خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍جون2021ء
اللہ کی قسم !حضرت عمرؓ نے جو کچھ کہا اس کو پورا کر دیا۔ سختی کرنے کے مواقع پر سختی میں اور نرمی کے مواقع پر نرمی میں بڑھ گئے اور وہ لوگوں کے بال بچوں کے باپ بن گئے
’’حضرت عمرؓ کو دیکھ لو ان کے رعب اور دبدبہ سے ایک طرف دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ کانپتے تھے۔ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں تک لرزہ براندام رہتی تھیں مگر دوسری طرف اندھیری رات میں ایک بدوی عورت کے بچوں کو بھوکا دیکھ کر عمرؓ جیسا عظیم المرتبت انسان تلملا اٹھا اور وہ اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری لاد کر اور گھی کا ڈبہ اپنے ہاتھ میں اٹھا کر ان کے پاس پہنچا اور اس وقت تک واپس نہیں لوٹا جب تک کہ اس نے اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر ان بچوں کو نہ کھلا لیا اور وہ اطمینان سے سو نہ گئے۔‘‘
(حضرت مصلح موعودؓ)
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
چار مرحومین: مکرم عبدالوحید وڑائچ صاحب صدر جماعت والڈز ہوٹ (Waldshut) جرمنی، حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی پڑنواسی محترمہ امة النورصاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبدالمالک شمیم صاحب واشنگٹن امریکہ، مکرمہ بسم اللہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ناصر احمد خان صاحب بہادر شیر مرحوم (افسر حفاظت خاص ربوہ)، مکرم کرنل جاوید رشدی صاحب آف راولپنڈی کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍جون2021ء بمطابق 25؍احسان1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا تھا۔ اس ضمن میں آج مزید بیان کروں گا۔ زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ان کے والد نے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ حضرت عمربن خطابؓ کے ساتھ حَرَّہْ وَاقِمْکی طرف گیا۔یہ دو حَرّوں کے درمیان جگہ ہے۔ حَرّہ سیاہ پتھریلی زمین کو کہتے ہیں۔ مدینہ کے مشرق کی جانب حَرَّہْ وَاقِمْ ہے جس کو حرّہ بنو قریظہ بھی کہتے ہیں۔ دوسرا حَرَّۃُ الْوَبُرَہ ہے جو مدینہ کے مغرب میں تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ بہرحال کہتے ہیں مَیں وہاں گیا۔ جب ہم صِرار مقام پر پہنچے تو ایک جگہ ایک آگ روشن تھی۔ صِرار بھی مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے اسلم! میرا خیال ہے کہ یہ کوئی مسافر ہیں جن کو رات اور سردی نے روک رکھا ہے۔ ہمارے ساتھ آؤ۔ چنانچہ ہم تیز تیز چلتے ہوئے ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت کے ساتھ اس کے کچھ بچے ہیں اور ایک ہنڈیا آگ پر چڑھی ہوئی ہے۔ اس کے بچے بھوک کی وجہ سے بِلک بِلک کر رو رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا۔ السلام علیکم اے روشنی والو!۔ آپؓ نے آگ والے کہنا پسند نہ کیا بلکہ روشنی والےکہا۔ اس خاتون نے وعلیکم السلام کہا۔ آپؓ نے فرمایا :کیا میں قریب آ سکتا ہوں؟ اس عورت نے کہا: خیر سے آؤ ورنہ واپس لوٹ جاؤ۔ مطلب کوئی خیر کی بات کرنی ہے تو آؤ ورنہ واپس لوٹ جاؤ۔ آپ قریب ہو گئے۔ پھر آپؓ نے فرمایا تم لوگوں کو کیا ہوا؟ تواس عورت نے کہا رات اور سردی نے ہمیں یہاں روک لیا ہے۔ آپؓ نے کہا ان بچوں کا کیا معاملہ ہے، یہ کیوں بلک رہے ہیں؟ اس عورت نے کہا بھوک کی وجہ سے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اس ہنڈیا میں کیا چیز ہے؟ اس عورت نے کہا کہ اس کے اندر صرف پانی ہے اور اس کے ذریعہ میں بچوں کو دلاسا دے رہی ہوں یہاں تک کہ وہ سو جائیں۔ اللہ ہمارے اور عمرؓ ، حضرت عمرؓ کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ آپؓ نے فرمایا : اے خاتون! اللہ تم پر رحم کرے، عمرؓ کو تمہاری حالت کیسے معلوم ہو سکتی ہے! اس نے کہا یعنی اس عورت نے کہا کہ وہ ہمارے امور کے نگران ہیں اور ہم سے غافل ہیں۔ اسلم جو حضرت عمرؓ کے ساتھ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر آپؓ یعنی حضرت عمرؓ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا ہمارے ساتھ چلو۔ پھر ہم نہایت تیزی سے چلتے ہوئے دَارُالدَّقِیْق آئے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے عہد میں دَارُالدَّقِیْق نام سے ایک عمارت بنوائی تھی جس میں آٹا، ستو، کھجور، کشمش اور دیگر ضروریاتِ سفر جن کی ایک مسافر کو ضرورت ہو سکتی ہے میسر ہوتی تھیں۔ آپؓ نے مدینہ اور مکہ کے درمیانی راستوں پر مسافروں کے لیے کچھ سرائے خانے بھی بنوائے ہوئے تھے۔ بہرحال پھر آپؓ نے وہاں سے ایک بورا اناج کا نکالا اور چکنائی کا ڈبہ آپؓ نے لیا ۔ آپؓ نے فرمایا: اسے مجھے اٹھوا دو۔ اسلم کہتے ہیں: میں نے کہا کہ آپؓ کی جگہ مَیں اٹھا لیتا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے دو یا تین مرتبہ فرمایا کہ مجھے یہ اٹھوا دو۔ میں نے ہردفعہ عرض کیا کہ آپؓ کی جگہ مَیں اسے اٹھا لیتا ہوں۔ آخر حضرت عمرؓ نے فرمایا: تیرا بھلا ہو !کیا قیامت کے دن میرا بوجھ تم اٹھاؤ گے؟ اس پر میں نے وہ بورا آپؓ پر لاد دیا۔ پھر آپؓ اس بورے کو اپنی کمر پر لاد کر تیز قدموں سے چلے اور مَیں بھی تیزی سے آپؓ کے ساتھ چلا یہاں تک کہ ہم اس عورت کے پاس پہنچ گئے۔ آپؓ نے وہ بوری اس کے پاس اتاری اور اس میں سے کچھ آٹا نکالا اور اس خاتون سے کہا کہ اسے ہنڈیا میں آہستہ آہستہ ڈالو اور میں اسے تمہارے لیے ہلاتا ہوں۔ دوسری جگہ لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم آہستہ آہستہ آٹا ڈالو۔ میں تمہارے لیے حریرہ تیار کرتا ہوں۔ پھر آپؓ ہنڈیا کے نیچے آگ سلگانے کے لیے پھونک مارنے لگے۔ اسلم یعنی روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ آپؓ (حضرت عمرؓ )بڑی اور گھنی داڑھی والے تھے۔ میں نے دیکھا کہ دھواں آپؓ کی داڑھی کے اندر سے نکل رہا ہے۔ یعنی دھواں اٹھتا تھا تو ان کے چہرے پر بھی پڑتا تھا، داڑھی کے اندر سےبھی گزر جاتا تھا۔ جب ہنڈیا پک گئی تو آپؓ نے ہنڈیا کو نیچے اتارا۔ آپؓ نے فرمایا کوئی برتن لاؤ۔ وہ عورت بڑی پلیٹ لائی۔ آپؓ نے اس میں کھانا ڈالا اور کہنے لگے تم ان بچوں کو کھلاؤ۔ میں تمہارے لیے پھیلاتا ہوں تاکہ ٹھنڈا ہو جائے، یعنی اس کو مزید پھیلا کے دوسری جگہ، دوسرے برتن میں ٹھنڈا کرتا ہوں۔ پھر آپؓ مسلسل ایسا کرتے رہے یہاں تک کہ ان بچوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا اور جو بچ گیا وہ آپؓ نے اس کے پاس چھوڑ دیا ۔ اسلم کہتے ہیں: پھر آپؓ کھڑے ہوئے اور میں بھی آپؓ کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ اس پر وہ عورت کہنے لگی اللہ تعالیٰ آپؓ کو بہترین جزا دے۔ تم اس امر میں امیر المومنین سے زیادہ حقدار ہو یعنی جزا کے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا بھلائی کی بات کہو۔ جب تم امیر المومنین کے پاس جاؤ گی تو تم انشاء اللہ مجھے وہاں پاؤ گی۔ بہرحال وہ کہتے ہیں پھر حضرت عمرؓ وہاں سے ایک طرف ہٹ گئے۔ پھر اس خاتون کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے۔ میں نے آپؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا اس کے علاوہ اَور بھی کوئی کام ہے۔ آپؓ نے مجھ سے کوئی بات نہ کی یہاں تک کہ میں نے بچوں کو دیکھا کہ وہ ایک دوسرے سے کھیل رہے تھے اور ہنس رہے تھے اور تمام بچے پُرسکون ہو کر سو گئے تو حضرت عمرؓ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کھڑے ہوئے اور میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ اے اسلم! بھوک کی وجہ سے یہ بچے جاگ رہے تھے اور رو رہے تھے۔ میں نے پسند کیا کہ میں یہاں سے اس وقت تک نہ جاؤں جب تک کہ میں ان کی اس آرام کی حالت کو نہ دیکھ لوں جو میں نے ابھی دیکھی ہے۔
(تاریخ الطبری لا بن جریر جلد2 صفحہ567-568 سنۃ23 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ172،102،101زوار اکیڈمی پبلی کیشنز اردو بازار کراچی 2003ء)
(سیدنا عمر بن خطاب شخصیت اور کارنامے صفحہ 442مکتبہ الفرقان ٹرسٹ، خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان)
(لسان العرب زیر مادہ ’’حر‘‘)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ انسانی ضروریات کا ان لوگوں کے لیے مہیا کرنا جو ان کو یعنی ان ضروریات کو مہیا نہیں کر سکتے اسلامی حکومت کا فرض ہے۔ اسلامی حکومت کی ذمہ داری بتا رہے ہیں۔ اس کے متعلق حضرت عمرؓ کا ایک واقعہ نہایت ہی مؤثر اور کاشف ِحقیقت ہے۔ یعنی حقیقت کو کھولنے والا ہے۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ خلیفۂ ثانی باہر تجسّس کر رہے تھے کہ کسی مسلمان کو کوئی تکلیف تو نہیں۔ مدینہ، دارالخلافہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں مرار نامی ہے۔ ہمارے تحقیق کرنے والے کہتے ہیں کہ شاید مرار نہیں بلکہ صِرار ہی اس کا نام ہے۔ ہو سکتا ہے کاتب کی غلطی کی وجہ سے مرار لکھا گیا ہو۔ بہرحال وہاں آپؓ نے دیکھا کہ ایک طرف سے رونے کی آواز آ رہی ہے۔ ادھر گئے تو دیکھا ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور دو تین بچے رو رہے ہیں۔ اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ اس نے کہا کہ دو تین وقت کا فاقہ ہے۔ کھانے کو کچھ پاس نہیں۔ بچے بہت بےتاب ہوئے تو خالی ہنڈیا چڑھا دی تا کہ بہل جائیں اور سو جائیں۔ حضرت عمرؓ یہ بات سن کر فوراًمدینہ کی طرف واپس ہوئے۔ آٹا، گھی، گوشت اور کھجوریں لیں اور ایک بوری میں ڈال کر اپنے خادم سے کہا کہ میری پیٹھ پر رکھ دے۔ اس نے کہا حضور میں موجود ہوں میں اٹھا لیتا ہوں۔ آپؓ نے جواب دیا: بےشک تم اِس وقت اٹھا کر لے چلو گے مگر قیامت کے دن میرا بوجھ کون اٹھائے گا! یعنی ان کی روزی کا خیال رکھنا میرا فرض تھا اور اس فرض میں مجھ سے کوتاہی ہوئی ہے۔ اس لیے اس کا کفّارہ یہی ہے کہ میں خود اٹھا کر یہ اسباب لے جاؤں ا ور ان کے گھر پہنچاؤں۔ حضرت مصلح موعود ؓلکھتے ہیں اس واقعہ سے کوئی یہ مطلب نہ نکال لے کہ ضرورت مندوں کو جو وظائف دیے جاتے ہیں یہ سستی پیدا کرنے کے لیے ہیں بلکہ ہر ضرورتمند کو وظیفہ دینا ہے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ اسلام جہاں غریبوں کی خبرگیری کا حکم دیتا ہے وہاں جیسا کہ پہلے اس ضمن میں بیان ہوا ہے کہ سستی اور کاہلی کو بھی مٹاتا ہے۔ وظائف اس لیے نہیں دیے جاتے کہ سستی اور کاہلی پیدا ہو۔ ان وظائف کی یہ غرض نہ تھی کہ لوگ کام چھوڑ کر بیٹھیں بلکہ صرف مجبوروں کو یہ وظائف دیے جاتے تھے ورنہ سوال سے لوگوں کو روکا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ مانگنے والوں کو مانگنے سے روکنے کے لیے بھی بہت سخت اقدام کیا کرتے تھے۔ یہی نہیں کہ صرف بھوکا دیکھ لیا تو کھانا کھلا دیا، کوئی مانگنے آیا تو اس کو دے دیا بلکہ مانگنے والا اگر صحت مند ہے تو آپؓ بڑا سخت قدم اٹھایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ایک سائل کو دیکھا اس کی جھولی آٹے سے بھری ہوئی تھی۔ آٹا اس کی جھولی میں پڑا ہوا تھا اور وہ مانگ رہا تھا۔ آپؓ نے اس سے آٹا لے کر اونٹوں کے آگے ڈال دیا اور اس کی جھولی خالی کر دی اور فرمایا کہ اب مانگ۔ اسی طرح یہ ثابت ہے کہ سوالیوں کو کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
(ماخوذ از احمدیت یعنی حقیقی اسلام ۔ انوار العلوم جلد 8 صفحہ 296-297 )
یعنی تم اچھے بھلے انسان ہو۔ تمہارا مانگنے سے کیا کام ہے۔ محنت کرو، کماؤ اور کھاؤ اور یہ سبق دیا کہ دوبارہ مانگو گے تو دوبارہ تمہارے سے یہی سلوک ہو گا کہ تمہارے سے چھین کے جانوروں کے آگے ڈال دیا جائے گا۔ اکثر مانگنے والے یہ ایک مثال دے کر اس پر زور دیتے ہیں کہ دیکھو حضرت عمرؓ کس طرح خیال رکھتے تھے لیکن مانگنے سے جس سختی سے اسلام نے روکا ہے اس کو نہیں دیکھتے اور اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی ہے اور حضرت عمرؓ نے بھی پھر اس کو جاری کیا، اس کو نہیں دیکھتے۔
پھر اس واقعہ کو ایک اَور جگہ بیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے یوں بیان فرمایا کہ ’’حضرت عمرؓ کو دیکھ لو۔ اُن کے رعب اور دبدبہ سے ایک طرف دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ کانپتے تھے۔ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں تک لرزہ براندام رہتی تھیں مگر دوسری طرف اندھیری رات میں ایک بدوی عورت کے بچوں کو بھوکا دیکھ کر عمرؓ جیسا عظیم المرتبت انسان تلملا اٹھا اور اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری لاد کر اور گھی کا ڈبہ اپنے ہاتھ میں اٹھا کر ان کے پاس پہنچا اور اس وقت تک واپس نہیں لوٹا جب تک کہ اس نے اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر ان بچوں کو نہ کھلا لیا اور وہ اطمینان سے سو نہ گئے۔‘‘
(سیر روحانی (6) ۔انوار العلوم جلد 22 صفحہ 596)
پھر حضرت عمرؓ کے یہی آزاد کردہ غلام اسلم، جن کا پہلے بھی ذکر ہوا ہے، یہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں تاجروں کا ایک قافلہ آیا اور ان لوگوں نے عید گاہ میں قیام کیا۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے فرمایا کیا تم پسند کرتے ہو کہ ہم رات کے وقت ان کا پہرہ دیں؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ چنانچہ آپؓ دونوں ساری رات ان کی حفاظت کرتے رہے اور عبادت کرتے رہے۔ حضرت عمرؓ نے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی تو آپؓ اس طرف گئے اور اس کی ماں سے کہا اللہ تعالیٰ کا خوف کرو اور اپنے بچے کا اچھی طرح خیال رکھو۔ یہ کہہ کر آپؓ واپس تشریف لے آئے یعنی واپس اس جگہ تشریف لے آئے جہاں آپؓ سامان کی حفاظت کے لیے بیٹھے ہوئے تھے کہ پھر آپ نے اس کے رونے کی آواز سنی۔ آپؓ دوبارہ اس کی ماں کی طرف گئے اور اس کو پھر پہلی بات کی طرح کہا اور اپنی جگہ واپس تشریف لے آئے۔ جب رات کا آخری وقت ہوا اور بچے کے رونے کی آواز سنی تو آپ اس کی ماں کے پاس تشریف لائے اور فرمایا تیرا بھلا ہو تو بہت لاپروا ماں ہے۔ مجھے کیا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ ساری رات رونے کی وجہ سے تمہارا بچہ بے چین رہا۔ اس عورت نے کہا کہ اے اللہ کے بندے! میں اس کو دودھ کے علاوہ دوسری خوراک کی طرف مائل کر رہی ہوں لیکن وہ بچہ انکار کر دیتا ہے ۔ کہتا ہے کہ مجھے دودھ ہی دو۔ آپؓ نے پوچھا وہ کیوں ؟ اس عورت نے کہا کیونکہ حضرت عمرؓ ان ہی بچوں کا وظیفہ مقرر کرتے ہیں جن کا دودھ چھڑا دیا گیا ہو۔ آپؓ نے پوچھا تمہارے اس بچے کی عمر کتنی ہے؟ اس عورت نے کہا اتنے (سال) اور اتنے ماہ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا تیرا بھلا ہو۔ دودھ چھڑانے میں اتنی جلدی نہ کر۔ پھر جب آپؓ نے لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی تو آپؓ کے رونے کی وجہ سے قراءت لوگوں پر واضح نہیں ہو رہی تھی۔ حضرت عمرؓ نے اپنے آپ سے کہا، عمرکا بُرا ہو اس نے کتنے ہی مسلمانوں کے بچوں کا خون کر دیا ہے۔ پھر آپؓ نے منادی کرنے والے کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا کہ اپنے بچوں کو دودھ چھڑوانے میں جلدی نہ کرو۔ اسلام میں جو بھی بچہ ہے یعنی اب ہر پیدا ہونے والے بچے کا ہم وظیفہ مقرر کرتے ہیں اور حضرت عمرؓ نے سارے ممالک میں یہ حکم بھجوا دیا۔
(البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر جلد 10 صفحہ 185 – 186 مطبوعہ دار ھجر 1998ء)
اس واقعہ کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے انداز میں بیان فرمایا ہے کہ ’’حضرت عمرؓ نے شروع شروع میں دودھ پیتے بچوں کے لئے کوئی وظیفہ مقرر نہیں کیا تھا لیکن بعد میں دودھ پیتے بچوں کا حق تسلیم کر لیا اور حکم دیا کہ ان کا حصہ ان کی ماؤں کو دیا جائے۔ پہلے حضرت عمرؓ یہ سمجھتے تھے کہ جب تک بچہ دودھ پیتا ہے وہ قوم کے وجود میں حصہ نہیں لیتا۔ اس کی ذمہ داری اس کی ماں پر ہے پبلک پرنہیں‘‘ ہے کہ بیت المال سے اس کا خرچ دیا جائے ’’لیکن ایک دفعہ حضرت عمرؓ سیر کے لئے باہر تشریف لے گئے۔ شہر سے باہر ایک قافلہ بدویوں کا اترا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ایک خیمہ سے بچے کے رونے کی آواز سنی۔ بچہ چیخ رہا تھا اور ماں تھپک تھپک کر سلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جب کچھ مدت تک تھپکی دینے کے باوجود بچہ چپ نہ ہوا تو ماں نے بچے کو تھپڑ مار کر کہا۔ رؤ عمرؓ کی جان کو۔ حضرت عمرؓ حیران ہوئے کہ اس بات سے میراکیا تعلق ہے؟ حضرت عمرؓ نے اس عورت سے خیمہ میں داخل ہونے کی اجازت لی اور اندر جا کر اس عورت سے پوچھا بی بی! کیا بات ہے؟ چونکہ وہ حضرت عمرؓ کو پہچانتی نہ تھی اس لئے کہنے لگی بات کیا ہے؟ عمرؓ نے سب کے گزارے مقرر کئے ہیں لیکن اس کو یہ معلوم نہیں کہ دودھ پیتے بچوں کے لئے بھی غذا کی ضرورت ہے۔ اب میرے پاس دودھ پورا نہیں اور میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے تا اس کا وظیفہ مقرر ہو جائے۔ حضرت عمرؓ اسی وقت واپس آئے اور آپؓ نے خزانے سے آٹے کی بوری نکلوائی اور خود اٹھا کر چلنے لگے۔ وہ آدمی جو خزانہ پر مقرر تھے وہ آگے بڑھے کہ ہم اٹھا کر لے چلتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے ان سے کہا تم چھوڑ دو میں خود اٹھا کر لے جاؤں گا۔ قیامت کے دن جب مجھے کوڑے لگیں گے تو کیا میری جگہ تم جواب دو گے؟ پتہ نہیں کہ اس طرح میرے ذریعہ کتنے بچے مر گئے ہیں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے یہ حکم دیا کہ دودھ پیتے بچوں کا بھی وظیفہ مقرر کیا جائے۔‘‘
(خطبات محمود جلد27 صفحہ353)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’حدیث میں عَمَّار بن خُزَیْمَہ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے میرے باپ کو فرمایا کہ تجھے کس چیز نے اپنی زمین میں درخت لگانے سے منع کیا ہے؟‘‘ (وہ آگے مزید درخت نہیں لگا رہا تھا، اپنے باغ کو بڑھا نہیں رہا تھا یا جو خراب پودے تھے ان کی جگہ نئے پودے نہیں لگا رہا تھا ۔) تو میرے باپ نے جواب دیاکہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔ کل مرجاؤں گا۔ (مجھے کیا فائدہ اس کا؟) پس اس کو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تجھ پر ضرور ہے کہ درخت لگائے۔ (یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ لازمی طور پر تم نے یہ درخت لگانے ہیں)۔ کہتے ہیں ’’پھر میں نے حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ خود میرے باپ کے ساتھ مل کر ہماری زمین میں درخت لگاتے تھے‘‘۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ92)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ واقعہ سُستی اور کسل مندی سے بچنے کے ضمن میں بھی بیان فرمایا ہے اور یہ بھی کہ پچھلی نسل کے لگائے ہوئے پودوں کے پھل تم کھا رہے ہو تو اگلی نسل کے لیے بھی پودے چھوڑ کے جاؤ۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمررضی اللہ عنہ رات کو دورہ کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ رات کو شہر میں پھر رہے تھے تو آپؓ نے ایک عورت کو سنا کہ وہ عشقیہ شعر پڑھ رہی ہے۔ آپؓ نے دن کو تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ اس کا خاوند مدت سے باہر رہتا ہے۔‘‘ فوج میں باہر گیا ہوا ہے ’’آپؓ نے پھر یہ حکم دے دیا‘‘ اس کے بعد آپؓ نے یہ حکم دیا ’’کہ کوئی سپاہی چار ماہ سے زیادہ باہر نہ رہے۔ اگر کوئی سپاہی زیادہ مدت تک باہر رہنا چاہتا ہو تو اپنی بیوی کو بھی اپنے ساتھ رکھے ورنہ چار ماہ کے بعد اسے فوج کا افسر مجبوراً واپس گھر بھیج دے۔‘‘
(خطباتِ محمودؓ جلد 4 صفحہ 63 سال 1914ء)
اس کی تفصیل میں ایک جگہ یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا اس عورت سے، جو شعر پڑھ رہی تھی اس کے شعر سن کے پوچھا کہ تم نے کوئی برائی کا ارادہ تو نہیں کیا؟ اس عورت نے کہا کہ اللہ کی پناہ۔ حضرت عمرؓ نے اس عورت کو فرمایا کہ اپنے آپ پر قابو رکھو۔ اس کی طرف مَیں ابھی خط روانہ کر رہا ہوں یعنی تمہارے خاوند کی طرف میں ابھی خط روانہ کر رہا ہوں۔ چنانچہ آپؓ نے اس کی طرف قاصد کو بھجوایا تا کہ اس کو واپس بلایا جائے۔ پھر آپؓ نے مزید تحقیق کی اور پھر جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ چار مہینہ کا زیادہ سے زیادہ عرصہ رکھا کہ اس عرصہ سے زیادہ خاوند باہر نہ رہے یا پھر بیوی بچے ساتھ ہوں۔
(ماخوذ از تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ 111فصل فی نبذ من أخبارہ وقضایاہ مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت 1999ء)
اسلم، حضرت عمرؓ کے وہی آزاد کردہ غلام بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں حضرت عمرؓ کے ساتھ مدینہ کے بیرونی حصہ میں گیا تو ہمیں ایک خیمہ نظر آیا۔ ہم نے اس خیمہ کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس خیمے میں ایک عورت دردِ زہ میں مبتلا ہے اور رو رہی ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس سے اس کا حال دریافت فرمایا تو اس نے عرض کیا۔ میں ایک مسافر پردیسی عورت ہوں اور میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ رو پڑے اور تیزی سے اپنے گھر واپس لوٹے اور اپنی اہلیہ حضرت ام کلثوم بنت علیؓ سے فرمایا کیا تم اجر حاصل کرنا چاہتی ہو جو اللہ تمہارے پاس لایا ہے۔ آپؓ نے ساری بات ان کو بتائی۔ اس پر انہوں نے کہا جی ضرور۔ پھر حضرت عمرؓ نے اپنی پشت پر آٹا اور چربی اٹھائی اور حضرت ام کلثوم نے زچگی کی ضرورت کا سامان اٹھایا اور وہ دونوں آئے۔ حضرت ام کلثومؓ اس عورت کے پاس گئیں اور حضرت عمرؓ اس عورت کے خاوند کے ساتھ بیٹھ گئے۔ وہ خاوند بھی وہاں موجود تھا۔ وہ آپؓ کو نہیں پہچانتا تھا۔ آپؓ اس کے ساتھ گفتگو کرنے لگے۔ اس عورت نے لڑکے کو جنم دیا۔ حضرت ام کلثومؓ نے حضرت عمرؓ کو آ کے بتایا اور عرض کی کہ اے امیر المومنین! اپنے ساتھی کو لڑکے کی خوشخبری دے دیں۔ یعنی وہ جو اس عورت کا خاوند ہے اسے خوشخبری دے دیں کہ لڑکا پیدا ہوا ہے۔ جب اس شخص نے حضرت ام کلثومؓ کی یہ بات سنی تو اس کو احساس ہوا۔ اس کو تو نہیں پتہ تھا کہ کس کے ساتھ بیٹھا ہے، کہ وہ کتنے عظیم شخص کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور وہ حضرت عمرؓ سے معذرت کرنے لگا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کوئی بات نہیں۔ پھر آپؓ نے ان کو خرچ اور ضرورت کا سامان پہنچایا اور واپس تشریف لے آئے۔
(البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر جلد 10 صفحہ 186 مطبوعہ دار ھجر 1998ء)
سَعِید بن مُسَیِّب اور اَبُو سَلَمَہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم !حضرت عمرؓ نے جو کچھ کہا اس کو پورا کر دیا۔ سختی کرنے کے مواقع پر سختی میں اور نرمی کے مواقع پر نرمی میں بڑھ گئے اور وہ لوگوں کے بال بچوں کے باپ بن گئے یہاں تک کہ ان عورتوں کے پاس جاتے جن کے شوہر باہر گئے ہوئے تھے۔ ان کے دروازوں پر پہنچ کر ان کو سلام کرتے پھر کہتے کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ یا تم کوئی ضرورت کی چیز منگوانا چاہو تو میں وہ چیز تمہیں بازار سے خریدکر لا دوں گا۔ مجھے یہ ناپسند ہے کہ خرید و فروخت میں تمہیں دھوکا دیا جائے تو وہ عورتیں آپؓ کے ساتھ اپنی بچیوں کو یا بچوں کو بھی بھیج دیتی تھیں۔ آپؓ بازار میں اس طرح جاتے کہ آپؓ کے پیچھے لوگوں کی بچیاں اور بچے اتنے ہوتے کہ ان کا شمار مشکل ہوتا۔ پھر آپؓ ہر ایک کے لیے ان کی ضرورت کی چیزیں خریدتے اور جن عورتوں کا کوئی بچہ نہ ہوتا تو اس کے لیے خود خریداری کرتے۔ جب کسی لشکر میں سے کوئی ایلچی آتا تو اس سے ان عورتوں کے شوہروں کے خطوط لے کر خود ان کو پہنچاتے اور ان سے فرماتے کہ تمہارے شوہر اللہ کی راہ میں گئے ہوئے ہیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں ہو۔ اگر تمہارے پاس کوئی ہے جو یہ خط پڑھ سکے تو ٹھیک ہے ورنہ دروازے کے قریب کھڑی ہو جاؤ تا کہ میں تمہیں پڑھ کر سنا دوں۔ پھر فرماتے کہ ہمارا ایلچی یہاں سے فلاں فلاں دن جائے گا تم خط لکھ دینا تاکہ ہم تمہارے خطوط بھیج دیں۔ پھر سب عورتوں کے ہاں خطوط کے لیے کاغذ اور دواتیں لے کر جاتے پھر ان میں سے جو خط لکھ دیتی اس کا خط لیتے اور جو نہ لکھ سکتی تو فرماتے کہ یہ کاغذ اور دوات ہے تم دروازے کے قریب آ جاؤ اور مجھے لکھواؤ۔ اس طرح آپؓ ایک ایک دروازے پر جاتے اور ان کے شوہروں کو ان کی طرف سے خطوط لکھتے۔ پھر ان خطوط کو بھیج دیتے۔
(ماخوذ از ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (مترجم) جلد 3صفحہ 228-229مناقب فاروق اعظم مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی )
حضرت علیؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ اونٹ کا پالان کندھے پر رکھے ہوئے اَبْطَحْ کی طرف تیزی سے جا رہے تھے۔ یہ اَبْطَحْ بھی مکہ اور منیٰ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔تو حضرت علی ؓکہتے ہیں۔ میں نے کہا اے امیر المومنین! کہاں جا رہے ہیں؟ تو آپؓ نے فرمایا: صدقے کا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے۔ میں اس کو تلاش کرنے جا رہا ہوں۔ میں نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ ایسی باتیں آپؓ کر رہے ہیں کہ آپؓ نے اپنے بعد آنے والے خلفاء کے لیے ایسی راہیں متعین کر دی ہیں کہ جن پر چلنا آسان نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے ابوالحسن! مجھے ملامت نہ کرو۔ اس کی قَسم ہے جس نے محمدؐکو نبوت کے ساتھ مبعوث کیا! اگر بکری کا بچہ بھی دریائے فرات کے کنارے ضائع ہو گیا تو قیامت کے دن عمر کااس پر مؤاخذہ ہو گا۔
(ماخوذ از ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (مترجم) جلد 3صفحہ 286-287 مناقب فاروق اعظم ؓمطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی )
(معجم البلدان جلد 1 صفحہ 95)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک مسلمان ایسی حالت میں چلے آرہے تھے کہ انہوں نے گردن نیچی ڈالی ہوئی تھی‘‘ یعنی ایک مسلمان شخص تھا جو نیچے گردن جھکائے ہوئے چلا آ رہا تھا۔ کوئی صدمہ پہنچا ہو گا، کوئی تکلیف پہنچی ہوگی اس وجہ سے پریشان ہوگا۔ نیچے گردن ڈالی ہوئی تھی۔ ’’حضرت عمرؓ نے اس کی ٹھوڑی پر مُکّا مارا اور کہا اسلام کی فتوحات کازمانہ ہے اور تم اپنی گردن جھکائے پھر رہے ہو!!‘‘ یعنی یہ زمانہ ہے اور اسلام کی فتوحات ہو رہی ہیں۔ اگر تمہیں کوئی تھوڑی سی تکلیف پہنچی بھی ہے تو اس کی وجہ سے تم نے اپنا سر نیچے کر لیا ہے۔ نیچے گردن جھکا کر چل رہے ہو۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ ’’خدا تعالیٰ نے اس وقت اسلام کو حکومت دی ہے۔ دنیا جو چاہے کہے مگر تم تو یقین رکھتے ہو کہ اسلام کو فتح ہو گی۔ اگر تم یقین رکھتے ہو کہ اسلام کو فتح ہو گی تو پھر رونا کیا۔‘‘
(قادیان سے ہماری ہجرت ایک آسمانی تقدیر تھی۔ انوار العلوم جلد 21 صفحہ 379)
پھر چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے کی ضرورت نہیں ہے اور یا ایک جگہ سے مسلمانوں کو کہیں بھی کوئی تکلیف پہنچی ہے تو کوئی رونے کی، پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔ یہ بات حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان سے ہجرت کے بعد اس ضمن میں بیان فرمائی تھی اور فرمایا کہ ایک مومن کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ اس نے کیا کھویا ہے۔ اگر کوئی چیز ضائع بھی ہو گئی ہے، نقصان بھی تھوڑا ہو گیا تو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کیا کھویا ہےبلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کس کے لیےکھویا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کے لیے اور اسلام کی ترقی کے لیے کوئی چیز ضائع ہوئی ہے، ہاتھ سے نکل گئی تو پھر اللہ تعالیٰ بہترین اجر دے گا۔ عارضی نقصانوں پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اسی طرح حضرت مصلح موعود ؓحضرت عمرؓ کا ایک مشہور واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں آپ لکھتے ہیں کہ گو حضرت عمرؓ کو تکلیف بھی اٹھانی پڑی مگر آپؓ نے اس تکلیف کی کوئی پروا نہ کی اور وہ مساوات قائم کی جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہجَبَلَۃ ابنِ اَیْہَمْ ایک بہت بڑے عیسائی قبیلے کا سردار تھا۔جب شام کی طرف مسلمانوں نے حملے شروع کیے تو یہ اپنے قبیلہ سمیت مسلمان ہو گیا اور حج کے لیے چل پڑا۔ حج میں ایک جگہ بہت بڑا ہجوم تھا۔ اتفاقاً کسی مسلمان کا پاؤں اس کے پاؤں پر پڑگیا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اس کا پاؤں اس کے جبہ کے دامن پر پڑگیا۔ چونکہ وہ اپنے آپ کو ایک بادشاہ سمجھتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ میری قوم کے ساٹھ ہزار آدمی میرے تابع فرمان ہیں بلکہ بعض تاریخوں میں سے پتہ چلتا ہے کہ ساٹھ ہزار محض اس کے سپاہیوں کی تعداد تھی۔ بہرحال جب ایک ننگ دھڑنگ مسلمان کا پیر اس کے پیر پر آپڑا تو اس نے غصہ میں آکر زور سے اسے تھپڑ مار دیا اور کہا تُو میری ہتک کرتا ہے۔تو جانتا نہیں کہ میں کون ہوں؟ تجھے ادب سے پیچھے ہٹنا چاہیے تھا۔ تُونے گستاخانہ طور پر میرے پاؤں پر اپنا پاؤں رکھ دیا۔ وہ مسلمان تو تھپڑ کھا کر خاموش ہو رہا مگر ایک اَورمسلمان بول پڑا کہ تجھے پتہ ہے کہ جس مذہب میں تُو داخل ہوا ہے وہ اسلام ہے اور اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں۔ بِالخصوص اِس گھر یعنی خانہ کعبہ میں جس کا تم طواف کر رہے ہوامیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا۔ اس نے کہا میں اِس کی پروا نہیں کرتا۔ اس مسلمان نے کہا کہ عمرؓ کے پاس تمہاری شکایت ہو گئی تو وہ اس مسلمان کا بدلہ تم سے لیں گے۔ جَبَلَۃ ابنِ اَیْہَمْ نے جب سنا تو آگ بگولا ہو گیا اور کہنے لگا کہ کیا کوئی شخص ہے جو جَبَلَۃ ابنِ اَیْہَمْ کے منہ پر تھپڑ مارے۔ اس نے کہا کہ کسی اَور کا تو مجھے پتہ نہیں مگر عمرؓ تو ایسے ہی ہیں۔ یہ سن کراس نے جلدی سے طواف کیا اور سیدھا حضرت عمرؓ کی مجلس میں پہنچا اور پوچھا کہ اگر کوئی بڑا آدمی کسی چھوٹے آدمی کو تھپڑ مار دے تو آپؓ کیا کِیا کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا یہی کرتے ہیں کہ اس کے منہ پر اس چھوٹے شخص سے تھپڑ مرواتے ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ آپؓ میرا مطلب سمجھے نہیں۔ میرامطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بہت بڑا آدمی تھپڑ مار دے تو پھر آپؓ کیا کِیا کرتے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا: اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔ پھر آپؓ نے کہا: جبلہ! تم ہی تو یہ غلطی نہیں کر بیٹھے؟ اِس پر اس نے جھوٹ بول دیا اور کہا کہ میں نے تو کسی کو تھپڑ نہیں مارا۔ میں نے تو صرف ایک بات پوچھی ہے مگر وہ اسی وقت مجلس سے اٹھا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر اپنے ملک کی طرف بھاگ گیا اور اپنی قوم سمیت مرتدہو گیا اور مسلمانوں کے خلاف رومی جنگ میں شامل ہوا لیکن حضرت عمرؓ نے اس کی پروا نہیں کی۔ (ماخوذ از سیرروحانی (2) ۔ انوار العلوم جلد 16 صفحہ 42-43) یہ وہ مساوات تھی جو اسلامی حکومت نے قائم کی اور آج کی اسلامی حکومتوں کے لیے بھی یہ سبق ہے۔
یہ ذکر اب انشاء اللہ آئندہ چلے گا۔ اس وقت میں کچھ مرحومین کا ذکر کروں گا ۔ اس میں سے پہلا ذکر ہے عبدالوحید وڑائچ صاحب کا جو والڈز ہوٹ (Waldshut) جرمنی کے صدر جماعت تھے۔ سابق صدر خدام الاحمدیہ اور سابق نیشنل سیکرٹری تربیت سوئٹزرلینڈ بھی تھے۔ یہ 12؍ مئی کو ماؤنٹ ایورسٹ کو کامیابی کے ساتھ سر کرنے اور اس پر لوائے احمدیت لہرانے کے بعد نیچے اترتے ہوئے طبیعت خراب ہونے پر 41سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ والدین ہیں۔ ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں۔
امیر صاحب سوئٹزرلینڈ طارق تارنستر صاحب لکھتے ہیں کہ عبدالوحید وڑائچ صاحب شروع سے لے کر اپنی وفات تک ہمیشہ جماعت کے ایک فعال ممبر رہے ۔ بطور ممبر جماعت اور عہدیدار مرحوم ایک مثالی احمدی تھے۔ وہ ایک وفادار احمدی تھے۔ عبدالوحید وڑائچ صاحب جماعتی خدمات ہمیشہ نہایت عاجزی کے ساتھ بجا لاتے تھے۔ ان کے اوصاف میں تکبر کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ انسانی خدمت کا نہ صرف درس دیتے تھے بلکہ خود اپنے نمونے کے ساتھ کر کے دکھاتے تھے۔ IAAAEکے مختلف پراجیکٹس کے لیے افریقہ بھی گئے اور وہاں انسانیت کی خدمت کی جسے دیکھ کر کئی نوجوان بھی ان کی مثال پر چلتے ہوئے افریقہ گئے۔ صدر مجلس خدام الاحمدیہ جب مقرر ہوئے تو نئے نئے مواقع تلاش کرتے تھے جن سے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہو سکے اور انہیں یورپ کی مادیت پسند سوچ اور دلچسپی سے بچایا جا سکے۔ مالی قربانی بھی ان کی مثالی تھی۔ اور یہی امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے بیٹے عزیزم طلحہ وڑائچ جو اس وقت جامعہ احمدیہ جرمنی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس کی تربیت بھی بڑی اچھی کی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کا بچہ جامعہ میں پڑھ رہا ہے۔ اختصار کے ساتھ اگر کہا جائے تو عبدالوحید وڑائچ صاحب مرحوم حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے ایک مثالی احمدی تھے۔
غیر از جماعت احباب نے بھی ان کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا۔ مسٹر سٹیفن لارچ (Mr. Stefan Lorch) لکھتے ہیں کہ وحید وڑائچ صاحب نے ان کے ساتھ کئی سال سوئس کام (Swisscom) کمپنی میں کام کیا جو سوئٹزرلینڈ کی سب سے بڑی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ہے اور تقریباً ایک سال ان کے ساتھ ان کی ٹیم میں کام کرتا رہا ہوں۔ میں ان کی صرف ان کی فیلڈ میں قابلیت کی وجہ سے قدر نہیں کرتا تھا بلکہ خاص طور پر ان کے طرز عمل کی وجہ سے۔ وحید وڑائچ صاحب ہمیشہ خوش اخلاقی سے پیش آتے۔ وہ دوسروں کی مدد کرنے والے دیانتدار اور قابل اعتماد شخصیت کے مالک تھے۔ مجھے ان سے کام سے ہٹ کر بھی گفتگو کرنا بہت پسند تھا۔
مربی صاحب لکھتے ہیں کہ موصوف نہایت اعلیٰ اوصاف کے مالک تھے۔ خلافت سے عشق تھا۔ باقاعدگی سے نماز جمعہ مسجد میں ادا کرتے اور باقی نمازیں بھی مسجد میں ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ تہجدگزار تھے۔ ان کے نیشنل سیکرٹری مال رضوان صاحب کہتے ہیں کہ مائیکروسافٹ کمپنی کی سوئٹزرلینڈ برانچ میں سافٹ ویئر انجینئر کے طور پر جاب کر رہے تھے تو ایک دفعہ مجھے کہنے لگے کہ مائیکروسافٹ سوئٹزرلینڈ کی برانچ ختم کر کے سیلیکون ویلی (Silicon valley) لے جا رہے ہیں اور انہوں نے مجھے آفر دی ہے کہ ہمارے ساتھ چلیں۔ وہ ساری سہولتیں مہیا ہوں گی اور تنخواہ بھی بڑھ جائے گی اور سوئٹزرلینڈ سے آپ کا سامان، سب کچھ ہم وہاں منتقل کریں گے تو آپ نے بتایا کہ میں نے انہیں انکار کر دیا ہےکیونکہ میرے ذمہ یہاں جماعتی خدمات ہیں۔ میں ان کو چھوڑنا نہیں چاہتا کہ یہاں سے انکار کر دوں اور وہاں چلا جاؤں۔ پھر اس کے کچھ دنوں کے بعد آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس برانچ کو سوئٹزرلینڈ کی بڑی کمپنی سوئس کام نے خرید لیا ہے اور کہنے لگے کہ وہ تو مجھے وہاں لے جا رہے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں انتظام کر دیا اور نہ صرف یہاں بلکہ اللہ کا ایسا فضل ہوا ہےکہ میری جو یہاں تنخواہ ہے وہ اپنے باس (boss) سے بھی زیادہ ہے۔
نیشنل سیکرٹری امور خارجہ زاہد صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں ان کو چھبیس سال سے جانتا تھا۔ خدام الاحمدیہ ہی میں ان کے ساتھ خدمت کا موقع ملتا رہا۔ انتہائی شریف النفس، صوم و صلوٰۃ کے پابند، دعا گو، انتہائی محنتی، خلافت کے فدائی اور فرمانبردار، شفیق دوست اور ملنسار انسان تھے۔ جوانی کی عمر سے ہی باقی نوجوانوں سے الگ طبیعت کے مالک تھے۔ مرحوم کو کبھی بھی غصہ میں نہیں دیکھا۔ نہ ہی کبھی اس کا تاثر ان کے چہرے پر دیکھا یا لہجے میں محسوس کیا۔ کبھی بآواز بلند یا سختی سے بات کرتے نہیں دیکھا۔ غلطیاں بھی سرزد ہوتی تھیں ہمیشہ ہمیں علیحدگی میں نرمی سے سمجھا دیتے تھے۔ بڑوں اور چھوٹوں سے ہمیشہ خوش خلقی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر ہوتی تھی۔ جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لیے تیار رہنے کی زندہ مثال تھے۔ سوئٹزرلینڈ کے بیسیوں ایسے نوجوان ہیں جن کی مرحوم نے تعلیم اور مستقبل کے بارے میں نہ صرف راہنمائی کی بلکہ درجنوں کو حصولِ روزگار میں بھی مدد کی۔ خدام الاحمدیہ کے تحت انہوں نے احمدیہ ہائیکنگ کلب بھی قائم کیا اور بیسیوں نوجوانوں کو ہائیکنگ سے متعارف کروایا۔ غیر معمولی عزم رکھنے والے انسان تھے۔ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو ہائیکنگ کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا؟ کہا کہ لگتا ہے اور میری فیملی بھی اس کو ناپسند کرتی تھی لیکن میں نے اس کا حل یہ نکالا کہ میں نے خلیفۂ وقت سے ملاقات کی۔ مجھ سے یہ ملے۔ اور سوچا کہ ان کے سامنے یہ تجویز پیش کروں۔ اگر تو انہوں نے اجازت دے دی۔ اگر میری طرف سے ان کو اجازت مل گئی تو پھر کہتے ہیں میں نے ارادہ کیاہے کہ میں سات براعظموں کی چوٹیوں کو سر کر کے ان پر لوائے احمدیت لہراؤں گا۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں خوف تھا کہ میں کہیں ان کو منع نہ کر دوں مگر میں نے انہیں کہا کہ اگر جا سکتے ہو تو جھنڈے گاڑ دو۔ تو اب میں انشاء اللہ ایسا ہی کروں گا۔ تو اس نوجوان نے پھر کبھی مڑ کر واپس نہیں دیکھا اور اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کی اور ایک کے بعد دوسری چوٹی سر کرتے گئے۔ مرحوم کو دنیا کی سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر بھی لوائے احمدیت کے لہرانے کا شرف حاصل ہوا۔ یہ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ خاکسار کو یہ علم تو نہیں کہ ان کی موت شہادت کہلائی جا سکتی ہے یا نہیں لیکن اپنے مشاہدے سے کہہ سکتا ہوں کہ مرحوم میں وہ جذبۂ ایمان تھا جو ایسے نیک لوگوں کو ہی حاصل ہوتا ہے جو شہادت کے طلبگار ہوں۔ لیکن میرے خیال میں یقینا ًایک نیک مقصد اور جذبہ کے ساتھ انہوں نے اسلام اور احمدیت اور خدا تعالیٰ کی توحید کا پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہوئے اور اس مقصد کے سفرمیں اللہ تعالیٰ کے حضور بھی حاضر ہوئے۔ انہوں نے یقینا ًشہادت کا درجہ پایا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں شہادت کا درجہ عطا فرمائےاور شہداء میں شمار فرمائے۔
ان کے والد محترم خادم حسین وڑائچ صاحب نے بتایا کہ ہمیں نظر آ رہا تھا کہ ہمارا یہ بیٹا آگے بڑھتا جا رہا ہے اور ایک پہاڑ کے بعد دوسرے پہاڑ پر چڑھ رہا ہے۔ اس نے بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ میرے دوست میرے سے پوچھا کرتے تھے کہ آپ ان کو روکتے کیوں نہیں ہیں۔ یہ بہت خطرناک شوق ہے۔ میں جواب دیا کرتا تھا کہ میرے روکنے سے بھی یہ نہیں رکے گا کیونکہ اس کے اندر ایک جذبہ ہے کہ میں نے جماعت کا جھنڈا دنیا کی ہر اونچی جگہ پر لہرانا ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا پیغام پہنچانا ہے۔
ایک دوست لکھتے ہیں کہ خاکسار نے ایک دفعہ صدر صاحب سے پوچھا کہ جب آپ پہاڑوں پر چڑھتے ہیں تو اپنے آپ کو motivate کرنے کے لیے فون پر کیا سنتے ہیں تو صدر صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ڈاؤن لوڈ (download) کی ہیں اور سفر میں ان کو سنتا ہوں۔ اس طرح کہتے ہیں میں نے صدر صاحب سے ایک مرتبہ پوچھا کہ اتنی اونچائی پر اور ٹھنڈ میں اپنی عبادت کس طرح کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ مربی صاحب مجھے پہاڑوں پر عبادت کرنے کا بہت مزہ آتا ہے۔ میرے دل میں یہ خیال گزرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء بھی پہاڑوں پر گوشہ نشینی میں دنیا کے شور سے دور جا کر عبادت کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں مجھے عبدالوحید وڑائچ صاحب نے بتایا، ایک سفر کا واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ دنالی (Denali) پہاڑ پر جو کہ نارتھ الاسکا میں ہے اور دنیا کا سب سے ٹھنڈا پہاڑ ہے اس پر چڑھنے کے دوران آپ کی شہادت کی انگلی جم گئی جو فریز ہو جاتی ہیں اور زخم ہو گیا۔ یہ بالکل جم گئی تھی۔ اور جسم کا ایک حصہ ہی نہیں رہا تھا جب آپ نے ڈاکٹر کو وہ زخم دکھایا، تو ڈاکٹر نے کہا کہ اس کو ہمیں فوری طور پرکاٹنا پڑے گا یہ بے کار ہو گئی ہے۔ صدر صاحب نے جواب دیا کہ یہ شہادت کی انگلی ہے۔ اس کے ساتھ ہم نماز میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہیں۔ میں اس انگلی کو ہرگز نہیں کٹواؤں گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور پھر ایسا ہوا کہ دعاؤں سے وہ انگلی مکمل طور پر ٹھیک ہو گئی۔
اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جو ان کی خوبیاں لوگوں نے بیان کی ہیں اور میں نے بھی جو ان میں دیکھی ہیں وہ اس سے بہت بڑھ کر ان خوبیوں میں تھے۔ خلافت کے ہر حکم پر لبیک کہنے والے، صرف باتیں کرنے والے نہیں بلکہ وفا اور اخلاص میں بڑھے ہوئے تھے اور بڑھتے چلے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ ایسے لوگوں میں سے تھے جن کے جانے سے خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی وحدانیت کا جھنڈا ہر اونچی جگہ پر گاڑنا ان کامقصد تھا جس میں وہ کامیاب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے۔
دوسرا ذکر محترمہ امۃ النور صاحبہ کا ہے جو ڈاکٹر عبدالمالک شمیم صاحب کی اہلیہ تھیں اور صاحبزادی امۃالرشید بیگم اور میاں عبدالرحیم صاحب کی بیٹی تھیں۔ 15؍ جون کو واشنگٹن میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ خدا کے فضل سے موصیہ تھیں۔ آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پڑنواسی اور اسی طرح ننھیال کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی پڑنواسی بھی تھیں۔ حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت سیدہ امۃالحئی صاحبہ کی نواسی، صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت پروفیسر علی احمد صاحب آف بہار کی پوتی تھیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ان کے میاں ڈاکٹر عبدالمالک شمیم صاحب تھے جو مولوی عبدالباقی صاحب کے بیٹے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دو بیٹیوں سے نوازا۔ ان کے نکاح کے خطبہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی آیات جو نکاح میں تلاوت کی جاتی ہیں وہ پڑھنے کے بعد فرمایا کہ ان آیات میں جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں ایک بات یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ اصلاح ِاعمال کے لیے قول سدید کا ہونا ضروری ہے۔ اکثر تکالیف اور پریشانیاں بداعمالیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں اور جہاں تک آپس کے تعلقات کا تعلق ہے بداعمالیوں کی وجہ قولِ سدید کا نہ ہونا ہے۔ اگر صاف اور سیدھی مومنانہ بات کی جائے تو کسی غلط فہمی کا امکان نہیں رہتا اور کسی بدمزگی اور پریشانی کا خطرہ نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سبھی کو اعمال ِ صالحہ بجا لانے کی توفیق عطا کرے اور ہم سب کے اعمال کی اصلاح کے سامان پیدا کرے اور ہمیں قول سدید کی ایسی عادت ہو جائے کہ یہ چیز ہمارے لیے ایک طرہ امتیاز بن جائے۔ پھر ان کے ساتھ پانچ چھ اَور بھی نکاح ہوئے تھے، ان کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ایک نکاح تو رشتہ کے لحاظ سے اور پیار کے تعلق کے نتیجہ میں میری اپنی بچی کا ہے۔ یہ بچی میاں عبدالرحیم صاحب اور میری چھوٹی ہمشیرہ امۃ الرشید بیگم کی بچی امۃ النور ہے جن کا نکاح ڈاکٹر عبدالمالک شمیم کے ساتھ ہو رہا ہے جو مولوی عبدالباقی صاحب کے بیٹے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس رشتہ کو بھی اور بقیہ پانچ رشتوں کو بھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بہت سی خوشیوں کا وارث بنائے ہر دو افراد کے لیے بھی اور احمدیت کے لیے بھی۔ اصل نیت تو اسلام کی بھلائی کی ہونی چاہیے۔ احمدیت نے ایک لمبے عرصہ کی جدوجہد کے بعد غلبہ اسلام کی راہ میں آخری اور انتہائی کامیابی حاصل کرنی ہے اس لیے ایک کے بعد دوسری نسل کا صحیح تربیت پانا اور ان کا صحیح ذہنیت کا حامل ہونا ضروری ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال نہ ہو تو انسان کی ساری کوششیں ناکارہ اور بیکار اور بے نتیجہ ہیں۔ پس ہم دعا کرتے ہیں کہ ان رشتوں میں سے اور جو رشتے جماعت کے اندر ہو چکے ہیں یا آئندہ ہونے والے ہیں ان رشتوں کے نتیجہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کی مضبوطی اور اسلام کے استحکام کے سامان پیدا ہوں۔
(ماخوذ از خطبات ناصر جلد 10 صفحہ 478-479)
صاحبزادی امۃالنور صاحبہ کو جماعتی خدمات کی بھی توفیق ملی۔ نیشنل سیکرٹری تربیت امریکہ رہیں، نیشنل نائب صدر امریکہ رہیں، لوکل صدر لجنہ واشنگٹن رہیں اور مختلف کمیٹیوں کی ممبر رہیں۔ ان کی بڑی بیٹی امۃ المجیب کہتی ہیں کہ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھا۔ لوگوں کے لیے بےحد ہمدرد تھیں۔ اُمی اگر کسی کی مدد کر سکتیں تو غیرمعمولی طور پر مدد کیا کرتی تھیں۔ اپنی عبادت کا بہت زیادہ خیال رکھنے والی تھیں۔ پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ کہتی ہیں جب بھی میں نے دیکھا روزانہ کبھی بھی رات کو آنکھ کھلی تو ان کو تہجد پڑھتے ہوئے دیکھا۔ امۃ النور صاحبہ کے خاوند کافی عرصہ ہوا ایک ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گئے تھے۔ بیٹی کہتی ہے کہ ہمارے والد کی وفات کے بعد بیس سال بیوگی میں گزارے۔ اس حالت میں بھی انہوں نے اللہ پر کمال درجہ کا توکّل کیا۔ شکرگزاری کا پہلو بہت نمایاں تھا۔ کہتی تھیں کہ اللہ کے احسانات اور کرم ہم پر بہت زیادہ ہیں۔ میں نے یہ بات ہمیشہ ان کے منہ سے سنی کہ اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ اگر شکر کرو گے تو میں زیادہ دوں گا اس لیے ہمیشہ میرے شکر گزار بنو۔ دل کو کھلا اور کشادہ رکھنا، مہمان نوازی کرنا۔لوگوں کے لیے حقیقی ہمدردی، صلہ رحمی کی خوبیوں کا اظہار بہت زیادہ تھا۔ کہتی ہیں اپنی ماں کے منہ سے میں نے بےشمار دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ جملہ سنا ہے کہ صلہ رحمی یہ نہیں ہے کہ کوئی تم سے صلہ رحمی کرے تو تم صلہ رحمی کرو۔ صلہ رحمی یہ ہے کہ وہ تم سے قطع رحمی کرے اور تم اس سے صلہ رحمی کرو۔ اپنے ہر رشتہ اور تعلق میں مَیں نے اُمی میں یہ خوبی دیکھی ہے جو ہر کسی میں خوبی ڈھونڈتی تھیں۔ رحمی رشتوں اور جماعت کے لوگوں کا بھی اور ہمسایوں کا بھی خیال رکھنے والی تھیں۔ کوئی نیا مہمان مسجد میں آتا تو اسے ڈھونڈتی تھیں اور پھر اس کے ساتھ بیٹھ کے باتیں کرتی تھیں اور اس کو خوش آمدید کہتی تھیں۔ بےشمار لوگوں نے کہا ہے کہ وہ محبت کرنے والا وجود تھا۔ ان کی دوسری بیٹی نے بھی لکھا ہے کہ جماعت کے لوگوں ، خاص طور پر نومبائعین کے ساتھ بہت زیادہ محبت کا تعلق تھا اور لوگوں نے بھی ان سے بہت پیار کیا۔ ہر انسان کی مدد کرنا چاہتی تھیں۔ یہ فکر ہوتی تھی کہ یہ نہ ہو کہ وہ کسی سے ملیں اور کوئی ضرورت ہو اور وہ اسے پورا نہ کر سکیں۔ امۃ النور صاحبہ کی بڑی بہن امۃ البصیر صاحبہ لکھتی ہیں کہ سسٹر شکورہ ایک افریقن امریکن خاتون تھیں۔ یہ جب حج پر گئیں تو انہوں نے خواب میں دیکھا کہ نوشی کا گھر یعنی امۃ النور صاحبہ کا گھرمکہ میں ہے۔ ان کو گھر میں نوشی کہتے تھے۔ جب سسٹر شکورہ ان کے پاس آ گئیں تو انہوں نے کہا کہ اس سے یہی مراد ہے کہ آپ میرے پاس آ گئی ہیں اور میں آپ کی خدمت کر رہی ہوں ۔ ان کی بہن امۃ البصیر صاحبہ لکھتی ہیں کہ اٹھارہ سال سسٹر شکورہ جو افریقن امریکن تھیں نوشی کے پاس رہیں۔ آٹھ سال تو بالکل ہی بستر پر تھیں، نظر بھی چلی گئی تھی اور نوشی نے بہت ہی خیال رکھا۔ نمازیں بھی ان کو پڑھاتی تھیں کیونکہ وہ بھول جاتی تھیں۔ میں نے بھی دیکھا ہے کہ سسٹر شکورہ کا بڑا خیال رکھتی تھیں۔ جب میں امریکہ گیا ہوں تو خود وہیل چیئر پر بٹھا کر انہیں میرے سے ملانے کے لیے بھی لے کے آئی ہیں اور سسٹر شکورہ بھی ان کی خدمت کی بڑی شکرگزار تھیں۔
تبلیغ کا شوق تھا ۔کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کے متعلق بتانے کی کوشش کرتیں۔ کوئی پوچھ لیتا کہ پاکستان میں کس جگہ سے آئی ہیں تو ہمیشہ ربوہ کا نام لیتیں اور پھر آگے بات شروع ہو جاتی۔ یہودی مذہب کی ایک فیملی کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ اس خاندان میں ایک خاتون کا نام رقیہ اسد ہے وہ امریکہ کی نیشنل عاملہ میں بھی شامل رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ امۃ النور صاحبہ کا وجود بہت پیارا تھا جن سے بہت سے لوگ مستفید ہوئے۔ جسے بھی ان کی صحبت کا موقع میسر آیا وہ سب ان کی خوبیوں کو سراہتے ہیں۔ انہوں نے عملی طور پر اپنی زندگی اسلام احمدیت کے مطابق گزاری جس کے نتیجہ میں لوگ ان سے متاثر ہوتے اور وہ لوگوں کے لیے نمونہ تھیں۔ واقعاتی رنگ میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں لجنہ کی تربیت کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا تھا۔ انہوں نے ہر پروگرام میں شمولیت اختیار کی اور رضاکارانہ طور پر ہمیشہ خدمات فراہم کیں۔ صبر، استقامت اور عزم کے ساتھ اپنی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کیا اور اس حوالے سے وہ دوسروں کے لیے نمونہ تھیں۔ محبت اور اخلاص کے ذریعہ انہوں نے تبلیغ کا کام کیا اور نئے مہمانوں کا خیال رکھنے میں سب سے اول درجہ پر تھیں۔نوجوان عورتوں اور بوڑھی خواتین دونوں کے لیے اچھا نمونہ تھیں۔ یہ خاتون لکھتی ہیں کہ جیسے جیسے میں عمر رسیدہ ہو رہی ہوں، ویسے ویسے ان کی عزت میرے دل میں بڑھتی جا رہی ہے۔ پھر لکھتی ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں خدمت خلق کرنی چاہیے۔ غریبوں اور ضرورتمندوں کا خیال رکھنا چاہیے جبکہ آنٹی نوشی نے غیر رشتہ دار افراد کی خدمت کے لیے سالہا سال سے اپنی ذات کے لیے وقت ختم کیا ہوا تھا یعنی اپنا وقت اپنے لیے کوئی وقت نہیں تھا، خدمت کرتی تھیں۔ اسی طرح بعض اَور احمدی خواتین خاص طور پر افریقن امریکن خواتین نے لکھا ہے کہ ہم سے انہوں نے بڑا پیار کا تعلق رکھا اور احمدیت کی تعلیم کے بارے میں بہت کچھ ہمیں بتایا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو بھی ہمیشہ ان کی نیکیاں جاری رکھنے اور خلافت سے وابستہ رہنے کی توفیق دے۔ خلافت کے ساتھ انہوں نے وفا کا رشتہ نبھایا ہے۔ میں نے تو یہ دیکھا ہے۔ اپنے ساتھ بھی میں نے دیکھا کہ کامل اطاعت اور عاجزی کا نمونہ انہوں نے دکھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
اگلا ذکر مکرمہ بسم اللہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ناصر احمد خان صاحب بہادر شیر سابق افسر حفاظت خاص کا ہے جن کی جرمنی میں 14؍ جون کو 84 سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد حضرت چودھری مظہرالحق خان صاحب کاٹھگڑھی کے ذریعہ آئی تھی۔ قادیان کے بورڈنگ سکول میں بھی انہیں کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں اپنا ایک کرتہ بطور تبرک عنایت فرمایا تھا۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں ۔ ان کے ایک بیٹے محمود احمد صاحب مربی سلسلہ اور مشنری انچارج ہیں۔ فجی میں امیر جماعت بھی ہیں۔ محمود احمد صاحب جو ہمارے مبلغ ہیں یہ لکھتے ہیں کہ والد محترم کی وفات کے بعد زمینوں سے جو بھی رقم آتی تھی سب سے پہلے اس میں سے چندہ ادا کرتی تھیں۔ والد صاحب کی پینشن کی رقم جمع کرتیں اور کسی استعمال میں نہ لگاتیں۔ ان پیسوں سے طاہر آباد جنوبی میں مسجد بنوائی۔ انہوں نے ہمیں ہمیشہ یہی نصیحت کی کہ خلافت کے دامن کو پکڑے رکھنا۔ پھر لکھتے ہیں کہ والد صاحب کی وفات کے بعد ہم سب کو ماں اور باپ دونوں کی محبت دی اور کبھی بھی ہمیں والد کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔ اس وقت مَیں جامعہ احمدیہ کے پہلے سال میں تھا۔ مجھے اکثر کہا کرتی تھیں کہ تم دین کے سپاہی ہو۔ تم نے دین کی خاطر وقف کیا ہے۔ جہاں خلیفہ وقت کھڑا کر دے وہیں کھڑے ہو جانا اور آخر تک اسی بات کو دہراتی رہیں۔ لکھتے ہیں کہ ابتدا میں ہمارے گاؤں سے صرف والد صاحب ہی ربوہ آ کر آباد ہوئے اس لیے ہمارے تمام عزیز و اقارب اکثر گاؤں سے ربوہ آتے رہتے تھے۔ ان کے قیام و طعام کا بڑی خندہ پیشانی سے انتظام کیا کرتیں اور سفید پوشی کے ساتھ اپنی ہمت سے بڑھ کر مہمان نوازی کرتی تھیں۔ ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھنا آپ کو بخوبی آتا تھا۔ میرے کلاس فیلوز کو بھی ہمیشہ اپنے بچوں کی طرح سمجھا۔ اکثر کہتیںکہ جو ہوسٹل میں رہنے والے بچے ہیں، جو باہر کے ملکوں سے آئے ہوئے ہیں ان کو گھر لے آیا کرو تا کہ ان کا جامعہ میں دل لگا رہے۔ کہتے ہیں والدہ محترمہ کی شفقت اکثر جامعہ کے طلبہ کو ملتی رہی جس کے کئی مربیان گواہ ہیں۔ ماں کی اس شفقت میں پاکستان کے علاوہ انڈونیشیا اور افریقن ممالک کے طلبہ بھی شامل ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کے پاس جتنے پیسے ہوتے وہ بانٹ دیتی تھیں یا چندہ میں دے دیتی تھیں مگر کسی میں ہمت نہ تھی کہ ان سے کہہ سکے کہ کچھ اپنے پاس بھی رکھیں۔ مربی صاحب ان کے جنازے میں میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے جیسا کہ بتایا فجی میں مشنری انچارج اور امیر ہیں، شریک نہیں ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی صبر اور سکون عطا فرمائے اور ان کی باقی اولاد کو بھی صبر عطا فرمائے اور ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
اگلا ذکر کرنل جاوید رشدی صاحب کا ہے جو چودھری عبدالغنی رشدی صاحب راولپنڈی کے بیٹے تھے۔ کچھ عرصہ ہوا ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے مرحوم موصی تھے۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد ہمہ وقت جماعتی خدمات میں مصروف رہے اور سیکرٹری تعلیم، سیکرٹری وقف جدید، سیکرٹری رشتہ ناطہ کے علاوہ حلقہ کے سیکرٹری وصایا کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ تین بار صدر حلقہ سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی بھی رہے۔ بہت دعا گو انسان تھے۔ لوگوں کی خاموشی سے مالی مدد کیا کرتے تھے۔ مزاج ہمدردانہ تھا۔ رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دیگر احباب کی ہمیشہ مشکل حالات میں مدد اور راہنمائی کرتے تھے۔ ایک اچھے منتظم اور معاملہ فہم انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان سب کے جنازے نماز کے بعد انشاء اللہ ادا کروں گا۔
(الفضل انٹرنیشنل 16؍جولائی 2021ءصفحہ5تا10)
٭…٭…٭