدہ مکان میں رہائش کی غرض سے آگیا تو مقامی مسجد میں جن دوستوں سے ملاقات ہوئی ان میں ایک ریٹائرڈ ہیڈماسٹر مکرم محمد اسلم ناصر صاحب بھی تھے۔ آپ پہلے تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر بطور ہیڈ ماسٹر آپ کی تعیناتی ربوہ سے باہر ہوئی۔ آپ ان واقعات کا ذکر کرتے کہ احمدیت کی مخالفت میں بعض اساتذہ نے کس طرح ان کو پریشان کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر آپ کے خلاف سازش کرنے والوں کو ناکام و نامراد کیا اور آپ نے باعزت طور پر مدّتِ ملازمت پوری کی۔
مکرم محمد اسلم ناصر صاحب کئی عوارض میں مبتلا تھے۔ ایک بیماری کا آپ خاص طور پر ذکر کرتے تھے۔ آپ کی گردن پر اعصابی تکلیف کا شدید حملہ ہوا تھا۔ غالباً اس کا سبب بائیں کان کا آپریشن تھا جس کے نتیجے میں آپ کی قوت سماعت بھی کسی حد تک متاثر ہوئی۔ پاکستان کے چوٹی کے ڈاکٹروں سے علاج کروانے کے باوجود جب گردن کی اعصابی تکلیف دُور نہ ہوئی اور نااُمیدی کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ تو ایک روز آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی بیماری کا ذکر کیا۔ حضورؒ کے استفسار پر علاج کی مکمل تفصیل بتائی۔ حضور انورؒ نے اسی وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کروائی اور دعا کے بعد تسلی دی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے گا۔ حضور انورؒ نے آپ کی گردن پر اپنا ہاتھ بھی پھیرا اور دعائیں دیں۔
آپ نے ہمیں بتایا کہ اس روز کے بعد بیماری کی شدت کم ہونا شروع ہوگئی اور چند ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکمل شفا عطا فرمادی۔ آپ اکثر کہتے کہ مجھے شفا حضور انور کی دعا اور برکت سے حاصل ہوئی ہے ورنہ ڈاکٹروں نے تو جواب دے دیا تھا۔
مجھے مکرم محمد اسلم ناصر صاحب کو پڑھانے کی توفیق بھی ملی تھی۔ چنانچہ آپ جب بھی مجھ سے مخاطب ہوتے تو سر جی کہتے۔ گویا چھتیس سال گزرنے کے بعد بھی آپ استاد اور شاگرد کے رشتہ کو قائم رکھے ہوئے تھے۔ پھر آپ کے لہجے میں بے حد انکساری اور تابعداری ہوتی۔ مسجد میں اگر آپ کرسی پر ادائیگی نماز کی غرض سے بیٹھے ہوتے تو جب میں مسجد میں داخل ہوتا اور کوئی کرسی اگر خالی نہ ہوتی تو آپ فوراً اپنی کرسی میرے لیے خالی کردیتے۔ راستے میں جب بھی مَیں کوئی بات کرتا تو بڑی توجہ سے سنتے۔ محلّے کی دکان پر جب کوئی چیز خریدنے کے لیے مَیں جاتا اور دکان میں آپ پہلے سے موجود ہوتے تو ایک طرف ہٹ جاتے تاکہ مَیں پہلے خریداری کرلوں۔ میری بیوی اگر کبھی آپ کی بیٹی سے جماعتی کام کے سلسلہ میں بات کرنے کے لیے ٹیلی فون کرتی اور آپ ٹیلی فون اٹھالیتے تو بیٹی کو بلانے سے پہلے پوچھتے کہ میرے سر جی کا کیا حال ہے، انہیں میرا سلام کہیں۔
آپ کے ساتھ رفاقت کا زمانہ کم و بیش گیارہ سال رہا۔ آپ بیماری میں بھی نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ جب بھی نماز کے لیے گھر سے چلتے تو بیماری کے باعث نہایت آہستہ آہستہ چلتے لیکن اس کے باوجود وقت پر مسجد میں پہنچ جاتے۔ آپ نہایت دھیمے مزاج کے تھے۔ میں نے آپ کو کبھی ناراض یا غصے کی حالت میں نہیں دیکھا۔ بےحد ملنسار، مہمان نواز اور ہر ایک کے ساتھ محبت کرنے والے انسان تھے۔ اپنے عزیزو اقارب کے ساتھ آپ کا سلوک مثالی تھا۔ آپ کے متعدد رشتہ داروں نے ربوہ میں آپ کے پاس رہ کر اپنی تعلیم مکمل کی۔ آپ کی چال بڑی باوقار اور شخصیت جاذب نظر تھی۔ آواز اگرچہ بارعب تھی لیکن اس میں محبت اور شفقت پائی جاتی تھی۔ حقیقت میں آپ ایک نیک دل، فرشتہ سیرت، حلیم، وسیع القلب اور رحم دل دوست تھے۔
جب ہم مسجد سے گھر آرہے ہوتے تو آپ اکثر راستے میں خلافت کی برکات کا ذکر کرتے۔ اپنی بیماریوں کے کئی جان لیوا حملوں میں خلیفۂ وقت کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحت عطا ہونے کا ذکر کرتے۔ سلسلہ احمدیہ سے آپؑ کو غیرمعمولی عقیدت اور محبت تھی۔
………٭………٭………٭………
مکرم محمد احمد فیض صاحب معلم وقف جدید
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ یکم اپریل 2013ء میں شامل اشاعت ایک مضمون میں مکرم محمد احمد فیض صاحب معلم وقف جدید کا ذکر خیر شامل ہے۔
مکرم محمد احمد فیض صاحب 31 دسمبر1937ء کو رجوعہ ضلع منڈی بہا ؤ الدین میں پیدا ہوئے۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی میں پرائیو یٹ ملازمت کررہے تھے کہ اپنے والد صاحب کی تحریک پر ملازمت چھوڑ کر 1961ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں زندگی وقف کی درخواست دے دی۔ جنو ری 1962ء میں آپ وقف جدید سے ایک ماہ کی کلاس کے بعد فارغ التحصیل ہوئے اور آپ کی تقرری ہڈیارہ ضلع لاہور میں بطور معلّم ہوئی۔
ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران جنگی قیدی بنالیے گئے۔ چند ماہ ہندوستان کی قیدمیں رہے۔ اِ ن مشکل حا لا ت میں بھی آپ نماز باجماعت ادا کرتے رہے اور دعوت الی اللہ میں مصروف رہے۔ نومبر 1967ء میں آپ کو علاقہ نگرپارکر میں امیر المعلمین مقرر کیا گیا جہا ں آپ نے لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی۔
1995ء میں آپ کی تقرری نبی سر روڈ ضلع عمر کوٹ میں ہوئی۔ اس وقت خاکسار میٹرک کاطا لبعلم تھا۔ خاکسار آپ کی شخصیت سے بے حد متاثر تھا۔ آپ نیک، بڑی اچھی اور پُروقار شخصیت کے مالک، نہا یت دعاگو، ملنسار اور مہمان نواز ہونے کے ساتھ بڑی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ خاکسار کو آپ کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا بہت موقع ملتا رہا اور خاکسار نے قریب رہ کر آپ کی بے شمار خوبیوں کا مشاہدہ کیا۔ آپ احباب جماعت اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ احساس ذمہ داری بہت بڑھ کر تھا۔ بچوں کو دینی تعلیم دینے کے ساتھ دنیوی تعلیم میں بھی راہنمائی فرماتے۔
ایک بات جو آپ میں نمایاں تھی وہ وقت کی پابندی تھی۔ اگر کبھی کسی پروگرام کے لیے کہیں جانا ہوتا تھا تو ایک دِن پہلے ہی اس کی تیاری مکمل کرلیا کرتے تھے۔ قریب کی جماعتوں میں سائیکل پر دورہ کیا کرتے تھے۔ اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے بڑی محنت کیاکرتے تھے۔ آپ کی رہائش مسجد کے ایک چھوٹے سے کمرے میں تھی۔ خاکسار کو جب بھی آپ کے کمرے میں جانے کا اتفاق ہوا تو دو میں سے ایک کام میں آپ کو مصروف دیکھا یا تو آپ مطالعہ کررہے ہوتے یا عوام الناس کی خدمت کے لیے دوائیں بنا رہے ہوتے۔ کمرے کی صفائی کابہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے۔ خلافت سے بے حد محبت اور عشق تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائےکرام کی تصاویر کا فریم خود اپنے ہاتھوں سے بنا کر لگایا ہوا تھا۔
آپ کا اردو رسم الخط بہت خوبصورت اور دلکش تھا۔ بچے اور بڑے شوق کے ساتھ اپنی کتابوں کاپیوں پر آپ سے اپنا نام لکھوایا کرتے تھے اور آپ بھی بڑی محبت کے ساتھ بچوں کی یہ خواہش پوری کر دیتے۔ آپ کا یہ مشفقانہ طریق احباب جماعت اور بچوں کو مزید قریب لانے کاباعث بنتا۔ آپ کی بےلَوث خدمت اور شفقت کو دیکھتے ہوئے خاکسار بھی سوچا کرتا تھا کہ زندگی کا مقصد یہی ہے کہ اِنسان خانۂ خدا کو آباد کرے اور دین کی خاطر زندگی گزاردے۔ مَیں نے آپ سے جب اس خواہش کااظہار کیا کہ میں بھی آپ کی طرح اپنی زندگی خدا کی راہ میں وقف کرنا چاہتا ہوں تو آپ نے بڑی محبت اورخوش دِلی کے ساتھ دعائیں دیتے ہوئے خاکسار کی درخواست لکھی اور دفتر کو بھجوائی اور پھر گاہے بگاہے خاکسار کو وقف کی برکتوں اور فیلڈ میں کام کرنے کے بارہ میں بتاتے رہتے۔ آپ کی محنت اور محبت بھری دعائوں کے نتیجے میں آج خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خاکسار بھی بطور معلّم وقف جدید خدمت دین کی توفیق پارہا ہے۔
دسمبر2003ء میں خاکسار کا تبادلہ پنجاب سے علاقہ نگرپارکر میں ہوگیا اور تب سے یہاں کے مختلف مراکز میں خدمت کی توفیق عطا ہورہی ہے۔ اس وقت طاہرنگر کے مرکز میں متعیّن ہوں جہاں کی مخلص جماعت میں کسی دَور میں مکرم محمد احمد فیض صاحب بھی خدمت کی توفیق پاچکے ہیں۔ خاکسار اپنے حلقے کے دُوردراز مقامات پر قائم مختلف جماعتوں میں جب جاتا ہےتو اکثر مقامات پر لوگ مرحوم فیض صاحب کا نہایت محبت سے ذکر کرتے ہیں اور بعض اُن کے ذاتی احسانات گنواتے ہوئے جذباتی ہوجاتے ہیں۔ طاہرنگر مرکز سے قریباً 6کلومیٹر کے فاصلے پر رہنے والے ایک شخص نے آب دیدہ ہوکر مجھے بتایا کہ فیض صاحب عمررسیدہ ہونے کے باوجود کبھی پیدل، کبھی اونٹ پر اور کبھی گھوڑے پردُور دراز تک تبلیغ اور لوگوں کی بڑی خدمت کیا کرتے تھے۔ بھگوان نے اُن کے ہاتھ میں بڑی شفا رکھی تھی اوروہ اپنے نام کی طرح بلاشبہ فیض رساں وجود تھے۔
ایسے واقعات کے سامنے آنے کے بعد میرے لیے اس علاقہ میں خدمت کا میدان اور بھی زیادہ وسیع اور آسان ہوتا گیا کیونکہ اُستادِ محترم کی یادیں، اُن کے کام کرنے کا طریق اور اُن کی وہ محبت جو صحرائے تھر میں بسنے والے سینکڑوں لوگوں کے دِلوں میں دھڑک رہی تھی مجھے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے مشعل راہ کاکام دیتی رہی۔
ہندو آبادی سے گہرا تعلق ہونے کی وجہ سے ہندو مذہب کا آپ کافی علم رکھتے تھے۔ ہندو ؤں کی کتب کا بڑی محنت اور گہری نظر سے مطالعہ بھی کیا تھا اور اصل کتب کے حوالے محفوظ کیے تھے۔ تھر کے ان تپتے صحراؤں میں آپ نے قریہ قریہ پھر کرخداتعالیٰ کی توحید اور احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ دکھی اور سسکتی ہوئی انسانیت کی خدمت کی۔ اُن کے روحانی علاج کے ساتھ ساتھ اُن کی جسمانی بیماریوں کو دُور کرنے میں بھی ہمہ وقت مصروف رہے۔
………٭………٭………٭………
لگڑبگڑ (Hyena)
ماہنامہ’’تشحیذالاذہان‘‘ربوہ اکتوبر 2012ء میں عزیزم مستبشر احمد کے قلم سے ایک شاطر اور چالاک جانور لگڑبگڑ کے بارے میں ایک مختصر معلوماتی مضمون شامل ہے۔ یہ جانور افریقہ میں پایا جاتا ہے لیکن ایشیا میں بھی کم تعداد میں ملتا ہے۔ اس کی شکل و شباہت کتوں جیسی ہوتی ہے اور جسامت بھیڑیے کی طرح۔ ان کی اگلی ٹانگیں لمبی اور پچھلی قدرے چھوٹی ہوتی ہیں۔ گردن موٹی اور چھوٹی ہوتی ہے۔ اکثر اقسام میں جِلد پر دھاریاں اور دھبے ہوتے ہیں۔ یہ کھانا بہت جلد کھاتا ہے اور اسے محفوظ بھی کرتا ہے۔ اکثر مُردہ جانور کھاتا ہے لیکن اپنا شکار خود بھی کرتا ہے اور کبھی شیروں سے چھین کر بھی کھاجاتا ہے۔ اگر شیر یا کتا اس پر حملہ کردے تو اس کی اکثر اقسام اپنے آپ کو مُردے کے طورپر پیش کرتی ہیں لیکن دھاری دار لگڑبگڑ اپنا دفاع کرتا ہے۔ یہ قسم دوسروں کی نسبت زیادہ شور مچاتی ہے۔
لگڑبگڑ کا شمار خطرناک جانوروں میں ہوتا ہے۔ یہ عموماً رات کے وقت مستعد ہوتا ہے لیکن گروہ کی صورت میں رہنا پسند نہیں کرتا۔ بلّی کی طرح اپنے بچوں سے پیار کرتا ہے۔ اس کی ایک قسم جو کئی ملین سال پہلے پائی جاتی تھی اُس کا وزن دو سو کلوگرام تک ہوتا تھا۔ آج کل بعض لوگ لگڑبگڑ کا گوشت کھاتے ہیں اور بعض ادویات میں بھی اس کا گوشت استعمال ہوتا ہے۔ دھاری دار لگڑبگڑ کو مشرقی وسطیٰ میں بے وقوفی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کا ذکر بائبل میں بھی ملتا ہے۔
………٭………٭………٭………