حسن سلوک کے اعلیٰ معیار
مرد عورتوں پر نگران ہیں
حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ اس حوالے سےایک موقع پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہمارے ہادیٔ کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ
تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو۔ بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں۔ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو۔ جو باہر بظاہر نیک نظر آتے ہیں ان میں بھی کئی خامیاں ہوتی ہیں، جو بیویوں کے ساتھ یا گھر والوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کر رہے اس لئے معاشرے کو بھی ایسے لوگوں پر غور کرنا چاہئے۔ ظاہری چیز پہ نہ جائیں۔ فرمایا کہ: جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو۔ نہ یہ کہ ہر ادنیٰ بات پر زدو کوب کرے۔ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک غصے سے بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنیٰ سی بات پر ناراض ہو کر اس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مر گئی ہے۔ اس لئے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ
عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(النساء: 20)۔
ہاں اگر وہ بے جا کام کرے تو تنبیہ ضروری چیز ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 403-404)
بعض دفعہ گھروں میں میاں بیوی کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تلخ کلامی ہوجاتی ہے، تلخی ہو جاتی ہے۔ مرد کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ مضبوط اور طاقتور بنایاہے اگر مرد خاموش ہوجائے تو شاید اسّی فیصد سے زائد جھگڑے وہیں ختم ہوجائیں۔ صرف ذہن میں یہ رکھنے کی بات ہے کہ میں نے حسن سلوک کر ناہے اور صبر سے کام لیناہے۔
ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اس بارہ میں ہمیں کیا اسوہ دکھایا۔ روایت ہے کہ ایک دن حضرت عائشہؓ گھر میں آنحضرتﷺ سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابا، حضرت ابو بکرؓ تشریف لائے۔ یہ حالت دیکھ کران سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے کہ تم خدا کے رسول کے آگے اس طرح بولتی ہو۔ آنحضرتﷺ یہ دیکھتے ہی باپ اور بیٹی کے درمیان حائل ہوگئے اور حضرت ابو بکرؓ کی متوقع سزا سے حضرت عائشہؓ کو بچا لیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ چلے گئے تورسول کریمﷺ نےحضرت عائشہؓ سے ازراہ مذاق فرمایا۔ دیکھا آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا؟
تو دیکھیں یہ کیسا اعلیٰ نمونہ ہے کہ نہ صرف خاموش رہ کرجھگڑے کو ختم کرنے کی کوشش کی بلکہ حضرت ابوبکرؓ جو حضرت عائشہؓ کے والد تھے ان کو بھی یہی کہا کہ عائشہ کو کچھ نہیں کہنااور پھر فوراً حضرت عائشہؓ سے مذاق کر کے وقتی بوجھل پن کو بھی دور فرما دیا۔ پھر آگے آتاہے روایت میں کہ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو بکرؓ دوبارہ تشریف لائے تو آنحضرتﷺ کے ساتھ حضرت عائشہؓ ہنسی خوشی باتیں کررہی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ کہنے لگے دیکھو بھئی تم نے اپنی لڑائی میں تو مجھے شریک کیا تھا اب خوشی میں بھی شریک کرلو۔
(ابوداؤد کتاب الادب باب ماجاء فی المزاح)
آنحضرتﷺ حضرت عائشہؓ کے بہت ناز اٹھاتے تھے۔ ایک دفعہ ان سے فرمانے لگے کہ عائشہ! میں تمہاری ناراضگی اور خوشی کو خوب پہچانتاہوں۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا وہ کیسے؟ فرمایا: جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اپنی گفتگو میں ربّ محمد(ﷺ ) کہہ کر قسم کھاتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو ربّ ابراہیمؑ کہہ کر بات کرتی ہو۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ہاں یا رسول اللہ یہ تو ٹھیک ہے مگر بس میں صرف زبان سے ہی آپﷺ کا نام چھوڑتی ہوں (دل سے توآپﷺ کی محبت نہیں جاسکتی)۔
(بخاری کتاب النکاح باب غیرۃ النساء و وجد ھن)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔ اور فرمایا: ہمیں تو کمال بےشرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہوکر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے اور درحقیقت یہ ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کا شکر یہ ہے کہ ہم عورتوں سےلطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔ ‘‘
ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بدزبانی کاذکر ہوا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے۔ حضورعلیہ السلام اس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوئے، بہت رنجیدہ ہوئے، بہت ناراض ہوئے اور فرمایا:
’’ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے۔ ‘‘
حضورعلیہ السلام بہت دیر تک معاشرت نسواں کے بارہ میں گفتگو فرماتے رہے اور آخر پر فرمایا:
’’میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکا لاتھا۔ اس کے بعد میں بہت دیرتک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع وخضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیتِ الٰہی کا نتیجہ ہے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ307)
تو یہ ہیں بیویوں سے حسن سلوک کے نمونے جو آج ہمیں اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عمل سے اپنے آقا حضرت محمد مصطفیﷺ کی پیروی میں نظر آتے ہیں اور انہی پر چل کر ہم اپنے گھروں میں امن قائم کر سکتے ہیں۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍جنوری 2004ءخطبات مسرور جلد 2 صفحہ 64تا65)
(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 74تا77)
٭…٭…٭