جنت اور دوزخ کی حقیقت
سوال: ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ اگر جنت اور دوزخ کا ظاہری تصور درست نہیں ہے تو پھر جنت اور دوزخ کیا ہے؟ اور جب قیامت آئے گی تو جنت اور دوزخ کیسی لگیں گی؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 04؍فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: جنت اور دوزخ کے بارے میں جس طرح دوسرے مذاہب میں طرح طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں مسلمانوں نے بھی قرآن کریم اور احادیث میں بیان جنت و دوزخ کے بارے میں بیان امور کو نہ سمجھنے اور انہیں ظاہر پر محمول کر دینے کی وجہ سے غلط قسم کے خیالات اپنے ذہنوں میں پیدا کر لیے ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث نے انسان کو سمجھانے کےلیے جنت و دوزخ کے بارے میں یہ تمثیلی نقشہ بیان فرمایا ہے۔ اور ان کے بارے یہ الفاظ بطور استعارہ استعمال فرمائے ہیں اور ان کے پیچھے ایک اور حقیقت مخفی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے اس تمثیلی نقشہ کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ
فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ۔(السجدۃ:18)
یعنی کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے ان کے اعمال کے بدلہ کے طور پر کیا کیا آنکھیں ٹھنڈی کرنے والی چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔
اسی طرح حدیث میں بھی آیا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جنت کی نعماء ایسی ہیں
مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ۔
کہ انہیں نہ کبھی کسی انسانی آنکھ نے دیکھا، نہ کبھی کسی انسانی کان نے ان کا حال سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کے بارے میں کوئی تصور گزرا۔
دراصل جنت اور دوزخ اسی دنیا کے ایمان اور عمل کا ایک ظلّ ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں جو باہر سے آکر انسان کو ملے گی بلکہ انسان کی بہشت انسان کے اندر ہی سے نکلتی ہے اور اسی کے ایمان اور اعمال صالحہ ہیں جن کی اسی دنیا میں لذت شروع ہو جاتی ہے اور پوشیدہ طور پر ایمان اور اعمال کے باغ نظر آتے ہیں۔ اور نہریں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن عالم آخرت میں یہی باغ کھلے طور پر محسوس ہوں گے۔ اسی لیے قرآن کریم جنتیوں کے بارے میں فرماتا ہے:
کُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡہَا مِنۡ ثَمَرَۃٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا(البقرۃ: 26)
کہ جب بھی وہ اُن (باغات) میں سے کوئی پھل بطور رزق دیئے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی دیا جا چکا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے ان کے پاس محض اس سے ملتا جلتا(رزق) لایا گیا تھا۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنت و دوزخ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف کی رو سے دوزخ اور بہشت دونوں اصل میں انسان کی زندگی کے اظلال اور آثار ہیں۔ کوئی ایسی نئی جسمانی چیز نہیں ہے کہ جو دوسری جگہ سے آوے۔ یہ سچ ہے کہ وہ دونوں جسمانی طور سے متمثل ہوں گے مگر وہ اصل روحانی حالتوں کے اظلال و آثار ہوں گے۔ ہم لوگ ایسی بہشت کے قائل نہیں کہ صرف جسمانی طور پر ایک زمین پر درخت لگائے گئے ہوں اور نہ ایسی دوزخ کے ہم قائل ہیں جس میں درحقیقت گندھک کے پتھر ہیں۔ بلکہ اسلامی عقیدہ کے موافق بہشت دوزخ انہی اعمال کے انعکاسات ہیں جو دنیا میں انسان کرتا ہے۔ ‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 413)